ارباب عاصم خان پشاور کے چیف ایگزیکٹو بن گئے
پشاور شہر نے ماضی میں بڑا برا وقت دیکھا ہے دہشت گردی نے اس شہر کو کھنڈرات میں بدل دیا تھا
KARACHI:
گذشتہ دنوں روزنامہ ایکسپریس میں لیڈ اسٹوری شایع ہوئی کہ بیورو کریسی کے اختیارات ناظمین کو دینے پر غور شروع ہو گیا ہے۔خبر میں بتایا گیا کہ خیبر پختون خوا حکومت نے ضلعی، ٹاؤنز اور تحصیل ناظمین کو مزید اختیارات دینے کے لیے ترقیات و منصوبہ بندی گائیڈ لائن تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد ضلعی ناظمین کو ضلعی سطح کے افسران کی اے سی آر (سالانہ کارکردگی رپورٹ)لکھنے کا اختیار بھی حاصل ہو جائے گا۔شہر میں صفائی ستھرائی کے لیے بنائی جانے والی نئی کمپنی ڈبلیو ایس ایس پی کے افسران اور اہل کار بھی ضلعی، ٹاؤنز اور تحصیل ناظمین کو جواب دہ ہوں گے۔
خبر نگار نے مزید لکھا کہ اختیارات ملنے کے بعد اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔خاص طور پر صوبائی حکومت کی جانب سے ضلعی ترقیاتی کمیٹی کی سربراہی ڈپٹی کمشنر کے بجائے ضلع ناظم جب کہ تحصیل سطح کی ترقیاتی کمیٹی کی سربراہی تحصیل ناظم کو دیے جانے کا فیصلہ بھی اہم ثابت ہو گا۔خبر نگار کے مطابق گذشتہ مالی سال کے دوران ڈپٹی کمشنر اور دیگر ضلعی افسران کی مصروفیات کے باعث ترقیاتی کاموں کے ریلیز آرڈر بھی جاری نہیں کیے جا سکے اور ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کروڑوں روپے کے فنڈز واپس کرنا پڑے۔ضلعی اور تحصیل سطح پر صحت، تعلیم ، صفائی کے شعبوں اور انتظامی افسران بلدیاتی نمایندوں کو جواب دہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک الگ بلدیاتی حکومت قائم کیے ہوئے تھے جس پر صوبائی حکومت نے اختیارات کی بلدیاتی نمایندوں کو منتقلی کا فیصلہ کیا ہے۔
اس خبر کی اشاعت کے تین دن بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک نے ایک اجلاس طلب کیا اور ضلعی حکومت کو ضلع کونسل سے بدلنے اور صوبے بھر میں نئے ضلعی حکومتی نظام کے تحت ترجیحاتی شعبوں کی منظوری دی۔سب سے اہم فیصلہ ضلع ناظم کو شہر کا چیف ایگزیکٹو بنانا تھا جب کہ مختلف شعبوں کے لیے وسائل کی تخصیص بھی کر دی گئی ہے جس کے تحت تعلیم کے لیے بیس فیصد،صحت کے لیے دس فیصد،زراعت، خواتین کی ترقی اور کھیلوں کے لیے مجموعی پندرہ فیصد رقم مختص کی جائے گی۔اسی طرح ضلعی ناظمین پچاس فیصد صوابدیدی اختیارات بھی استعمال کر سکیں گے۔اس فیصلے کے بعد صوبے بھر کے بلدیاتی نمایندوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے وہ یہ بھول جانا چاہتے ہیں کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے لیے آکر صوبائی حکومت نے اتنا وقت کیوں لیا لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ بھلے دیر ہی سے یہ فیصلہ کم از کم ہو تو گیا اور اس کے بعد بیوروکریسی اور بلدیاتی نمایندوں کے درمیان جاری سرد جنگ بڑی حد تک ختم ہو جائے گی۔
بلدیاتی نمایندوں کو ان کے اختیارات دینے کی اصل جنگ پشاور کے ناظم اعلیٰ محمد عاصم خان نے تن تنہا لڑی، ایک موقع ایسا بھی آیا جب انھوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے چند قریبی دوستوں کے ہمراہ باعزت طور پر اپنی ذمے داریوں سے الگ ہوجائیں ۔ان کے ایک مخلص دوست نے انھیں اچھا مشورہ دیا کہ آخری بار عمران خان اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے بات کر لی جائے تاکہ پاکستان تحریک انصاف کو ایک دیرینہ ورکر سے محروم نہ ہونا پڑے چنانچہ انھوں نے عمران خان سے ملاقات کی اور صوبے بھر کے بلدیاتی نمایندوں کی مشکلات سے انھیں آگاہ کیا۔ان کا مؤقف تھا کہ ایسے حالات میں جب کہ پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بلدیاتی نمایندوں سے لوگوں کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں جس طرح عمران خان نے اس نظام کو کامیابی کی دلیل قرار دیا تھا اس کے نتائج قطعی ویسے نہ تھے ۔
