ترکی میں فوجی بغاوت کی کوشش ناکام
سرکاری سیکیورٹی سے جھڑپوں میں161افرادکے ہلاک ہونے کی اطلاع ہےجب کہ تین ہزار فوجیوں کو بغاوت کے الزام گرفتار کر لیا گیا
لاہور:
ترکی میں فوج کے ایک گروپ نے بغاوت کرتے ہوئے صدر رجب طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کر دیا تاہم صدر طیب اردگان کی اپیل پر جمہوریت بچانے کے لیے ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور فوجی ٹینکوں کے آگے کھڑے ہو گئے اور ٹینکوں کو وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھنے سے روک دیا جس کے بعد نائب وزیراعظم نے فوجی بغاوت کچلے جانے کا دعویٰ کر دیا جب کہ حکومت کی حامی فوج اور باغیوں کے درمیاں لڑائی شروع ہونے کی خبریں بھی آنے لگی ہیں۔
باغیوں کے ایک ہیلی کاپٹر کو مار گرایا گیا، کچھ باغی یونان چلے گئے ہیں اور ترک حکومت نے یونانی حکومت سے ان کی واپسی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ترک فوج کے ایک گروپ نے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب بغاوت کرتے ہوئے ایوان صدر سمیت ملک کے اہم مقامات کا کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کی۔ سڑکوں پر فوجی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ ابتدائی خبروں کے مطابق فوج کے ایک مسلح گروپ نے اقتدار پر قبضہ کیا جس میں زیادہ تر کرنل رینک کے افسران شامل تھے۔
اس گروپ نے فوجی ہیڈ کوارٹرز میں ترک فوج کے سربراہ جنرل حلوسی اکار سمیت دیگر جرنیلوں کو یرغمال بنا لیا۔ دارالحکومت انقرہ کے داخلی اور خارجی راستے بند کر کے ایوان صدر کا گھیراؤ کر لیا گیا۔ جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں نے نچلی پروازیں کیں، اس دوران فائرنگ اور شدید گولہ باری کی آوازیں اور انقرہ میں دھماکے بھی سنے گئے، سرکاری ٹی وی کو بند کر دیا گیا، فوج نے ترک پارلیمنٹ کو بھی گھیرے میں لے لیا، فوجی ہیڈ کوارٹرز کے قریب دھماکے سنے گئے، پولیس ہیڈ کوارٹر کے قریب بھی فائرنگ ہوتی رہی، فوجی ٹینک اتاترک ائیرپورٹ میں داخل ہو گئے، تمام ائیرپورٹس پر فوج کے قبضے کے بعد پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔
انقرہ میں سیکیورٹی سخت کر کے علاقے میں ٹینک لگا دیے گئے۔ سیکیورٹی فورسز نے آبنائے باسفورس پر ایشیا کو یورپ سے ملانے والے دو پل عارضی طور پر بند کر دیے۔ ملک بھر میں یوٹیوب، ٹوئیٹر، فیس بک بھی بند کر دی گئیں۔ حکمران جماعت اے کے کے دفتر پر بھی باغی فوجیوں نے قبضہ کر لیا۔ ترک سرکاری میڈیا نے ترکی میں ''امن کونسل'' کے برسراقتدار آنے کا اعلان کیا جو عوام کے حقوق کا مکمل تحفظ کریگی اور نیا آئین تیار کیا جائے گا لیکن محض اعلانات ہی ثابت ہوئے کیونکہ ترک صدر طیب اردگان نے موبائل فون پر خطاب کیا اور ترک عوام سے اپیل کی کہ وہ اس فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیں اور سڑکوں پر آ جائیں۔
ترک صدر کا پیغام سامنے آنے کے بعد ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور فوجی ٹینکوں کے آگے آ کر انھیں وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے آنے سے روک دیا۔ ادھر ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے فوج کی غیرقانونی کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فوج کے ایک گروپ نے اقتدار پر قبضہ کیا جسے اس حرکت کی بھاری قیمت چکانا ہو گی، جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ فوجی بغاوت نہیں ہے اور مسلح افواج بھی اس اقدام کا حصہ نہیں۔
