ٹونی بلیئرکے خلاف مقدمہ

عراق پرغیر قانونی حملے کی بنا پر برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے خلاف مقدمہ چلے گا


Dr Tauseef Ahmed Khan July 16, 2016
[email protected]

SUKKUR: عراق پرغیر قانونی حملے کی بنا پر برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے خلاف مقدمہ چلے گا۔ یہ سوال اگلے چند ہفتوں میں طے ہو جائے گا۔ وزیراعظم ٹونی بلیئر نے 2003ء میں امریکا کے ساتھ مل کر عراق پر حملہ کیا تھا، انکوائری کمیشن نے ٹونی بلیئرکو اس غیر قانونی حملے کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ عراق پر ہونے والے اس حملے میں اس کے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ شہری جاں بحق ہوئے تھے جب کہ برطانیہ کے ایک سو انہتر فوجی مارے گئے۔

تحقیقاتی رپورٹ جاری ہونے کے بعد عراق جنگ میں مرنے والے فوجیوں کے لواحقین ٹونی بلیئر کے خلاف جنگی جرائم سے متعلق مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیبر پارٹی کے جنگ مخالف اراکین بھی اس مطالبے کے حق میں ہیں۔ سات ارکان پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عراق پر حملے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ رپورٹ کے مطابق سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے جنگ سے چھ ماہ قبل سابق صدر جارج بش کو یقین دلایا تھا کہ برطانیہ عراق پر حملے کی صورت میں امریکا کی ہر صورت مدد کرے گا۔ اس جنگ کے مخالف لیبر پارٹی کے رہنما چیری کاربون اگلے ہفتے لیبر پارٹی کے اجلاس میں اس جنگ میں شرکت پر قوم سے معافی مانگنے کی قرار داد پیش کریں گے۔ ٹونی بلیئر حکومت کے نائب صدر برسکوٹ نے سنڈے مرر میں لکھا ہے کہ اس جنگ کی قانونی حیثیت کے بارے میں ان کے خیالات تبدیل ہو چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ عراق پر حملے کے بارے میں ہونے والی بحث کے دوران ٹونی بلیئر نے وزرا کو اپنے خیالات پیش کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔وہ کہتے ہیں کہ جنگ کے خوفناک واقعات ساری زندگی ان کی اعصاب پر چھائے رہیں گے۔

اسکاٹش نیشنل پارٹی کے رہنماالیکس سلمنڈ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ٹونی بلیئر نے امریکا کے سابق صدرجارج بش سے ذاتی ملاقات میں کچھ اور موقف اختیار کیا۔ عوام اورپارلیمنٹ کے سامنے علیحدہ موقف بیان کیا۔ اس تحقیقاتی کمیشن کے سامنے اٹارنی جنرل گولڈ اسمتھ نے جنگ میں شمولیت کو قانونی قرار دیا، مگر اپنے دلائل کے دوران وہ کوئی دستاویز نہیں پیش کر سکے برطانوی اخبارات کا کہنا ہے کہ عراق پر حملے کے بعد تحقیقاتی کمیشن کا قیام برطانوی جمہوریت کی ایک روایت کا حصہ ہے۔ یہ تحقیقاتی کمیشن کوئی عدالتی کمیشن نہیں یہ ایک پبلک انکوائری کمیشن کے سربراہ جان چل کوٹ بنیادی طور پر ایک سابق سول سرونٹ ہیں اگرچہ یہ رپورٹ کوئی قانونی فیصلہ نہیں ہے مگر اس رپورٹ نے رائے عامہ کو تبدیل کر دیا ہے۔

صدرجارج بش کا عراق پر حملہ شروع سے متنازع تھا جس نے الزام لگایا تھا کہ صدر صدام حسین نے بڑے پیمانے پرتباہی مچانے والے کیمیائی ہتھیار تیار کیے ہیں جو دنیا کے امن کو خطرہ ہے۔ امریکی اور اتحادی فوجیں ان ہتھیاروں کو تلاش کر کے تباہ کر دیں گی۔ دنیا مستقبل میں ہونے والی تباہی سے بچ جائے گی۔ مگر امریکا کے عراق پر قبضے کے بعد یہ ہتھیار برآمد نہیں ہوئے۔ اس جنگ کے نتیجے میں عراق اور اطراف کے ممالک تباہ ہوگئے اور اس کے اثرات امریکا اور یورپ تک پھیل گئے سابق صدر صدام حسین روپوش ہو گئے، امریکی فوج نے صدام حسین کو ایک سرنگ سے برآمد کیا گیا اور پھانسی دے دی گئی۔ عراق کی نئی انتظامیہ نے فوج پولیس خفیہ ایجنسیوں اور سول سروسز کو ختم کر دیا اس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بیروزگار ہو گئے۔

صدر صدام کا اسامہ بن لادن سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا مگر صدام کی پھانسی کے بعد عراق میں القاعدہ منظم ہوئی اور خود کش حملے شروع ہوئے پھر ابوبکر بغدادی نے داعش نامی تنظیم بنائی ۔ امریکا اور سعودی عرب نے شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف داعش کی سرپرستی کی صدر اسد کی مدد ایران نے کی، پھر روس نے صدر اسد کو فوجی امداد دینا شروع کی۔ داعش نے پیشہ وارانہ رنگ اختیار کر لیا، عراق شام اور دوسرے عرب ممالک میں فرقہ وارانہ لڑائی ایک نئی شکل اختیار کر گئی۔ داعش نے پہلے عراق و شام میں مقدس مقامات پر حملے کیے پھر ابو بکر بغدادی نے خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ ان کے ہاتھ بیعت کریں۔

داعش نے مخالفین کے مردوں کو قتل کیا اور عورتوں کو باندیاں بنانے کا اعلان کیا، بہت سی عورتوں کو حکم نہ ماننے پر زندہ دفن کر دیا گیا۔ داعش نے اپنی سرگرمیاں ایک طرف سعودی عرب اور دوسری طرف افغانستان اور پاکستان تک بڑھانے کا فیصلہ کیا مختلف ممالک کے نوجوان شام جا کر داعش میں شامل ہونے لگے خاص طور پر برطانیہ اور یورپ سے بہت سے مسلمان نوجوان جن میں لڑکیاں بھی شامل تھیں اپنے گھر سے فرار ہوکر شام پہنچ گئیں۔ امریکا اور یورپ میں خطررے کی گھنٹیاں بجنے لگیں داعش نے سعودی عرب میں مقد س مقامات پر خود کش حملوں کو منظم کیا۔ افغانستان میں طالبان کا ایک حصہ داعش میں شامل ہو گیا اور یہ خبریں بھی ہیں کہ داعش پاکستان میں منظم ہو رہی ہے نا معلوم افراد نے داعش اور بغدادی کی حمایت میں نعرے تحریر کیے۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اگرچہ پاکستان میں داعش کی موجودگی کی تردید کرتے ہیں مگر یہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان کے بہت سے نوجوان جا کر شام میں داعش کی فوج میں شامل ہوئے۔ بین الاقوامی اخبارات میں یہ خبریں بھی شایع ہوئیں کہ پاکستان میں ایک فرقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان شام میں داعش کی خلاف لڑنے والی فوج میں شامل ہونے کے لیے دمشق گئے۔ جب امریکا اور برطانیہ نے عراق پر حملے کا فیصلہ کیا تھا تو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے اس فیصلے کو غیر قانونی اور خطرناک قرار دیا تھا۔ برطانیہ میں لاکھوں لوگوں نے عراق میں جنگ میں شمولیت کے خلاف مظاہرے کیے۔ لیبر پارٹی کے کئی رہنما اس فیصلے کو غیر قانونی سمجھتے تھے۔

برطانیہ کی سیاست کے بارے میں لکھنے والے سینئر صحافی سعید حسن خان اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ ٹونی بلیئر نے پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل لیبر پارٹی کے اراکین کا اجلاس بلایا تھا۔ ٹونی بلیئر نے اس بند کمرے کے اجلاس میں کہا تھا کہ اگر برطانیہ نے امریکا کی حمایت نہ کی تو برطانیہ معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائے گا ، بہت سے اراکین نے اس خطرے کی بنا پر ٹونی بلیئر کے جنگ کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اس رپورٹ پر جب برطانوی پارلیمنٹ میں بحث ہوگی تو پھر ٹونی بلیئر کے خلاف جنگی جرائم کے الزام میں مقدمہ چلنے کا فیصلہ ہوگا، اگر برطانیہ کی پارلیمنٹ نے ٹونی بلیئر کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا تو برطانیہ کی تاریخ کا یہ سب سے منفرد فیصلہ ہو گا ۔

دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت برطانیہ میں آزادانہ بحث ومباحثے اور متنازع معاملات کی تحقیقات کی روایت پرانی ہے، یہی وجہ ہے کہ2003ء کی عراق جنگ کی عوامی سطح پر تحقیقات کرائی گئی اور اس کے نتائج ایک سابق وزیر اعظم کو سزا دینے کے لیے رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں۔پاکستان میں بھی کئی اہم معاملات پر اب تک تحقیقات نہیں ہوئیں، سابق صدر پرویز مشرف ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ انھوں نے کارگل میں فوج بھیجنے سے قبل اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے باقاعدہ منظوری لی تھی۔

نواز شریف نے ہمیشہ اس کی تردید کی اس قضیے کے نتیجے میں پاکستان و بھارت جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ہمیشہ پرویز مشرف کے اس بیان کی تردیدکی مگر پرویز مشرف اپنے دس سالہ دور میں تحقیقات کے لیے تیار نہیں ہوئے، آج کل ایسا ہی سیاسی معاملہ پناما لیکس کے حوالے سے ہے۔ پارلیمنٹ میں ابھی تک اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی نہیں بنائی یوں معاملات الجھتے جارہے ہیں۔ برطانیہ کی جمہوری روایت کی بنا پر وہاں عوام کا اپنے نظام پر اعتماد مستحکم ہوا ہے پاکستان میں بھی ایسی ہی روایت ڈال کر عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد مستحکم کیا جا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں