ترک عوام نے فوجی بغاوت کچل دیپاکستان میں مارشل لا لگنے پر مٹھائیاں کیوں بانٹی جاتی ہیں

بجٹ میں کھربوں روپےعوام کی بہبود پررکھنے کے باوجود ملک کی 60 فیصد سے زائدآبادی خط غربت کی لکییرکےنیچے زندگی گزاررہی ہے

کیا ہمارے حکمرانوں نے کبھی یہ بات سوچی ہے کہ جب مملکت خداداد پاکستان میں فوجی بغاوت ہوتی ہے عوام مٹھائیاں بانٹنے کیوں نظرآتے ہیں، فوٹو:فائل

ترکی کے عوام فوجی بغاوت کو کچلتے ہوئے جمہوریت کے لئے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے لیکن کیا ہمارے حکمرانوں نے کبھی یہ بات سوچی ہے کہ جب مملکت خداداد پاکستان میں مارشل لا لگتا ہے تو عوام مٹھائیاں بانٹتے کیوں نظرآتے ہیں۔

ترک عوام اپنے صدر کی اپیل پر فوجی بغاوت کے سامنے کیوں سیسہ پلائی دیوارثابت ہوئے، کیوں وہ فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹے اورکیوں انہوں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں، کیا اس میں ترک صدر رجب طیب اردوان کی شخصیت کا کمال ہے کہ ان کے موبائل پر خطاب پر ہی عوام سڑکوں پر نکل آئی، بے شک ان کی ذات بھی عوام کی جانب سے فوجی بغاوت کچلنے میں ایک اہم عنصر لیکن سب سے بڑی وجہ جو ہے وہ یہ کہ انہوں نے اپنے دوراقتدار میں عوام کی فلاح وبہبود کے لئے وہ کام کئے جسے ترک عوام کبھی نہیں بھولیں گے اورایک ایسے اسلامی ملک میں جو سیکولر نظریات رکھتا ہو وہاں اسلامی سوچ کا حامل یہ شخص ترک عوام کا ہیرو بن گیا۔

رجب طیب 1954 میں ایک کوسٹ گارڈ کے گھر پیدا ہوئے،نوجوانی کے دورمیں استبول کی سڑکوں پر سکنجبین اور روغنی نان فروخت کرتے تھے،ایک اسلامی ادارے سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے استنبول کی یونیورسٹی سے مینجمنٹ میں ڈگری حاصل کی۔ 1994 میں رجب طیب استنبول کے میئر منتخب ہوئے اور انہوں نے شہر کی تعمیروترقی میں جو کردار ادا کیا اس پر ان کے ناقدین پر تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے اوریہی وجہ ہے کہ دو بار مسلسل وہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے اورآئین میں پابندی کی وجہ سے تیسری بار وہ وزیراعظم تو نہ بن سکے لیکن انہیں ملک کا صدر منتخب کرلیا گیا۔رجب طیب ادوان نے ملک میں اسلامی تشخص کو اجاگر کیا اورسرکاری اداروں میں خواتین کے اسکارف پہننے پر عائد پابندی اٹھالی جب کہ ان کہ اہلیہ خود سرپر اسکارف پہن کر سرکاری تقریبات میں شریک ہوتی ہیں۔انہوں نے شادی کے علاوہ جنسی تعلقات کو مجرمانہ فعل قرار دیا جب کہ ملک میں شراب کے خلاف بھی ان کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔


دوسری جانب جب ہم مملکت خداداد پاکستان پر نظرڈالتے ہیں تو یہاں جمہوریت کے نام پر چند ہی خاندان عیش کرتے نظر آتے ہیں جب کہ جمہورجسے عوام کہتے ہیں اس کے لئے صرف دلاسے اورتسلیاں، ان ہی جمہوری حکومتوں کے دورمیں کرپشن کے ایسے ایسے ریکارڈ بنے کہ سننے والوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں، کرپشن میں تو انہوں نے حج جیسے مقدس فریضے کو بھی نہ بخشا، یہاں نہ تو عوام کو پینے کا صاف پانی میسر ہے، نہ بجلی اورنہ ہی بہتر سفری سہولتیں، اگر کسی شہری کا کوئی سرکاری محکمے سے پالا پڑ جائے تو ہرے نوٹوں کو گڈی دیئے بغیر اس کا کام ہی نہیں ہوسکتا اوراگر کوئی بے چارہ شہری اس کام پر راضی نہ ہوتو اس کے اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ اس کی جوتیاں ہی گھِس جاتی ہیں،یہاں عوام انصاف کے لئے دربدر بھٹکتے ہیں لیکن انہیں انصاف تو نہیں ملتا لیکن اس کے حصول کے لئے ان کی نسلیں ہی ختم ہوجاتی ہیں۔

جمہوری حکومت کی دعویداریہ حکومتیں ہمیشہ جمہوریت کی اصل روح بلدیاتی انتخابات سے ہی روگرانی کرتی نظرآئیں اوراگر سپریم کورٹ کا حکم نہ ہوتا یہ شاید جمہوری دور میں یہ ہوتے نظر نہیں آتے،ہمارے حکمراں اگر کبھی غلطی سے کسی علاقے کے دورے پر نکل آئیں تو لگتا ہے جیسے شہنشاہ اکبر کی سواری تشریف لارہی ہو،پروٹوکول کے نام پر گاڑیوں کا حد نظر قافلہ ہی نظرآتا ہے اوراس وقت روڈ پر اپنی گاڑی میں بیٹھا شہری چلچلاتی دھوپ میں اس وقت تک بیٹھارہے گا جب تک شہشاہ اعظم کی سواری وہاں سے نہ گزر جائے، ہر سال بجٹ میں اربوں کھربوں روپے عوام کی فلاح وبہبود پر رکھنے کے باوجو ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی خط غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزاررہی ہے،تعلیم کے شعبے میں بھی کھربوں روپے خرچ کرنے کے باوجو ہم دنیا کیا جنوبی ایشیا میں بھی اس شعبے میں سب سے پیچھے کھڑے نظرآتے ہیں،صحت کے نام پربھی بجٹ میں عددی ہندسہ عوام کو سنہرے خواب دکھانے کے لئے تو ہوسکتا ہے لیکن اس سے ایک عام شہری کو طبی سہولتیں میسر نہیں آتیں۔تعمیروترقی کے نام پر رکھے جانے والے بجٹ کا نہ پوچھیں لیکن یہ لگتا کہاں ہے یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی، یہ تو صرف چند چیدہ چیدہ باتیں ہیں درحقیقت ہم اپنے ملک پر نظر دوڑائے تو یہ پاکستان سے زیادہ مسائلستان نظرآتا ہے۔

آخر میں جو بات میں کہنے جارہا ہوں اسے ہمارے حکمرانوں کو ضرور سوچنا چاہیئے کہ ان کی یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جب فوج اقتدار پر قبضہ کرکے جمہوریت کی بساط لپیٹ دیتی ہے تو لوگ ہمیں اس ملک میں مٹھائیاں بانٹتے اورایک دوسرے کے مبارکبادیں دیتے نظرآتے ہیں کیوں کہ لوگ انہیں اُس وقت اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں، تو اس میں قصورکیا جمہوریت کا ہے یا ان نام نہاد جموری حکمرانوں کا جو جمہوریت کے نام پر عوام کا استحصال کرتے ہیں۔
Load Next Story