رینجرز اپنا تفتیشی نظام قائم کرے سپریم کورٹ سرکاری اراضی کی پابندی منتقلی پر پابندی

سیکریٹری الیکشن کمیشن،3 دن میں ابتدائی خاکہ پیش اوراسلحہ لائسنس کی پالیسی پر نظرثانی کی جائے،عدالت


Staff Reporter November 29, 2012
کراچی کی نئی حلقہ بندیوں میں کچھ قانونی رکاوٹیں ہیں ،سیکریٹری الیکشن کمیشن،3 دن میں ابتدائی خاکہ پیش اوراسلحہ لائسنس کی پالیسی پر نظرثانی کی جائے،عدالت۔ فوٹو : ایکسپریس/فائل

لاہور: سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ رینجرز اپنا تفتیشی نظام قائم کرے۔

شہر میں راکٹ لانچر بھی موجود ہیں، دہشت گردی اور دھماکے ہورہے ہیں مگر رینجرز صرف منشیات فروشوں اور جواریوں کی گرفتاریاں کررہی ہے۔ یہ ریمارکس سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کراچی بدامنی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران دیئے۔ بعدازاںجسٹس انور ظہیرجمالی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجربینچ نے کراچی بدامنی ازخود نوٹس کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس خلجی عارف حسین،جسٹس سرمد جلال عثمانی،جسٹس امیرہانی مسلم اور جسٹس اطہرسعید شامل ہیں۔ بدھ کو سماعت کے موقع پر ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل رضوان اختر ، سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان اشتیاق احمد خان اورسینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پیش ہوئے۔

رینجرز کی جانب سے میجراشفاق نے رینجرز کی ایک ماہ کی کارکردگی رپورٹ پیش کی جس پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اپنی آبزرویشن میں کہا کہ رینجرز کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری اور مقدمے کے اندراج میں کئی کئی دنوں کا وقفہ ہے،جس کا براہ راست فائدہ ملزمان کو پہنچے گا اوروہ چھوٹ جائیں گے۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ رینجرز ملزم کو گرفتار کرکے فوری پولیس کے سپرد کرنے کی پابندہے، عدالت کے استفسار پر آئی جی سندھ نے بتایا کہ سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر رینجرز اور پولیس کے مابین اشتراک عمل کا فارمولا تیار کرلیا گیا ہے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ کراچی میں رینجرز آرمی ایکٹ کے تحت نہیں پولیس ایکٹ کے تحت کام کررہی ہے، اس لئے ضابطہ فوجداری پر عمل درآمد کی پابند ہے۔جسٹس انور ظہیرجمالی نے آبزروکیا کہ رینجرز کا اپنا تفتیشی نظام بھی ہونا چاہیے،رینجرز کی پیش کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں ماہ رینجرز نے 63 ملزمان کو گرفتار کیا ہے اور ان کے خلاف پولیس نے مقدمات درج کیے،جسٹس خلجی عارف حسین نے آبزروکیا کہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ رینجرزملزم کو گرفتار کرکے کئی دنوں تک اپنے پاس رکھتی ہے اور انہیں عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

ڈی جی رینجرز نے بتایا کہ پولیس کے ساتھ مشترکہ کارروائی کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے تاہم خفیہ اطلاعات پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ بعض ملزمان سے اہم انکشافات بھی ہوتے ہیں اور اس بنیاد پر کارروائی ہوتی ہے اسلئے پولیس کے حوالے کرنے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ انھوںنے اعتراف کیاکہ محرم الحرام میں دہشت گردی کی سازشوں کی اطلاعات کے پیش نظر گرفتارافراد کو اپنی حراست میںرکھنا پڑا۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ملزم کو 24گھنٹے میں عدالت میں پیش نہ کیا جائے تو حراست غیرقانونی ہوتی ہے۔ جسٹس انور ظہیرجمالی نے کہا کہ مرضی کا قانون تو دو گھنٹے میں بنالیا جاتا ہے مگر عوامی مفاد کے لئے قانون سازی میں تاخیر ہوتی ہے۔

ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ کراچی میں اب تک 8ہزار غیرقانونی اسلحہ برآمد کیا جاچکا ہے۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ ٹنڈوالہ یار میں اسلحہ کی باڑامارکیٹ کی خبر شائع ہوئی ہے، کتنی دکانیں ہیں وہاں؟ وسیم احمد نے بتایا کہ 70دکانیں ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ صرف کراچی نہیں پورے سندھ میں تباہی ہے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ہدایت کی کہ اسلحہ لائسنس کے اجراسے متعلق پالیسی پر نظرثانی کی جائے اور نوادرات کے طور پر گھروں میں رکھے گئے اسلحہ اور کچن میں استعمال ہونے والی چھریوں کو اسلحہ سے مستثنیٰ قراردیا جائے۔

دریں اثناسیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ صوبائی الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کیلئے حکومت سندھ کو درخواست دی ہے کہ وہ متعلقہ معلومات فراہم کرے اور ریونیو ریکارڈ پیش کرے۔ یہ پہلا قدم ہے اور اسکے بغیر حلقہ بندیاں ممکن نہیں، الیکشن کمیشن کا اصولی فیصلہ ہے کہ پورے ملک میں نئی مردم شماری کی بنیاد پر ازسرنو حلقہ بندیاں ہوں تاہم سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی میں یہ کام ترجیحی بنیادوں پر ہوگا۔ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کیلئے بعض قانونی رکاوٹیں ہیں مگر عدالت کا حکم ہے اسلئے اس پر عمل کیا جائے گا۔

اس موقع پر جسٹس انورظہیرجمالی نے ریمارکس میں کہا کہ ہر10سال پر مردم شماری کرانا آئینی ذمہ داری ہے،ہم چاہتے ہیں کراچی میں لسانی تقسیم ختم ہو اور مخصوص علاقوں میں کسی ایک گروپ کی بالادستی نہ ہو۔اشتیاق احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ اس حوالے سے آج ہی الیکشن کمیشن کا اجلاس منعقد کرکے بنیادی نکات تیار کرلئے جائیں گے۔ جمعرات کو حکومت سندھ کے نمائندوں سے اورجمعہ کو دیگر فریقین بالخصوص سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی اور رپورٹ تیار کرکے پیش کردی جائے گی۔ انھوںنے توقع ظاہر کی کہ ایک دوماہ میں پراسیس مکمل کرکے نئی حلقہ بندیاں کرلی جائیںگی۔ عدالت نے ہدایت کی کہ تین دن میں ابتدائی خاکہ تیارکرکے رپورٹ پیش کردی جائے، چیف سیکریٹری راجہ عباس نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے اپنا موقف تبدیل کیا ہے۔

علاوہ ازیںسپریم کورٹ نے صوبے میں سرکاری اراضی کی منتقلی اور مالکانہ حقوق دینے پر پابندی عائد کرتے ہوئے گزشتہ پانچ برسوں میں مختلف اشخاص کے نام پر منتقل کی گئی اراضی کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا اور ہدایت کی کہ جب تک صوبے کا ریونیوریکارڈ ازسر نومرتب نہ ہوجائے، کوئی سرکاری زمین کسی کے نام منتقل نہ کی جائے۔ پولیس کی نفری میں اضافہ کردیاجائے تو امن قائم ہوجائے گا، امن ہوگا تو معیشت بہتر ہوگی۔ عدالت نے سینئرممبربورڈ آف ریونیو کی ناقص کارکردگی پر سرزنش کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کون آپ کوکام سے روکتا اور مداخلت کرتا ہے؟، جسٹس سرمدجلال عثمانی نے استفسار کیا کہ بتائیں کون ساوزیر یا ایم پی اے سیاسی مداخلت کررہا ہے؟۔

اصغر خان کیس میں یہی بات سامنے آئی ہے کہ سینئر افسران سچ بولیں تو مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ شاہ زر شمعون نے عدالت کو بتایا کہ متاثرہ 134دیہہ کا ریکارڈ دوبارہ مرتب کرلیا گیا ہے اور یہ کام گزشتہ ایک سال میں میرے چارج سنبھالنے کے بعد ہوا ہے۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے دور میں ہی سب سے زیادہ قبضے ہوئے ہیں۔جسٹس انور ظہیرجمالی نے ریمارکس میں کہا کہ غریبوں کا المیہ ہی یہ ہے کہ ان کی اراضی پر قبضہ ہوجاتا ہے اور کوئی دادرسی کرنے والا نہیں۔ ممبرانسپکشن ٹیم IIمسزکوثرسلطانہ نے پیرول پر رہا ہونے والے ملزمان سے متعلق رپورٹ پیش کی ۔عدالت نے آبزرو کیا کہ یہ پرانا ریکارڈ ہے لہٰذاریکارڈ اپ ڈیٹ کرکے پیش کیا جائے۔

پراسیکیوٹرجنرل نے بتایا کہ پیرول پر رہا کئے گئے 25ملزمان کے پیرول کے احکام منسوخ کرنے کیلئے ایک دو دن میں سمری پر دستخط ہوجائیں گے، محکمہ داخلہ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی جانب سے پیرول پر ملزمان کی رہائی کے احکام کی حمایت کرنے پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا کہ چارچار قتل میں ملوث ملزمان کو پیرول پر چھوڑا جائے گا تو امن کیسے قائم ہوگا؟ ۔عدالت کے استفسار پر ڈی آئی جی ٹریفک خرم گلزار نے بتایا کہ اے ایف آر نمبر اور فینسی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں