سی این جی کی قیمت2 دن میں طے کر لی جائیگی چیئر مین اوگرا

عوام کی مشکلات سے آگاہ ہیں، قیمت کے تعین کا حتمی فیصلہ کابینہ کی منظوری سے ہوگا.


Business Reporter November 29, 2012
عوامی سماعت میں صارفین کے نام پر بھی سی این جی انڈسٹری کے افراد نے اپنی رائے کا اظہار کیا، قیمت کے بجائے فل پریشر پر گیس کی فراہمی پر زور ،رہنمائوں کی جذباتی تقریریں فوٹو: فائل

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی( اوگرا ) کے چیئرمین سعید احمد خان نے کہا ہے کہ اتھارٹی سی این جی کے مسئلے پر عوام کی مشکلات سے آگاہ ہے۔

سپریم کورٹ کی ہدایت پر تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے سی این جی کی قیمت کا فارمولا آئندہ 2روز میں وضع کرلیا جائے گا، قیمت کے تعین کا حتمی فیصلہ کابینہ کی منظوری سے کیا جائے گا، ان خیالات کا اظہار انھوں نے بدھ کو عوامی سماعت کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا،انھوں نے کہا کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے قیمت کے بارے میں عوامی سماعت کے ذریعے عام صارفین کی بھی رائے حاصل کی ہے جس کی روشنی میں حتمی سفارشات آج کابینہ ڈویژن کو ارسال کردی جائینگی، انھوں نے کہا کہ عوامی سماعت کے دوران اس بات کا احساس ہوا ہے کہ قدرتی گیس کو سی این جی میں تبدیل کرنے کے لیے کمپریشن کی لاگت اہمیت کی حامل ہے، ساتھ ہی صارفین نے سماعت کے دوران سی این جی انڈسٹری کی جانب سے اربوں روپے کے محصولات کی ادائیگی کا دعویٰ غلط قرار دیدیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اربوں روپے کے ٹیکس صارفین ادا کررہے ہیں۔

علاوہ ازیں سی این جی کی قیمت کے تعین کے لیے اوگرا کی جانب سے کراچی میں کی گئی عوامی سماعت سی این جی انڈسٹری کے جلسے میں تبدیل ہوگئی، سماعت میں سی این جی انڈسٹری کی3ایسوسی ایشنز نے اپنے اراکین کی بڑی تعداد کے ساتھ حصہ لیا اور سماعت کے لیے بک کرایا گیا ہال چھوٹا پڑنے پر ملحقہ حال کو ہنگامی بنیادوں پر کھلوا کر نشستوں کا اہتمام کیا گیا، سماعت میں 400سے زائدافراد نے حصہ لیا جن میں سے 95فیصد کا تعلق سی این جی انڈسٹری سے تھا ،سماعت میں صارفین کے حقیقی نمائندے شریک نہیں ہوئے ، سی این جی انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ایک فرد نے خود کو صارفین کا نمائندہ ظاہر کرتے ہوئے مکمل پریشر اور مسلسل دستیابی سے مشروط کرتے ہوئے 200 روپے فی کلو کی قیمت مقرر کرنے کی تجویز دی،سی این جی کی قیمت کے تعین کے لیے ہونے والی سنجیدہ نوعیت کی سماعت سی این جی ایسوسی ایشنز کے جلسے کا منظر پیش کرتی رہی اور صارفین کے نام پر بھی سی این جی انڈسٹری کے افراد نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

جس میں قیمت کے بجائے سی این جی کی مسلسل دستیابی اور فل پریشر پر گیس کی فراہمی پر زور دیا گیا، سماعت کے دوران صرف ایک صارف انجمن نے اپنا موقف پیش کیا، پورے سیشن میں تکنیکی دلائل کے بجائے جذباتی تقاریر کی گئیں اور سی این جی انڈسٹری کے افراد اپنے رہنمائوں کی تقاریر پر تالیاں بجا کر داد دیتے رہے، سماعت کے دوران میڈیا کی جانب سے عوام کودرپیش مشکلات کی رپورٹنگ کو بھی غلط قرار دیا گیا جبکہ ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والے صنعتی شعبے، گیس کمپنیوں اور فرٹیلائرز سیکٹر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، دریں اثناء سماعت کے موقع پر دلائل دیتے ہوئے آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین غیاث الدین پراچہ نے کہا کہ سی این جی صارفین فرٹیلائزر، آئی پی پیز اور صنعتوں کو گیس پر دی جانے والی سبسڈی کا بوجھ برداشت کررہے ہیں.

سی این جی کی قیمت میں 95فیصد حکومت کے پاس ٹیکس اور گیس کی قیمت کی شکل میں واپس جارہا ہے اور حکومت اپنے ٹیکس اور گیس کی قیمت کم کرکے صارفین کو ریلیف فراہم کرے، انھوں نے کہا کہ اگر سی این جی سیکٹر کو فرٹیلائرز سیکٹر کی قیمت کے برابر گیس فراہم کی جائے تو صارفین کو 45سے 46روپے کلو سی این جی فراہم کی جاسکتی ہے، اس موقع پر صارفین کی نمائندگی کرتے ہوئے کنزیومر رائٹس پروٹیکشن کونسل آف پاکستان کے چیئرمین شکیل احمد بیگ نے کہا کہ سی این جی میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری صارفین نے کی ہے اور 400ارب روپے سے زائد کی رقم گاڑیوں کو سی این جی پر منتقل کرنے کے لیے عوام نے خرچ کی اور سی این جی کی قیمت میں شامل تمام ٹیکسز کا بوجھ بھی عوام ہی برداشت کررہے ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ صارفین کو بھکاریوں کی طرح سی این جی اسٹیشنر پر قطاریں لگانا پڑرہی ہیں.

کراچی ٹیکسی اینڈ رکشہ یلوکیب اونرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین حافظ الحق حسن زئی نے کہا کہ حکومت کی ترغیب پر رکشہ ٹیکسی مالکان نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے گاڑیوں کو سی این جی پر منتقل کیا لیکن اب سی این جی نہ ملنے کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز فاقہ کشی کا شکار ہیں،سی این جی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالسمیع خان نے کہا کہ سی این جی انڈسٹری کو سوچی سمجھی سازش کا سامنا ہے انڈسٹری کو دیوار سے لگایا جارہا ہے اگر حکومت نے زبردستی اپنا فیصلہ تھونپا تو ملک بھر میں سی این جی اسٹیشن مالکان احتجاج کریں گے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں