دوسری انٹرنیشنل آباد ایکسپو2016 تعمیراتی صنعت اور پاکستان کی معیشت کے لیے سنگ میل ثابت ہوگی
نمائش کا مقصد تعمیراتی صنعت سے وابستہ تمام اسٹیک ہولڈرز اورمتعلقہ صنعتوں کو ایک موثر اور متحرک پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے
پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے مواقع اجاگرکرنے، تعمیراتی صنعت میں جدید رجحانات کو فروغ دینے اور تعمیرات کے شعبے سے متعلق آگہی اور تکنیکی معلومات کو عام کرنے کے لیے ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز آف پاکستان(آباد) کے زیراہتمام دوسری انٹرنیشنل آباد ایکسپو2016 نمائش12تا 14اگست کراچی ایکسپوسینٹر میں منعقد ہوگی۔
نمائش کا مقصد تعمیراتی صنعت سے وابستہ تمام اسٹیک ہولڈرز اورمتعلقہ صنعتوں کو ایک موثر اور متحرک پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے جس کے ذریعے عوام کو اپنی چھت کے حصول کے لیے درکار معلومات اور تعمیراتی صنعت میں آنے والی تبدیلیوں سے روشناس کرانے میں مدد ملیگی۔ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرزملک کی واحد تجارتی انجمن ہے جو بلڈرزاور ڈیولپرزکی ملک گیر سطح پر نمائندگی کرتے ہوئے تعمیراتی صنعت کو درپیش مسائل کے حل اور عوام کو رہائشی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے۔
آباد سماجی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ ایسوسی ایشن کے تحت آئندہ ماہ ہونے والی آبادانٹرنیشنل ایکسپو 2016کے بارے میں ''ایکسپریس'' کے تحت ایک خصوصی فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں شریک آباد کے سینئر نمائندوں نے نمائش کے مقاصد، تعمیراتی صنعت کو درپیش مسائل اور معاشی ترقی میں تعمیراتی صنعت کے کردار کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
محسن شیخانی
سرپرست اعلیٰ اور سابق چیئرمین آباد
آباد ملک میں تعمیراتی صنعت کو منظم خطوط پر استوارکرنے اور صنعت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ ساتھ ہی صوبوں اور وفاق کی سطح پر حکومتوں کو مشاورت کی فراہم کرتی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ حکومت کو جامع پالیسی کے لیے ٹھوس اور قابل عمل تجاویز دی جائیں جن کی مدد سے حکومت اپنی سماجی اور آئینی ذمے داریاں پوری کرسکے۔آباد کے پلیٹ فارم سے عوام کوکم قیمت مکانات کی فراہمی کے لیے حکومت کو جامع تجاویز دی گئی ہیں، آباد رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کے رجحانات اور اس شعبے کو درپیش مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ان کا حل بھی تجویزکرتی ہے۔
آباد نے کچی آبادیوں کی افزائش کے عوامل اور ان کی وجہ سے پیش آنے والے سماجی مسائل کی بھی نشاندہی کی ہے ۔ دراصل تعمیراتی شعبے کو صنعت کا درجہ نہ ملنا اور معاون پالیسیوں کے فقدان کی وجہ سے کچی آبادیاں فروغ پارہی ہیں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کراچی کا 50فیصد رقبہ کچی آبادیوں پر مشتمل ہے جہاں عوام پانی، بجلی، گیس غیرقانونی طریقے سے استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور صحت ، صفائی اور تعلیم جیسی بنیادوں ضرورتوں کو پورا کرنے میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔
آباد نے شہر میں کچی آبادی کس طرح بڑھ گئی ہے، کیا عوامل ہیں کتنی تھی کیا پالیسی تھی جس کی وجہ سے50 فیصد کراچی کچی آبادی بن گیا۔ آباد نے حکومت کو مشاورت فراہم کی اور عوام کو رہائشی سہولتوں کی فراہمی سے متعلق جامع تجاویز اور پالیسی سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ تعمیراتی صنعت کا بنیادی مسئلہ معاون اور دوستانہ پالیسیوں کا فقدان ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کو رہائشی سہولتوں کی فراہمی کے لیے تعمیراتی صنعت سے معلق معاون پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اگر معاون پالیسیاں اختیار کی جاتیں تو اس وقت 8سے 10لاکھ مکانات کی قلت کا سامنا نہ ہوتا ۔ تعمیراتی صنعت سے متعلق دوستانہ پالیسیوں کے ذریعے معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ مل سکتاہے اس وقت آباد کے اراکین کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے اگر دوستانہ پالیسیاں اختیار کی جائیں تو ملک بھر میں مکانات اور رہائشی سہولتوں کی قلت دور کرنے کے لیے 15سے 20ہزار بلڈرز اور ڈیولپرز سرگرم ہوجائیں ۔ آباد کے تمام اراکین متعلقہ اتھارٹیز میں رجسٹرڈ اور فعال ٹیکس گزار ہیں اس کے برعکس غیر رجسٹرڈ کنٹریکٹرز، قبضہ گیر عناصر حتیٰ کہ چائنا کٹنگ کرنے والوں کو بھی بلڈرز کا نام دیا جاتا ہے۔
جس سے اس صنعت کی ساکھ مجروح ہوتی ہے۔ ملک کی معاشی ترقی میں تعمیراتی صنعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اور اس شعبے کی ترقی اور استحکام کے لیے تمام متعلقہ اداروں میں ایسوسی ایشن کی نمائندگی ضروری ہے۔ تمام متعلقہ اتھارٹیز اور اداروں میں نجی شعبے کو نمائندگی دینے سے نہ صرف ان اداروں کی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ بدعنوانی کے ناسور کا بھی خاتمہ ہوگا۔
آباد ٹیکس نیٹ بڑھانے اور ریونیو میں اضافے کی بھرپور حامی ہے اور اس مقصد کے لیے ہم نے خود تجویز دی کہ بلڈرز کا ٹیکس فکس کردیا جائے کیونکہ ہم حکومت اور اس ملک کو اپنے حصے کا ٹیکس بخوشی دینا چاہتے ہیں اس مقصد کے لیے حکومت کے ساتھ مشاورت کے بعد بلڈرز کے لیے فی اسکوائر فٹ کے لحاظ سے ٹیکس مقرر کرنے کا ایگری منٹ کیاگیا تاہم اچانک ٹیکس قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے آئی ٹی او کے اختیارات میں اضافہ کردیا گیا تاکہ مارکیٹ ویلیوایشن کے مطابق ویلیوایشن کا ایک نیا ٹیبل تشکیل دیا جاسکے،تاہم یہاں صوبے اور وفاق کی سطح پر الگ الگ ویلیوایشن کا مسئلہ درپیش ہے اس تضاد کی وجہ سے کرپشن کو فروغ ملے گا اگر ضروری ہے تو ملک گیر سطح پر یکساں ویلیو ایشن ٹیبل بنایا جائے تاکہ بدعنوانی کے راستے بند کیے جاسکیں۔
حارث مٹھانی
کنوینرآباد ایکسپو 2016
الحمداﷲ آباد نے2014میں تعمیراتی صنعت سے متعلق ایک تاریخی نمائش کا انعقاد کیا۔ اس وقت ملک میں حالات کافی دشوار تھے اس وقت تعمیراتی صنعت سے جڑی کمپنیوں اور تعمیراتی میٹریل بنانے والی کمپینوں نے آباد کا ساتھ دیا اور اس ایونٹ کو کامیاب بنایا۔ پہلی آباد انٹرنیشنل ایکسپوکے کامیاب انعقاد کی وجہ سے آباد ایکسپو تعمیراتی صنعت کا سب سے بڑ ایونٹ بن چکی ہے۔
اس نمائش کی کامیابی کے ثمرات سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک نے استفادہ کیا۔ نئے پروجیکٹس متعارف کرائے گئے جس سے بلڈرز اور عوام کو حوصلہ ملا، آباد کی پہلی نمائش اس وقت کے سخت حالات میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ آباد کے اراکین نے اپنے ذاتی رابطے برؤے کار کر غیرملکی مندوبین کو پاکستان مدعو کیا۔ غیرملکی مہمانوں کی نمائش میں شرکت سے دنیا میں پاکستان اور کراچی کے بارے میں مثبت پیغام عام ہوا، غیرملکی مہمانوں نے اس ایونٹ میں شرکت کرکے آّنکھوں سے کراچی میں تعمیر و ترقی کے امکانات کا مشاہدہ کیا اس لحاظ سے یہ نمائش ایک اہم بریک تھرو ثابت ہوئی۔ اس سال بھی آباد دنیا میں پاکستان کی مثبت ساکھ اگر کرنے کے عزم اور جذبے کے ساتھ نمائش کا انعقاد کررہی ہے ۔
آج حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں اس لیے ہمیں پوری امید ہے کہ یہ ایونٹ نہ صرف تعمیراتی صنعت بلکہ پاکستان کی معیشت کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا۔ ہماری کوشش ہے کہ نمائش میں تعمیراتی صنعت سے متعلق تمام اچھی برانڈز اور کمپنیاں حصہ لیں۔ نمائش میں شرکت کے لیے بیرون ملک سے بھی لوگوں کی بڑی تعداد کو مدعو کیا گیا ہے ہماری کوشش ہے کہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کی راہ میں چھائے سیاہ بادل چھٹ جائیں اور تعمیراتی صنعت ملک کی معیشت میں بہتر کردار ادا کرسکے۔نمائش کے ذریعے عوام کو بھی اپنا طرز زندگی بہتر بنانے اور دنیا میں رائج جدید رجحانات کے بارے میں آگہی ملے گی۔
اس ایونٹ کے انعقاد کا مقصد صرف آباد کے اراکین یا بلڈرز کو مستفید کرنا نہیں ہے نمائش کثیر المقاصد بنیادوں پر منعقد کی جارہی ہے تاکہ تعمیرات سے جڑی دیگر 100سے زائد صنعتوں کو بھی فائدہ پہنچایا جاسکے۔ ہماری کوشش ہے کہ پلاٹ کی خریداری سے گھر کے داخلی دروازے پر اطلاعی گھنٹی نصب کرنے تک جتنی بھی صنعتیں وابستہ ہیں ایونٹ کا حصہ بنایا جائے۔
یہ کارپوریٹ ایونٹ کے ساتھ عوامی فیسٹیول بھی ہے عموماً تجارتی نمائشوں میں عوام کو نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن آباد کی نمائش عوام کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اسی لیے ہم نے یوم آزادی کے روز کو بھی نمائش کے دنوں میں شامل کیا ہے۔
اس ایونٹ میں عام پبلک کے لیے بہت ساری اور خصوصی رکھی جارہی ہیں ۔ عموماً اگست کے مہینے میں تجارتی نمائشیں منعقد نہیں کی جاتیں لیکن اگست میں 12سے 14اگست کے دوران نمائش کے انعقاد کا مقصد یوم آزادی کی خوشیوں کو دوبالا کرنا ہے ان تاریخوں کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے پوری صنعت اپنے ملک کے لوگوں کے ساتھ آزادی کا دن منائے۔آباد چاہتی ہے نہ کہ صرف بلڈرز بلککہ تمام شعبوں میں آبادکاری ہو اس نمائش کا مقصد بھی دیگر صنعتوں کے لیے ترقی کے یکساں مواقع مہیا کرنا ہے۔ خصوصی سیمینار اور ورکشاپ اس ایونٹ کا حصہ ہوں گے مختلف جامعات کے طلباء تعمیراتی صنعت، انجینئرنگ اور آرکیٹیکٹ سے متعلق اپنی تخلیقات کے ساتھ اس ایونٹ میں شرکت کریں گے جس میں منتخب طلباکو آباد کی جانب سے اسکالرشپ دی جائیگی۔ ایونٹ میں شریک عوام کے لیے لاکھوں روپے کے انعامات بذریعہ قرعہ اندازی دیے جائیں گے تاکہ حقیقی معنوں میں آزادی کا جشن منایا جاسکے۔
اس موقع پر منعقدہ سیمیناروں میں تعمیراتی صنعت اور ملک کے دیگر شعبوں کو درپیش مسائل کی نشاندہی کی جائیگی اور ان کے حل پیش کیے جائیں گے۔ آباد اس سے قبل کچی آبادیوں کی بحالی، کم لاگت مکانات کی تعمیر، تعمیراتی صنعت کے معیشت میں میں کردار، گرین پاکستان، اسمارٹ سٹیز اور شہر کاری (اربن ازم)جیسے اہم موضوعات پر سیمینار منعقد کرچکی ہے۔ اس سال مرتبہ عوام کو تعمیرات سے متعلق تکنیکی معلومات کی فراہمی کے لیے ایک منفرد اور نیا تصور پیش کیا جائے گا۔
