ایدھی کی عظمت

وہ لاوارث لاشوں، حادثات کا شکار لوگوں اور ضرورت مندوں میں کسی قسم کی تقسیم اور امتیاز کے قائل نہ تھے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

پاکستان کی 69 سالہ تاریخ میں سیاست دان بھی فوت ہوئے، حکمران بھی سفر آخرت پر روانہ ہوئے، مولوی، مولانا بھی موت کی وادی میں گئے اور ادیبوں اور شاعروں کو بھی سفر آخرت پر روانہ ہونا پڑا لیکن عبدالستار ایدھی کی موت پر پاکستان ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر جس دکھ اور توقیر کا مظاہرہ کیا گیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ عوام اور خواص ایدھی کا احترام ان کی سماجی خدمات کے حوالے سے کرتے ہیں۔

لاوارث لاشوں کی تدفین، حادثات میں زخمی ہونے والوں کو بلاتاخیر اسپتال پہنچانا، مسخ شدہ لاشوں کو غسل دینا اور ان کی تدفین کا اہتمام کرنا۔ قدرتی آفات کے مواقعوں پر امدادی کاموں میں حصہ لینا، ضعیف اور اولاد کے ستائے ہوئے انسانوں کو شیلٹر فراہم کرنا، یتیم بچوں کا سہارا بننا، لاوارث مردوں اور خواتین کو رہائش اور ان کو بنیادی ضروریات فراہم کرنا اور ماں باپ کے گناہوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو گود لے کر ان کی پرداخت کرنا، ایدھی صاحب کے وہ کارنامے تھے جن کی وجہ سے انھیں عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل تھی۔ ایدھی ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی قدرتی آفات کے موقع پر متاثرین کی مدد کے لیے پہنچ جاتے تھے، ان کے یہی وہ کارنامے تھے جن کی وجہ سے ایدھی مر کر بھی امر ہو گئے اور ان کے جنازے میں وہ زعما شریک ہوئے جو عام طور پر کسی غریب کے جنازے میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ ایدھی کے لیے 19توپوں کی سلامی ایک منفرد واقعہ ہی کہلا سکتا ہے۔

عبدالستار ایدھی سے ہماری ملاقات بھی بڑی دلچسپ تھی۔ سول اسپتال کے شعبہ نفسیات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ظہیر خان سے ہماری دوستی بلکہ بے تکلفانہ دوستی تھی، ہم اکثر ان کے آفس جاتے تھے اور قومی اور بین الاقوامی مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا تھا۔ شہر کے اس سب سے بڑے سرکاری اسپتال میں نفسیاتی مریضوں کے لیے صرف دس بارہ بیڈ تھے، جن پر عموماً نشہ باز لوگ قابض رہتے اور حقیقی نفسیاتی مریضوں کے لیے بیڈ دستیاب نہ ہوتے۔ پروفیسر ظہیر خان اس کمی پر ہمیشہ ملول دکھائی دیتے تھے۔ ایک دن پروفیسر صاحب نے ہم سے کہا سہراب گوٹھ کے ایدھی سینٹر میں کافی جگہ ہے اگر ایدھی صاحب دو وارڈ ہمیں دے دیں تو ذہنی مریضوں کے لیے سہولتیں مل سکتی ہیں اور ہم ان کا بہتر طور پر علاج کرسکتے ہیں۔

پروفیسر ظہیر خان سے ہم نے وعدہ کیا کہ ہم ایدھی سے اس مسئلے پر بات کریںگے۔ جب ہم نے فون پر ایدھی صاحب سے پروفیسر ظہیر خان کی خواہش کا ذکر کیا اور ان سے سہراب گوٹھ سینٹر میں دو وارڈ فراہم کرنے کی بات کی تو ایدھی صاحب نے کہاکہ وہ دو وارڈ پروفیسر ظہیر خان کو دینے کے لیے تیار ہیں۔ پھر دن اور وقت طے ہوا اور ہم پروفیسر ظہیر خان کے ساتھ سہراب گوٹھ کے ایدھی سینٹر پہنچے، جہاں ستار ایدھی ہمارے منتظر تھے۔ ایدھی ہمیں ایک کمرے میں بٹھاکر سینٹر میں موجود ڈاکٹر اور اپنے ساتھیوں سے اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے چلے گئے۔


کچھ دیر بعد ایدھی صاحب آئے تو ان کے چہرے پر پشیمانی عیاں تھی، انھوں نے متاسفانہ انداز میں کہاکہ ہمارے ساتھیوں کا خیال ہے کہ نفسیاتی مریضوں کو دو وارڈ دینے سے سینٹر کے کاموں میں ڈسٹربنس پیدا ہو سکتی ہے اس کے باوجود ستار ایدھی نے ہم سے وعدہ کیا کہ وہ ذہنی مریضوں کے علاج کے لیے ظہیر خان کو جگہ فراہم کرنے کی کوشش کریںگے۔ اس دوران ایدھی صاحب سے مختلف امور پر گفتگو ہوئی، وہ ناخواندہ ہونے کے باوجود نہ صرف طبقاتی نظام کی چیرہ دستیوں سے باخبر تھے بلکہ وہ اس حقیقت کا ادراک رکھتے تھے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ یہ برائیاں صرف سوشلزم کے نفاذ ہی سے دور ہو سکتی ہیں۔ وہ فکری حوالے سے ایک ترقی پسند انسان تھے۔

ایدھی مرحوم کے صاحبزادے فیصل ایدھی نے بڑے دکھ سے یہ انکشاف کیا کہ ہمارے ملک کے مولویوں اور مولاناؤں نے ہمیشہ ایدھی صاحب کی مخالفت کی اور انھیں اذیت دیتے رہے۔ ایدھی مرحوم کے خلاف کفر کے فتوے صادر کرتے رہے اور انھیں کافر قرار دیتے رہے۔ فیصل ایدھی نے بڑے کرب سے کہاکہ اب ایدھی صاحب اس دنیا میں نہیں رہے اب تو ان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم بند ہونی چاہیے۔

ہماری دنیا اب سو دو سو سال پہلے والی دنیا نہیں رہی، سائنس و ٹیکنالوجی سمیت زندگی کے ہر شعبے میں جو ناقابل یقین ترقی ہوئی ہے اس ترقی نے دنیا کو سر سے پیر تک بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے ملک کی اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کرسکے اور ماضی میں زندہ رہنا ہماری مجبوری بن گئی ہے۔ ستار ایدھی نہ عالم تھے نہ فاضل، لیکن وہ جدید دنیا کے تقاضوں کو سمجھتے تھے اور اسی تناظر میں وہ مذہب انسانیت پر یقین رکھتے تھے۔

وہ لاوارث لاشوں، حادثات کا شکار لوگوں اور ضرورت مندوں میں کسی قسم کی تقسیم اور امتیاز کے قائل نہ تھے، وہ ہر ضرورت مند کو انسان سمجھتے تھے اور اس کی اسی حوالے سے مدد کرتے تھے۔ ایدھی صاحب کی اصل شناخت اور عظمت ان کی سماجی خدمات میں نہیں بلکہ ان کی ترقی پسندانہ فکر میں پوشیدہ ہے اور ہمارے ملک کی یہ اجتماعی بدقسمتی ہے کہ ہم جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگی کو دین دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں، پاکستان میں سیکولرزم کو کفر کہتے ہیں اور یہی مقدس حضرات اور ان کی جماعتیں بھارت میں سیکولرزم کو سینے سے چمٹائے رہتی ہیں، کیوں کہ بھارت میں سیکولرزم سے وابستگی ہی میں اپنی بقا سمجھتے ہیں۔ ستار ایدھی مرحوم میں اس قسم کا دوغلا پن موجود نہ تھا، وہ انسان تھے اور انسانیت کو ہی سب سے اہم قرار دیتے تھے۔
Load Next Story