کافی سے بنے کپ یورپ میں مقبول ہونے لگے

ماہرین کافی کے بیجوں، پھوک کوسیلولوزکے بائی پولیمراورقدرتی لاکھ کے ساتھ ملاکرپائیدارمیٹریل بنانے میں کام یاب ہوگئے


عبدالریحان July 19, 2016
جولین اور اس کا پارٹنر کافی کے بیجوں، پھوک کو سیلولوز کے بائی پولیمر اور قدرتی لاکھ کے ساتھ ملاکر مطلوبہ پائیدار میٹریل بنانے میں کام یاب ہوگئے۔فوٹو : فائل

چائے اور کافی دنیا بھر میں سب سے زیادہ پیے جانے والے گرم مشروبات ہیں۔ چائے کی پتی پودے کے پتوں کو سکھاکر اور پیس کر بنائی جاتی ہے۔ کافی درخت سے حاصل کردہ بیجوں کو پیس کر حاصل ہوتی ہے۔ چائے کی پتی کی تیاری کے دوران پتیاں ضائع نہیں ہوتیں یعنی پوری پوری پتیاں کام میں آجاتی ہیں مگر کافی کے معاملے میں صورت حال مختلف ہے۔ کافی کے بیجوں سے کافی حاصل کرلینے کے بعد چھلکوں کی صورت میں کچرا بچ جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک کپ کے لیے درکار کافی حاصل کرنے کے دوران دو چائے کے چمچوں کے مساوی چھلکے بچ جاتے ہیں۔

اب ذرا تصور کیجیے دنیا میں روزانہ لاکھوں کروڑوں کپ کافی پی جاتی ہے تو اس پھوک کی شکل میں کتنا کچرا جمع ہوجاتا ہوگا۔ اگرچہ اس پھوک کو کھادوں ، آرائش حسن کی مصنوعات وغیرہ کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے مگر بیشتر مقدار کچرا خانوں میں پھینکی جاتی ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسی بات کے پیش نظر جرمن ڈیزائنر جولین لیسنجر نے کافی کے پھوک کو کار آمد بنانے کا فیصلہ کیا۔ کافی سے تیار کردہ جولین کے تیارہ کردہ کپ پرچ اور کیتلی وغیرہ یورپ بھر میں فروخت ہورہے ہیں۔

جولین کو کافی کے پھوک سے برتن بنانے کا خیال ان دنوں آیا جب وہ اٹلی کے مشہور شہر یولزانو کی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی۔ اس بارے میں جولین کہتی ہے ''یونیورسٹی میں ہم کثرت سے کافی پیتے تھے۔ کلاسوں سے پہلے اور بعد میں ہمارا بیشتر وقت ایسپریسوبار میں گزرتا تھا۔ ایک روز میں سوچنے لگی کہ چائے کی پتی کی طرح کافی کا کچرا (پھوک) بھی بچتا ہوگا اسے کہاں استعمال کیا جاتا ہوگا۔

جولین نے اس بارے میں معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ کافی کا پھوک اور ناکارہ بیج کچرے میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ جولین نے سوچا کہ کیوں نہ اس کچرے کو کار آمد بنایا جائے۔ اس نے اس سلسلے میں اپنے اساتذہ کی رائے لینی شروع کی مگر اسے کوئی قابل عمل راستہ تلاش کرنے میں کئی برس لگ گئے۔ ابتدا میں جولین نے کافی کے پھوک اور ناکارہ بیجوں کے ساتھ مختلف اشیاء ملاکر ان سے کپ وغیرہ بنانے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ شکرملاکر قابل استعمال اور پائیدار برتن بنانے کی کوشش کی مگر اس آمیزے سے تیار کردہ کپ تین بار استعمال ہونے کے بعد پگھلنے لگتے تھے۔

کئی ناکام تجربات کے بعد جولین اور اس کا پارٹنر اپنے مقصد میں کام یاب ہوگئے ۔ وہ کافی کے بیجوں، پھوک کو سیلولوز کے بائی پولیمر اور قدرتی لاکھ کے ساتھ ملاکر مطلوبہ پائیدار میٹریل بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ جولین نے جب اس میٹریل سے تیار کردہ پہلے کپ میں کافی پی تو اسے یقین ہوگیا کہ اس کی محنت رنگ لے آئی ہے۔ خالی کپ میں سے بھی کافی کی مہک اٹھ رہی تھی۔ اس طرح کافی پینے کا مزہ دوبالا ہوگیا تھا۔

جولین اور اس کے پارٹنر نے ابتدائی طور پر تیار کردہ کپ پرچ اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو تحفتاً پیش کیے جلد ہی انھیں ان منفرد برتنوں کے آرڈر ملنے شروع ہوگئے۔ طلب بڑھی تو انھوں نے Koffeeformکے نام سے ایک چھوٹی سی فرم کھول لی۔ اب ان کا کاروبار تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ یورپ کے دس شہروں میں انھوں نے دفاتر کھول لیے ہیں۔ انھیں روزانہ کئی درجن آرڈر موصول ہورہے ہیں۔کام بڑے پیمانے پر پھیل جانے کے بعد جولین نے خصوصی برتنوں کی تیاری کے لیے مشین نصب کرلی ہیں اور کئی کاری گر ملازم رکھ لیے ہیں جولین کا کہنا ہے آرڈر بھیجے جانے سے قبل وہ ہر برتن کا معائنہ خود کرتی ہے تاکہ گاہک کو شکایت کا موقع نہ ملے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں