مردم شماری … مزید تاخیر نہ کی جائے

آئین کے تحت ہر دس سال بعد مردم شماری لازمی ہےوفاقی حکومت اب اس کام میں تاخیر نہ کرے


Editorial July 17, 2016
فوج کی عدم دستیابی کی وجہ سے مشترکہ مفادات کونسل نے اسے موخرکر دیا۔ فوٹو: فائل

لاہور: ملکی امور کو نمٹانے میں سرخ فیتہ کی روایت فی زمانہ اس قدر پختہ ہو چکی ہے کہ اہم قومی ایشوز کو ٹالنے کا کلچردرد سر بن چکا ہے۔ مردم شماری کا معاملہ اسی فسانے کا افسوسناک باب بن چکا ہے چنانچہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے دو ہفتے میں وفاقی حکومت سے مردم شماری کا ٹائم فریم طلب کر لیا ہے۔

واضح رہے حکومت نے مردم شماری سے متعلق رپورٹ عدالت عظمیٰ میں اس استدلال کو بنیاد بناتے ہوئے جمع کرا دی کہ فوج کی مصروفیات کی وجہ سے مردم شماری مین تاخیر ہو رہی ہے۔ فوج کی یقین دہانی کے بعد نئی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔

وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ فیض الرحمان کے ذریعے جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق مردم شماری کے لحاظ سے ملک کو ایک لاکھ67 ہزار یونٹس پر مشتمل کیا گیا ہے جس میں ایک یونٹ دو سو سے ڈھائی سو گھرانوں پر مبنی ہے اس لیے ایک یونٹ کی مردم شماری کے لیے شمار کنندہ کے ساتھ فوج کے جوان رکھنا لازمی ہیں جب کہ شمارکنندہ دو لاکھ سے زائد ہیں تاہم مردم شماری سے متعلق از خود نوٹس کیس میں عدالت نے حکومتی رپورٹ سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو مردم شماری کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں، مردم شماری آئینی ذمے داری ہے، حکومت اپنی ذمے داری پوری کرے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے حکومت آئینی ذمے داریوں کی ادائیگی میں غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے، مردم شماری آئین کا تقاضا ہے لیکن آئین کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، آئین کو خوبصورتی کے ساتھ الماریوں میں سجا دیا گیا لیکن عمل نہیں ہوتا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے حکومت کی طرف سے دو رپورٹس پیش کیں اور کہا کہ آئین کے تحت مردم شماری کا انعقاد وفاقی حکومت اور مشترکہ مفادات کونسل کی ذمے داری ہے، فوج کی عدم دستیابی کی وجہ سے مشترکہ مفادات کونسل نے اسے موخرکر دیا۔

عدالت نے حکومتی رپورٹس کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی ہدایت کی ہے۔ آن لائن کے مطابق جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا آئین میں کہاں لکھا ہے مردم شماری کے لیے فوج کی ضرورت ہے۔ یاد رہے پہلی مردم شماری1951ء میں ہوئی جس کے بعد 1981-1972-1961اور1998ء میں آخری مردم شماری کرائی گی۔ آئین کے تحت ہر دس سال بعد مردم شماری لازمی ہے۔ وفاقی حکومت اب اس کام میں تاخیر نہ کرے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