ترک وزیر انصاف نے کہا کہ فوجی بغاوت دائیں بازو کے رہنما فتح اللہ گولن کے کہنے پر کی گئی۔ واضح رہے متعدد کتابوں کے مصنف فتح اللہ گولن گزشتہ پندرہ سال سے جلاوطن ہیں جب کہ ان کی طرف سے اس بغاوت سے کسی بھی قسم کے تعلق کی سختی سے تردید کی گئی ہے۔ ترک وزیردفاع کا کہنا ہے کہ چھوٹے سے گروپ نے بغاوت کی کوشش کی جس کا فوج سے کوئی تعلق نہیں۔ ترک فرسٹ آرمی ڈویژن کے کمانڈر کا کہنا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا باغی گروپ ہے، پریشانی کی کوئی بات نہیں۔
کئی علاقوں سے باغی فوج کا قبضہ ختم کرا دیا گیا ہے، گرفتار کیے جانے والے باغیوں میں 29 کرنل اور 3 جنرل شامل ہیں۔ 200 باغیوں نے ہتھیار پھینک دیے۔ سرکاری سیکیورٹی سے جھڑپوں میں 161 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے جب کہ تین ہزار فوجیوں کو بغاوت کے الزام گرفتار کر لیا گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گذشتہ نصف صدی کے دوران ترکی میں تین بڑی فوجی بغاوتیں ہو چکی ہیں۔ 1960ء میں حکومت کا تختہ الٹ کر وزیر اعظم عدنان مندریس کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ بعد میں بھی کئی مرتبہ ترکی میں فوج برسراقتدار آئی۔
طیب اردگان 2003ء سے اقتدار میں ہیں، انھوں نے 2014ء میں وزارت عظمیٰ چھوڑ کر صدارت سنبھالی تھی، وہ صدارتی نظام کے حامی ہیں اور نیا آئین بنانا چاہتے تھے، وہ فوجی مداخلت کے بھی شدید مخالف ہیں۔ بہرحال ترکی میں فوج کے ایک گروپ کی بغاوت ناکام ہو گئی ہے اور جمہوریت کو فتح حاصل ہو گئی ہے تاہم اس سے اس حقیقت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ترکی میں سب ٹھیک نہیں ہے۔ جمہوریت پسندوں کو اس ناکام بغاوت سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لے کر معاملات کو درست کرنے کی سعی کرنی چاہیے ورنہ آنے والے وقت میں حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
ترکی میں فوج کے ایک گروپ نے بغاوت کرتے ہوئے صدر رجب طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کر دیا تاہم صدر طیب اردگان کی اپیل پر جمہوریت بچانے کے لیے ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور فوجی ٹینکوں کے آگے کھڑے ہو گئے اور ٹینکوں کو وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھنے سے روک دیا جس کے بعد نائب وزیراعظم نے فوجی بغاوت کچلے جانے کا دعویٰ کر دیا جب کہ حکومت کی حامی فوج اور باغیوں کے درمیاں لڑائی شروع ہونے کی خبریں بھی آنے لگی ہیں۔
باغیوں کے ایک ہیلی کاپٹر کو مار گرایا گیا، کچھ باغی یونان چلے گئے ہیں اور ترک حکومت نے یونانی حکومت سے ان کی واپسی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ترک فوج کے ایک گروپ نے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب بغاوت کرتے ہوئے ایوان صدر سمیت ملک کے اہم مقامات کا کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کی۔ سڑکوں پر فوجی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ ابتدائی خبروں کے مطابق فوج کے ایک مسلح گروپ نے اقتدار پر قبضہ کیا جس میں زیادہ تر کرنل رینک کے افسران شامل تھے۔
اس گروپ نے فوجی ہیڈ کوارٹرز میں ترک فوج کے سربراہ جنرل حلوسی اکار سمیت دیگر جرنیلوں کو یرغمال بنا لیا۔ دارالحکومت انقرہ کے داخلی اور خارجی راستے بند کر کے ایوان صدر کا گھیراؤ کر لیا گیا۔ جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں نے نچلی پروازیں کیں، اس دوران فائرنگ اور شدید گولہ باری کی آوازیں اور انقرہ میں دھماکے بھی سنے گئے، سرکاری ٹی وی کو بند کر دیا گیا، فوج نے ترک پارلیمنٹ کو بھی گھیرے میں لے لیا، فوجی ہیڈ کوارٹرز کے قریب دھماکے سنے گئے، پولیس ہیڈ کوارٹر کے قریب بھی فائرنگ ہوتی رہی، فوجی ٹینک اتاترک ائیرپورٹ میں داخل ہو گئے، تمام ائیرپورٹس پر فوج کے قبضے کے بعد پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔
انقرہ میں سیکیورٹی سخت کر کے علاقے میں ٹینک لگا دیے گئے۔ سیکیورٹی فورسز نے آبنائے باسفورس پر ایشیا کو یورپ سے ملانے والے دو پل عارضی طور پر بند کر دیے۔ ملک بھر میں یوٹیوب، ٹوئیٹر، فیس بک بھی بند کر دی گئیں۔ حکمران جماعت اے کے کے دفتر پر بھی باغی فوجیوں نے قبضہ کر لیا۔ ترک سرکاری میڈیا نے ترکی میں ''امن کونسل'' کے برسراقتدار آنے کا اعلان کیا جو عوام کے حقوق کا مکمل تحفظ کریگی اور نیا آئین تیار کیا جائے گا لیکن محض اعلانات ہی ثابت ہوئے کیونکہ ترک صدر طیب اردگان نے موبائل فون پر خطاب کیا اور ترک عوام سے اپیل کی کہ وہ اس فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیں اور سڑکوں پر آ جائیں۔
ترک صدر کا پیغام سامنے آنے کے بعد ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور فوجی ٹینکوں کے آگے آ کر انھیں وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے آنے سے روک دیا۔ ادھر ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے فوج کی غیرقانونی کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فوج کے ایک گروپ نے اقتدار پر قبضہ کیا جسے اس حرکت کی بھاری قیمت چکانا ہو گی، جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ فوجی بغاوت نہیں ہے اور مسلح افواج بھی اس اقدام کا حصہ نہیں۔
ترک وزیر انصاف نے کہا کہ فوجی بغاوت دائیں بازو کے رہنما فتح اللہ گولن کے کہنے پر کی گئی۔ واضح رہے متعدد کتابوں کے مصنف فتح اللہ گولن گزشتہ پندرہ سال سے جلاوطن ہیں جب کہ ان کی طرف سے اس بغاوت سے کسی بھی قسم کے تعلق کی سختی سے تردید کی گئی ہے۔ ترک وزیردفاع کا کہنا ہے کہ چھوٹے سے گروپ نے بغاوت کی کوشش کی جس کا فوج سے کوئی تعلق نہیں۔ ترک فرسٹ آرمی ڈویژن کے کمانڈر کا کہنا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا باغی گروپ ہے، پریشانی کی کوئی بات نہیں۔
کئی علاقوں سے باغی فوج کا قبضہ ختم کرا دیا گیا ہے، گرفتار کیے جانے والے باغیوں میں 29 کرنل اور 3 جنرل شامل ہیں۔ 200 باغیوں نے ہتھیار پھینک دیے۔ سرکاری سیکیورٹی سے جھڑپوں میں 161 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے جب کہ تین ہزار فوجیوں کو بغاوت کے الزام گرفتار کر لیا گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گذشتہ نصف صدی کے دوران ترکی میں تین بڑی فوجی بغاوتیں ہو چکی ہیں۔ 1960ء میں حکومت کا تختہ الٹ کر وزیر اعظم عدنان مندریس کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ بعد میں بھی کئی مرتبہ ترکی میں فوج برسراقتدار آئی۔
طیب اردگان 2003ء سے اقتدار میں ہیں، انھوں نے 2014ء میں وزارت عظمیٰ چھوڑ کر صدارت سنبھالی تھی، وہ صدارتی نظام کے حامی ہیں اور نیا آئین بنانا چاہتے تھے، وہ فوجی مداخلت کے بھی شدید مخالف ہیں۔ بہرحال ترکی میں فوج کے ایک گروپ کی بغاوت ناکام ہو گئی ہے اور جمہوریت کو فتح حاصل ہو گئی ہے تاہم اس سے اس حقیقت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ترکی میں سب ٹھیک نہیں ہے۔ جمہوریت پسندوں کو اس ناکام بغاوت سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لے کر معاملات کو درست کرنے کی سعی کرنی چاہیے ورنہ آنے والے وقت میں حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