اپنے لیے تو بس ایدھی تھا
ایدھی ؛ محسن انسانیت کا ایک طویل باب
وید تھا شاید
زخموں پر پھایا رکھتا تھا
ٹیس اٹھے یا گھاؤ پکارے
درد سمیٹ کے لے جاتا تھا
نہیں نہیں کوئی پریمی تھا
آدم جات سے پریت لگائے
ہر پل یار کی چاہت میں گُم
من میں پیار کا دیپ جلائے
اپنے نگر کا راجا تھا کیا!
دیکھ ریکھ جنتا کی کرنا
ہر گھاؤ پہ پھایا دھرنا
آس امید دلوں میں بھرنا
لگتا ہے کہ دیوانہ تھا
سب سے پیار، سبھی سے چاہت
بیر سے اور نفرت سے نفرت
سب کی خاطر چین اور راحت
وید تھا، راجا تھا پریمی تھا
تھا درویش، کوئی صوفی تھا
کتنے روپ تھے، وہ جو بھی تھا
اپنے لیے تو بس ایدھی تھا
خدمت ہی میراث ہے اس کی
ہم دردی ہے اس کا ورثہ
ترکہ اس کا ہے غم خواری
اور ہم سارے اس کا کنبہ
آؤ، ہم وارث بن جائیں
جتنا بھی ہو جس کے بس میں
اتنا تو دکھ درد مٹائیں
زخموں پر ہم رکھیں مرہم
اندھیاروں میں دیپ جلائیں
زخموں پر پھایا رکھتا تھا
ٹیس اٹھے یا گھاؤ پکارے
درد سمیٹ کے لے جاتا تھا
نہیں نہیں کوئی پریمی تھا
آدم جات سے پریت لگائے
ہر پل یار کی چاہت میں گُم
من میں پیار کا دیپ جلائے
اپنے نگر کا راجا تھا کیا!
دیکھ ریکھ جنتا کی کرنا
ہر گھاؤ پہ پھایا دھرنا
آس امید دلوں میں بھرنا
لگتا ہے کہ دیوانہ تھا
سب سے پیار، سبھی سے چاہت
بیر سے اور نفرت سے نفرت
سب کی خاطر چین اور راحت
وید تھا، راجا تھا پریمی تھا
تھا درویش، کوئی صوفی تھا
کتنے روپ تھے، وہ جو بھی تھا
اپنے لیے تو بس ایدھی تھا
خدمت ہی میراث ہے اس کی
ہم دردی ہے اس کا ورثہ
ترکہ اس کا ہے غم خواری
اور ہم سارے اس کا کنبہ
آؤ، ہم وارث بن جائیں
جتنا بھی ہو جس کے بس میں
اتنا تو دکھ درد مٹائیں
زخموں پر ہم رکھیں مرہم
اندھیاروں میں دیپ جلائیں