ملک چھوڑ جانے والے

ہمارے بڑے بڑے افسر بلا تکلف نوکری چھوڑ کر کسی دوسری مفید جگہ پر چلے جاتے ہیں


Abdul Qadir Hassan July 17, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: پرانی باتیں دہرانے کو جی نہیں چاہتا اس سے مجھے اپنی وہ زندگی یاد آ جاتی ہے جو گزر گئی اور مجھے بھی 'گزار' گئی۔ قدرے اطمینان کی صرف یہ بات ہے کہ جو گزر گئی وہ بے سود نہیں گئی اور مجھ سے اختلاف کرنے والوں کے خطوط گواہ ہیں کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ بے سود نہیں گیا۔ کسی دماغ یا دل سے ٹکرایا ہے اور اس میں کچھ حرکت پیدا کی ہے۔

بس یہی حرکت ہی میرا نفع ہے اور ایک ایسی یافت ہے جو مجھے لکھتے رہنے پر اکساتی اور گرماتی ہے ورنہ گرد و پیش کے جو حالات ہیں ان کو سامنے رکھ کر تو خاموشی ان کا بہترین ردعمل ہے۔ کچھ پہلے کی بات ہے کہ لاہور کی ایک بڑی شخصیت مولانا صلاح الدین احمد کے ایک بڑے دانش ور اور عالی مرتبت صاحبزادے سے ملاقات ہوئی تو یہ ملاقات ان کے سول سروس کے ایک اعلیٰ عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد ہوئی جو ایک بڑا واقعہ تھا کہ ایک اتنا بڑا افسر بخوشی مستعفی ہو گیا۔

انھوں نے گفتگو کے دوران بتایا کہ آپ لوگ اور ہم سب پاکستانی یاد رکھیں کہ ہم کسی انتظامی بحران سے گزر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں اعلیٰ انتظامی صلاحیتیں رکھنے والوں کو شدید قلت پیدا ہو چکی ہے اور ان لوگوں کے بغیر کوئی ملک نہیں چل سکتا۔ ان کی اس بات کے بعد میں نے کئی ایسے واقعات دیکھے جو محض کسی بدانتظامی کی وجہ سے سامنے آئے حالانکہ ایک معمولی درجے کا افسر بھی انھیں روک سکتا تھا اور جو صاحب یہ بات کہہ رہے تھے وہ خود ایک اونچے منصب سے مستعفی ہو گئے تھے اور جب ان کی توجہ ان کی بات کی روشنی میں انتظامی خلاء کی طرف دلائی گئی جو اس وقت ملک کے مختلف حصوں اور شعبوں میں نمایاں ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ آپ میرے استعفیٰ کا ذکر کر رہے ہیں لیکن کسی ایک فرد کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یہاں تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے بڑے بڑے افسر بلا تکلف نوکری چھوڑ کر کسی دوسری مفید جگہ پر چلے جاتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ ان کو اس مقام پر لانے میں قوم نے کتنی محنت اور خرچ کیا ہے اور انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ قوم کو اس کی محنت اور خرچ کا معاوضہ ادا کیے بغیر اسے چھوڑ جائیں۔

یہ صورتحال آپ نے اکثر دیکھی ہو گی کہ کوئی لائق فائق افسر کسی بہتر ملازمت کے لیے مستعفی ہو گیا یا ملک سے باہر چلا گیا۔ میں نے تو ایسے بلند مرتبہ افسروں کو بھی دیکھا ہے جو نہ صرف خود بلکہ اپنے خاندان کو بھی بیرون ملک لے گئے، خوب مال کمایا اور بچوں کو اچھی تعلیم دلوائی جس کے بعد ان میں سے اکثر تو ملک سے باہر ہی رہ گئے یعنی پاکستان جیسے غریب ملک کے خرچ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر اس تعلیم کو بیچ دیا اور ملک سے باہر چلے گئے یا ملک سے باہر ہی رہ گئے۔

ہم عام پاکستانی یہ سب دیکھتے رہ گئے۔ ان میں سے اگر کسی نے بڑی مہربانی کی اور ملک پروری کا ثبوت دیا تو اپنے کسی دوست رشتہ دار کو بھی بیرونی ملک لے گئے اس طرح نہ صرف خود اس ملک کی خدمت سے منکر ہو گئے بلکہ اپنے ساتھ کسی دوسرے اہل پاکستانی کو بھی لے گئے یعنی دہرا نقصان کیا۔ میں یہ سب اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ بھی اس پر نظر رکھیں اور پاکستان کی افرادی دولت کی حفاظت کریں جو بڑی مشکل سے دستیاب ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ اپنے ملک کے اندر کسی اچھی ملازمت کے وہ مواقع نہیں جو ملک سے باہر ہیں۔ یہ غیرملکی زرمبادلہ بذات خود ایک بڑی کشش ہے لیکن مہربانی کر کے ملکی مفاد کو مقدم سمجھا جائے۔

میں اس ڈاکٹر کو دیکھتے ہی اس کے سامنے جھک جاتا ہوں جس کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ اسے بیرون ملک ایک بڑی ہی پرکشش ملازمت مل رہی تھی مگر اس نے اپنے ملک کا قرض بھی اتارنا تھا اور وہ ملک کے اندر رہ کر پاکستانیوں کی خدمت سے ہی اتر سکتا تھا۔ یہ ایک قابل اور مقبول ڈاکٹر تھا اور ٹھیک ٹھاک فیس وصول کرتا تھا۔ کسی نے شکایت کی کہ ڈاکٹر صاحب آپ کی فیس زیادہ ہے کچھ مہربانی کریں۔ ڈاکٹر نے جواب دیا کہ میری ماں کے زیوروں کا قرض ابھی مجھ پر باقی ہے جو میری پڑھائی پر خرچ ہو گئے ہیں اس قرض سے فارغ ہو لوں تو پھر آپ لوگوں کا علاج مفت کیا کروں گا۔

اس ملک کے والدین اور خود اس ملک نے اپنے بچوں پر بہت کچھ لگا دیا ہے اور ان کی تعلیم پر کنجوسی نہیں کی۔ اب کیا یہ اولاد کا فرض نہیں کہ وہ یہ قرض اتارنے کی کوشش کرے اور اپنے والدین کا حق ادا کرے جو ان کی دعاؤں اور نیک تمناؤں کے سوا بھی بہت کچھ ہے۔ بچوں کی تعلیم پر والدین اپنا سب کچھ لگا دیتے ہیں اور بچوں سے بھی کچھ امیدیں رکھتے ہیں۔ آپ یقین کیجیے کہ بہاولپور کا ایک مشہور کامیاب ڈاکٹر اپنی میز پر شیشے کے ایک ڈبے میں ایک چیز رکھ دیتا تھا اور اس کی بہت حفاظت کرتا تھا۔

یہ اس کی ماں کا ایک زیور تھا جو اسے بے حد عزیز تھا کیونکہ اس جیسے دوسرے زیوروں سے اس نے تعلیم حاصل کی تھی اور والدہ کو ان سے محروم کر دیا تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک عورت کے لیے زیور کی کیا حیثیت ہوتی ہے۔ بہرکیف زندگی دست بدست اس طرح گزرتی ہے اور چلتی ہے۔ میں خوش قسمتی سے اس ڈاکٹر سے ملا تو معلوم ہوا کہ یہ ڈاکٹر اپنی ماں کا کس قدر ممنون ہے میں نے اس کا ذکر کر دیا تو وہ ناخوش ہو گئے اور کہا کہ ہم آپ سب اپنے والدین کی نشانی اور ان کی قربانیوں کے ممنون ہیں اور جن سخت حالات میں انھوں نے ہم پر مہربانی کی اب ہمارے حالات تو ان کی دعاؤں سے بہت بہتر ہیں اور ہمیں بھی ہمارا فرض یاد دلاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں