قرآن فکروتدبراور ہم
قرآن کے تمام بیانات کا مقابلہ آج کے تسلیم شدہ تصورات سے کیا جانا چاہیے۔
KARACHI:
فرانسیسی مصنف موریس بوکائیے لکھتا ہے۔ ''قرآن ہمیں جہاں جدید سائنس کو ترقی دینے کی دعوت دیتا ہے، وہاں خود اس میں قدرتی حوادث سے متعلق بہت سے مشاہدات و شواہد ملتے ہیں اور اس میں ایسی تشریحی تفصیلات موجود ہیں جو جدید سائنسی مواد سے کلی طور پرمطابقت رکھتی ہیں، یہودی، عیسائی، تنزیل میں ایسی کوئی بات نہیں۔
قرآن کے تمام بیانات کا مقابلہ آج کے تسلیم شدہ تصورات سے کیا جانا چاہیے۔ ان کے درمیان تطابق نہایت واضح ہے، لیکن یہ نہایت اہم بات ہے کہ اس موضوع پر تمام عقائد سے جو نزول قرآن کے وقت رائج تھے،ان کا مقابلہ اس غرض سے کیا جائے کہ اس زمانے میں لوگ ان مسائل سے متعلق اس طرح کے نظریات سے کتنا دور تھے۔ جس طرح کے نظریات یہاں قرآن میں بتائے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ وحی کی تشریح اس طرح کرنے سے قاصر تھے جو آج ہم کر سکتے ہیں، کیونکہ ہمیں ان چیزوں سے مدد ملتی ہے جو جدید معلومات ہمارے لیے فراہم کرتی ہیں۔ درحقیقت انیسویں صدی کے بعد ہی یہ ہوا کہ لوگوں کو اس مسئلے کا کسی قدریا محکم تصور حاصل ہوا۔
مفسر قرآن، معروف محدث اور مورخ علامہ جلال الدین سیوطیؒ ابو بکر بن العربی کی کتاب ''قانون التاویل'' کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
''قرآن حکیم ستتر ہزار چارسو پچاس (77,450) علوم پر مشتمل ہے، یہ عدد قرآنی کلمات کو چار سے ضرب دینے سے حاصل ہوتا ہے، اس لیے کہ قرآن کریم کے ہر کلمے کی چار حالتیں ہیں۔ ایک اس کا ظاہر و باطن ہے اور ایک حد و مطلع، یہ اس حالت میں ہے کہ جب کلمات قرآن کو انفرادی اعتبار سے بدون ترکیب دیکھا جائے، اگر کتاب کے باہمی اختلاط و ترکیب پر نگاہ ڈالی جائے، تو ان کی تعداد حد و حساب سے باہر ہو جاتی ہے۔''
قرآن حکیم کی کل 6,666 آیات میں سے 756 آیات ایسی ہیں، جن میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر غور و فکر، بصیرت و تدبر اور مشاہدے کی ترغیب یا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن کریم (ن۔ظ۔ر) مادہ سے انظروا، ینظرون، تنظرون، الناظرین کے الفاظ استعمال کرتا ہے، جس کے معنی اہل لغت نے غور و فکر اور بہ نظر غائر دیکھنا کیے ہیں، یہ لفظ قران حکیم میں 130 مرتبہ آیا ہے اور 16 سے 20 مرتبہ انفس و آفاق کے سیاق و سباق میں آیا ہے۔اسی طرح ع۔ ق۔ ل مادہ سے بھی تعقلون اور یعقلون کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ 23 مرتبہ تعقلون اور 20 سے زائد مرتبہ یعقلون کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں قرآن تفکر، تذکر اورتدبر کے الفاظ بھی استعمال کرتا ہے۔
''علم آلاء اللہ'' کو موجودہ زبان میں علم کائنات یا علم سائنس سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم میں درحقیقت اس انقلاب کی طرف اشارہ ہے، جسے عہد حاضر میں ''سائنسی انقلاب'' کا نام دیا جاتا ہے، جدید سائنسی تحقیقات کے ذریعے کائنات کے جوحقائق معلوم ہوئے ہیں، وہ قرآن کی پیش کردہ دعوت کو قطعیت کی سطح پر ثابت کر رہے ہیں۔
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلامی دور سے پہلے سائنس کا کوئی باقاعدہ وجود نہیں تھا اور عملی سائنس (پریکٹیکل سائنس) توگویا سرے سے تھی ہی نہیں بلکہ ''سائنس'' جو کچھ بھی تھی وہ محض یونانی فلسفے کے ماتحت چند نظری چیزوں کا مجموعہ تھی جن کا درجہ ظن وتخمین سے زیادہ نہیں تھا بلکہ وہ مشاہدے اور تجربے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔
اس کے برعکس قرآن مجید نہ صرف تجربے و مشاہدے پر ابھارتا ہے، بلکہ دنیا کی ہر چیز اورہرمظہر فطرت کا نزدیکی اورباریک بینی کے ساتھ جائزہ لینے کی تاکیدکرتا ہے، جیساکہ اس کی بے شمار آیات سے ظاہر ہوتا ہے کائنات میں غوروفکر، تذکروتدبر اورتسخیر کائنات کی قرآنی تعلیمات کی بدولت مسلمانوں میں موجودات عالم میں غوروفکر اورتحقیق و تجربے کی تحریک پیدا ہوئی، عملی و تجرباتی سائنس کی بنیاد پڑی اور علوم وتمدن جدیدکا تاریخی انقلاب برپا ہوا۔ مسلمانوں نے اپنے دورحکومت میں حساب، الجبرا، فلکیات، طب، طبیعات، کیمیا، حیاتیات (خصوصاً علم نباتات)، ارضیات اورجغرافیہ وغیرہ علوم کو بے انتہا ترقی دی اور ان علوم و فنون میں ہزاروں بلکہ لاکھوں کتابیں لکھ کر دنیا بھرکے کتب خانوں کو ان علوم سے بھر دیا۔انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (646/15) (1984) کے مقالہ نگار نے اعتراف حقیقت کے طور پر لکھا ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں ایسے کتب خانے تھے جن کی کتابوں کی تعداد 100,000 جلدوں سے زیادہ تھی۔
مسلمانوں کی ترقی کا یہ حال تھا کہ قرون وسطیٰ میں ان علوم و فنون کی ترقی کے لیے بغداد، دمشق، مصر، صقلیہ (سسلی) اور قرطبہ (اسپین ) وغیرہ میں مسلمانوں نے عظیم الشان کتب خانے اور یونیورسٹیاں قائم کی تھیں، جہاں پر دن رات ان علوم کی تحقیق و تدوین میں سیکڑوں ماہرین مصروف رہا کرتے اور ہر علم و فن پر بحث و مباحثہ کر کے کائنات اور نظام کائنات سے متعلق نئے نئے نظریات وضع کرتے تھے، جس طرح کہ آج مغربی اقوام کا حال ہے۔ اس دور میں مسلمان اس قدر ''ترقی یافتہ'' سمجھے جاتے تھے کہ یورپین ممالک کے مسیحی لوگ تک مسلمانوں کی یونیورسٹیوں میں حصول علم کے لیے دوردرازکا سفرکرکے قرطبہ اورصقلیہ وغیرہ آیا کرتے کیونکہ اس دور میں پورا یورپ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا اور یہ مسلم دور کا احسان ہے کہ اس نے یورپ کو دور وحشت سے نکال کر علم سے روشناس کرایا۔
واقعہ یہ ہے کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ Renaissance اور موجودہ سائنس کی بنیاد اہل اسلام ہی کی تحقیق و تدوین اوران کے بلند پایہ افکارہی پر مبنی ہے، جیساکہ پروفیسر حتی (Hitti P.K) نے اپنی قابل قدر کتاب ''ہسٹری آف دی عربس "History of the Arabs London 1970" میں اس حقیقت کا کھلے دل کے ساتھ اعتراف کیا۔ چنانچہ حتی تحریرکرتا ہے۔
''یعنی مسلم اسپین قرون وسطیٰ میں یورپ کی ذہنی ارتقاء کی تاریخ بنانے میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔آٹھویں اور تیرہویں صدی کے درمیان عربی بولنے والے ہی پوری دنیا میں تہذیب اور تمدن کے مشعل بردار رہے ہیں۔ مزید برآں وہی قدیم سائنس اورفلسفے کی بازیافت کا بھی واسطہ بنے۔ پھر ان (علوم) میں اضافہ کر کے انھیں اس طور پر منتقل کیا کہ (انھی کے باعث) مغربی یورپ کی نشاۃ ثانیہ ممکن ہو سکی۔ اس پورے علم میں عربی اسپین کا بہت نمایاں حصہ ہے۔''
یہ قرآن حکیم کی ایک زبردست خصوصیت ہے کہ وہ سلبی و ایجابی دونوں حیثیتوں سے نوع انسانی کو موجودات عالم کے مطالعے و مشاہدے اور ان کے تفصیلی جائزے پر ابھارتا ہے اوران مظاہرکی ساخت وپرداخت اور ان کے نظاموں کا منظم مطالعہ کرنے نیزان اشیا وحوادث کے علل و اسباب کا پتا لگا کر ایک مسبب الاسباب ہستی تک پہنچنے کی دعوت دیتا ہے۔
موریس بوکائیے لکھتا ہے کہ ''لہٰذا یہ بات مکمل طور پرصحیح ہے کہ قرآن کو وحی آسمانی کا اظہار سمجھا جائے لیکن ساتھ ہی اس استناد کے سبب جو اس سے فراہم ہوتی ہے نیز ان سائنسی بیانات کی وجہ سے جن کا آج بھی مطالعہ کرنا بنی نوع انسان کے لیے ایک چیلنج ہے، اس حوالے سے اس کو ایک انتہائی خصوصی مقام حاصل ہے۔''