ایدھی انقلابی مولانا 2
اپنے سینٹر کے درجنوں لاوارث بچوں کو ہر ہفتے نہلانا ایدھی صاحب کی ذمے داری تھی۔
ISLAMABAD:
اپنے سینٹر کے درجنوں لاوارث بچوں کو ہر ہفتے نہلانا ایدھی صاحب کی ذمے داری تھی۔ وہ مقررہ دن اور وقت پر سینٹر پہنچ جاتے اور ننگ دھڑنگ بچوں کے سر اور بدن پر پانی سے بھرے ہوئے جگ لوٹتے۔ ان لمحوں میں بچوں کی خوشی اور ان کا شور شرابہ دیکھنے اور سننے کی چیز ہوتا تھا۔ اس کے بعد وہ ظہر کی نماز پڑھنے کھڑے ہو جاتے ۔ ان پر اعتراض کیا جاتا کہ یہ کیسا شخص ہے جو نجس اور ناپاک کپڑوں میں وضو کے بغیر کھڑا ہو جاتا ہے اور نماز پڑھتا ہے۔ ایدھی کا کہنا تھا کہ ان بچوں کو نہلانے دھلانے میں اگر میرا لباس گیلا ہو جاتا ہے تو کیا وہ نجس ہو جاتا ہے؟
انھوں نے اپنی زندگی انسانی تماشہ دیکھتے ہوئے اور اس کا ایک حصہ بن کر گزار دی۔ کوئی ان سے ان کے یہاں رہنے والے یا کام کرنے والے غیر مسلموں کے بارے میں سوال کرتا تو وہ چراغ پا ہو جاتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر بچہ اس دنیا میں انسان پیدا ہوا ہے۔ یہ تو ہم ہیں جو اسے دین اور دھرم کے نام پر بانٹ دیتے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ درد کا کوئی دھرم نہیں ہوتا اور بھوک ایک ایسی بیماری ہے جو بھکاری اور کروڑ پتی کو، ہندو اور مسلمان کو، شیعہ اور سنی کو، عورت اور مرد کو، ایک طرح لگتی ہے۔
کچھ دنوں پہلے ان کے ایک سینٹر میں ڈاکا پڑا۔ ڈکیت منوں زیور اور کروڑوں روپے لوٹ کر لے گئے۔ پہلے تو انھیں اس بات کا یقین ہی نہیں آیا کہ کوئی غریبوں اور ناداروں کی اس رقم پر بھی ڈاکا ڈال سکتا ہے جو انھوں نے گلی گلی جھولی پھیلا کر اکٹھا کی تھی اور جب اس بات پر یقین آیا تو وہ کلیجہ تھام کر رہ گئے۔
انھوں نے دھتکاری ہوئی عورتوں کے لیے 'اپنا گھر' قائم کیا۔ انھوں نے مزاروں اور زیارت گاہوں پر ایسی متعدد عورتیں اور مرد دیکھے تھے جو اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے اور جنھیں ان کے بیٹے بھائی بھتیجے ان مزاروں پر بے نام و نشان چھوڑ گئے تھے۔ لنگر سے انھیں کھانا مل جایا کرے گا اور وہ بھوکوں نہیں مریں گے۔ انھیں بے یارو مددگار چھوڑ کر جانے والے اسے اپنا 'انسانی سلوک' خیال کرتے تھے۔
ایدھی صاحب ان اعلیٰ عہدیدار یا مال دار بیٹوں سے بھی واقف تھے جو اپنی ماؤں کو ان کے 'اپنا گھر' میں چھوڑ جاتے۔ ایسے میں یہ لوگ نہایت مظلوم صورت بنا کر کہتے کہ صاحب کیا کریں ہمارے ملنے والوں کے سامنے کسی بھی حال میں آ جاتی ہیں۔ قیمتی صوفوں اور قالینوں پر پیشاب اور قے کر دیتی ہیں۔ بچے انھیں دیکھنے کے لیے تیار نہیں ۔ ان کے لیے ملازم رکھیں تو انھیں بھگا دیتی ہیں۔ ہم ان کے گزر بسر کے لیے باقاعدگی سے رقم بھیجیں گے۔ پھر جانے والے کبھی پلٹ کر نہ آتے اور رقم آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
ان سے ملنے کے لیے آنیوالے قیمتی لباس اور ہزاروں کے جوتے پہنے ہوئے ہوتے لیکن ایدھی کو کبھی ان پر رشک نہ آیا۔ نفس مطمئنہ کی اعلیٰ مثال دیکھنی ہو تو ایدھی صاحب پر ایک نگاہ ڈال لینا ہی کافی تھا۔ انھیں انگریزی نہیں آتی تھی۔ جہاں سے بھی کوئی گجراتی رسالہ یا اخبار مل جائے، وہ اسے شوق سے پڑھتے۔ تہمینہ درانی جن کا تعلق ہماری اشرافیہ سے ہے اور جو مائی فیوڈل لارڈ، لکھ کر مشہور ہوئیں۔ انھوں نے ایدھی کا زندگی نامہ تحریر کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ان کی نہایت مصروف زندگی میں سے 40 گھنٹے چرا لیے۔ بعد میں ان ہی 40 گھنٹوں کا انٹرویو انگریزی میں ایدھی صاحب کی خودنوشت 'اندھے کو ایک آئینہ' کے عنوان سے شائع ہوا اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا۔
میری عزیز دوست ششی سنگھ 90ء کی دہائی میں چینل فور سے وابستہ تھیں۔ ان کے ساتھ بی بی سی میں خوش باش دن گزرے تھے، ایک روز ان کا ہانپتا کانپتا فون آیا۔ ''میں دو دن بعد کراچی پہنچ رہی ہوں۔ تمہارے ایدھی صاحب کا ایکسکلوسیو انٹرویو کرنا ہے۔ تم ان سے وقت لے لو۔'' حکم ان کا نادر شاہی تھا اور شاید انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ایدھی صاحب سے وقت ملنا کس قدر مشکل ہے۔ ہو سکتا ہے وہ کراچی میں ہونے والے کسی فساد کے مقتولین کو نہلا رہے ہوں، یا بوسنیا چلے گئے ہوں اور وہاں جنگ زدہ علاقے میں محصورین کو خوراک اور دوائیں پہنچا رہے ہوں۔
خدا خدا کر کے ایدھی سے انٹرویو کا وقت طے ہوا، ششی آئیں، ہمارے گھر رکیں اور ایدھی سے مل کر ان کی فدائی ہو گئیں۔ ایدھی صاحب نے انھیں اپنی خود نوشت دی جس پر اردو، انگریزی اور گجراتی میں لکھا ہوا ہے کہ 'انسان سے محبت کریں'۔ ششی اس کتاب کو پڑھ کر میرے لیے چھوڑ گئیں۔ میں نے اسے پڑھا اور یہی سوچتی رہی کہ وہ ہمارے یہاں کیسے پیدا ہو گئے جہاں چوہا دوڑ لگی ہے اور ہر شخص پلک جھپکتے کروڑ پتی اور پھر ارب پتی بن جانا چاہتا ہے۔
انسانوں کے پیروں میں چبھے ہوئے درد و اندوہ کے کانٹے چننے کا سبق انھیں بچپن سے ہی ان کی ماں نے سکھایا۔ وہ انھیں جیب خرچ 2 پیسے دیتیں لیکن بیٹے کو ہدایت تھی کہ ایک پیسے پر تمہارا حق ہے لیکن دوسرا پیسہ تمہارا نہیں، اسے کسی ضرورت مند پر خرچ کرو۔ وہ اسکول سے واپس آتے تو ماں انھیں ان گھرانوں میں بھیجتیں جو شریف تھے، سفید پوش تھے اور کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو اپنی توہین سمجھتے تھے۔
گھر بیٹھی ماں، بیٹے کے ہاتھوں کسی کو راشن، کسی کو رقم اور کسی کو دوا بھجواتی لیکن اس طرح کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ آیندہ زندگی میں عبدالستار ایدھی کو خدمت خلق کا جو کام کرنا تھا، اس کی تربیت انھیں اس وقت ان کی ماں نے دی جب وہ آٹھ دس برس کے تھے۔ یہ ایک عام کہاوت ہے کہ کسی بھی کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن ایدھی کی زندگی کی تمام کامیابیاں دو عورتوں کی مرہون منت رہیں۔ پہلی ان کی والدہ تھیں جنھوں نے ان کے سینے میں انسانی درد کا چراغ جلایا اور دوسری ان کی بیوی بلقیس جنھوں نے اپنی بھری جوانی ایدھی کے مشن کی نذر کر دی۔
آج ایدھی ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن انھوں نے جس ایمبولینس سروس کا آغاز ایک کھڑتل گاڑی سے کیا تھا، وہ آج پاکستان کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس ہے۔ ان کی دوڑتی بھاگئی ایمبولینسوں کو دیکھ کر مجھے وہ رات یا دآ جاتی ہے جب میں سول اسپتال سے اپنے والد کی میت لے کر گڈوانی اسٹریٹ پر اپنے فلیٹ جا رہی تھی۔ سینٹ جان ایمبولینس کی ایک کھٹارا گاڑی جو ریڈیو پاکستان تک پہنچ کر بند ہو گئی تھی۔ رات کے پچھلے پہر میں ان کے ساتھ ایمبولینس میں بیٹھی رہی تھی اور کرسچن ڈرائیور مجھے تسلیاں دے کر الٹے پیروں سول اسپتال چلا گیا تھا تا کہ دوسری گاڑی لے کر آئے۔ ان کی میت دوسری ایمبولینس میں منتقل کرے اور ہم ایک بار پھر گھر کی طرف روانہ ہوں جو وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا۔
اس وقت ایدھی ایمبولینس کا نام و نشان نہیں تھا۔ مجھے بعد میں اکثر خیال آیا کہ میں ایدھی صاحب سے کہوں کہ کاش آپ کی یہ ایمبولینسیں کراچی میں دوڑ رہی ہوتیں تو مجھے اس رات کی تنہائی میں بے یارو مددگار سڑک پر بیٹھنا نہ پڑتا اور نہ دوسری ایمبولینس آنے کے بعد انھیں ڈرائیور کی مدد سے دوسری ایمبولینس میں منتقل کرنے کی ذہنی اذیت جھیلنی پڑتی۔90ء کی دہائی میں انسانوں کے اس خدمت گزار کو اسلام آباد کے ایک امام مسجد کا خط موصول ہوا جس میں انھیں دعوت دی گئی تھی کہ وہ اسلام کی راہ سے بھٹک گئے ہیں، اس لیے وہ اسلام آباد آ کر ان کے دست حق پرست پر نئے سرے سے اسلام قبول کریں۔
عبدالستار ایدھی کی رخصت کا سوگ سارے ملک نے منایا۔ ان کا جنازہ پاکستانی پرچم میں لپٹا ہوا توپ گاڑی پر گیا اور ان کی نماز جنازہ میں صدر مملکت اور پاکستان کے دوسرے اکابرین شامل تھے۔ ان کی یاد میں کراچی اور لاہور کے گرجا گھروں میں شمعیں جلائی گئیں اور مندروں میں پوجا پاٹ ہوئی۔ دو جوڑوں میں زندگی گزار دینے والے کی شاندار رخصت پر ان کے دشمن انگاروں پر لوٹ گئے ہوں گے اور وہ بلقیس جس نے اپنی ساری جوانی اور تمام ارمان ایک مولوی کے خوابوں پر نچھاور کر دیے، آج کیا محسوس کرتی ہوں گی۔ اس کا ہم کس طرح اندازہ کر سکتے ہیں۔
ہم اپنی خواہشوں کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں، جب کہ ایدھی نے تمام زندگی کسی حادثے میں ہلاک ہونے یا فسادات اور جھگڑے میں قتل ہوجانے والوں کی پھٹی اور ادھڑی ہوئی چپلیں پہنیں۔ اسی شخص کے قدموں میں پاکستانی صدر، وزیروں اور گورنروں کے سر جھکے ہوئے تھے اور انھیں 19 توپوں کی سلامی دی جا رہی تھی۔