عاصم خان نے عمران خان کو قائل کیا کہ اگر نچلی سطح پر اختیارات بلدیاتی نمایندوں کو نہ ملے تو آیندہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔ان دلائل میں وزن تھا تو پرویز خٹک نے بھی ان سے اتفاق کیا۔پشاور کے ضلع ناظم وزیر اعلیٰ کو یہ بھی باور کرانے میں بھی کامیاب ہو گئے کہ ان کی کابینہ میں شامل چند وزراء اپنے ذاتی مفادات کے لیے پی ٹی آئی کو تختہ مشق بنا رہے ہیں ۔
انھیں اپنے حلقوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ مخالف ضلعی ناظمین کو اختیارات دینے کی بجائے انھیں تنگ کر رہے ہیں لیکن یہ کسی بھی طور مناسب نہیں جہاں مخالف امیدوار جیتے ہیں انھیں بھی وہی حق ملنا چاہیے جو پی ٹی آئی کے جیتنے والے ناظم کو ملے ۔پرویز خٹک بڑے جہاندیدہ سیاست دان ہیں وہ ہر کام اپنے وقت پر کرتے ہیں اور لگتا ایسا ہے کہ اب بلدیاتی نمایندوں کو ان کا حق دینے کا وقت بھی آن پہنچا تھا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کو گراس روٹ لیول پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو کسی حد تک صوبائی حکومت کی غلطیوں اور کمزوریوں پر قابو پانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے ضلعی ناظمین کو اپنے ضلع کا چیف ایگزیکٹوبنانے کے فیصلے کی منظوری دے دی ہے بظاہر اب سمری تیار ہونے اور اسے منظور کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ اس لیے دکھائی نہیں دیتی کہ عمران خان اور پرویز خٹک کے بعد صوبائی چیف سیکریٹری امجد علی خان نے بھی ان تجاویز سے اتفاق کر لیا ہے اور امکان ہے کہ اگلے چند دنوں میں عملی طور پر تمام بلدیاتی نمایندے ایک الگ رنگ ڈھنگ میں دکھائی دیں گے۔
عاصم خان نے بھی اس حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اب وہ زیادہ بہتر طور پر اپنے شہریوں کی خدمت کر سکیں گے ۔انھیں ڈپٹی کمشنر سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن جب سے وہ ضلع ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے ہیں اختیارات کی جنگ نے انھیں پریشانی سے دوچار رکھا ان کی خواہش ہے کہ پشاور کو پھولوں کا شہر بنانے کے وہ وعدے جو دو سابق اور ایک موجودہ صوبائی وزیر سمیت اس شہر سے منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے دس اراکین اسمبلی نہیں کر سکے وہ اپنے یونین کونسل اور ٹاؤ نز ناظمین کے ساتھ مل کر پورا کریں گے۔
پشاور شہر نے ماضی میں بڑا برا وقت دیکھا ہے دہشت گردی نے اس شہر کو کھنڈرات میں بدل دیا تھا ۔یہاں کے شہریوں کی اکثریت تبدیلی کے خواب آنکھوں میں بسائے پشاور سے کوچ کر گئے یہاں نہ تفریحی مقامات ہیں اور نہ بچوں کو کھیلنے کی سہولتیں دستیاب ہیں ایسے میں بلدیاتی نمایندے بھی بے اختیاری کی صدائیں بلند کرتے محض تنقید کا نشانہ ہی بنتے رہے ۔اب اختیارات ملنے کے بعد توقع کی جا سکتی ہے کہ بلدیاتی نمایندے بیورو کریسی سے لڑنے جھگڑنے کی بجائے قواعد و ضوابط کے مطابق اپنے علاقوں کے مسائل کی جانب خلوص دل سے توجہ دیں گے اور شہر کو ترقی کی جانب گامزن کرنے میں اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کریں گے۔تاہم ان ساری کاوشوں پر پشاور کے ضلعی ناظم اعلیٰ جو اب چیف ایگزیکٹو ہوں گے مبارکباد کے مستحق ہیں جو یقیناً اب استعفیٰ نہیں دیں گے بلکہ اپنی پارٹی کا بازو بنیں گے۔
گذشتہ دنوں روزنامہ ایکسپریس میں لیڈ اسٹوری شایع ہوئی کہ بیورو کریسی کے اختیارات ناظمین کو دینے پر غور شروع ہو گیا ہے۔خبر میں بتایا گیا کہ خیبر پختون خوا حکومت نے ضلعی، ٹاؤنز اور تحصیل ناظمین کو مزید اختیارات دینے کے لیے ترقیات و منصوبہ بندی گائیڈ لائن تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد ضلعی ناظمین کو ضلعی سطح کے افسران کی اے سی آر (سالانہ کارکردگی رپورٹ)لکھنے کا اختیار بھی حاصل ہو جائے گا۔شہر میں صفائی ستھرائی کے لیے بنائی جانے والی نئی کمپنی ڈبلیو ایس ایس پی کے افسران اور اہل کار بھی ضلعی، ٹاؤنز اور تحصیل ناظمین کو جواب دہ ہوں گے۔
خبر نگار نے مزید لکھا کہ اختیارات ملنے کے بعد اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔خاص طور پر صوبائی حکومت کی جانب سے ضلعی ترقیاتی کمیٹی کی سربراہی ڈپٹی کمشنر کے بجائے ضلع ناظم جب کہ تحصیل سطح کی ترقیاتی کمیٹی کی سربراہی تحصیل ناظم کو دیے جانے کا فیصلہ بھی اہم ثابت ہو گا۔خبر نگار کے مطابق گذشتہ مالی سال کے دوران ڈپٹی کمشنر اور دیگر ضلعی افسران کی مصروفیات کے باعث ترقیاتی کاموں کے ریلیز آرڈر بھی جاری نہیں کیے جا سکے اور ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کروڑوں روپے کے فنڈز واپس کرنا پڑے۔ضلعی اور تحصیل سطح پر صحت، تعلیم ، صفائی کے شعبوں اور انتظامی افسران بلدیاتی نمایندوں کو جواب دہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک الگ بلدیاتی حکومت قائم کیے ہوئے تھے جس پر صوبائی حکومت نے اختیارات کی بلدیاتی نمایندوں کو منتقلی کا فیصلہ کیا ہے۔
اس خبر کی اشاعت کے تین دن بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک نے ایک اجلاس طلب کیا اور ضلعی حکومت کو ضلع کونسل سے بدلنے اور صوبے بھر میں نئے ضلعی حکومتی نظام کے تحت ترجیحاتی شعبوں کی منظوری دی۔سب سے اہم فیصلہ ضلع ناظم کو شہر کا چیف ایگزیکٹو بنانا تھا جب کہ مختلف شعبوں کے لیے وسائل کی تخصیص بھی کر دی گئی ہے جس کے تحت تعلیم کے لیے بیس فیصد،صحت کے لیے دس فیصد،زراعت، خواتین کی ترقی اور کھیلوں کے لیے مجموعی پندرہ فیصد رقم مختص کی جائے گی۔اسی طرح ضلعی ناظمین پچاس فیصد صوابدیدی اختیارات بھی استعمال کر سکیں گے۔اس فیصلے کے بعد صوبے بھر کے بلدیاتی نمایندوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے وہ یہ بھول جانا چاہتے ہیں کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے لیے آکر صوبائی حکومت نے اتنا وقت کیوں لیا لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ بھلے دیر ہی سے یہ فیصلہ کم از کم ہو تو گیا اور اس کے بعد بیوروکریسی اور بلدیاتی نمایندوں کے درمیان جاری سرد جنگ بڑی حد تک ختم ہو جائے گی۔
بلدیاتی نمایندوں کو ان کے اختیارات دینے کی اصل جنگ پشاور کے ناظم اعلیٰ محمد عاصم خان نے تن تنہا لڑی، ایک موقع ایسا بھی آیا جب انھوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے چند قریبی دوستوں کے ہمراہ باعزت طور پر اپنی ذمے داریوں سے الگ ہوجائیں ۔ان کے ایک مخلص دوست نے انھیں اچھا مشورہ دیا کہ آخری بار عمران خان اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے بات کر لی جائے تاکہ پاکستان تحریک انصاف کو ایک دیرینہ ورکر سے محروم نہ ہونا پڑے چنانچہ انھوں نے عمران خان سے ملاقات کی اور صوبے بھر کے بلدیاتی نمایندوں کی مشکلات سے انھیں آگاہ کیا۔ان کا مؤقف تھا کہ ایسے حالات میں جب کہ پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بلدیاتی نمایندوں سے لوگوں کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں جس طرح عمران خان نے اس نظام کو کامیابی کی دلیل قرار دیا تھا اس کے نتائج قطعی ویسے نہ تھے ۔
عاصم خان نے عمران خان کو قائل کیا کہ اگر نچلی سطح پر اختیارات بلدیاتی نمایندوں کو نہ ملے تو آیندہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔ان دلائل میں وزن تھا تو پرویز خٹک نے بھی ان سے اتفاق کیا۔پشاور کے ضلع ناظم وزیر اعلیٰ کو یہ بھی باور کرانے میں بھی کامیاب ہو گئے کہ ان کی کابینہ میں شامل چند وزراء اپنے ذاتی مفادات کے لیے پی ٹی آئی کو تختہ مشق بنا رہے ہیں ۔
انھیں اپنے حلقوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ مخالف ضلعی ناظمین کو اختیارات دینے کی بجائے انھیں تنگ کر رہے ہیں لیکن یہ کسی بھی طور مناسب نہیں جہاں مخالف امیدوار جیتے ہیں انھیں بھی وہی حق ملنا چاہیے جو پی ٹی آئی کے جیتنے والے ناظم کو ملے ۔پرویز خٹک بڑے جہاندیدہ سیاست دان ہیں وہ ہر کام اپنے وقت پر کرتے ہیں اور لگتا ایسا ہے کہ اب بلدیاتی نمایندوں کو ان کا حق دینے کا وقت بھی آن پہنچا تھا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کو گراس روٹ لیول پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو کسی حد تک صوبائی حکومت کی غلطیوں اور کمزوریوں پر قابو پانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے ضلعی ناظمین کو اپنے ضلع کا چیف ایگزیکٹوبنانے کے فیصلے کی منظوری دے دی ہے بظاہر اب سمری تیار ہونے اور اسے منظور کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ اس لیے دکھائی نہیں دیتی کہ عمران خان اور پرویز خٹک کے بعد صوبائی چیف سیکریٹری امجد علی خان نے بھی ان تجاویز سے اتفاق کر لیا ہے اور امکان ہے کہ اگلے چند دنوں میں عملی طور پر تمام بلدیاتی نمایندے ایک الگ رنگ ڈھنگ میں دکھائی دیں گے۔
عاصم خان نے بھی اس حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اب وہ زیادہ بہتر طور پر اپنے شہریوں کی خدمت کر سکیں گے ۔انھیں ڈپٹی کمشنر سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن جب سے وہ ضلع ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے ہیں اختیارات کی جنگ نے انھیں پریشانی سے دوچار رکھا ان کی خواہش ہے کہ پشاور کو پھولوں کا شہر بنانے کے وہ وعدے جو دو سابق اور ایک موجودہ صوبائی وزیر سمیت اس شہر سے منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے دس اراکین اسمبلی نہیں کر سکے وہ اپنے یونین کونسل اور ٹاؤ نز ناظمین کے ساتھ مل کر پورا کریں گے۔
پشاور شہر نے ماضی میں بڑا برا وقت دیکھا ہے دہشت گردی نے اس شہر کو کھنڈرات میں بدل دیا تھا ۔یہاں کے شہریوں کی اکثریت تبدیلی کے خواب آنکھوں میں بسائے پشاور سے کوچ کر گئے یہاں نہ تفریحی مقامات ہیں اور نہ بچوں کو کھیلنے کی سہولتیں دستیاب ہیں ایسے میں بلدیاتی نمایندے بھی بے اختیاری کی صدائیں بلند کرتے محض تنقید کا نشانہ ہی بنتے رہے ۔اب اختیارات ملنے کے بعد توقع کی جا سکتی ہے کہ بلدیاتی نمایندے بیورو کریسی سے لڑنے جھگڑنے کی بجائے قواعد و ضوابط کے مطابق اپنے علاقوں کے مسائل کی جانب خلوص دل سے توجہ دیں گے اور شہر کو ترقی کی جانب گامزن کرنے میں اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کریں گے۔تاہم ان ساری کاوشوں پر پشاور کے ضلعی ناظم اعلیٰ جو اب چیف ایگزیکٹو ہوں گے مبارکباد کے مستحق ہیں جو یقیناً اب استعفیٰ نہیں دیں گے بلکہ اپنی پارٹی کا بازو بنیں گے۔