ایسا چھوٹا میموری کارڈ جو 12 کروڑ کتابوں کا ڈیٹا محفوظ کرسکے گا
میموری ڈیوائس میں صرف ایک مربع انچ کے رقبے پر 500 ٹیرابائٹس جتنا ڈیٹا محفوظ کیا جاسکے گا
ایک وقت تھا جب چند کلو بائٹ مواد کو محفوظ رکھنےکے لیے بھی بڑی بڑی مشینیں درکار تھیں لیکن اب ہم چھوٹے سے ایس ڈی کارڈ میں سیکڑوں گیگا بائٹس ڈیٹا اپنے ساتھ لئے پھرتے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب صرف 0.1 ملی میٹر چوڑائی والے ایک مکعب میں 12 کروڑ کتابوں سے بھی زیادہ کا مواد سمویا جاسکے گا۔
ہالینڈ کی ڈیلفٹ یونیورسٹی سے منسلک ماہرین کی ٹیم نے ایسی میموری ڈیوائس کا تجربہ کیا ہے جس میں صرف ایک مربع انچ کے رقبے پر 500 ٹیرابائٹس جتنا ڈیٹا محفوظ کیا جاسکے گا۔ سرِدست یہ میموری مائع نائٹروجن کے درجہ حرارت یعنی 77 ڈگری کیلون (منفی 196 ڈگری سینٹی گریڈ) پر ہی کام کرسکتی ہے۔
اس میں تانبے (کاپر) کی سطح پر کلورین ایٹموں کی پرت بچھائی گئی ہے جو صرف ایک کلورین ایٹم جتنی موٹی ہے۔ اسکیننگ ٹنلنگ مائیکرو اسکوپ (ایس ٹی ایم) کی مدد سے ان ایٹموں کی ترتیب میں تبدیلی کرکے میموری میں ڈیٹا لکھا جاتا ہے جبکہ ڈیٹا پڑھنے، بدلنے اور مٹانے کا کام بھی ایس ٹی ایم ہی کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ فی الحال صرف ایک کلوبائٹ جتنے ڈیٹا سے اس تکنیک کا عملی مظاہرہ کیا گیا ہے۔
یہ نئی تکنیک ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے جب کہ اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے نیول ریسرچ لیبارٹری، امریکا میں سینٹر فار کمپیوٹیشنل مٹیریل سائنس کے تحقیق کار اسٹیون اِروِن کا کہنا ہے کہ اس تکنیک کے ذریعے محفوظ کیے گئے ڈیٹا کی کثافت ''موجودہ ہارڈ ڈسک یا فلیش (میموری کی) ٹیکنالوجی کے مقابلے میں 2 سے 3 گنا زیادہ ہے اور یہ پیش رفت بلاشبہ قابلِ تعریف ہے۔
ہالینڈ کی ڈیلفٹ یونیورسٹی سے منسلک ماہرین کی ٹیم نے ایسی میموری ڈیوائس کا تجربہ کیا ہے جس میں صرف ایک مربع انچ کے رقبے پر 500 ٹیرابائٹس جتنا ڈیٹا محفوظ کیا جاسکے گا۔ سرِدست یہ میموری مائع نائٹروجن کے درجہ حرارت یعنی 77 ڈگری کیلون (منفی 196 ڈگری سینٹی گریڈ) پر ہی کام کرسکتی ہے۔
اس میں تانبے (کاپر) کی سطح پر کلورین ایٹموں کی پرت بچھائی گئی ہے جو صرف ایک کلورین ایٹم جتنی موٹی ہے۔ اسکیننگ ٹنلنگ مائیکرو اسکوپ (ایس ٹی ایم) کی مدد سے ان ایٹموں کی ترتیب میں تبدیلی کرکے میموری میں ڈیٹا لکھا جاتا ہے جبکہ ڈیٹا پڑھنے، بدلنے اور مٹانے کا کام بھی ایس ٹی ایم ہی کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ فی الحال صرف ایک کلوبائٹ جتنے ڈیٹا سے اس تکنیک کا عملی مظاہرہ کیا گیا ہے۔
یہ نئی تکنیک ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے جب کہ اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے نیول ریسرچ لیبارٹری، امریکا میں سینٹر فار کمپیوٹیشنل مٹیریل سائنس کے تحقیق کار اسٹیون اِروِن کا کہنا ہے کہ اس تکنیک کے ذریعے محفوظ کیے گئے ڈیٹا کی کثافت ''موجودہ ہارڈ ڈسک یا فلیش (میموری کی) ٹیکنالوجی کے مقابلے میں 2 سے 3 گنا زیادہ ہے اور یہ پیش رفت بلاشبہ قابلِ تعریف ہے۔