انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

بے سہاروں کو اس نے سہارا دیا، بے لباسوں کو لباس، بے گھروں کو چھت، یتیموں کو ماں اور باپ…

Shireenhaider65@hotmail.com

جانے کس عمر سے وہ نام سنا اور کبھی اس بات کی دریافت بھی نہ کی تھی کہ اس نام کا مطلب کیا تھا، کیونکہ ہم اس نام کا مطلب ہمیشہ دردمند ہی سمجھتے رہے... وہ استعارہ تھا دردمندی کا، سخاوت کا، ہمدردی کا، بے لوث خدمت کا، رفو گری کا، چارہ گر تھا، انسانیت سے محبت کرنے والا اور انسانوں میں پیار بانٹنے والا۔

بے سہاروں کو اس نے سہارا دیا، بے لباسوں کو لباس، بے گھروں کو چھت، یتیموں کو ماں اور باپ... اس نے ہزاروں بے ناموں کو تاریک راہوں میں مارے جانے سے بچایا اور اس کے'' جھولے '' میں آ جانے والا نہ صرف زندگی پا گیا بلکہ اسے ایدھی جیسا باپ بھی مل گیا ۔ وہ اپنے نام کی تفسیر بن گیا، عبدالستار، اس کا بندہ جو عیبوں کو ڈھکتا اور ہمارے رازوں کو مشتہر نہیں کرتا!!

ہم ایک محلے میں رہنے ہوئے بھی فرقوں اور ذاتوں کے ناموں پر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں مصروف ہیں، وہ فرقوں سے ماورا تھا... انھوں نے اپنے ہاتھوں سے جب کوئی لاوارث لاش اٹھائی تو نہ اس کے مذہب کا سوچا نہ اس کے اچھے یا برے اعمال کا، ہم میں سے کون ہے جو ایسے لوگوں کی میتوں کو ان کی آخری منزل تک پہنچائے جن کے بارے میں یہ بھی شک ہو کہ شاید وہ کوئی چور یا ڈاکو ہو، کوئی قاتل ہو، کوئی مجرم ہو یا کسی اور مذہب سے اس کا تعلق ہو؟ کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا مگر ایدھی!

اس نے خود کو مذہب، قومیت سے بہت بالاتر کر لیا تھا اس لیے اس کی خدمات کا دائرہ اس کے اپنے ملک سے نکل کر دور تک پھیلا ہوا ہے۔ ایک انسان کی ذاتی کوشش سے آغاز ہونے والی، ایک پرانی وین سے ایمبولینس بنائی جانے والی سروس کا دائرہ اتنا وسیع ہوا کہ وہ دنیا کی وسیع ترین ایمبولینس سروس ٹھہری۔ اس میں اس کی نیت کا خلوص سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے، اس نے اپنی ذات کو مٹی کر دیا، خود کو انسان بھی نہ سمجھا، اپنے خونی رشتوں سے زیادہ اس نے روحانی رشتے بنائے اور آج ملک کے لاکھوں بچے اس لیے رو رہے ہیں کہ وہ ایک شخص کے دنیا سے پردہ کر لینے سے یتیم ہوئے ہیں۔

ان کے اپنے پوتے بلال کی وفات نو جولائی 1992 کو اس وقت ہوئی جب وہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے ٹرینوں کے حادثے کے امدادی کاموں کے لیے سکھر کی طرف رواں تھے، کوئی مشکل نہ تھا کہ ہیلی کاپٹر کا رخ موڑ دیا جاتا اور انھیں واپس کراچی چھوڑ دیا جاتا، ان کی امدادی ٹیمیں تو بہر حال وہاں پہنچ کر اپنے کام میں مصروف تھیں، مگر سلام ہے اس کی عظمت کو کہ اس نے اس وقت حادثے کے متاثرین کے درمیان ہونا اہم جانا اور درد کے اس انتہائی وقت میں ان لوگوں کی لاشیں اٹھائیں جن سے ان کا کوئی خونی رشتہ نہ تھا اور اسی وقت اس کے پوتے کی تکفین و تدفین اس کی غیر موجودگی میں ہوئی... ہے ہم میں سے کسی کا ایسا حوصلہ؟

کتنے ہی لوگ اس ملک میں این جی اوز چلا رہے ہیں، ایک بے سہارا کو سہارا دے دیں ، ایک کھوئے ہوئے بچے کو تلاش کر لیں تو اس کا اس قدر ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، پبلسٹی کرتے ہیں، کیونکہ ان کا مقصد ذاتی نمود و نمائش ہوتا ہے۔ کسی بچی کی عزت لٹتی ہے تو میڈیا اس کے اشتہار لگا کر اس بچی کو عمر بھر کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑتا... مگر ہم میں سے کسی کو بھی علم نہیں ہو گا کہ ولدیت کے خانے میں ایدھی کا نام رکھنے والے کتنے بچوں ، نوجوانوں اور عورتوں کے ساتھ وہ ہوا ہو گا کہ جس کے باعث وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل رہتے نہ معاشرے میں ایک فعال شخصیت کے طور پر جی سکتے، مگر ایدھی نے نہ صرف ان کو نام دیا بلکہ ایک مقام بھی دیا اور وہ عزت سے جی رہے ہیں، محنت سے کما کر کھا رہے ہیں اور ان کی تربیت ایسے ماں باپ کے زیر سایہ ہوئی ہے جنھوں نے صرف انسانوں اور انسانیت کو اہم جانا ہے، انھیں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔


فرشتے کیسے ہوتے ہوں گے... جب ہم سوچتے ہیں تو ہمارے دلوں میں سفید شفاف لباس میں ملبوس اور چمکتے چہروں والے روپ آتے ہیں ، مگر یقین کریں فرشتے، ملیشیا کے لباس اور پلاسٹک کے جوتوں میں بھی ملبوس ہو سکتے ہیں، ان کے چہرے حالات کی سختیوں، ناکافی خوراک اور مشقت کے باعث گہرے رنگ کے بھی ہو سکتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہڈیوں والے اور سخت بھی ہوسکتے ہیں اور ان فرشتوں کے نام ایدھی بھی ہو سکتے ہیں۔

اسے اللہ پر وہ توکل اور اعتماد تھا جو اس ملک میں تین تین بار کرسی اقتدار پر بیٹھنے اور اس ملک کو لوٹ کھسوٹ کر کھا جانے والوں کو بھی نہیں۔ جنھوں نے اس ملک کو کچھ دیا نہیں ، انھیں اس ملک پر اس کے طبی نظام پر اعتماد ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ وہ جس نے اس ملک میں لاکھوں ایمبولینس، ہزاروں ڈاکٹر اور مراکز صحت، ڈسپنسریاں اور ایمرجنسی حالات سے نمٹنے کا ایک پورا نیٹ ورک دیا، وہ اتنا تعلیم یافتہ بھی نہ تھا مگر اس نے ملک کو وہ نظام دیا جسے آج تک اس ملک کا کوئی سربراہ یا وزیر صحت بھی نہیں دے سکا ( جو کہ شاید پڑھے لکھے ہوتے ہوں گے)۔

اس کے آخری ایام میں جب وہ ہر سانس مشقت کی طرح لے رہا تھا اور اس کے بچنے کی امید کم نظر آ رہی تھی، ان دنوں بھی بہت سی '' اہم شخصیات '' نے اپنی پبلسٹی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ہر '' ملاقاتی '' اسے پیش کش کرتا کہ اس کا علاج ملک سے باہر بہترین اسپتالوں میں کروایا جا سکتا ہے مگر اسے معلوم تھا کہ اس کی ہر سانس معین ہے... اگر اسے جینا ہے تو اس ملک میں بھی اس کا علاج ہو جائے گا اور اسے باہر جا کر علاج اس لیے بھی نہیں کروانا تھا کہ اس کے علاج پر جو رقم خرچ ہوتی اس سے اس ملک میں جانے کتنے غریبوں کا علاج ہو جاتا۔

اس نے تو ایک کفن تک خود پر '' ضایع '' نہ کرنے کی وصیت کر رکھی تھی، وہ کیوں اس ملک کے عوام کا ٹیکسوں کا پیسہ خود پر خرچ کرنے دیتا، جس نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ دوسروں کے لیے امانت سمجھا، جس نے ہر سانس میں اللہ کا شکر ادا کیا ہو، جس نے اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو سمجھ لیا ہو، وہ ان سب فکروں سے ماورا ہو جاتا ہے کہ اس کی آخری سانس کب اور کہاں آنی ہے، جس نے موت کو عمر بھر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ہو اور خود کو سیکڑوں بار خطروںکے بیچ میں اتار دیا ہو، اسے کیا پروا کہ اس کا علاج اچھا ہو رہا ہے یا برا؟

اس کا جو استقبال اللہ تعالی کے دربار میں ہوا ہو گا وہ سب سے اہم ہے۔ اس شخص کی زندگی پر سلام ہے جو آج مر کر اس ملک کو بانجھ کر گیا ہے... نہ اس سے قبل کوئی اس ملک میں ایسا پیدا ہوا نہ اس کے بعد ہو گا، ایسے گل نرگس ہزاروں برس میں پیدا ہوتے ہیں اور ملک کا نام ان کی پہچان نہیں ہوتا بلکہ ان کا نام اور کام ملک کی پہچان بن جاتا ہے۔

اللہ تعالی ان کے نیکی کے عمل کو دوام دے... ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے ادارے کو تا قیامت سلامت رکھے اور ان کے تمام ممبران کے دلوں میں وہ جذبہ خدمت قائم رہے کہ جس کی ہمیں ضرورت ہے!! کیونکہ ملک میں ہر ہنگامی حالت میں ہم سب لوگ حکومت کی طرف نہیں بلکہ فوج اور ایسے خدمت گار اداروں کی طرف دیکھتے ہیں جو اپنی تشہیر کے شوق سے بالاتر ہو کر محض انسانی خدمت کے جذبے کے تحت کام کر رہے ہیں۔
Load Next Story