آباد انٹرنیشنل ایکسپومیں خصوصی طور پر ایک ''تصوراتی محراب'' بنائی جائیگی جہاں تعمیرات کی صنعت سے وابستہ ماہرین عوام کو پلاٹ کی خریداری سے لیے کر تعمیرات کے مختلف مراحل کے بارے میں تکنیکی معلومات فراہم کریں گے۔ یہ تصوراتی محراب ایک پوری گیلری ہوگی جہاں عوام کو کم جگہ پر بہتر سہولیات کی تعمیر، زلزلہ پروف مکانات کی تعمیر، گھروں کو ہوادار اور روشن بنانے اور دیدہ زیب فرنٹ ایلیویشن کی تعمیر سمیت دیگر تکنیکی مراحل کے بارے میں بلامعاوضہ مشاورت فراہم کی جائیگی یہ سہولت نمائش کے تینوں روزبلاتعطل جاری رہے گی۔
نمائش کے ساتھ انٹرنیشنل کانفرنس بھی منعقد ہوگی جس میں ملکی و غیرملکی ماہرین شرکت کریں گے۔ طلباکے لیے خصوصی ورکشاپس منعقد ہوں گی جن میں ایک ہزار سے زائد طلباشریک ہوں گے جنھیں آباد کی جانب سے اسناد بھی دی جائیں گی۔ ایونٹ میں این ای ڈی یونیورسٹی ، داؤد یونیورسٹی اور نیشنل انجینئرنگ کونسل کے اساتذہ اور ماہرین شریک ہوں گے۔ نمائش کے شرکاء میں انعامات کی تقسیم کے لیے خصوصی ''ونرز ایرینا''قائم کیا جائے گا جہاں ہر دوگھنٹے کے وقفے سے قرعہ اندازی کے زریعے انعامات تقسیم کیے جائیں گے یہ جشن آزادی کے موقع پر عوام میں خوشیاں بانٹنے کا طریقہ ہے۔ نمائش میں غیر مہارت یافتہ (ان اسکلڈ) افرادی قوت کو تربیت کی فراہمی کے ذریعے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے بھی خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔
اس ایونٹ میں سماجی شعبے کی بہتری کے لیے بھی اسٹالز مخصوص کیے گئے ہیں جہاں بلڈ بینکس، امدادی اداروں سماجی انجمنوں امن فاؤنڈیشن، ایدھی سیلانی کینس ہسپتال کو مفت جگہ فراہم کی جائیگی تاکہ وہ اپنی خدمات کو پیش کریں۔ آباد کے تحت 2014میں منعقدہ پہلی نمائش میں 160کے قریب کمپنیوں نے اسٹالزلگائے تھے جو ان حالات میں ایک بڑی تعداد تھی۔ اس سال 200سے زائد کمپنیاں شرکت کررہی ہیں جن میں مقامی کمپنیوں کے ساتھ بین الاقوامی سطح کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ نمائش میں 16ملکوں کے نمائش کنندگان اور32ملکوں کے مندوبین بھی شرکت کررہے ہیں۔ نمائش کے لیے مختص ایکسپو سینٹر کے تمام چھ ہالز میں جگہ ختم ہوچکی ہے اور ہالز کے باہر کھلی جگہوں پر خصوصی انتظام کیا جارہا ہے۔
ہم حکومت پر زور دیں گے شہر کے باہر ایکسپو سٹی تعمیر کیا جائے جہاں دیگر شعبوں کی ترقی کے لیے سرکاری سطح پر نمائشوں کا انعقاد کیا جائے جن میں ایگری کلچر ،لائیو اسٹاک، تعمیراتی صنعت اور دیگر صنعتیں شامل ہیں دنیا بھر میںایکسپو سٹی کا تصور عام ہوچکا ہے جس سے ان ملکوں کی معیشت کو فروغ مل رہا ہے۔ آباد نے کراچی کے بعد اسلام آباد، لاہور، خیبرپختون خوا اور دبئی میں بھی اس طرز کی نمائشوں کے انعقاد کی منصوبہ بندی کی ہے ۔ آئندہ سال اسلام آباد میں نمائش منعقد کی جائیگی ۔ آباد کے تحت بین الاقوامی نمائش کا انعقاد کے بعد دیگر صنعتیں بھی تقلید کررہی ہیں اس طرح آباد کی نمائش پاکستان کی ایونٹس اور ایگزی بیشن انڈسٹری میں بھی ایک نیا رجحان ثابت ہوئی ہے۔ ان نمائشوں میں مختلف برانڈز کی حامل کمپنیوں کی شرکت سے مسابقت بڑھتی ہے جس کا فائدہ صارفین کو پہنچتا ہے، کسی بھی میٹریل کی مارکیٹ میں قائم اجارہ داری کا خاتمہ ہوتا ہے۔
آصف سم سم
چیئرمین سدرن ریجن
آباد نے چھ ماہ قبل نشاندہی کی تھی کہ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری آرہی ہے اور گزشتہ دو سال کے دوران ملک سے اربوں روپے کے انخلاکی اطلاعات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ درحقیقت گزشتہ دو سے ڈھائی سال کے دوران پاکستان میں جتنا سرمایہ آیا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اس کا کریڈٹ آپریشن ضرب عضب کو جاتا ہے ۔ آپریشن کے نتیجے میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوئی لوگوں کا پاکستان پر اعتماد بڑھا اور سرمایہ کاری کو محفوظ سمجھتے ہوئے لوگوں نے اپنی بچت پاکستان منتقل کی جس کا فائدہ رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کو پہنچا۔
حکومت کی جانب سے انکم ٹیکس آرڈیننس میں انڈسٹری کی مشاورت کے بغیر ترمیم کے بعد ملک سے ایک بار پھر سرمائے کا انخلا شروع ہوگیا ہے اور گزشتہ دس روز کے دوران اماراتی درہم کی قیمت میں ہونے والا اضافہ اس بات کی دلیل ہے۔ آباد میں گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے نمائندوں نے شرکت کی ان سب کی امیدیں آباد سے وابستہ ہیں آباد کے اراکین اور اسٹیک ہولڈرز نے ٹیکس ماہرین سے مشاورت کے بعد ان ترامیم کو یکسر مسترد کردیا۔ آباد کا ماننا ہے کہ اس طرح راتوں رات کی جانے والی ترامیم سے نہ صرف تعمیراتی صنعت بلکہ دیگر متعلقہ 100صنعتیں بھی متاثر ہوں گی اور گزشتہ ڈھائی سال کے دوران جو صنعتیں ترقی کی راستے پر آگے بڑھ رہی تھیں اب ترقی کا یہ تسلسل بھی برقرار نہیں رہ سکے گا۔
آباد کو خدشہ ہے کہ اگر حکومت نے ٹیکس ترامیم پر انڈسٹری کے تحفظات دور کرنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے اور اس ترمیم کو معطل نہ کیا تو خدشہ ہے کہ کوئی نیا بحران جنم لینے جارہا ہے۔ ہم ٹیکس کے خلاف نہیں ہیں ہم ٹیکس دینا چاہتے ہیں اور دس سال سے کوشش کررہے تھے کہ بلڈرز کے لیے ٹیکسوں کی ادائیگی کا کوئی فارمولہ طے پاجائے تاکہ ریونیو میں اضافہ کے ساتھ رئیل اسٹیٹ کی ترقی کا تسلسل بھی جاری رکھا جاسکے یہ فارمولہ طے بھی پاگیا تھا لیکن حکومت نے اچانک یہ ترمیم متعارف کرادی۔ تعمیراتی صنعت نے ملک میں امن وامان کی مخدوش صورتحال کی بناء پر گزشتہ دس سال کے دوران بدتر صورتحال کا سامنا کیا ۔
اس دوران ہماری جانوں کا خطرہ لاحق رہا، بلڈرز کو اغوا اور قتل تک کیا گیا بعض جگہوں پر ہمارے گارڈز جاں بحق ہوئے لیکن ان حالات میں بھی ہم ملک سے دور نہیں گئے بلکہ اسی ملک میں کام کیا۔ نیک نیتی سے شروع ہونیو الے آپریشن ضرب عضب کی بدولت کراچی اور ملک میں امن قائم ہوا لوگوں کا اعتماد بڑھا اور لوگوں نے رئیل اسٹیٹ میں انویسٹمنٹ کرنا شروع کی اور گزشتہ ڈھائی سال رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے سنہری دور ثابت ہو ا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ٹیکس کا طریقہ کار اس طرح ہو کہ انڈسٹری متاثر نہ ہو اور حکومت کے ریونیو اہداف بھی پورے ہوجائیں۔
اگر ملک کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کراچی میں تعمیراتی صنعت کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی صنعت دوست قوانین کا فقدان ہے۔ آباد کی جانب سے متعلقہ اداروں اور حکام سے بارہا اپیل کی گئی کہ اس شہر اور ملک کی ترقی کے لیے تعمیراتی صنعت کے لیے قوانین کو نرم اور آسان بنایا جائے۔ اگر کراچی میں تعمیراتی صنعت کے لیے آسان اور معاون قوانین متعارف کرائے جائیں تو ہم پانچ سال میں کراچی کی شاہراہ فیصل کو دبئی کے شیخ زائد روڈ میں بدل سکتے ہیں۔
حکام کی جانب سے کراچی کے لیے پانی کی قلت اور سیوریج کے مسائل کا رونا غلط رویا جاتا ہے حقیقت یہ ہے کہ پانی کی طلب کا تعلق میگا اسٹرکچر سے نہیں بلکہ آبادی سے جو فرد بھی اس شہر میں سکونت پذیر ہے وہ کہیں نہ کہیں اپنی پانی کی طلب پوری کررہا ہے۔ اسی طرح سیوریج کی ناکافی گنجائش کو بھی غلط بہانہ بنایا جاتا ہے ۔
دبئی میں سیوریج کا کوئی نظام نہیں ہے بلکہ جی کنٹریکٹرز عمارتوں میں فضلے کے لیے مخصوص سیپٹک ٹینکوں سے فضلہ جمع کرتی ہے جس سے دبئی کی بلدیہ کو بھی آمدنی ہوتی ہے اور وہ فضلہ جمع کرنے والی کمپنیاں یہ فضلہ کھاد بنانے والی فیکٹریوں کو فراہم کرکے پیسہ کماتی ہیں۔ کسی بھی بڑے شہر کی شناخت اس کا میگا اسٹرکچر ہوتا ہے پوری دنیا کا یہی رجحان ہے لیکن ہمیں ہوابازی کے پرانے قوانین کے نام پر بلند عمارتوں کی تعمیر سے روکا جارہا ہے۔آباد نے محکمہ ہوا بازی کو بتایا ہے کہ دبئی، انڈیا، انڈونیشیا ملائیشیا میں دس دس مرتبہ ہوا بازی کے قوانین پر نظر ثانی ہوچکی ہے لیکن شہری ہوا بازی کا محکمہ کراچی میں ایک سو بیس سے ایک سو چالیس فٹ سے زائد بلند عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہے اور اس کا جواز یہ دیا جاتا ہے کہ جہازوں کی کراچی آمد کے راستوں پر بلند عمارتیں تعمیر نہیں کی جاسکتیں حالانکہ بلند عمارتوں کی تعمیر کے لیے کینیڈا میں بین الاقوامی ہوا ابازی کا ادارہ اپنی مقررہ فیس لے کر نئے روٹس کی منظوری دیتا ہے آباد نے یہ فیس تک ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ سندھ کے لیے مخصوص تعمیراتی قوانین بھی کراچی اور سندھ میں تعمیراتی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں پورے ملک میں کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے صرف سندھ کے لیے تمام تعمیراتی قوانین ہیں متعلقہ اداروں کی اجازت کے بغیر کسی منصوبے کی ایک اینٹ تک نہیں رکھی جاسکتی۔
آبادبلڈنگ بائی لازکو آسان اور قابل عمل بنانے کے لیے سرگرداں ہے کراچی میں ایک ہزار گز کے پلاٹ کی کمرشل منتقلی کے وقت بیٹر منٹ کے نام پر پونے دو کروڑ روپے کی رقم ادا کرنا پڑتی ہے اس کے باوجود اس پروجیکٹ کے اطراف میں انفرااسٹرکچر پرکوئی توجہ نہیں دی جاتی ہمارا مطالبہ ہے کہ بیٹر منٹ کے نام پر پروجیکٹ سے وصول کی جانے والی رقم اس پروجیکٹ کے اطراف کی بہتری پر ہی خرچ کی جائے۔ آباد کا دعویٰ ہے کہ ہم خواب نہیں دکھاتے اور نہ ہی خوابوں کا سودا کرتے ہیں بلکہ ہم لوگوں کے خوابوں کو تعبیر دیتے ہیں۔ تعمیراتی صنعت حقیقی معنوں میں دیگر صنعتوں کی ماں ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ہزار گز کے کمرشل پلاٹ کی تعمیر پر مقامی تیار شدہ 20کروڑ روپے مالیت اوردرآمد شدہ 5کروڑ روپے مالیت کا میٹریل استعمال ہوتا ہے اس کے ساتھ تقریباً ایک سو پچاس افراد کو اس پروجیکٹ پر تین سال تک روزگار میسر ہوتا ہے اس طرح یہ صنعت معیشت کا پہیہ رواں رکھنے اور روزگار کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
صفیان آڈھیا
کنوینر پے اے ایف، سول ایوی ایشن افیئرز
شہری ہوابازی کا محکمہ کی جانب سے بلند عمارتوں کی تعمیر کے لیے اجازت ناموں کے اجراء میں امتیازی پالیسی اختیار کی جارہی ہے جس جگہ 180فٹ بلند عمارت کی تعمیر کی اجازت دی گئی ہے اس کے برابر میں عمارت کی تعمیر کے لیے140فٹ سے زائد کی اجازت نہیں دی جارہی جس کی وجہ سیفٹی مارجن قرار دی جارہی ہے حالانکہ بلڈرز حلف نامے دینے کو تیار ہیں کہ عمارتوں کی چھت پر اضافی انفرااسٹرکچر یا ٹاورز نصب نہیں کیے جائیں گے اگر خلاف ورزی کی جائے تو ایسی اضافی تعمیرات منہدم کردی جائیں۔ دوسری جانب تعمیراتی منصوبوں کے لیے نصب کی جانے والی اسکائی لائٹس کے استعمال کے لیے بھی امتیازی رویہ اختیار کیا جارہا ہے ۔
شاہراہ فیصل پر پہلے سے بلند عمارتوں اور میناروں کے برابر عمارتوں کی تعمیر کی اجازت نہیں دی جارہی، محکمہ شہری ہوابازی کے این او سی میں مشکلات اور قدغن کی وجہ سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے بھی250سے زائد پروجیکٹس کی تعمیر کے لیے اجازت ناموں کی درخواستیں روک رکھی ہیں جن کی وجہ سے شہر میں کی جانے والی اربوں روپے کی سرمایہ کاری زیر التواء ہے۔ ان رکاوٹوں کی وجہ سے بلڈرز کو بڑے والیوم کے پروجیکٹس تعمیر کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
نمائش کا مقصد تعمیراتی صنعت سے وابستہ تمام اسٹیک ہولڈرز اورمتعلقہ صنعتوں کو ایک موثر اور متحرک پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے جس کے ذریعے عوام کو اپنی چھت کے حصول کے لیے درکار معلومات اور تعمیراتی صنعت میں آنے والی تبدیلیوں سے روشناس کرانے میں مدد ملیگی۔ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرزملک کی واحد تجارتی انجمن ہے جو بلڈرزاور ڈیولپرزکی ملک گیر سطح پر نمائندگی کرتے ہوئے تعمیراتی صنعت کو درپیش مسائل کے حل اور عوام کو رہائشی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے۔
آباد سماجی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ ایسوسی ایشن کے تحت آئندہ ماہ ہونے والی آبادانٹرنیشنل ایکسپو 2016کے بارے میں ''ایکسپریس'' کے تحت ایک خصوصی فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں شریک آباد کے سینئر نمائندوں نے نمائش کے مقاصد، تعمیراتی صنعت کو درپیش مسائل اور معاشی ترقی میں تعمیراتی صنعت کے کردار کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
محسن شیخانی
سرپرست اعلیٰ اور سابق چیئرمین آباد
آباد ملک میں تعمیراتی صنعت کو منظم خطوط پر استوارکرنے اور صنعت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ ساتھ ہی صوبوں اور وفاق کی سطح پر حکومتوں کو مشاورت کی فراہم کرتی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ حکومت کو جامع پالیسی کے لیے ٹھوس اور قابل عمل تجاویز دی جائیں جن کی مدد سے حکومت اپنی سماجی اور آئینی ذمے داریاں پوری کرسکے۔آباد کے پلیٹ فارم سے عوام کوکم قیمت مکانات کی فراہمی کے لیے حکومت کو جامع تجاویز دی گئی ہیں، آباد رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کے رجحانات اور اس شعبے کو درپیش مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ان کا حل بھی تجویزکرتی ہے۔
آباد نے کچی آبادیوں کی افزائش کے عوامل اور ان کی وجہ سے پیش آنے والے سماجی مسائل کی بھی نشاندہی کی ہے ۔ دراصل تعمیراتی شعبے کو صنعت کا درجہ نہ ملنا اور معاون پالیسیوں کے فقدان کی وجہ سے کچی آبادیاں فروغ پارہی ہیں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کراچی کا 50فیصد رقبہ کچی آبادیوں پر مشتمل ہے جہاں عوام پانی، بجلی، گیس غیرقانونی طریقے سے استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور صحت ، صفائی اور تعلیم جیسی بنیادوں ضرورتوں کو پورا کرنے میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔
آباد نے شہر میں کچی آبادی کس طرح بڑھ گئی ہے، کیا عوامل ہیں کتنی تھی کیا پالیسی تھی جس کی وجہ سے50 فیصد کراچی کچی آبادی بن گیا۔ آباد نے حکومت کو مشاورت فراہم کی اور عوام کو رہائشی سہولتوں کی فراہمی سے متعلق جامع تجاویز اور پالیسی سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ تعمیراتی صنعت کا بنیادی مسئلہ معاون اور دوستانہ پالیسیوں کا فقدان ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کو رہائشی سہولتوں کی فراہمی کے لیے تعمیراتی صنعت سے معلق معاون پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اگر معاون پالیسیاں اختیار کی جاتیں تو اس وقت 8سے 10لاکھ مکانات کی قلت کا سامنا نہ ہوتا ۔ تعمیراتی صنعت سے متعلق دوستانہ پالیسیوں کے ذریعے معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ مل سکتاہے اس وقت آباد کے اراکین کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے اگر دوستانہ پالیسیاں اختیار کی جائیں تو ملک بھر میں مکانات اور رہائشی سہولتوں کی قلت دور کرنے کے لیے 15سے 20ہزار بلڈرز اور ڈیولپرز سرگرم ہوجائیں ۔ آباد کے تمام اراکین متعلقہ اتھارٹیز میں رجسٹرڈ اور فعال ٹیکس گزار ہیں اس کے برعکس غیر رجسٹرڈ کنٹریکٹرز، قبضہ گیر عناصر حتیٰ کہ چائنا کٹنگ کرنے والوں کو بھی بلڈرز کا نام دیا جاتا ہے۔
جس سے اس صنعت کی ساکھ مجروح ہوتی ہے۔ ملک کی معاشی ترقی میں تعمیراتی صنعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اور اس شعبے کی ترقی اور استحکام کے لیے تمام متعلقہ اداروں میں ایسوسی ایشن کی نمائندگی ضروری ہے۔ تمام متعلقہ اتھارٹیز اور اداروں میں نجی شعبے کو نمائندگی دینے سے نہ صرف ان اداروں کی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ بدعنوانی کے ناسور کا بھی خاتمہ ہوگا۔
آباد ٹیکس نیٹ بڑھانے اور ریونیو میں اضافے کی بھرپور حامی ہے اور اس مقصد کے لیے ہم نے خود تجویز دی کہ بلڈرز کا ٹیکس فکس کردیا جائے کیونکہ ہم حکومت اور اس ملک کو اپنے حصے کا ٹیکس بخوشی دینا چاہتے ہیں اس مقصد کے لیے حکومت کے ساتھ مشاورت کے بعد بلڈرز کے لیے فی اسکوائر فٹ کے لحاظ سے ٹیکس مقرر کرنے کا ایگری منٹ کیاگیا تاہم اچانک ٹیکس قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے آئی ٹی او کے اختیارات میں اضافہ کردیا گیا تاکہ مارکیٹ ویلیوایشن کے مطابق ویلیوایشن کا ایک نیا ٹیبل تشکیل دیا جاسکے،تاہم یہاں صوبے اور وفاق کی سطح پر الگ الگ ویلیوایشن کا مسئلہ درپیش ہے اس تضاد کی وجہ سے کرپشن کو فروغ ملے گا اگر ضروری ہے تو ملک گیر سطح پر یکساں ویلیو ایشن ٹیبل بنایا جائے تاکہ بدعنوانی کے راستے بند کیے جاسکیں۔
حارث مٹھانی
کنوینرآباد ایکسپو 2016
الحمداﷲ آباد نے2014میں تعمیراتی صنعت سے متعلق ایک تاریخی نمائش کا انعقاد کیا۔ اس وقت ملک میں حالات کافی دشوار تھے اس وقت تعمیراتی صنعت سے جڑی کمپنیوں اور تعمیراتی میٹریل بنانے والی کمپینوں نے آباد کا ساتھ دیا اور اس ایونٹ کو کامیاب بنایا۔ پہلی آباد انٹرنیشنل ایکسپوکے کامیاب انعقاد کی وجہ سے آباد ایکسپو تعمیراتی صنعت کا سب سے بڑ ایونٹ بن چکی ہے۔
اس نمائش کی کامیابی کے ثمرات سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک نے استفادہ کیا۔ نئے پروجیکٹس متعارف کرائے گئے جس سے بلڈرز اور عوام کو حوصلہ ملا، آباد کی پہلی نمائش اس وقت کے سخت حالات میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ آباد کے اراکین نے اپنے ذاتی رابطے برؤے کار کر غیرملکی مندوبین کو پاکستان مدعو کیا۔ غیرملکی مہمانوں کی نمائش میں شرکت سے دنیا میں پاکستان اور کراچی کے بارے میں مثبت پیغام عام ہوا، غیرملکی مہمانوں نے اس ایونٹ میں شرکت کرکے آّنکھوں سے کراچی میں تعمیر و ترقی کے امکانات کا مشاہدہ کیا اس لحاظ سے یہ نمائش ایک اہم بریک تھرو ثابت ہوئی۔ اس سال بھی آباد دنیا میں پاکستان کی مثبت ساکھ اگر کرنے کے عزم اور جذبے کے ساتھ نمائش کا انعقاد کررہی ہے ۔
آج حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں اس لیے ہمیں پوری امید ہے کہ یہ ایونٹ نہ صرف تعمیراتی صنعت بلکہ پاکستان کی معیشت کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا۔ ہماری کوشش ہے کہ نمائش میں تعمیراتی صنعت سے متعلق تمام اچھی برانڈز اور کمپنیاں حصہ لیں۔ نمائش میں شرکت کے لیے بیرون ملک سے بھی لوگوں کی بڑی تعداد کو مدعو کیا گیا ہے ہماری کوشش ہے کہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کی راہ میں چھائے سیاہ بادل چھٹ جائیں اور تعمیراتی صنعت ملک کی معیشت میں بہتر کردار ادا کرسکے۔نمائش کے ذریعے عوام کو بھی اپنا طرز زندگی بہتر بنانے اور دنیا میں رائج جدید رجحانات کے بارے میں آگہی ملے گی۔
اس ایونٹ کے انعقاد کا مقصد صرف آباد کے اراکین یا بلڈرز کو مستفید کرنا نہیں ہے نمائش کثیر المقاصد بنیادوں پر منعقد کی جارہی ہے تاکہ تعمیرات سے جڑی دیگر 100سے زائد صنعتوں کو بھی فائدہ پہنچایا جاسکے۔ ہماری کوشش ہے کہ پلاٹ کی خریداری سے گھر کے داخلی دروازے پر اطلاعی گھنٹی نصب کرنے تک جتنی بھی صنعتیں وابستہ ہیں ایونٹ کا حصہ بنایا جائے۔
یہ کارپوریٹ ایونٹ کے ساتھ عوامی فیسٹیول بھی ہے عموماً تجارتی نمائشوں میں عوام کو نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن آباد کی نمائش عوام کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اسی لیے ہم نے یوم آزادی کے روز کو بھی نمائش کے دنوں میں شامل کیا ہے۔
اس ایونٹ میں عام پبلک کے لیے بہت ساری اور خصوصی رکھی جارہی ہیں ۔ عموماً اگست کے مہینے میں تجارتی نمائشیں منعقد نہیں کی جاتیں لیکن اگست میں 12سے 14اگست کے دوران نمائش کے انعقاد کا مقصد یوم آزادی کی خوشیوں کو دوبالا کرنا ہے ان تاریخوں کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے پوری صنعت اپنے ملک کے لوگوں کے ساتھ آزادی کا دن منائے۔آباد چاہتی ہے نہ کہ صرف بلڈرز بلککہ تمام شعبوں میں آبادکاری ہو اس نمائش کا مقصد بھی دیگر صنعتوں کے لیے ترقی کے یکساں مواقع مہیا کرنا ہے۔ خصوصی سیمینار اور ورکشاپ اس ایونٹ کا حصہ ہوں گے مختلف جامعات کے طلباء تعمیراتی صنعت، انجینئرنگ اور آرکیٹیکٹ سے متعلق اپنی تخلیقات کے ساتھ اس ایونٹ میں شرکت کریں گے جس میں منتخب طلباکو آباد کی جانب سے اسکالرشپ دی جائیگی۔ ایونٹ میں شریک عوام کے لیے لاکھوں روپے کے انعامات بذریعہ قرعہ اندازی دیے جائیں گے تاکہ حقیقی معنوں میں آزادی کا جشن منایا جاسکے۔
اس موقع پر منعقدہ سیمیناروں میں تعمیراتی صنعت اور ملک کے دیگر شعبوں کو درپیش مسائل کی نشاندہی کی جائیگی اور ان کے حل پیش کیے جائیں گے۔ آباد اس سے قبل کچی آبادیوں کی بحالی، کم لاگت مکانات کی تعمیر، تعمیراتی صنعت کے معیشت میں میں کردار، گرین پاکستان، اسمارٹ سٹیز اور شہر کاری (اربن ازم)جیسے اہم موضوعات پر سیمینار منعقد کرچکی ہے۔ اس سال مرتبہ عوام کو تعمیرات سے متعلق تکنیکی معلومات کی فراہمی کے لیے ایک منفرد اور نیا تصور پیش کیا جائے گا۔
آباد انٹرنیشنل ایکسپومیں خصوصی طور پر ایک ''تصوراتی محراب'' بنائی جائیگی جہاں تعمیرات کی صنعت سے وابستہ ماہرین عوام کو پلاٹ کی خریداری سے لیے کر تعمیرات کے مختلف مراحل کے بارے میں تکنیکی معلومات فراہم کریں گے۔ یہ تصوراتی محراب ایک پوری گیلری ہوگی جہاں عوام کو کم جگہ پر بہتر سہولیات کی تعمیر، زلزلہ پروف مکانات کی تعمیر، گھروں کو ہوادار اور روشن بنانے اور دیدہ زیب فرنٹ ایلیویشن کی تعمیر سمیت دیگر تکنیکی مراحل کے بارے میں بلامعاوضہ مشاورت فراہم کی جائیگی یہ سہولت نمائش کے تینوں روزبلاتعطل جاری رہے گی۔
نمائش کے ساتھ انٹرنیشنل کانفرنس بھی منعقد ہوگی جس میں ملکی و غیرملکی ماہرین شرکت کریں گے۔ طلباکے لیے خصوصی ورکشاپس منعقد ہوں گی جن میں ایک ہزار سے زائد طلباشریک ہوں گے جنھیں آباد کی جانب سے اسناد بھی دی جائیں گی۔ ایونٹ میں این ای ڈی یونیورسٹی ، داؤد یونیورسٹی اور نیشنل انجینئرنگ کونسل کے اساتذہ اور ماہرین شریک ہوں گے۔ نمائش کے شرکاء میں انعامات کی تقسیم کے لیے خصوصی ''ونرز ایرینا''قائم کیا جائے گا جہاں ہر دوگھنٹے کے وقفے سے قرعہ اندازی کے زریعے انعامات تقسیم کیے جائیں گے یہ جشن آزادی کے موقع پر عوام میں خوشیاں بانٹنے کا طریقہ ہے۔ نمائش میں غیر مہارت یافتہ (ان اسکلڈ) افرادی قوت کو تربیت کی فراہمی کے ذریعے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے بھی خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔
اس ایونٹ میں سماجی شعبے کی بہتری کے لیے بھی اسٹالز مخصوص کیے گئے ہیں جہاں بلڈ بینکس، امدادی اداروں سماجی انجمنوں امن فاؤنڈیشن، ایدھی سیلانی کینس ہسپتال کو مفت جگہ فراہم کی جائیگی تاکہ وہ اپنی خدمات کو پیش کریں۔ آباد کے تحت 2014میں منعقدہ پہلی نمائش میں 160کے قریب کمپنیوں نے اسٹالزلگائے تھے جو ان حالات میں ایک بڑی تعداد تھی۔ اس سال 200سے زائد کمپنیاں شرکت کررہی ہیں جن میں مقامی کمپنیوں کے ساتھ بین الاقوامی سطح کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ نمائش میں 16ملکوں کے نمائش کنندگان اور32ملکوں کے مندوبین بھی شرکت کررہے ہیں۔ نمائش کے لیے مختص ایکسپو سینٹر کے تمام چھ ہالز میں جگہ ختم ہوچکی ہے اور ہالز کے باہر کھلی جگہوں پر خصوصی انتظام کیا جارہا ہے۔
ہم حکومت پر زور دیں گے شہر کے باہر ایکسپو سٹی تعمیر کیا جائے جہاں دیگر شعبوں کی ترقی کے لیے سرکاری سطح پر نمائشوں کا انعقاد کیا جائے جن میں ایگری کلچر ،لائیو اسٹاک، تعمیراتی صنعت اور دیگر صنعتیں شامل ہیں دنیا بھر میںایکسپو سٹی کا تصور عام ہوچکا ہے جس سے ان ملکوں کی معیشت کو فروغ مل رہا ہے۔ آباد نے کراچی کے بعد اسلام آباد، لاہور، خیبرپختون خوا اور دبئی میں بھی اس طرز کی نمائشوں کے انعقاد کی منصوبہ بندی کی ہے ۔ آئندہ سال اسلام آباد میں نمائش منعقد کی جائیگی ۔ آباد کے تحت بین الاقوامی نمائش کا انعقاد کے بعد دیگر صنعتیں بھی تقلید کررہی ہیں اس طرح آباد کی نمائش پاکستان کی ایونٹس اور ایگزی بیشن انڈسٹری میں بھی ایک نیا رجحان ثابت ہوئی ہے۔ ان نمائشوں میں مختلف برانڈز کی حامل کمپنیوں کی شرکت سے مسابقت بڑھتی ہے جس کا فائدہ صارفین کو پہنچتا ہے، کسی بھی میٹریل کی مارکیٹ میں قائم اجارہ داری کا خاتمہ ہوتا ہے۔
آصف سم سم
چیئرمین سدرن ریجن
آباد نے چھ ماہ قبل نشاندہی کی تھی کہ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری آرہی ہے اور گزشتہ دو سال کے دوران ملک سے اربوں روپے کے انخلاکی اطلاعات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ درحقیقت گزشتہ دو سے ڈھائی سال کے دوران پاکستان میں جتنا سرمایہ آیا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اس کا کریڈٹ آپریشن ضرب عضب کو جاتا ہے ۔ آپریشن کے نتیجے میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوئی لوگوں کا پاکستان پر اعتماد بڑھا اور سرمایہ کاری کو محفوظ سمجھتے ہوئے لوگوں نے اپنی بچت پاکستان منتقل کی جس کا فائدہ رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کو پہنچا۔
حکومت کی جانب سے انکم ٹیکس آرڈیننس میں انڈسٹری کی مشاورت کے بغیر ترمیم کے بعد ملک سے ایک بار پھر سرمائے کا انخلا شروع ہوگیا ہے اور گزشتہ دس روز کے دوران اماراتی درہم کی قیمت میں ہونے والا اضافہ اس بات کی دلیل ہے۔ آباد میں گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے نمائندوں نے شرکت کی ان سب کی امیدیں آباد سے وابستہ ہیں آباد کے اراکین اور اسٹیک ہولڈرز نے ٹیکس ماہرین سے مشاورت کے بعد ان ترامیم کو یکسر مسترد کردیا۔ آباد کا ماننا ہے کہ اس طرح راتوں رات کی جانے والی ترامیم سے نہ صرف تعمیراتی صنعت بلکہ دیگر متعلقہ 100صنعتیں بھی متاثر ہوں گی اور گزشتہ ڈھائی سال کے دوران جو صنعتیں ترقی کی راستے پر آگے بڑھ رہی تھیں اب ترقی کا یہ تسلسل بھی برقرار نہیں رہ سکے گا۔
آباد کو خدشہ ہے کہ اگر حکومت نے ٹیکس ترامیم پر انڈسٹری کے تحفظات دور کرنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے اور اس ترمیم کو معطل نہ کیا تو خدشہ ہے کہ کوئی نیا بحران جنم لینے جارہا ہے۔ ہم ٹیکس کے خلاف نہیں ہیں ہم ٹیکس دینا چاہتے ہیں اور دس سال سے کوشش کررہے تھے کہ بلڈرز کے لیے ٹیکسوں کی ادائیگی کا کوئی فارمولہ طے پاجائے تاکہ ریونیو میں اضافہ کے ساتھ رئیل اسٹیٹ کی ترقی کا تسلسل بھی جاری رکھا جاسکے یہ فارمولہ طے بھی پاگیا تھا لیکن حکومت نے اچانک یہ ترمیم متعارف کرادی۔ تعمیراتی صنعت نے ملک میں امن وامان کی مخدوش صورتحال کی بناء پر گزشتہ دس سال کے دوران بدتر صورتحال کا سامنا کیا ۔
