کراچی… شہر ناپرساں
کراچی میں رمضان المبارک اور عید کے قریب آتے ہی اسٹریٹ کرائمز نے پھر سے شہر کو جکڑ لیا
ISLAMABAD:
اس بات میں قطعی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کراچی شاید سب کا ہی سوتیلا ہے۔ محنت سب سے زیادہ کرتا ہے کما کر سب سے زیادہ دیتا ہے اس ملک نما پورے گھر (کراچی) کو چلاتا ہے مگر ہر قسم کی سہولیات، مراعات یا حقوق کا فقدان بھی صرف اسی شہر کا نصیب ہے۔
بجلی کا نظام درہم برہم، پانی نایاب، سرکاری اسپتالوں کی قلت اور موجودہ اسپتالوں میں سہولیات کا قحط ہے،کچرے کے ڈھیر، امن وامان مخدوش، لوٹ مار، چھینا جھپٹی عام، ٹرانسپورٹ ندارد، بے روزگاری۔ ملکی آمدنی کا 70 فیصد کما کردینے کے باوجود یہ شہر بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔صحت کی بات کی جائے تو اولین بات یہ ہے کہ پورے شہر میں گندگی کے انبار لگے ہوئے ہیں جس کی صفائی کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے بعد سے آج تک اختیار نہیں دیا گیا صاحب اختیارکو جس نے مجموعی صورتحال کو مزید ابترکردیا ہے۔ مقامی، صوبائی اوروفاقی حکومتوں نے خودکواس شہرکا وارث کبھی نہیں کہا۔ یہ ''شہر نامراد'' اب تک اپنے مسیحا کی تلاش میں ہے۔اس شہر میں تعلیم کا ذکر ہو تو یہ شعبہ بھی زوال پذیر ہے۔ سرکاری اسکولوں سے لے کریونیورسٹیز تک میں نظام درست نہیں ہے۔
سرکاری اسکولوں کی عمارتیں توقائم ہیں لیکن نہ ہی یہاں استاد ہیں نہ فرنیچر جس کی وجہ سے غریب بچہ تعلیم حاصل کرنے سے مکمل طور پر دور ہے۔ تعلیم کے شعبے میں ہزاروں نوکریاں رشوت کے عوض فروخت کردی گئیں، صرف تعلیم ہی کیا ہرشعبے میں کرپشن، لوٹ ماراور رشوت عام ہے۔ پولیس کے محکمے تک میں رشوت اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر بھرتیاں کی گئیں اور یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتے کی وصولی کی افسوسناک مثالیں قائم ہوئیں۔
سندھ ہائی کورٹ کے بیرسٹر اویس شاہ کا اغوا اورمشہور قوال امجدصابری کا کھلے عام قتل جس سے کراچی سے لے کر اسلام آباد کی پوری مشینری ہل گئی ہے۔لیاقت آباد جیسی پرہجوم جگہوں پر اگر قاتل فرار ہونے میں کامیاب بھی ہوجائیں تو اربوں روپے کی اس رقم پر سوال اٹھتا ہے جو سیکیورٹی کے نام پر ہر برس مختص کی جاتی ہے۔
کراچی میں رمضان المبارک اور عید کے قریب آتے ہی اسٹریٹ کرائمز نے پھر سے شہر کو جکڑ لیا اور رمضان اور عید کے موقعے پر شہری مکمل طور پر غیر محفوظ رہے۔ اس دوران 3619 افراد کے لٹنے کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں ، جو وارداتیں رپورٹ نہیں ہوئیں ان کی تعداد خدشے سے کہیں زیادہ ہے۔ رمضان اور عید کے موقعے پر اس شہر میں لوگوں سے 5 کروڑ روپے سے زائد لوٹ لیے گئے اور شہریوں کا کہنا تھا کہ خود پولیس اہلکار بھی ان سے مختلف حیلوں بہانوں سے عیدی بٹورنے میں مصروف رہے۔
موبائل فون چھیننے اور اے ٹی ایم مشینوں سے پیسے نکلوانے والوں کو لوٹنے کا سلسلہ بھی امسال زوروشور سے جاری رہا۔یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس طرح کے واقعات دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی ہوتے ہیں اور اب بھی ہورہے ہیں۔امریکا، فرانس، بیلجیم، بھارت اورسری لنکا میں اس طرح کی کارروائیاں اور دہشت گردی کی کارروائیاں زیادہ دورکی بات نہیں۔ ایک دور میں امریکا کا سب سے بڑا تجارتی مرکزنیویارک کرائم مافیا کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ رات کو شہریوں کے لیے گلیوں میں نکلنا محال تھا۔
بالاخر وہاں کے میئر نے مجرموں سے جنگ کی ٹھانی اور وہ کامیاب رہا۔ آج یہ شہر مکمل طور پر پرامن ہے۔ اسی طرح اٹلی کسی دورمیں منشیات کے کاروباراور ڈرگ پیڈلرزکا گڑھ بن گیا تھا۔ قتل و غارت روزمرہ کا معمول تھا لیکن وہاں کی انتظامیہ نے لڑائی کے ذریعے ان کا صفایا کیا۔ ہمیں بھی ان ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ کراچی بہرطور ایک انٹرنیشنل سٹی ہے۔
ان غلطیوں اورکوتاہیوں کا جائزہ لینا بھی بے حد ضروری ہے کہ جن کی وجہ سے کراچی جیسا پرامن شہر جو ملک کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور معاشی حب ہے، اس حال کو پہنچا۔ پھر باقی دنیا کی طرح کرائم مافیا اور ٹارگٹ کلرز کی بیخ کنی کے لیے موثرحکمت عملی تیارکرنی چاہیے۔ معاشرے کے تمام طبقوں خصوصاً سیاسی جماعتوں کو اپنی صفوں میں شدت پسندوں کی موجودگی پرکڑی نظر رکھنے کی ضرورت بھی ناگزیر ہوچکی ہے۔
اس حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ کا یہ انکشاف اور اعتراف بھی نہایت اہم اور لائق توجہ ہے کہ کراچی میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا اصل سبب زمینوں پر قبضے کی جنگ ہے، ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں امن و امان کے مسئلے کی سب سے بڑی وجہ لینڈ مافیا ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ سندھ حکومت شہر کراچی کی ملکیت لینے کو تیار نہیں ہے یوں کراچی لاوارث ہوگیا ہے، حکومت سندھ کوما کی حالت میں ہے، اس کو جھنجھوڑو تو جواب تو دیتی ہے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتی اور اس کی واحد بلکہ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کراچی کے تقریباً تمام شعبہ جات میں ایک طاقتور مافیا کام کر رہی ہے۔
کراچی کے لیے مشرف نے نعمت اللہ کے دور میں پیکیج دیا تھا اس کے بعد سے لے کر اب تک کوئی پیکیج نہیں دیا گیا۔ صحت کی طرف نگاہ کی جائے تو ہماری عمریں گزر گئیں مگر جناح اسپتال، سول اسپتال اور عباسی شہید اسپتال کے علاوہ کوئی نیا اسپتال قائم نہ ہوسکا۔ دو کروڑ سے زائد آبادی کا یہ شہر سپر ہائی وے تک جا پہنچا ہے۔ کوئی حکومت آج بھی ایک اسپتال قائم نہیں کرسکی جب کہ ایک بار سرکاری سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اٹھارہ ٹاؤنز ہیں لہٰذا ہر ٹاؤن میں ایک سرکاری اسپتال قائم کیا جائے گا لیکن ایسا بھی نہیں ہو سکا۔
کراچی کا ایک بہت بڑا مسئلہ پانی کا بھی ہے۔ کراچی والوں کا پانی چوری کرکے ٹینکروں کو فراہم کیا جا رہا ہے اور ٹینکروں کی قیمت دو ہزار سے بڑھ کر پانچ ہزار تک جا پہنچی ہے پانی تو موجود ہے مگر چوری کے ذریعے اورکراچی کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پانی کی قلت اور چوری میں سندھ حکومت ملوث ہے۔ انھوں نے اس میں پیسے کمائے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی صورتحال بھی بدترین ہے شہری، منی بسوں اور بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں، ٹرانسپورٹر من مانے کرائے وصول کرتے ہیں، اس سلسلے میں بھی قانون کی پاسداری نہیں کی جا رہی۔
کراچی جسے ایک زمانے میں ''عروس البلاد'' کہتے تھے جس کی روزانہ کی بنیاد پر سڑکیں دھوئی جاتی تھیں مدتوں سے تباہی، بربادی اور بدحالی کا شکار ہوکر رہ گئی ہیں۔ تقریباً کراچی بھر کے علاقوں اور گلیوں محلوں میں صفائی ستھرائی اور نکاسی آب کا نظام بری طرح متاثر ہے مین سڑکوں اور پلوں پر مٹی اور کچے کے ڈھیر جمع ہیں خاص کر پلوں اور نالوں کی صفائی بلدیہ عظمیٰ نے کرنا چھوڑ دی ہے۔ ناجائز تجاوزات اور پتھاروں نے بھی اہم اور مشہور سڑکوں کوگھیر رکھا ہے کے ایم سی اور ڈی ایم سیزکی جانب سے کہیں بھی موثر کارروائیاں نظر نہیں آرہیں۔
الغرض یہ کہ پاکستان کا معاشی حب بے یارومددگار ہے،کراچی ٹریفک جام، پانی، انفرااسٹرکچر کی تباہی جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ شاہراہیں شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور پل بھی خستہ حال، پلوں میں پڑے شگاف متعلقہ اداروں کی کارکردگی کے عکاس ہیں۔ پورے شہر میں ٹریفک جام بھی روزمرہ کا معمول اور مسئلہ بن چکا ہے، شہرکی بیشتر سڑکیں گڑھوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ پاکستان کا دل، میگا میٹرو پولیٹن سٹی، معاشی حب یہ وہ نام ہیں جو شہر قائد کراچی کو ملے ہیں۔ یوں دو کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر میں مسائل دیکھیں تو ایک بلند و بالا پہاڑ نظر آتا ہے لیکن ان مسائل کو حل کرنے یا اس پہاڑ کو توڑنے والا کوئی دکھائی نہیں دے رہا۔
اس بات میں قطعی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کراچی شاید سب کا ہی سوتیلا ہے۔ محنت سب سے زیادہ کرتا ہے کما کر سب سے زیادہ دیتا ہے اس ملک نما پورے گھر (کراچی) کو چلاتا ہے مگر ہر قسم کی سہولیات، مراعات یا حقوق کا فقدان بھی صرف اسی شہر کا نصیب ہے۔
بجلی کا نظام درہم برہم، پانی نایاب، سرکاری اسپتالوں کی قلت اور موجودہ اسپتالوں میں سہولیات کا قحط ہے،کچرے کے ڈھیر، امن وامان مخدوش، لوٹ مار، چھینا جھپٹی عام، ٹرانسپورٹ ندارد، بے روزگاری۔ ملکی آمدنی کا 70 فیصد کما کردینے کے باوجود یہ شہر بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔صحت کی بات کی جائے تو اولین بات یہ ہے کہ پورے شہر میں گندگی کے انبار لگے ہوئے ہیں جس کی صفائی کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے بعد سے آج تک اختیار نہیں دیا گیا صاحب اختیارکو جس نے مجموعی صورتحال کو مزید ابترکردیا ہے۔ مقامی، صوبائی اوروفاقی حکومتوں نے خودکواس شہرکا وارث کبھی نہیں کہا۔ یہ ''شہر نامراد'' اب تک اپنے مسیحا کی تلاش میں ہے۔اس شہر میں تعلیم کا ذکر ہو تو یہ شعبہ بھی زوال پذیر ہے۔ سرکاری اسکولوں سے لے کریونیورسٹیز تک میں نظام درست نہیں ہے۔
سرکاری اسکولوں کی عمارتیں توقائم ہیں لیکن نہ ہی یہاں استاد ہیں نہ فرنیچر جس کی وجہ سے غریب بچہ تعلیم حاصل کرنے سے مکمل طور پر دور ہے۔ تعلیم کے شعبے میں ہزاروں نوکریاں رشوت کے عوض فروخت کردی گئیں، صرف تعلیم ہی کیا ہرشعبے میں کرپشن، لوٹ ماراور رشوت عام ہے۔ پولیس کے محکمے تک میں رشوت اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر بھرتیاں کی گئیں اور یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتے کی وصولی کی افسوسناک مثالیں قائم ہوئیں۔
سندھ ہائی کورٹ کے بیرسٹر اویس شاہ کا اغوا اورمشہور قوال امجدصابری کا کھلے عام قتل جس سے کراچی سے لے کر اسلام آباد کی پوری مشینری ہل گئی ہے۔لیاقت آباد جیسی پرہجوم جگہوں پر اگر قاتل فرار ہونے میں کامیاب بھی ہوجائیں تو اربوں روپے کی اس رقم پر سوال اٹھتا ہے جو سیکیورٹی کے نام پر ہر برس مختص کی جاتی ہے۔
کراچی میں رمضان المبارک اور عید کے قریب آتے ہی اسٹریٹ کرائمز نے پھر سے شہر کو جکڑ لیا اور رمضان اور عید کے موقعے پر شہری مکمل طور پر غیر محفوظ رہے۔ اس دوران 3619 افراد کے لٹنے کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں ، جو وارداتیں رپورٹ نہیں ہوئیں ان کی تعداد خدشے سے کہیں زیادہ ہے۔ رمضان اور عید کے موقعے پر اس شہر میں لوگوں سے 5 کروڑ روپے سے زائد لوٹ لیے گئے اور شہریوں کا کہنا تھا کہ خود پولیس اہلکار بھی ان سے مختلف حیلوں بہانوں سے عیدی بٹورنے میں مصروف رہے۔
موبائل فون چھیننے اور اے ٹی ایم مشینوں سے پیسے نکلوانے والوں کو لوٹنے کا سلسلہ بھی امسال زوروشور سے جاری رہا۔یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس طرح کے واقعات دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی ہوتے ہیں اور اب بھی ہورہے ہیں۔امریکا، فرانس، بیلجیم، بھارت اورسری لنکا میں اس طرح کی کارروائیاں اور دہشت گردی کی کارروائیاں زیادہ دورکی بات نہیں۔ ایک دور میں امریکا کا سب سے بڑا تجارتی مرکزنیویارک کرائم مافیا کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ رات کو شہریوں کے لیے گلیوں میں نکلنا محال تھا۔
بالاخر وہاں کے میئر نے مجرموں سے جنگ کی ٹھانی اور وہ کامیاب رہا۔ آج یہ شہر مکمل طور پر پرامن ہے۔ اسی طرح اٹلی کسی دورمیں منشیات کے کاروباراور ڈرگ پیڈلرزکا گڑھ بن گیا تھا۔ قتل و غارت روزمرہ کا معمول تھا لیکن وہاں کی انتظامیہ نے لڑائی کے ذریعے ان کا صفایا کیا۔ ہمیں بھی ان ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ کراچی بہرطور ایک انٹرنیشنل سٹی ہے۔
ان غلطیوں اورکوتاہیوں کا جائزہ لینا بھی بے حد ضروری ہے کہ جن کی وجہ سے کراچی جیسا پرامن شہر جو ملک کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور معاشی حب ہے، اس حال کو پہنچا۔ پھر باقی دنیا کی طرح کرائم مافیا اور ٹارگٹ کلرز کی بیخ کنی کے لیے موثرحکمت عملی تیارکرنی چاہیے۔ معاشرے کے تمام طبقوں خصوصاً سیاسی جماعتوں کو اپنی صفوں میں شدت پسندوں کی موجودگی پرکڑی نظر رکھنے کی ضرورت بھی ناگزیر ہوچکی ہے۔
اس حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ کا یہ انکشاف اور اعتراف بھی نہایت اہم اور لائق توجہ ہے کہ کراچی میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا اصل سبب زمینوں پر قبضے کی جنگ ہے، ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں امن و امان کے مسئلے کی سب سے بڑی وجہ لینڈ مافیا ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ سندھ حکومت شہر کراچی کی ملکیت لینے کو تیار نہیں ہے یوں کراچی لاوارث ہوگیا ہے، حکومت سندھ کوما کی حالت میں ہے، اس کو جھنجھوڑو تو جواب تو دیتی ہے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتی اور اس کی واحد بلکہ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کراچی کے تقریباً تمام شعبہ جات میں ایک طاقتور مافیا کام کر رہی ہے۔
کراچی کے لیے مشرف نے نعمت اللہ کے دور میں پیکیج دیا تھا اس کے بعد سے لے کر اب تک کوئی پیکیج نہیں دیا گیا۔ صحت کی طرف نگاہ کی جائے تو ہماری عمریں گزر گئیں مگر جناح اسپتال، سول اسپتال اور عباسی شہید اسپتال کے علاوہ کوئی نیا اسپتال قائم نہ ہوسکا۔ دو کروڑ سے زائد آبادی کا یہ شہر سپر ہائی وے تک جا پہنچا ہے۔ کوئی حکومت آج بھی ایک اسپتال قائم نہیں کرسکی جب کہ ایک بار سرکاری سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اٹھارہ ٹاؤنز ہیں لہٰذا ہر ٹاؤن میں ایک سرکاری اسپتال قائم کیا جائے گا لیکن ایسا بھی نہیں ہو سکا۔
کراچی کا ایک بہت بڑا مسئلہ پانی کا بھی ہے۔ کراچی والوں کا پانی چوری کرکے ٹینکروں کو فراہم کیا جا رہا ہے اور ٹینکروں کی قیمت دو ہزار سے بڑھ کر پانچ ہزار تک جا پہنچی ہے پانی تو موجود ہے مگر چوری کے ذریعے اورکراچی کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پانی کی قلت اور چوری میں سندھ حکومت ملوث ہے۔ انھوں نے اس میں پیسے کمائے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی صورتحال بھی بدترین ہے شہری، منی بسوں اور بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں، ٹرانسپورٹر من مانے کرائے وصول کرتے ہیں، اس سلسلے میں بھی قانون کی پاسداری نہیں کی جا رہی۔
کراچی جسے ایک زمانے میں ''عروس البلاد'' کہتے تھے جس کی روزانہ کی بنیاد پر سڑکیں دھوئی جاتی تھیں مدتوں سے تباہی، بربادی اور بدحالی کا شکار ہوکر رہ گئی ہیں۔ تقریباً کراچی بھر کے علاقوں اور گلیوں محلوں میں صفائی ستھرائی اور نکاسی آب کا نظام بری طرح متاثر ہے مین سڑکوں اور پلوں پر مٹی اور کچے کے ڈھیر جمع ہیں خاص کر پلوں اور نالوں کی صفائی بلدیہ عظمیٰ نے کرنا چھوڑ دی ہے۔ ناجائز تجاوزات اور پتھاروں نے بھی اہم اور مشہور سڑکوں کوگھیر رکھا ہے کے ایم سی اور ڈی ایم سیزکی جانب سے کہیں بھی موثر کارروائیاں نظر نہیں آرہیں۔
الغرض یہ کہ پاکستان کا معاشی حب بے یارومددگار ہے،کراچی ٹریفک جام، پانی، انفرااسٹرکچر کی تباہی جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ شاہراہیں شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور پل بھی خستہ حال، پلوں میں پڑے شگاف متعلقہ اداروں کی کارکردگی کے عکاس ہیں۔ پورے شہر میں ٹریفک جام بھی روزمرہ کا معمول اور مسئلہ بن چکا ہے، شہرکی بیشتر سڑکیں گڑھوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ پاکستان کا دل، میگا میٹرو پولیٹن سٹی، معاشی حب یہ وہ نام ہیں جو شہر قائد کراچی کو ملے ہیں۔ یوں دو کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر میں مسائل دیکھیں تو ایک بلند و بالا پہاڑ نظر آتا ہے لیکن ان مسائل کو حل کرنے یا اس پہاڑ کو توڑنے والا کوئی دکھائی نہیں دے رہا۔