ایدھی کی خدمات بیان کرتی فلم اور کتابیں

جنوری 2009میں مصری عہدے داروں نے عبدالستار ایدھی کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔

جنوری 2009میں مصری عہدے داروں نے عبدالستار ایدھی کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔:فوٹو : فائل

MIRPUR:
عبدالستار ایدھی کی خدمات کو مختلف صورتوں میں خراج تحسین پیش کیا گیا، جس میں فلم کی تشکیل اور کتابوں کی تصنیف شامل ہیں۔ ان کی خدمات پر ایک دستاویزی فلم کا موضوع ایدھی فاؤنڈیشن کی طرف سے بے گھر، یتیم اور ماں باپ سے محروم بچوں کو پناہ (گھر) کی فراہمی اور ان کے ماں باپ تلاش کرکے ان کے حوالے کرنے کی عظیم خدمت ہے۔

These Birds Walk کے نام سے بنائی جانے والی اس فلم کے مرکزی کردار دو افراد ہیں: عمر ایک نوجوان لڑکا ہے جو اپنے گھر سے بھاگا ہوا ہے۔ اس کا غصہ بہت تیز ہے۔ غربت نے اس لڑکے کو چڑچڑا بنادیا ہے، اسے اپنی محرومی کا شدید احساس ہے جس کے باعث وہ ساری دنیا سے ہی ناراض ہوگیا ہے۔ فلم کا دوسرا نمایاں کردار ایک ایمبولینس ڈرائیور اسد ہے جو رضاکارانہ طور پر کام کررہا ہے، کیوں کہ اس کے پاس کرنے کو اور کچھ نہیں ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے ایک رضاکار کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ اس کی زندگی کا بھی کوئی مقصد ہے، ورنہ اس سے پہلے تو وہ خود کو بے کار اور ناکارہ سمجھتا تھا۔ یہ فلم عبدالستار ایدھی کی خدمات کا مختصر سا احوال پیش کرتی ہے۔

مولانا پر کتابیں:
Half of Two Paisas
مولانا عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کا انسانی خدمت کا غیرمعمولی مشن اس کتاب کے مصنفین Lorenza Raponiاور Michele Zanzucchi اس کتاب کو اطالوی سے انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔

Half of Two Paisas ایک مجموعی فریم ورک پیش کرتی ہے جس میں عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کی خدمات اور مشن کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ کراچی اور پاکستان میں کیا کچھ کررہے ہیں۔ یہ پاکستانی معاشرے پر روشنی بھی ڈالتی ہے اور یہ بھی بتاتی ہے کہ ہمارا معاشرہ کن تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہا ہے۔ اس کتاب کے مطابق جب عبدالستارایدھی کو اٹلی کا Balzan Prize دیا گیا تھا، اس موقع پر اٹلی کے سفیر Sergio Romano کہا تھا:''اس میں کوئی شک نہیں کہ کئی بین الاقوامی سماجی ادارے اور ویلفیئر آرگنائزیشنز انسانی خدمت کے شعبے میں سرگرمی سے کام کررہے ہیں، لیکن مولانا اور ان کی بیگم جیسی خدمات کی مثال نہیں ملتی۔''

کتاب کی مصنفہ Lorenza Raponi نے عبدالستارایدھی، بلقیس ایدھی اور ایدھی فاؤنڈیشن کے بارے میں جاننے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا جس کے بعد انہوں نے یہ کتاب لکھی (یہ اٹلی میں 2007میں شائع ہوئی تھی)
A MIRROR TO THE BLIND
اس کتاب کی مصنفہ تہمینہ درانی ہیں۔ یہ عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کی زندگی اور خدمات پر ایک مستند کتاب ہے۔ یہ صرف کتاب نہیں ہے بلکہ ایک حساس اپیل ہے کہ لوگ بیدار ہوں اور بنی نوع انسان کے دکھوں کو محسوس کریں اور ان کی داد رسی کے لیے کچھ کریں۔ دوسری جانب اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کس طرح انسانیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو اپنے پڑھنے والوں کے ذہنوں پر کبھی ختم نہ ہونے والا تاثر چھوڑتی ہے۔


٭ انہوں نے کہا تھا
''میں نے کسی بھی طرح کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جس کے حاصل کرنے کے بعد ہم اچھا انسان بھی نہ بن سکیں۔ میرا اسکول انسانیت کی فلاح و بہبود ہے۔'' (آغا خان یونیورسٹی میں مولانا عبدالستار ایدھی کے خطاب "Emergency Management during disasters" سے اقتباس)

''خواہشات کے پیچھے بھاگنے سے انسان کے اندر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جب شیطان انسان کا راہ نما بن جائے تو چور، ڈاکو اور گینگسٹرز وجود میں آتے ہیں۔ شیطان انسان کو اپنے ہی بھائیوں کے روحوں سے لڑنے پر تیار کرتا ہے۔ وہ انسان کو قیمتی چیزوں کے حصول کے لیے ابھارتا ہے۔ نادان انسان اس کے بہکاوے میں آکر اپنی اصل طاقت کھوبیٹھتا ہے۔ ہم اپنے اندر کے دشمن پر صرف اس صورت میں قابو پاسکتے ہیں جب ہمارے اندر یا ہماری روحوں میں انقلاب آئے۔'' (خود نوشت سے اقتباس)

٭ جب انھیں خدمت کے سفر سے روکا گیا
عبدالستار ایدھی ساری دنیا میں انسانیت کی بے لوث اور مسلسل خدمت کا استعارہ بن چکے تھے، لیکن اپنے خدمت کے سفر میں انھیں بہت سے مصائب بھی درپیش آئے اور انھیں کئی بار انسانیت کی خدمت سے روکنے کی کوشش کی گئی اور انھیں گرفتار تک کرلیا گیا:

1980 کے عشرے کے اوائل میں جب عبدالستار ایدھی لبنان گئے تو انہیں اسرائیلی فوجیوں نے گرفتار کرلیا تھا۔
2006 میں مولانا کو ٹورنٹو (کینیڈا) میں 16گھنٹے تک روکے رکھا گیا۔

جنوری 2008میں امریکی امیگریشن حکام نے نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر عبدالستار ایدھی کو روکا اور ان سے آٹھ گھنٹے سے زیادہ عرصے تک سوال جواب کیے۔ اس دوران انہوں نے ایدھی صاحب کا پاسپورٹ اور دیگر اہم دستاویزات بھی لے لیں۔ جب عبدالستارایدھی سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا:

''میرے ذہن میں تو اس کا ایک ہی واضح سبب ہے اور وہ میری داڑھی اور میرا لباس ہے۔''

جنوری 2009میں مصری عہدے داروں نے عبدالستار ایدھی کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔
Load Next Story