سب سے بڑا آدمی

ایدھی صاحب چلے گئے، ان پر بہت لکھا جارہا ہے مگر ان کی شخصیت کا احاطہ نہیں ہوپارہا

HYDERABAD:
ایدھی صاحب چلے گئے، ان پر بہت لکھا جارہا ہے مگر ان کی شخصیت کا احاطہ نہیں ہوپارہا۔ چاہے جتنا مرضی لکھ ڈالو، جتنے ایوارڈز، اعزازات دے ڈالو، سڑکوں کے نام رکھ لو، اداروں کے نام رکھ لو، ایئرپورٹ، اسٹیڈیم، ریلوے اسٹیشن ایدھی صاحب کے نام سے منسوب کرلو، ڈاک کا یادگاری ٹکٹ جاری کرلو، ان کے لیے ہر سال 8 جولائی ''چیریٹی ڈے'' کے طور پر منانے کا اعلان، ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز ''نشانِ امتیاز'' دینے کا اعلان اور اعلانات کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔

مگر ان تمام اعلانات سے پہلے ہی عبدالستار ایدھی صاحب بہت بلند مقام پر فائز نظر آتے ہیں۔ یہ خدائی خدمت گار لوگ ہوتے ہیں، ان کی زندگی ہی بہت بڑا اعزاز ہوتی ہے اور یہ اعزاز قادر مطلق اﷲ اپنے منظور کردہ بندوں کو دے کر دنیا میں بھیجتا ہے، اب اﷲ کے عطا کردہ اعزاز سے بھی بڑا کوئی اعزاز ہوسکتا ہے؟

جو زندگی ایدھی گزار گئے، جس ڈھب سے وہ جئے دوسرا ایدھی ہوتا بہت مشکل نظر آرہا ہے۔ یہی وہ سوال ہے جس پر غور کرنے کی اس وقت بہت ضرورت ہے۔ ایدھی صاحب کے کام کا پھیلاؤ بہت بڑا ہے، اس پھیلاؤ کی ''حفاظت'' لمحہ فکریہ ہے، حکومتوں سے توقع رکھنا فضول ہے، ایدھی صاحب یہ اصول وضع کرکے گئے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ عوام سے ناتا جوڑے رکھا اور یہی واحد ادارہ ہے یعنی ''عوام''، یہی ایدھی صاحب کے ''پھیلاؤ'' کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ بلقیس ایدھی صاحبہ اور فیصل ایدھی کی معاونت کے لیے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، عاصمہ جہانگیر، آئی اے رحمان، محترمہ انیس ہارون اور ایسے ہی چند اور۔ یہ لوگ ہیں جو معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

ایدھی نے سرمایہ داروں، وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں، خانوں، مجاوروں، مولویوں، سیاست دانوں سے کبھی کسی بھی قسم کا تعلق نہیں رکھا۔ اس بات پر قائم رہنا ہوگا۔ ایدھی کے مشن کو عوام نے دوام بخشا، ایدھی سڑک پر نکلتے اور عوام کے آگے جھولی پھیلادیتے اور عوام نے کبھی انھیں مایوس نہیں کیا تھا۔ یقیناً ایدھی فاؤنڈیشن مرحوم کے خیالات کا پاس رکھے گی۔

اب چند یادیں عظیم ایدھی کے لیے عقیدت کا نذرانہ۔ یہ 2008 تھا، میں عبدالعزیز میمن کے ساتھ ایدھی سینٹر میٹھادر پہنچا۔ ایدھی صاحب لکڑی کی معمولی کرسی پر بیٹھے تھے۔

ایک معمولی سی میز سامنے تھی، آنے والوں کے لیے بھی دو یا تین عدد معمولی کرسیاں تھیں، میں اور عزیز میمن ان کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ میں جالب صاحب کے پورٹریٹ (مصور ریاض صاحب نے صرف کالے رنگ سے جالب صاحب کے نقوش ابھارے تھے) والا وال کلاک ایدھی سینٹر کے لیے لے کر گیا تھا، ایدھی صاحب کی خدمت میں پیش کیا، جسے انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ قبول کیا اور قریب بیٹھے ایک ورکر سے کہاکہ اسے دیوار پر لگادے۔ ایدھی صاحب کے بائیں جانب ایک لکڑی کا جنازہ پڑا ہوا تھا اور وہ کہہ رہے تھے ''یہ رات کو ذرا نیند آجائے تو اسی پر گھڑی بھر کو لپیٹ جاتا ہوں۔ کچھ پتا نہیں ہوتا کب فون کی گھنٹی بج اٹھے، میری ڈیوٹی چوبیس گھنٹے کی ہے، پھر انھوں نے یہ بھی بتایا کہ میں اور میرے بیوی بچے عزیز بھائی کی نانی کے گھر میں کرائے پر رہتے ہیں۔ عزیز میمن نے اس تذکرے پر احتراماً نظریں جھکالیں، ہم کوئی آدھا گھنٹہ بیٹھے تو عزیز میمن نے مجھے چلنے کا اشارہ کیا اور ہم ایدھی صاحب سے رخصت لے کر چل دیے۔

اگلے سال 2009 میں پھر ایدھی صاحب سے ملاقات ہوئی، میں ایک خط لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ جس میں لکھا تھا کہ سال 2009 کا ''حبیب جالب امن ایوارڈ'' آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔ ایدھی صاحب نے خط کو قبول کرتے ہوئے ایوارڈ لینے کے لیے ہاں کہہ دی۔

حبیب جالب امن ایوارڈ کا جلسہ ہر سال 30 اپریل کو ہوتا ہے۔ 30 اپریل 2009 کا دن کراچی میں گولیاں برس رہی تھیں، لاشیں گر رہی تھیں، لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے تھے، یہ قہرمانی 29 اپریل کی رات ہی شروع ہوگئی تھی، بظاہر نظر آرہا تھا کہ تقریب نہیں ہوپائے گی، شہر میں کرفیو کا سماں تھا، میں دوپہر ایک بجے جلسہ گاہ یعنی کراچی پریس کلب پہنچا۔ میں یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ ایوارڈ کی تقریب ضرور ہوگی، تاکہ یہ پیغام جائے کہ ہم دہشت گردوں سے ڈرے نہیں۔ میں نے پریس کلب سے ایدھی صاحب کو فون کیا، شہر کے حالات کا ذکر کیا۔ ایدھی صاحب بولے ''سعید بھائی! آپ آؤگے؟'' میں نے کہا ہاں میں آؤںگا تو ایدھی صاحب بولے میں بھی آؤںگا، آپ مجھے ایوارڈ دینا اور میں ایوارڈ وصول کروںگا۔


اس شام ایدھی کے لیے جو مقررین آرہے تھے، وہ سب بھی آگئے۔ حالانکہ شہر میں ہو کا عالم تھا۔ مگر صاحب صدر فخرالدین جی ابراہیم آئے، میر حاصل بزنجو، میاں رضا ربانی، ممنون حسین (موجودہ صدر پاکستان)، عثمان بلوچ، نذیر لغاری، وارث رضا، ناصر جالب، شاعر نگہت بریلوی، توقیر چغتائی، فاضل جمیلی سب آئے۔ تمام کرسیاں بھی بھرگئیں۔ اتنا بھرپور اجتماع کرکے ہم نے ظلم کو مات دے دی۔ سامعین میں لندن سے آئے بیرسٹر صبغت اﷲ بھی شامل تھے۔ اس شام ایدھی صاحب کی لکھی ہوئی تحریر ان کے نواسے نے پڑھ کر سنائی، جب کہ ایدھی صاحب خود بھی روسٹرم پر کھڑے تھے، میں وہ تحریر نذر قارئین کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں:

''معزز حاضرین! سب سے پہلے میں حبیب جالب امن ایوارڈ کمیٹی کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے سال 2009 کے حبیب جالب امن ایوارڈ کے لیے منتخب کیا۔ عام طور پر اب میں اپنے کام کی مصروفیات اور بیماری کی وجہ سے ایوارڈ لینے کہیں نہیں جاتا لیکن آج میں یہ ایوارڈ وصول کرنے اس لیے آیا ہوں کیوں کہ ہم دونوں کے نظریات ایک ہیں، جس کی وجہ سے میں اسے پسند کرتا تھا اور وہ مجھے۔ جالب سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب وہ کراچی نشتر پارک کے ایک جلسے میں اپنی نظم دستور پڑھ رہا تھا اور لوگ پرجوش ہوکر ان کو داد دے رہے تھے، جالب اپنی شاعری کے ذریعے سماج میں ہونے والے ظلم کو بے نقاب کرتا رہا۔

جہاں کہیں بھی اس نے بے انصافی دیکھی شاعری کے ذریعے اپنی آواز بلند کی۔ مجھے یاد ہے 1964 میں جب عوام ایوب خان کی آمریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو جلسوں میں جالب نے اپنی شاعری کے ذریعے اپنی آواز بلند کی۔ عوام لیڈروں کی لچھے دار تقریروں کے بجائے اسے سننے آتے تھے۔ 1970 کے الیکشن میں جب مذہبی رہنما ظالموں اور لٹیروں کو بچانے کے لیے کفر کے فتوے صادر کرنے لگے ''اسلام کو خطرے'' کا راگ الاپنے لگے تھے تو جالب نے اپنی نظم ''خطرے میں اسلام نہیں'' کے ذریعے عوام میں یہ شعور پیدا کیا کہ خطرے میں اسلام نہیں بلکہ لٹیروں کا وہ نظام ہے جسے یہ ملا صدیوں سے بچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ میں سیاست دان نہیں اور نہ ہی میرا سیاست سے کوئی واسطہ ہے۔

ایک سماجی کارکن ہونے کے ناتے گزشتہ 62 سال سے معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کررہا ہوں کیوں کہ میرے سامنے آکر انسانیت ننگی ہوجاتی ہے۔ ایک ماں اپنے بچے کے علاج کے لیے جسم بیچنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ ہزاروں لوگ بھوک اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے مرجاتے ہیں، ایک طرف ملک کے 95 فیصد عوام ہیں جو گزشتہ 62 سال سے بے وقوف بنائے جارہے ہیں، ہر آنے والے دن کے ساتھ ان کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں اور دوسری طرف 5 فیصد جاگیردار، سرمایہ دار اور لٹیرے ہیں جو بظاہر تو علیحدہ ہوتے ہیں لیکن اصل میں ایک ہیں اور عوام کو لوٹ رہے ہیں، اسمبلی ہو یا سینیٹ وہاں وہی لوگ یا ان کی اولاد منتخب ہوکر آتی ہیں جو گزشتہ 62 سال سے اقتدار پر قابض ہیں، ملک میں ہر سطح پر کرپشن ہے، سرمایہ دار اصل ٹیکس کا صرف 10 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں، غریب، غریب تر ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے دہشت گردی جنم لے رہی ہے، آپس میں نفرتیں پیدا کی جارہی ہیں۔ مگر ہر آغاز کا انجام ہوتا ہے، اب یہ نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، آیندہ آنے والے وقت میں مجھے خونی انقلاب کے آثار نظر آرہے ہیں، اس کے سوا نجات کا کوئی اور راستہ نہیں، میں حبیب جالب کے ساتھ ہم آواز ہوتے ہوئے اپنی تقریر ختم کرتا ہوں:

ایسے دستور کو، صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا''

ایدھی صاحب کی یہ فکر انگیز تقریر بھی ریکارڈ پر آجائے، یہ بہت ضروری تھا۔
Load Next Story