اس دوران ہماری جانوں کا خطرہ لاحق رہا، بلڈرز کو اغوا اور قتل تک کیا گیا بعض جگہوں پر ہمارے گارڈز جاں بحق ہوئے لیکن ان حالات میں بھی ہم ملک سے دور نہیں گئے بلکہ اسی ملک میں کام کیا۔ نیک نیتی سے شروع ہونیو الے آپریشن ضرب عضب کی بدولت کراچی اور ملک میں امن قائم ہوا لوگوں کا اعتماد بڑھا اور لوگوں نے رئیل اسٹیٹ میں انویسٹمنٹ کرنا شروع کی اور گزشتہ ڈھائی سال رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے سنہری دور ثابت ہو ا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ٹیکس کا طریقہ کار اس طرح ہو کہ انڈسٹری متاثر نہ ہو اور حکومت کے ریونیو اہداف بھی پورے ہوجائیں۔
اگر ملک کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کراچی میں تعمیراتی صنعت کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی صنعت دوست قوانین کا فقدان ہے۔ آباد کی جانب سے متعلقہ اداروں اور حکام سے بارہا اپیل کی گئی کہ اس شہر اور ملک کی ترقی کے لیے تعمیراتی صنعت کے لیے قوانین کو نرم اور آسان بنایا جائے۔ اگر کراچی میں تعمیراتی صنعت کے لیے آسان اور معاون قوانین متعارف کرائے جائیں تو ہم پانچ سال میں کراچی کی شاہراہ فیصل کو دبئی کے شیخ زائد روڈ میں بدل سکتے ہیں۔
حکام کی جانب سے کراچی کے لیے پانی کی قلت اور سیوریج کے مسائل کا رونا غلط رویا جاتا ہے حقیقت یہ ہے کہ پانی کی طلب کا تعلق میگا اسٹرکچر سے نہیں بلکہ آبادی سے جو فرد بھی اس شہر میں سکونت پذیر ہے وہ کہیں نہ کہیں اپنی پانی کی طلب پوری کررہا ہے۔ اسی طرح سیوریج کی ناکافی گنجائش کو بھی غلط بہانہ بنایا جاتا ہے ۔
دبئی میں سیوریج کا کوئی نظام نہیں ہے بلکہ جی کنٹریکٹرز عمارتوں میں فضلے کے لیے مخصوص سیپٹک ٹینکوں سے فضلہ جمع کرتی ہے جس سے دبئی کی بلدیہ کو بھی آمدنی ہوتی ہے اور وہ فضلہ جمع کرنے والی کمپنیاں یہ فضلہ کھاد بنانے والی فیکٹریوں کو فراہم کرکے پیسہ کماتی ہیں۔ کسی بھی بڑے شہر کی شناخت اس کا میگا اسٹرکچر ہوتا ہے پوری دنیا کا یہی رجحان ہے لیکن ہمیں ہوابازی کے پرانے قوانین کے نام پر بلند عمارتوں کی تعمیر سے روکا جارہا ہے۔آباد نے محکمہ ہوا بازی کو بتایا ہے کہ دبئی، انڈیا، انڈونیشیا ملائیشیا میں دس دس مرتبہ ہوا بازی کے قوانین پر نظر ثانی ہوچکی ہے لیکن شہری ہوا بازی کا محکمہ کراچی میں ایک سو بیس سے ایک سو چالیس فٹ سے زائد بلند عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہے اور اس کا جواز یہ دیا جاتا ہے کہ جہازوں کی کراچی آمد کے راستوں پر بلند عمارتیں تعمیر نہیں کی جاسکتیں حالانکہ بلند عمارتوں کی تعمیر کے لیے کینیڈا میں بین الاقوامی ہوا ابازی کا ادارہ اپنی مقررہ فیس لے کر نئے روٹس کی منظوری دیتا ہے آباد نے یہ فیس تک ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ سندھ کے لیے مخصوص تعمیراتی قوانین بھی کراچی اور سندھ میں تعمیراتی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں پورے ملک میں کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے صرف سندھ کے لیے تمام تعمیراتی قوانین ہیں متعلقہ اداروں کی اجازت کے بغیر کسی منصوبے کی ایک اینٹ تک نہیں رکھی جاسکتی۔
آبادبلڈنگ بائی لازکو آسان اور قابل عمل بنانے کے لیے سرگرداں ہے کراچی میں ایک ہزار گز کے پلاٹ کی کمرشل منتقلی کے وقت بیٹر منٹ کے نام پر پونے دو کروڑ روپے کی رقم ادا کرنا پڑتی ہے اس کے باوجود اس پروجیکٹ کے اطراف میں انفرااسٹرکچر پرکوئی توجہ نہیں دی جاتی ہمارا مطالبہ ہے کہ بیٹر منٹ کے نام پر پروجیکٹ سے وصول کی جانے والی رقم اس پروجیکٹ کے اطراف کی بہتری پر ہی خرچ کی جائے۔ آباد کا دعویٰ ہے کہ ہم خواب نہیں دکھاتے اور نہ ہی خوابوں کا سودا کرتے ہیں بلکہ ہم لوگوں کے خوابوں کو تعبیر دیتے ہیں۔ تعمیراتی صنعت حقیقی معنوں میں دیگر صنعتوں کی ماں ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ہزار گز کے کمرشل پلاٹ کی تعمیر پر مقامی تیار شدہ 20کروڑ روپے مالیت اوردرآمد شدہ 5کروڑ روپے مالیت کا میٹریل استعمال ہوتا ہے اس کے ساتھ تقریباً ایک سو پچاس افراد کو اس پروجیکٹ پر تین سال تک روزگار میسر ہوتا ہے اس طرح یہ صنعت معیشت کا پہیہ رواں رکھنے اور روزگار کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
صفیان آڈھیا
کنوینر پے اے ایف، سول ایوی ایشن افیئرز
شہری ہوابازی کا محکمہ کی جانب سے بلند عمارتوں کی تعمیر کے لیے اجازت ناموں کے اجراء میں امتیازی پالیسی اختیار کی جارہی ہے جس جگہ 180فٹ بلند عمارت کی تعمیر کی اجازت دی گئی ہے اس کے برابر میں عمارت کی تعمیر کے لیے140فٹ سے زائد کی اجازت نہیں دی جارہی جس کی وجہ سیفٹی مارجن قرار دی جارہی ہے حالانکہ بلڈرز حلف نامے دینے کو تیار ہیں کہ عمارتوں کی چھت پر اضافی انفرااسٹرکچر یا ٹاورز نصب نہیں کیے جائیں گے اگر خلاف ورزی کی جائے تو ایسی اضافی تعمیرات منہدم کردی جائیں۔ دوسری جانب تعمیراتی منصوبوں کے لیے نصب کی جانے والی اسکائی لائٹس کے استعمال کے لیے بھی امتیازی رویہ اختیار کیا جارہا ہے ۔
شاہراہ فیصل پر پہلے سے بلند عمارتوں اور میناروں کے برابر عمارتوں کی تعمیر کی اجازت نہیں دی جارہی، محکمہ شہری ہوابازی کے این او سی میں مشکلات اور قدغن کی وجہ سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے بھی250سے زائد پروجیکٹس کی تعمیر کے لیے اجازت ناموں کی درخواستیں روک رکھی ہیں جن کی وجہ سے شہر میں کی جانے والی اربوں روپے کی سرمایہ کاری زیر التواء ہے۔ ان رکاوٹوں کی وجہ سے بلڈرز کو بڑے والیوم کے پروجیکٹس تعمیر کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