۔۔۔ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ایدھی ایمبولینسیں لوہے اور آگ کی بارش میں کابل سے زخمی پشاور پہنچاتی رہیں
'' میں یہ اعلان کرتاہوں کہ آج کے بعد میں ظاہراور باطن سے اس طرح نظرآوں گا، جولوگوں کو نظرآتاہوں، اب میں اپنی ذات پر کچھ بھی خرچ نہیں کروں گا اور نہ ہی میری ذات میں کوئی تضاد ہوگا، آج سے میراگھرتمام لوگوں کے کھلاہوگا اورمیری زندگی لوگوں کی فلاح و بہبودکے لیے وقف ہوگی''۔
اپنے لیے،اپنے گھر والوں اور اپنے خاندان کے لیے تو ہرکوئی جیتا ہے، پر دنیا میں دوسروں کے لیے یعنی بے چاروں،مفلسوں یتیم اور بے آسرا بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے اپنی زندگی، اپنا شباب، اپنا مال و متاع، اپنا گھر، کنبہ،اپنی راتوں کی نیندیں، اپنا چین اور سکون، اپنی بھوک اور پیاس قربان کرنا ہی اصل انسانیت اور مخلوق خدا کی خدمت کہلاتی ہے۔ جس بندے کوخدا نے سب کچھ دیاہو اور وہ اگر چاہے تو عیش وعشرت اور آرام کی زندگی گزارسکتا ہو مگر وہ یہ سب کچھ چھوڑ کر دنیا میں فقیروں، درویشوں اور خاکساروں جیسی عملی زندگی گزارے، قناعت کرے اور اپنے نفس کے خلاف مسلسل جہاد کرے، تو ایسے انسان کو انسانیت کا اصل اور بے لوث خدمت گار پکارتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ دنیا کسی کی وجہ سے آباد ہے۔ صاحب سیف وقلم خوش حال خان خٹک ایسے ہی فقیرمنش اور دوسروں کے کام آنے والے انسانوں کو خوش خبری دیتے ہیں کہ
چہ د خلقو نیک خواہی لرے پہ زڑہ کے
مبارک شہ بادشاہی لرے پہ زڑہ کے
ترجمہ: ''اگر تم دوسروں کے لیے دل میں خیر خواہی رکھتے ہو تو مبارک! کہ بادشاہ ہو''۔ ہم جب اپنے ملک کے محسن عبدالستار ایدھی کی خدمات اور ان کی عملی زندگی کو دیکھتے اور پرکھتے ہیں تو لگتاہے کہ شاعر انسانیت رحمان بابا نے یہ شعر عبدالستار ایدھی کے اعزاز میں پیشگی کہ دیا تھا کہ
قناعت مے تر خلقے لاندے اطلس دے
پٹ د درست جہان بادشاہ، ظاہر گدایم
ترجمہ: قناعت میری قبا کے نیچے اطلس و کمخواب ہے، باطن میں جہان کا بادشاہ ہوں، گدا ہوں''۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو عالمی شہرت یافتہ انسان دوست عبدالستار ایدھی نے بھی ساری زندگی رحمان بابا کے مذکورہ شعر کا عملی نمونہ بن کر گزاری۔ اس ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے، ویسے تو وہ بلا امتیازِ زبان و رنگ و نسل و مذہب، تمام انسانیت سے پیار کرنے والی شخصیت تھے تاہم بعض اقوام میں بعض منفرد صفات اور خوبیوں کی وجہ سے وہ ان اقوام کو زیادہ پسند کیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں پختون قوم سے ان کی محبت اور لگاؤ کا اندازہ اس تقریر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جو اب بھی ریکارڈ پر موجود ہے اور تاریخ کاایک معتبرحوالہ ہے۔
پختون قوم اور خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان سے عبدالستار ایدھی کی محبت اور عقیدت کا اندازہ ان کے ان جذبات اور احساسات سے اچھی طرح لگایا جاسکتاہے، جس کا اظہار انہوں نے بلدیہ ٹاؤن کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی کے منعقدہ جلسے میں کیا تھا۔ چوں کہ 3دسمبر 1991 کو جب عوامی نیشنل پارٹی نے دنیا کی جن تین شخصیات کو باچاخان امن ایوارڈ پیش کیا تھا، ان میں افغانستان کے صدر مرحوم ڈاکٹر نجیب اللہ، سوویت یونین کے صدر میخائل گورباچوف اور عبدالستار ایدھی شامل تھے۔
اس کے بہت عرصہ بعد ایک مرتبہ عوامی نیشنل پارٹی کا بلدیہ ٹاؤن کراچی میںجلسہ تھا اور عبدالستار ایدھی کسی کام سے ادھر سے گزر رہے تھے، دیکھا کہ اے این پی کا کوئی پروگرام ہے، تو بن بلائے تشریف لے گئے۔ جلسے میں شریک ہزاروں افراد نے جب ایدھی صاحب کو دیکھا تو اپنی اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے، جلسہ گاہ تالیوں کی گونج اور عبدالستار ایدھی زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی، حاضرین نے ہردلعزیز شخصیت کابھرپور اور والہانہ استقبال کیا۔ اس موقع پر جلسے کے کمپیئر اور اے این پی سندھ کے جنرل سیکریٹری بشیرجان نے عبدالستار ایدھی صاحب کو دعوت خطاب دی۔ انہوں نے اپنی ناسازیٔ طبع کے باوجود چند الفاظ پر مشتمل خطاب کیا، جو یوں تھا
''میں ہمیشہ سرخ رنگ کو سلام کرتا ہوں کہ یہ رنگ اور اس رنگ کا جھنڈا پوری دنیا میں ظلم و جبر کے خلاف ایک علامت ہے، میں باچاخان کا اس وجہ سے پیروکار ہوں کہ ان میں سچائی، ایمان داری، وقت کی پابندی اور انسان دوستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، ملک کی آزادی میں ان کا بہت بڑا کردار رہا ہے، باچاخان اور ولی خان میرے بہترین ساتھی تھے، اس وقت میری عمر اٹھاسی سال ہے، میں سب کو اچھی طرح جانتا ہوں، مجھے سب معلوم ہے، دنیا میں مجھے اب تک ستر سے زیادہ ایوارڈز ملے ہیں۔
جن کی اس وقت مالیت ایک کروڑ ستر لاکھ ڈالر ہے، میں نے سارے ایوارڈ وقف کردیے تاہم باچاخان امن ایوارڈ میری زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے، جو میرے لیے سب سے پہلا امن ایوارڈ ہے، یہ ملیشا کا لباس زیب تن کرنا بھی میں نے باچاخان اور ان کے ساتھیوں سے متاثر ہوکر اپنایا ہے، باچاخان ہمارے لیڈر اور استاد تھے اور میں نے ان ہی کا فلسفہ اپنایا ہوا ہے، اگر آپ کو سچا ساتھی بنانا ہو، انسانیت سے پیار اور محبت سیکھنی ہو تو پختونوں سے سیکھیں، میں پختونوں کو دل وجان سے چاہتا ہوں، انسانیت کی پہچان ہی پختون قوم ہے، کراچی میں ایدھی سنٹر کھولنے کے بعد میں نے دوسرا سنٹر پشاور میں اس لیے کھولا کہ پختون قوم سب سے زیادہ وفادار ہے''۔
خیبر پختون خوا کے گزشتہ دورحکومت میں محکمۂ ثقافت کی جانب سے دسمبر2011 کوایک وفد اس وقت کے کلچر ڈائریکٹر پرویزخان صعبت خیل کی سربراہی میں کراچی کے چار روزہ دورے پرگیا تھا، جس میں ڈپٹی سیکریٹری کلچر فریداللہ خان، مرحوم ڈاکٹر محمد اعظم اعظم،عزیزاعجاز،سیدرحمان شینو،اباسین یوسف زئی،جمشیدعلی خان اور راقم الحروف شامل تھے۔ وفد نے عبدالستار ایدھی سے ان کے سینٹر میں ملاقات کی، انہیں سواتی چادر اور چترالی ٹوپی پہنائی گئی، تو وہ پھولے نہ سماتے تھے۔ وفد سے اپنی ملاقات میں انہوں نے باچاخان اور ان کی خدائی خدمت گارتحریک کی بہت زیادہ تعریفیں کیں اور بارہا کہا کہ ''باچاخان بڑے انسان تھے اور میں نے ان کی زندگی کے طور اطوار سے بہت کچھ سیکھا ہے اور پھر ان کے نام سے منسوب باچاخان امن ایوارڈ میرے لیے سب سے بڑا اعزازہے، جس پر میں فخرکرتا ہوں کہ اتنے عظیم انسان کے نام کا پہلا امن ایوارڈ مجھے دیا گیاہے''۔
اگردیکھاجائے تواس وقت پوری دنیا میں کسی بھی فلاحی ادارے سے بڑی ایمبولینس سروس ایدھی فاونڈیشن کے پاس ہے، جو ایک ریکارڈہے اوریہ لوگوں کا عبدالستارایدھی پربھرپوراعتماد کامظہرہے کہ لوگ دل کھول کرایدھی فاونڈیشن کو عطیات ،خیرات ،صدقات اوردیگرمدات میں امداد فراہم کرتے رہتے ہیں، جس کے پیچھے انسانیت کی خدمت اور فلاح ہے اوربس؛ اس کے علاوہ ان کاکوئی ایجنڈانہیں۔ کسی بھی جگہ پر کوئی حادثہ رونماہو، آپ کو ایدھی کی ایمبولینس سب سے پہلے دکھائی دیتی ہے۔
افغان جنگ کے بعد پاکستان خصوصاً خیبر پختون خواکے روز و شب انتہائی مشکل ہوگئے تھے۔ اس جنگ کے شعلے یہاں تک بھی پھیلنے لگے۔ یہاں بھی روزانہ کے حساب سے دھماکے ہونے لگے اور یوں ان میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہونے لگا۔ ایسے میں اگرکوئی ان دھماکوں میں زخمیوں اور لاشوں کو بے جھجک اٹھانے میں سب سے آگے رہا، تو وہ ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار ہیں، جو ان کوجلد سے جلد اسپتال پہنچانے کے لیے لپک رہے ہیں۔ خیبرپختون خوا اور بطور خاص پشاورمیں اگرایدھی کی ایمبولینس سروس نہ ہوتی تو شاید مختلف حادثات اوردھماکوں میں ہونے والے نقصانات کا حجم بہت زیادہ ہوتا۔ ان رضاکاروں جذبۂ انسانیت کو دیکھ کر یہ ہی لگتا ہے کہ عبدالستارایدھی خود لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ضروری بات ہے کہ اس عظیم شخیصت کے زیرِ سایہ کام کرنے والے رضاکار بھی اسی جذبے سے سرشار ہوں گے، جس سے ان کے ''ایدھی بابا'' سرشار ہیں۔
خیبر پختون خوا میں سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں یا زلزلے سے ہزاروں قیمتی جانوں کا زیاں ہو یا افغانستان جنگ میں زخمیوں کو کابل سے ایمبولینس کے ذریعے پشاورکے اسپتالوں تک لانے کی جان لیوا مشقت؛ ایدھی کی گاڑیاں اور رضاکار آپ کو ہر وقت صف اول میں نظرآئیں گے۔ جب نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا اور اتحادی افواج نے افغانستان کی سرزمین پرآتش وآہن کی برسات کردی تھی تو یہ ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار ہی تھے، جو طورخم بارڈر عبورکرکے ان گرجتے جہازوں اور برستی گولیوں میں زخمیوں کو اٹھا کر پشاورکے اسپتالوں تک لے کرآتے تھے۔ ایک دفعہ جب افغانستان میں ایدھی مرکزکا افتتاح کیا جا رہا تھا، توعملے نے مہمانوں اورصحافیوں کے بٹھانے کے لیے کرسیاں خرید لیں۔ جب عبدالستارایدھی صاحب وہاں پہنچے اورمعلوم ہوا کہ یہ کرسیاں خریدی گئی ہیں، تو وہ اس پر سخت خفا ہوئے کیوں کہ ان کے خیال میں یہ رقم کسی ضرورت مند کی مدد پر خرچ کی جاسکتی تھی۔ اس رات عبدالستارایدھی صاحب کلینک کے فرش پر ایمبولینس کے ڈرائیوروں کے ساتھ سوئے تھے۔
عبدالستارایدھی صاحب نے انیس سو اکانوے میں ماچس مہم شروع کی تو اس دوران میں انگلینڈ میں مقیم ایک پاکستانی نے ایک ماچس کی ڈبیا کے عوض ایدھی صاحب کو اکانوے لاکھ روپے عطیہ کیے تھے، جو ایدھی صاحب کے اس نیک اورانسانی خدمت کے جذبے سے بے لوث محبت کااظہارتھا۔ اسی طرح جب ایدھی صاحب ''جھولی پھیلاؤمہم'' کے سلسلے میں پشاور تشریف لائے، توآن کی آن میں پشاورکے باسیوں نے آپ اور آپ کے کام سے والہانہ محبت کے ثبوت کے طور پر جھولی پے جھولی بھرکے پیش کی اورجب آپ متاثرین سیلاب سے ہمدردی اوران کی مدد کے لیے پشاورکے نواحی علاقے کچہ گڑھی کے کیمپ میں تشریف لائے، جہاں سیلاب متاثرین کے لیے خیمے لگائے گئے تھے۔
آپ نے صرف پانی پینے پر اکتفا کیا اور ایک کِھیل تک منھ میں نہیں ڈالی۔ جب لوگ آپ سے کھانا کھانے پر اصرار کرنے لگے، تو آپ نے کچھ یوں کہا کہ یہ لوگ تکلیف میں ہیں، میں کیسے کھانا کھاؤں۔ اس رات ایدھی صاحب نے کسی ہوٹل میں رات گزارنے کی بجائے کیمپ ہی میں رات بسرکی، جہاں سخت گرمی تھی اور مچھروں کی بہتات تھی لیکن آپ نے اف تک نہ کی۔ اس دوران میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ان کاکہنا تھا کہ ''پشاورآکرمجھے اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا کیوں کہ یہاں کے لوگ بہت محبت کرنے والے اورملن سارہیں، یہاں کے لوگ مہمان نوازبھی ہیں، مجھے یہاں سے ہمیشہ بہت محبت ملی ہے، یہاں کے لوگ دل میں انسانیت کابہت دردرکھتے ہیں، ہماری فاؤنڈیشن کی یہاں کے لوگ فراخ دلی سے امداد کرتے ہیں، جس پر میں ان کا ہمیشہ سے ممنون ہوں''۔ اس کے بعدایدھی صاحب یہاں سے ایک خوش گوار احساس کے ساتھ روانہ ہوئے۔
پشاورمیں ایدھی فاؤنڈیشن سنٹرکاقیام 1989 میں عمل میں لایاگیا۔ اس وقت خیبرپختون خوا کے 12 اضلاع میں متعدد ایدھی سینٹر اور پشاورمیں خواتین کے لیے ایک ایدھی ہوم سینٹرکام کر رہا ہے۔ پشاور کے مختلف مقامات پر ایمرجنسی کے لیے 7 سینٹر قائم ہیں، جہاں سے ایمرجنسی کے لیے ایمبولینس سروس چوبیس گھنٹے دست یاب ہوتی ہے۔ ان پوائنٹس میںچغلپورہ، حاجی کیمپ،ٹاؤن،صدر،سواتی پھاٹک،قصہ خوانی وغیرہ شامل ہیں۔ بارہ اضلاع جہاں پر یہ سینٹرقائم ہیں، ان میں پشاور،نوشہرہ، مردان،سوات،بنوں،کوہاٹ،پبی،چترال، ڈیرہ اسماعیل خان،ہری پور،شیدو اورہزارہ ڈویژن شامل ہیں۔
پشاورسینٹر میں اہل کاروں کی تعداد 70 ہے، جن میں کلرک،ڈرائیور،اورہیلپرشامل ہیں۔ یادرہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن میں تنخواہ نہیں دی جاتی بلکہ تمام رضاکاروں کو وظیفہ دیا جاتا ہے، جومخیرحضرات کے چندوں سے اداکیاجاتاہے۔ ان ہی پیسوں سے تیل وغیرہ اوردیگراخراجات بھی پورے کیے جاتے ہیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ایدھی مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے ارادہ رکھتے تھے کہ پاکستان کے ہرپانچ سو کلومیٹر پر اسپتال تعمیر کیا جائے تاکہ غریب کو اس کی گھر کی دہلیز پر صحت کی سہولیات فراہم ہوں اوراسے دردرکی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کہلواناپسند کرتے تھے کیوں کہ انسانیت کی خدمات پر پاکستان میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن نے ان کو ڈاکٹری کی اعزازی سند دی تھی۔ وہ اس بات کو بھی سخت نا پسند کرتے تھے کہ لوگ ان کی یا ان کے کام کی تعریف کریں۔ ان کی تنظیم حکومت یا مذہبی جماعتوں سے امداد بھی نہیں لیتی کیوںکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی امداد مشروط ہوتی ہے۔ ضیاء الحق، اطالوی حکومت اور بھارتی حکومت کی امداد انہوں نے اسی خیال سے واپس کردی تھی۔
انیس سوستانوے میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔ ایدھی صاحب چھٹی کیے بغیر طویل عرصہ تک کام کرنے کا عالمی ریکارڈ بھی رکھتے تھے اور تا آخر انہوں نے چھٹی نہیں لی۔
اپنے لیے،اپنے گھر والوں اور اپنے خاندان کے لیے تو ہرکوئی جیتا ہے، پر دنیا میں دوسروں کے لیے یعنی بے چاروں،مفلسوں یتیم اور بے آسرا بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے اپنی زندگی، اپنا شباب، اپنا مال و متاع، اپنا گھر، کنبہ،اپنی راتوں کی نیندیں، اپنا چین اور سکون، اپنی بھوک اور پیاس قربان کرنا ہی اصل انسانیت اور مخلوق خدا کی خدمت کہلاتی ہے۔ جس بندے کوخدا نے سب کچھ دیاہو اور وہ اگر چاہے تو عیش وعشرت اور آرام کی زندگی گزارسکتا ہو مگر وہ یہ سب کچھ چھوڑ کر دنیا میں فقیروں، درویشوں اور خاکساروں جیسی عملی زندگی گزارے، قناعت کرے اور اپنے نفس کے خلاف مسلسل جہاد کرے، تو ایسے انسان کو انسانیت کا اصل اور بے لوث خدمت گار پکارتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ دنیا کسی کی وجہ سے آباد ہے۔ صاحب سیف وقلم خوش حال خان خٹک ایسے ہی فقیرمنش اور دوسروں کے کام آنے والے انسانوں کو خوش خبری دیتے ہیں کہ
چہ د خلقو نیک خواہی لرے پہ زڑہ کے
مبارک شہ بادشاہی لرے پہ زڑہ کے
ترجمہ: ''اگر تم دوسروں کے لیے دل میں خیر خواہی رکھتے ہو تو مبارک! کہ بادشاہ ہو''۔ ہم جب اپنے ملک کے محسن عبدالستار ایدھی کی خدمات اور ان کی عملی زندگی کو دیکھتے اور پرکھتے ہیں تو لگتاہے کہ شاعر انسانیت رحمان بابا نے یہ شعر عبدالستار ایدھی کے اعزاز میں پیشگی کہ دیا تھا کہ
قناعت مے تر خلقے لاندے اطلس دے
پٹ د درست جہان بادشاہ، ظاہر گدایم
ترجمہ: قناعت میری قبا کے نیچے اطلس و کمخواب ہے، باطن میں جہان کا بادشاہ ہوں، گدا ہوں''۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو عالمی شہرت یافتہ انسان دوست عبدالستار ایدھی نے بھی ساری زندگی رحمان بابا کے مذکورہ شعر کا عملی نمونہ بن کر گزاری۔ اس ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے، ویسے تو وہ بلا امتیازِ زبان و رنگ و نسل و مذہب، تمام انسانیت سے پیار کرنے والی شخصیت تھے تاہم بعض اقوام میں بعض منفرد صفات اور خوبیوں کی وجہ سے وہ ان اقوام کو زیادہ پسند کیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں پختون قوم سے ان کی محبت اور لگاؤ کا اندازہ اس تقریر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جو اب بھی ریکارڈ پر موجود ہے اور تاریخ کاایک معتبرحوالہ ہے۔
پختون قوم اور خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان سے عبدالستار ایدھی کی محبت اور عقیدت کا اندازہ ان کے ان جذبات اور احساسات سے اچھی طرح لگایا جاسکتاہے، جس کا اظہار انہوں نے بلدیہ ٹاؤن کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی کے منعقدہ جلسے میں کیا تھا۔ چوں کہ 3دسمبر 1991 کو جب عوامی نیشنل پارٹی نے دنیا کی جن تین شخصیات کو باچاخان امن ایوارڈ پیش کیا تھا، ان میں افغانستان کے صدر مرحوم ڈاکٹر نجیب اللہ، سوویت یونین کے صدر میخائل گورباچوف اور عبدالستار ایدھی شامل تھے۔
اس کے بہت عرصہ بعد ایک مرتبہ عوامی نیشنل پارٹی کا بلدیہ ٹاؤن کراچی میںجلسہ تھا اور عبدالستار ایدھی کسی کام سے ادھر سے گزر رہے تھے، دیکھا کہ اے این پی کا کوئی پروگرام ہے، تو بن بلائے تشریف لے گئے۔ جلسے میں شریک ہزاروں افراد نے جب ایدھی صاحب کو دیکھا تو اپنی اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے، جلسہ گاہ تالیوں کی گونج اور عبدالستار ایدھی زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی، حاضرین نے ہردلعزیز شخصیت کابھرپور اور والہانہ استقبال کیا۔ اس موقع پر جلسے کے کمپیئر اور اے این پی سندھ کے جنرل سیکریٹری بشیرجان نے عبدالستار ایدھی صاحب کو دعوت خطاب دی۔ انہوں نے اپنی ناسازیٔ طبع کے باوجود چند الفاظ پر مشتمل خطاب کیا، جو یوں تھا
''میں ہمیشہ سرخ رنگ کو سلام کرتا ہوں کہ یہ رنگ اور اس رنگ کا جھنڈا پوری دنیا میں ظلم و جبر کے خلاف ایک علامت ہے، میں باچاخان کا اس وجہ سے پیروکار ہوں کہ ان میں سچائی، ایمان داری، وقت کی پابندی اور انسان دوستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، ملک کی آزادی میں ان کا بہت بڑا کردار رہا ہے، باچاخان اور ولی خان میرے بہترین ساتھی تھے، اس وقت میری عمر اٹھاسی سال ہے، میں سب کو اچھی طرح جانتا ہوں، مجھے سب معلوم ہے، دنیا میں مجھے اب تک ستر سے زیادہ ایوارڈز ملے ہیں۔
جن کی اس وقت مالیت ایک کروڑ ستر لاکھ ڈالر ہے، میں نے سارے ایوارڈ وقف کردیے تاہم باچاخان امن ایوارڈ میری زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے، جو میرے لیے سب سے پہلا امن ایوارڈ ہے، یہ ملیشا کا لباس زیب تن کرنا بھی میں نے باچاخان اور ان کے ساتھیوں سے متاثر ہوکر اپنایا ہے، باچاخان ہمارے لیڈر اور استاد تھے اور میں نے ان ہی کا فلسفہ اپنایا ہوا ہے، اگر آپ کو سچا ساتھی بنانا ہو، انسانیت سے پیار اور محبت سیکھنی ہو تو پختونوں سے سیکھیں، میں پختونوں کو دل وجان سے چاہتا ہوں، انسانیت کی پہچان ہی پختون قوم ہے، کراچی میں ایدھی سنٹر کھولنے کے بعد میں نے دوسرا سنٹر پشاور میں اس لیے کھولا کہ پختون قوم سب سے زیادہ وفادار ہے''۔
خیبر پختون خوا کے گزشتہ دورحکومت میں محکمۂ ثقافت کی جانب سے دسمبر2011 کوایک وفد اس وقت کے کلچر ڈائریکٹر پرویزخان صعبت خیل کی سربراہی میں کراچی کے چار روزہ دورے پرگیا تھا، جس میں ڈپٹی سیکریٹری کلچر فریداللہ خان، مرحوم ڈاکٹر محمد اعظم اعظم،عزیزاعجاز،سیدرحمان شینو،اباسین یوسف زئی،جمشیدعلی خان اور راقم الحروف شامل تھے۔ وفد نے عبدالستار ایدھی سے ان کے سینٹر میں ملاقات کی، انہیں سواتی چادر اور چترالی ٹوپی پہنائی گئی، تو وہ پھولے نہ سماتے تھے۔ وفد سے اپنی ملاقات میں انہوں نے باچاخان اور ان کی خدائی خدمت گارتحریک کی بہت زیادہ تعریفیں کیں اور بارہا کہا کہ ''باچاخان بڑے انسان تھے اور میں نے ان کی زندگی کے طور اطوار سے بہت کچھ سیکھا ہے اور پھر ان کے نام سے منسوب باچاخان امن ایوارڈ میرے لیے سب سے بڑا اعزازہے، جس پر میں فخرکرتا ہوں کہ اتنے عظیم انسان کے نام کا پہلا امن ایوارڈ مجھے دیا گیاہے''۔
اگردیکھاجائے تواس وقت پوری دنیا میں کسی بھی فلاحی ادارے سے بڑی ایمبولینس سروس ایدھی فاونڈیشن کے پاس ہے، جو ایک ریکارڈہے اوریہ لوگوں کا عبدالستارایدھی پربھرپوراعتماد کامظہرہے کہ لوگ دل کھول کرایدھی فاونڈیشن کو عطیات ،خیرات ،صدقات اوردیگرمدات میں امداد فراہم کرتے رہتے ہیں، جس کے پیچھے انسانیت کی خدمت اور فلاح ہے اوربس؛ اس کے علاوہ ان کاکوئی ایجنڈانہیں۔ کسی بھی جگہ پر کوئی حادثہ رونماہو، آپ کو ایدھی کی ایمبولینس سب سے پہلے دکھائی دیتی ہے۔
افغان جنگ کے بعد پاکستان خصوصاً خیبر پختون خواکے روز و شب انتہائی مشکل ہوگئے تھے۔ اس جنگ کے شعلے یہاں تک بھی پھیلنے لگے۔ یہاں بھی روزانہ کے حساب سے دھماکے ہونے لگے اور یوں ان میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہونے لگا۔ ایسے میں اگرکوئی ان دھماکوں میں زخمیوں اور لاشوں کو بے جھجک اٹھانے میں سب سے آگے رہا، تو وہ ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار ہیں، جو ان کوجلد سے جلد اسپتال پہنچانے کے لیے لپک رہے ہیں۔ خیبرپختون خوا اور بطور خاص پشاورمیں اگرایدھی کی ایمبولینس سروس نہ ہوتی تو شاید مختلف حادثات اوردھماکوں میں ہونے والے نقصانات کا حجم بہت زیادہ ہوتا۔ ان رضاکاروں جذبۂ انسانیت کو دیکھ کر یہ ہی لگتا ہے کہ عبدالستارایدھی خود لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ضروری بات ہے کہ اس عظیم شخیصت کے زیرِ سایہ کام کرنے والے رضاکار بھی اسی جذبے سے سرشار ہوں گے، جس سے ان کے ''ایدھی بابا'' سرشار ہیں۔
خیبر پختون خوا میں سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں یا زلزلے سے ہزاروں قیمتی جانوں کا زیاں ہو یا افغانستان جنگ میں زخمیوں کو کابل سے ایمبولینس کے ذریعے پشاورکے اسپتالوں تک لانے کی جان لیوا مشقت؛ ایدھی کی گاڑیاں اور رضاکار آپ کو ہر وقت صف اول میں نظرآئیں گے۔ جب نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا اور اتحادی افواج نے افغانستان کی سرزمین پرآتش وآہن کی برسات کردی تھی تو یہ ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار ہی تھے، جو طورخم بارڈر عبورکرکے ان گرجتے جہازوں اور برستی گولیوں میں زخمیوں کو اٹھا کر پشاورکے اسپتالوں تک لے کرآتے تھے۔ ایک دفعہ جب افغانستان میں ایدھی مرکزکا افتتاح کیا جا رہا تھا، توعملے نے مہمانوں اورصحافیوں کے بٹھانے کے لیے کرسیاں خرید لیں۔ جب عبدالستارایدھی صاحب وہاں پہنچے اورمعلوم ہوا کہ یہ کرسیاں خریدی گئی ہیں، تو وہ اس پر سخت خفا ہوئے کیوں کہ ان کے خیال میں یہ رقم کسی ضرورت مند کی مدد پر خرچ کی جاسکتی تھی۔ اس رات عبدالستارایدھی صاحب کلینک کے فرش پر ایمبولینس کے ڈرائیوروں کے ساتھ سوئے تھے۔
عبدالستارایدھی صاحب نے انیس سو اکانوے میں ماچس مہم شروع کی تو اس دوران میں انگلینڈ میں مقیم ایک پاکستانی نے ایک ماچس کی ڈبیا کے عوض ایدھی صاحب کو اکانوے لاکھ روپے عطیہ کیے تھے، جو ایدھی صاحب کے اس نیک اورانسانی خدمت کے جذبے سے بے لوث محبت کااظہارتھا۔ اسی طرح جب ایدھی صاحب ''جھولی پھیلاؤمہم'' کے سلسلے میں پشاور تشریف لائے، توآن کی آن میں پشاورکے باسیوں نے آپ اور آپ کے کام سے والہانہ محبت کے ثبوت کے طور پر جھولی پے جھولی بھرکے پیش کی اورجب آپ متاثرین سیلاب سے ہمدردی اوران کی مدد کے لیے پشاورکے نواحی علاقے کچہ گڑھی کے کیمپ میں تشریف لائے، جہاں سیلاب متاثرین کے لیے خیمے لگائے گئے تھے۔
آپ نے صرف پانی پینے پر اکتفا کیا اور ایک کِھیل تک منھ میں نہیں ڈالی۔ جب لوگ آپ سے کھانا کھانے پر اصرار کرنے لگے، تو آپ نے کچھ یوں کہا کہ یہ لوگ تکلیف میں ہیں، میں کیسے کھانا کھاؤں۔ اس رات ایدھی صاحب نے کسی ہوٹل میں رات گزارنے کی بجائے کیمپ ہی میں رات بسرکی، جہاں سخت گرمی تھی اور مچھروں کی بہتات تھی لیکن آپ نے اف تک نہ کی۔ اس دوران میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ان کاکہنا تھا کہ ''پشاورآکرمجھے اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا کیوں کہ یہاں کے لوگ بہت محبت کرنے والے اورملن سارہیں، یہاں کے لوگ مہمان نوازبھی ہیں، مجھے یہاں سے ہمیشہ بہت محبت ملی ہے، یہاں کے لوگ دل میں انسانیت کابہت دردرکھتے ہیں، ہماری فاؤنڈیشن کی یہاں کے لوگ فراخ دلی سے امداد کرتے ہیں، جس پر میں ان کا ہمیشہ سے ممنون ہوں''۔ اس کے بعدایدھی صاحب یہاں سے ایک خوش گوار احساس کے ساتھ روانہ ہوئے۔
پشاورمیں ایدھی فاؤنڈیشن سنٹرکاقیام 1989 میں عمل میں لایاگیا۔ اس وقت خیبرپختون خوا کے 12 اضلاع میں متعدد ایدھی سینٹر اور پشاورمیں خواتین کے لیے ایک ایدھی ہوم سینٹرکام کر رہا ہے۔ پشاور کے مختلف مقامات پر ایمرجنسی کے لیے 7 سینٹر قائم ہیں، جہاں سے ایمرجنسی کے لیے ایمبولینس سروس چوبیس گھنٹے دست یاب ہوتی ہے۔ ان پوائنٹس میںچغلپورہ، حاجی کیمپ،ٹاؤن،صدر،سواتی پھاٹک،قصہ خوانی وغیرہ شامل ہیں۔ بارہ اضلاع جہاں پر یہ سینٹرقائم ہیں، ان میں پشاور،نوشہرہ، مردان،سوات،بنوں،کوہاٹ،پبی،چترال، ڈیرہ اسماعیل خان،ہری پور،شیدو اورہزارہ ڈویژن شامل ہیں۔
پشاورسینٹر میں اہل کاروں کی تعداد 70 ہے، جن میں کلرک،ڈرائیور،اورہیلپرشامل ہیں۔ یادرہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن میں تنخواہ نہیں دی جاتی بلکہ تمام رضاکاروں کو وظیفہ دیا جاتا ہے، جومخیرحضرات کے چندوں سے اداکیاجاتاہے۔ ان ہی پیسوں سے تیل وغیرہ اوردیگراخراجات بھی پورے کیے جاتے ہیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ایدھی مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے ارادہ رکھتے تھے کہ پاکستان کے ہرپانچ سو کلومیٹر پر اسپتال تعمیر کیا جائے تاکہ غریب کو اس کی گھر کی دہلیز پر صحت کی سہولیات فراہم ہوں اوراسے دردرکی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کہلواناپسند کرتے تھے کیوں کہ انسانیت کی خدمات پر پاکستان میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن نے ان کو ڈاکٹری کی اعزازی سند دی تھی۔ وہ اس بات کو بھی سخت نا پسند کرتے تھے کہ لوگ ان کی یا ان کے کام کی تعریف کریں۔ ان کی تنظیم حکومت یا مذہبی جماعتوں سے امداد بھی نہیں لیتی کیوںکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی امداد مشروط ہوتی ہے۔ ضیاء الحق، اطالوی حکومت اور بھارتی حکومت کی امداد انہوں نے اسی خیال سے واپس کردی تھی۔
انیس سوستانوے میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔ ایدھی صاحب چھٹی کیے بغیر طویل عرصہ تک کام کرنے کا عالمی ریکارڈ بھی رکھتے تھے اور تا آخر انہوں نے چھٹی نہیں لی۔