ترکی میں بغاوت کی ناکامی کے بعد 103 جنرل اور ایڈمرل گرفتار
گرفتارکئے جانے والوں میں 2 ہزار389 سپاہی، 2 ہزار 745 ججز اور صدراردگان کے ملٹری اے ڈی بھی شامل ہیں، سرکاری میڈیا
ISLAMABAD:
ترکی میں بغاوت کی ناکامی کے بعد ہزاروں افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے جب کہ سرکاری میڈیا نے گرفتار اعلی ترین فوجی افسران کی تعداد بتاتے ہوئے کہا ہے کہ منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی پاداش میں 103 جنرلوں اور ایڈمرل کو گرفتارکیا جاچکا ہے۔
ترک سرکاری میڈیا کے مطابق منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد ترکی اسپیشل اینٹی ٹیرر پولیس نے چھاپہ مار کارروائیاں تیز کردیں جب کہ استنبول میں پولیس نے ایئرفورس ملٹری اکیڈمی میں بھی چھاپہ مارا تاہم وہاں سے گرفتاریوں سے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں جب کہ سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز سے اب تک مجموعی طور پر 7 ہزار 500 سے زائد افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے جن میں 103 جنرلز اور ایڈمرل بھی شامل ہیں،گرفتار کئے جانے والوں میں ججز کی بھی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ترک عوام نے فوجی بغاوت ناکام بنادی، 265 افراد ہلاک اور 1500 سے زائد زخمی
سرکاری میڈیا کے مطابق باغیوں کے خلاف آپریشن کلین اپ کے دوران 2 ہزار 389 اہلکاروں اور 2 ہزار 745 ججز اور پراسیکیوٹرز کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جب کہ صدر رجب طیب اردگان کے ملٹری اے ڈی علی یزیکی کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ گزشتہ روز استنبول میں فوجی ہیلی کاپٹرکی پروازوں کے بعد حکومت نے پولیس کے خصوصی دستے کے 1800 اہلکاروں کو استنبول میں تعینات کردیا اور انہیں حکم دیا گیا ہے کہ فضا میں پرواز کرنے والے کسی بھی ہیلی کاپٹر کو حکم کا انتظار کئے بغیر مار گرایا جائے۔
دوسری جانب ترک حکومت نے آئین کی خلاف ورزی اور منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے والے افسران اور ان کے مددگاروں کو سزا دینے کے لئے سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد پر غور شروع کردیا جسے ماضی میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا جب کہ ترک صدر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد کے لئے اپوزیشن سے بھی رائے لی جائے گی تاہم عوام اس وقت تک سڑکوں پر رہیں جب تک ایک ایک باغی کو گرفتار نہیں کرلیا جاتا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ترکی میں بغاوت کے سرغنہ فوجی افسر سمیت 6 ہزار افراد گرفتار
ادھر یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈریکا مغرینی کا کہنا ہے کہ ترکی سزائے موت کے خاتمے کے بعد یورپی یونین کا رکن بنا تھا اور کوئی ملک اس وقت تک یورپی یونین کا حصہ نہیں بن سکتا جب تک وہ سزائے موت کا قانون ختم نہ کردے اس لئے ترکی میں جمہوری اور قانونی اداروں کی حفاظت ضروری ہے۔
ترکی میں بغاوت کی ناکامی کے بعد ہزاروں افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے جب کہ سرکاری میڈیا نے گرفتار اعلی ترین فوجی افسران کی تعداد بتاتے ہوئے کہا ہے کہ منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی پاداش میں 103 جنرلوں اور ایڈمرل کو گرفتارکیا جاچکا ہے۔
ترک سرکاری میڈیا کے مطابق منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد ترکی اسپیشل اینٹی ٹیرر پولیس نے چھاپہ مار کارروائیاں تیز کردیں جب کہ استنبول میں پولیس نے ایئرفورس ملٹری اکیڈمی میں بھی چھاپہ مارا تاہم وہاں سے گرفتاریوں سے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں جب کہ سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز سے اب تک مجموعی طور پر 7 ہزار 500 سے زائد افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے جن میں 103 جنرلز اور ایڈمرل بھی شامل ہیں،گرفتار کئے جانے والوں میں ججز کی بھی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ترک عوام نے فوجی بغاوت ناکام بنادی، 265 افراد ہلاک اور 1500 سے زائد زخمی
سرکاری میڈیا کے مطابق باغیوں کے خلاف آپریشن کلین اپ کے دوران 2 ہزار 389 اہلکاروں اور 2 ہزار 745 ججز اور پراسیکیوٹرز کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جب کہ صدر رجب طیب اردگان کے ملٹری اے ڈی علی یزیکی کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ گزشتہ روز استنبول میں فوجی ہیلی کاپٹرکی پروازوں کے بعد حکومت نے پولیس کے خصوصی دستے کے 1800 اہلکاروں کو استنبول میں تعینات کردیا اور انہیں حکم دیا گیا ہے کہ فضا میں پرواز کرنے والے کسی بھی ہیلی کاپٹر کو حکم کا انتظار کئے بغیر مار گرایا جائے۔
دوسری جانب ترک حکومت نے آئین کی خلاف ورزی اور منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے والے افسران اور ان کے مددگاروں کو سزا دینے کے لئے سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد پر غور شروع کردیا جسے ماضی میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا جب کہ ترک صدر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد کے لئے اپوزیشن سے بھی رائے لی جائے گی تاہم عوام اس وقت تک سڑکوں پر رہیں جب تک ایک ایک باغی کو گرفتار نہیں کرلیا جاتا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ترکی میں بغاوت کے سرغنہ فوجی افسر سمیت 6 ہزار افراد گرفتار
ادھر یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈریکا مغرینی کا کہنا ہے کہ ترکی سزائے موت کے خاتمے کے بعد یورپی یونین کا رکن بنا تھا اور کوئی ملک اس وقت تک یورپی یونین کا حصہ نہیں بن سکتا جب تک وہ سزائے موت کا قانون ختم نہ کردے اس لئے ترکی میں جمہوری اور قانونی اداروں کی حفاظت ضروری ہے۔