خاص اور غیر خاص خبریں

خیر، یہ منفی سوچ ہمارے اندر ’’بائی ڈلفالٹ‘‘ نہیں ہے، حالات کی پیدا کردہ ہے۔


Abbas Athar November 29, 2012
[email protected]

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے، ایک ناخواندہ آدمی اپنے پڑھے لکھے دوست سے اخبار کی خبریں سن رہا تھا۔ دوست بتا رہا تھا، صدر نے بیان دیا ہے کہ کالا باغ ڈیم بنایا جائے گا، وزیر اعظم نے کہا ہے مسئلہ کشمیر سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پاس ہو گئی ہے۔ صوبائی حکومت نے نئے کالج بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ناخواندہ شوقین مایوسی سے سر ہلاتا رہا اور بار بار کہتا رہا، کوئی خاص خبر سنائو، اخبار پڑھنے والے نے پھر غیر خاص خبریں سنانا شروع کر دیں۔ ناخواندہ شوقین بالکل مایوس ہو گیا اور کہا مطلب یہ کہ آج کوئی خاص خبر نہیں ہے۔

خاص خبر سے اسکی مراد یہ تھی کہ کوئی لڑائی جھگڑے کی خبر ہو، قومی اسمبلی میں مارکٹائی کا قصہ ہو یا کسی لیڈر کا بیان ہو کہ وہ اپنے مخالف کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دے گا۔ کہیں ڈاکوئوں نے بنک لوٹ لیا ہو۔ اس زمانے میں خودکش حملے اور ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوتی تھی۔ لیکن شوقین کو اعلیٰ قسم کی خبروں کی تلاش تھی۔ بور، ٹھنڈے بیانات اس کیلیے خاص خبریں نہیں تھے اُسے کوئی ''اچھی''خبر سنا دی جاتی تو شاید وہ اطمینان کر لیتا۔

یہ واقعہ بہت پرانا ہے لیکن سائیکی سدا بہار ہے، آج بھی ہم لوگ ''خاص خبریں'' ڈھونڈتے ہیں اور جس دن خاص خبریں نہ ہوں (خبر نہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا)۔ یعنی کم ہوں تو اس روز قارئین حضرات خاصے بور ہوتے ہیں۔ قارئین کی ایک تعداد ایسی ہے جو اسٹال جا کر پہلے اخباروں پر نظر دوڑاتی ہے اور پھر اُن میں ''خاص خبروں'' کی گنتی دیکھ کر اسے خریدنے یا نہ خریدنے کا فیصلہ کرتی ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ جس روز ''خاص خبریں'' کم ہوں اس روز اخبار کی سیل کم ہوتی ہے۔ ہماری نفسیات میں ''منفیت'' نے بہت گہری جگہ بنا لی ہے چنانچہ ''عام خبر'' کتنی ہی بڑی ہو، اس پر توجہ یا تو دی نہیں جاتی یا دی جاتی ہے تو منفی انداز میں۔

خاص خبروں کے اسی پیمانے کے تحت پرسوں کی سب سے غیر خاص خبر نواز شریف کا یہ بیان تھا کہ وہ وزیر اعظم کے طور پر صدر زرداری سے حلف لینے میں کوئی ہرج نہیں سمجھتے۔ انھوں نے اپنے بھائی شہباز شریف کو بھی ہدایت کی کہ وہ صدر زرداری کے بارے میں زیادہ سخت الفاظ استعمال نہ کیا کریں۔ وہ ملک کے صدر ہیں اور اُن کیخلا ف اتنے سخت الفاظ مناسب نہیں۔ یہ خبر رویئے میں ایک انقلابی تبدیلی کی اطلاع دیتی ہے لیکن اخبارات نے اسے بہت زیادہ نمایاں نہیں کیا۔ اس لیے کہ یہ ''خاص خبر'' نہیں تھی۔ خاص خبر تب ہوتی جب نواز شریف کہتے کہ میں صدر زرداری سے حلف لینے کی بجائے ان سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کروں گا۔ وزیر اعظم بنتے ہی ان کے مواخذے کی تحریک لائوں گا۔ پہلے انھیں جیل میں ڈالوں گا پھر دوسرے کام کروں گا۔

انھوں نے یہ یا اس سے ملتا جلتا بیان دیا ہوتا تو اخبارات کی شہ سرخی ہوتا اور اس روز اخبارات کی سیل دیکھنے کے قابل ہوتی۔ چوکوں، چوپالوں، ہوٹلوں اور بیٹھکوں میں غرض ہر جگہ یہ خاص خبر زیر بحث ہوتی۔ حامی خوشی سے اچھل رہے ہوتے، مخالف جلی کٹی سنا رہے ہوتے۔ لیکن یہ تو غیر خاص خبر تھی۔ چنانچہ نہ یہ لیڈ اسٹوری بنی نہ کہیں زیر بحث آئی۔ یہ اتنی ''غیر خاص'' خبر تھی کہ مسلم لیگ کے حامیوں نے بھی اس پر کچھ نہیں کہا اور پیپلز پارٹی والوں نے بھی خاموشی اختیار کی سوائے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کے جنھوں نے اس بیان کا خیر مقدم کیا اور شہباز شریف سے اپیل کی کہ وہ نوازشریف کی بات مانیں، چوہدری نثار کی نہ مانیں۔

''غیر خاص'' خبر اتنی بے اثر رہی کہ چوہدری نثار بھی غیر متاثر رہے اور ان کی طرف سے بھی کوئی ردعمل نہیں آیا۔ ہاں یہ ممکن ہے، شوقین قاری کی طرح عمران خان کا پیمانہ صبر لبریز ہو جائے اور وہ پکار اٹھیں کہ دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ نواز شریف اندر سے زرداری کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ نہ ملے ہوتے تو ایسا ''غیر خاص'' بیان کیوں دیتے وہ چاہیں تو یہ قیاس آرائی بھی کر سکتے ہیں کہ الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مخلوط حکومت بنانے والے ہیں جس کے بعد دونوں ملک کو مل کر لوٹیں گے۔

خیر، یہ منفی سوچ ہمارے اندر ''بائی ڈلفالٹ'' نہیں ہے، حالات کی پیدا کردہ ہے لوگوں کے مسائل دکھ اور تلخیاں اتنی زیادہ ہیں کہ اپنا گھر جلے تب بھی یہ سوچ کر خوش ہو جاتے ہیں کہ چلو، شعلوں کا تماشا دیکھنے کا موقع تو ملا۔ حالات معمول پر آ جائیں اور لوگوں کو چین کی زندگی گزارنے کا موقع مل جائے تو ''نیگٹیو تھرل'' کی یہ طلب بھی نارمل ہو جائے گی۔ فی الحال تو یہ سوچنے کا موقع ہے کہ کیا واقعی کسی دن ایسی ''عام خبر'' بھی آ سکتی ہے کہ ملک کی دو سب سے بڑی متحارب جماعتیں جمہوری اسپرٹ کے ساتھ مخلوط حکومت نہ صرف بنائیں، بلکہ چلائیں گی، ہو سکتا ہے ایسا ہو جائے۔

اگرچہ زیادہ امکان یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ لیکن یہ بات اتنی اہم نہیں ہے۔ مثالی جمہوریت چلانے کیلیے یہ بالکل ضروری نہیں کہ ساری جماعتیں حکومت میں ہوں بلکہ کراچی کے حالات دیکھ کر تو لگتا ہے کہ شاید ایسا کرنے کا نقصان زیادہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت اپوزیشن کو اور اپوزیشن حکومت کو اسی طرح برداشت کرے جس طرح بہت اونچی سطح پر امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں اور نسبتاً کم اونچی سطح پر بھارت وغیرہ میں برداشت کیا جاتا ہے۔

مجموعی طور پر حالیہ دور ایسا ہے جس میں برداشت کا عنصر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نمایاں رہا۔ عدم برداشت بیانات اور تقریروں تک محدود رہی، عملی طور پر وفاقی حکومت نے مسلم لیگ ن کو بطور اپوزیشن قبول کیا اور مسلم لیگ ن نے وفاقی حکومت کو برداشت کیا۔ یہ برداشت اتنی زیادہ تھی کہ اسے فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ بھی سننا پڑا۔ اس برداشت کی سطح اس مہینے مزید بلند ہوئی ہے اور اس کا آغاز ایوان صدر میں ہونے والی تقریب سے ہوا جب صدر زرداری نے نواز شریف کا نام لیے بغیر ان کے بارے میں مثبت خیالات ظاہر کیے۔ نواز شریف کا بیان شاید اسی کا ردعمل ہے۔ نہ ہو تب بھی اس نے مہر لگا دی کہ دونوں طرف برداشت کی سطح مزید بلند ہو چکی ہے۔

اس برداشت کی دو وجوہات ہیں۔ ایک سیاسی شعور کی پختگی جو مشرف کے 8 سالہ مارشل لاء کا ثمر ہے۔ اور دوسری یہ خوف کہ تیسرا فریق تاک میں بیٹھا ہے۔ تیسرے فریق کے گھات لگا کر بیٹھنے کی بات پہلے تو محض ہوائی لگتی تھی لیکن ''فہرستیں بن گئی ہیں'' کا مژدہ سنانے والوں کی ہاہا کار سے یہ ''ہوائی'' ٹھوس اطلاع لگنے لگی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ برداشت اور خیر سگالی کا یہ رویہ اسی طرح جاری رہا تو تیسرے فریق کی خاصی حوصلہ شکنی ہو گی اور ملک ''آخری حادثے'' سے بھی بچ نکلے گا۔ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ معاشرہ بھی آہستہ آہستہ ''غیر خاص'' خبروں کا عادی ہو جائے گا۔ فی الحال ہمیں ''خاص خبریں'' پڑھنے کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں