میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
پشین میں 57 فی صد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔
بلوچستان کی بڑی آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے، جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔
دیگر اضلاع کی طرح پشین بھی کئی مسائل سے دوچار ہے۔ عوام پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ صفائی ستھرائی کی صورت حال ابتر ہے۔ کچرا اور فضلہ ٹھکانے لگانے کا کوئی مناسب انتظام نہیں۔ نکاسی آب کا مسئلہ گمبھیر شکل اختیار کر چکا ہے، جس سے نہ صرف ماحول آلودہ ہورہا ہے، بلکہ بیماریاں بھی جنم لے رہی ہیں۔
صحت مند زندگی کے لیے جراثیم سے پاک پانی بنیادی ضرورت ہے، مگر پشین میں 57 فی صد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ غذائی اجناس کی فراہمی اور فروخت کے دوران بھی حفظان صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہیں، جو میونسپل کمیٹی اور ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ انتظامیہ کی غفلت بھی بیماریوں میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
پشین میں زیرزمین پانی کا استعمال عام ہے۔ تحصیل کاریزات میں قلعہ قاسم بوستان سے چرمیان کے علاقے تک، زیر زمین پانی بڑی حد تک قابل استعمال ہے، مگر پشین بازار اور اِس کے گردو نواح میں جو پانی زمین سے نکالا جاتا ہے، وہ پینے کے قابل نہیں۔ خاص کر یونین کونسل سرانان، ہکلزئی، خدائی داد زئی، کربلا، شادیزئی اور اجرم میں زیر زمین پانی نمکین اور گدلا ہے، جس کی وجہ سے اِن علاقوں میں یرقان کا مرض عام ہے۔ اِس جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
''پی ایچ ای ڈی'' یعنی پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ، پشین کی بیش تر اسکیمیں گنجان علاقوں تک محدود ہیں۔ اِن علاقوں میں پائپ لائنز کے ذریعے فراہم ہونے والا 90 فی صد پانی گھریلو کام کاج اور 10فی صد کمرشل بنیادوں پر استعمال ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر کُل آبادی کا صرف 35 فی صد مذکورہ ادارے کی جانب سے فراہم کردہ پانی سے مستفید ہورہا ہے۔ مذکورہ ادارے کی 38 اسکیمیں کمیونٹی کے سپرد ہیں۔ بعض کنٹریکٹرز کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ آبادی کے بڑے حصے کے لیے پانی کا بندوبست کرنا انتہائی دشوار ہے۔ دور دراز علاقوں میں تو ادارے کی اسکیموں کا کوئی وجود ہی نہیں۔
پورے ضلعے، خصوصاً پشین سٹی میں پبلک ہیلتھ کی مجموعی کارکردگی کسی طور حوصلہ بخش نہیں۔ ناقص سیوریج نظام نے صورت حال کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ پشین سٹی میں کچری، گنج بازار اور سبزی مارکیٹ کی اکثر گلیاں کچی یا خستہ حال ہیں۔ نکاسی آب کا نظام بے ترتیب ہے۔ فضلے اور فاسد مادوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ اُنھیں ٹھکانے لگانے کا کوئی مناسب انتظام نہیں۔ ضروری ہے کہ ضلعی انتظامیہ گندگی کے ڈھیر فوری طور پر ہٹائے، اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے۔ عوام کو بھی اِس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے عملی بنیادوں پر ہفتہ وار صفائی مہم چلائی جائے۔ ضلعی انتظامیہ، میونسپل ایڈمنسٹریٹر اور عملہ شہر سے گندے پانی کی نکاسی کا مسئلے حل کرے۔ کچرے کو ٹھکانے لگانے کا مناسب انتظام کیا جائے۔ درختوں کی کٹائی روکی جائے، اور شجرکاری کی حوصلہ افزائی ہو۔
اِس ضمن میں چند راہ نما اصول اپنائے جائیں، مثلاً پینے کا پانی ہمیشہ محفوظ ذرایع یعنی نلکے، ہینڈ پمپ اور کنویں سے حاصل کیا جائے۔ ساتھ ہی اِن ذرایع کی حفاظت بھی کی جائے۔ پانی ابال کر پیا جائے۔ گھر میں جو کنویں ہیں، اُن کے منہ ڈھکے جائیں، تاکہ کچرا اور غلاظت اُن میں نہ جائے۔ پانی ذخیرہ کرنے کی جگہ زمین سے اونچی اور سایہ دار ہو۔
جن برتنوں میں پانی رکھا جائے، وہ صاف ہوں۔ انھیں مناسب طریقے سے ڈھکا جائے۔ کھانا پکانے سے پہلے یا آٹا گوندھنے سے پہلے ہاتھ صابن سے دھو لیے جائیں۔ بیت الخلا سے آنے کے بعد ہمیشہ ہاتھ صابن سے دھوئے جائیں۔ اس طرح بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
جہاں پانی کی قلت ہے، وہاں ایسے انتظامات کیے جائیں، جو پانی کی بچت میں معاون ہوں۔ بچوں کو بیت الخلا کے استعمال کا طریقۂ کار سِکھایا جائے۔ بیت الخلا کی باقاعدگی سے صفائی بھی ضروری ہے۔ انسانی و حیوانی فضلہ ہمیشہ مٹی سے ڈھک دیا جائے۔ گھر اور گلیاں صاف رکھی جائیں۔ گلی محلوں میں اگر گندا پانی کھڑا ہو، تو مچھروں کی افزائش کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ ایسے تمام گڑھے مٹی سے بھر دیے جائیں۔
کچرے سے ڈھکا یہ شہر عوام اور انتظامیہ سے پوری توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔ اس جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دیگر اضلاع کی طرح پشین بھی کئی مسائل سے دوچار ہے۔ عوام پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ صفائی ستھرائی کی صورت حال ابتر ہے۔ کچرا اور فضلہ ٹھکانے لگانے کا کوئی مناسب انتظام نہیں۔ نکاسی آب کا مسئلہ گمبھیر شکل اختیار کر چکا ہے، جس سے نہ صرف ماحول آلودہ ہورہا ہے، بلکہ بیماریاں بھی جنم لے رہی ہیں۔
صحت مند زندگی کے لیے جراثیم سے پاک پانی بنیادی ضرورت ہے، مگر پشین میں 57 فی صد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ غذائی اجناس کی فراہمی اور فروخت کے دوران بھی حفظان صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہیں، جو میونسپل کمیٹی اور ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ انتظامیہ کی غفلت بھی بیماریوں میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
پشین میں زیرزمین پانی کا استعمال عام ہے۔ تحصیل کاریزات میں قلعہ قاسم بوستان سے چرمیان کے علاقے تک، زیر زمین پانی بڑی حد تک قابل استعمال ہے، مگر پشین بازار اور اِس کے گردو نواح میں جو پانی زمین سے نکالا جاتا ہے، وہ پینے کے قابل نہیں۔ خاص کر یونین کونسل سرانان، ہکلزئی، خدائی داد زئی، کربلا، شادیزئی اور اجرم میں زیر زمین پانی نمکین اور گدلا ہے، جس کی وجہ سے اِن علاقوں میں یرقان کا مرض عام ہے۔ اِس جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
''پی ایچ ای ڈی'' یعنی پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ، پشین کی بیش تر اسکیمیں گنجان علاقوں تک محدود ہیں۔ اِن علاقوں میں پائپ لائنز کے ذریعے فراہم ہونے والا 90 فی صد پانی گھریلو کام کاج اور 10فی صد کمرشل بنیادوں پر استعمال ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر کُل آبادی کا صرف 35 فی صد مذکورہ ادارے کی جانب سے فراہم کردہ پانی سے مستفید ہورہا ہے۔ مذکورہ ادارے کی 38 اسکیمیں کمیونٹی کے سپرد ہیں۔ بعض کنٹریکٹرز کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ آبادی کے بڑے حصے کے لیے پانی کا بندوبست کرنا انتہائی دشوار ہے۔ دور دراز علاقوں میں تو ادارے کی اسکیموں کا کوئی وجود ہی نہیں۔
پورے ضلعے، خصوصاً پشین سٹی میں پبلک ہیلتھ کی مجموعی کارکردگی کسی طور حوصلہ بخش نہیں۔ ناقص سیوریج نظام نے صورت حال کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ پشین سٹی میں کچری، گنج بازار اور سبزی مارکیٹ کی اکثر گلیاں کچی یا خستہ حال ہیں۔ نکاسی آب کا نظام بے ترتیب ہے۔ فضلے اور فاسد مادوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ اُنھیں ٹھکانے لگانے کا کوئی مناسب انتظام نہیں۔ ضروری ہے کہ ضلعی انتظامیہ گندگی کے ڈھیر فوری طور پر ہٹائے، اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے۔ عوام کو بھی اِس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے عملی بنیادوں پر ہفتہ وار صفائی مہم چلائی جائے۔ ضلعی انتظامیہ، میونسپل ایڈمنسٹریٹر اور عملہ شہر سے گندے پانی کی نکاسی کا مسئلے حل کرے۔ کچرے کو ٹھکانے لگانے کا مناسب انتظام کیا جائے۔ درختوں کی کٹائی روکی جائے، اور شجرکاری کی حوصلہ افزائی ہو۔
اِس ضمن میں چند راہ نما اصول اپنائے جائیں، مثلاً پینے کا پانی ہمیشہ محفوظ ذرایع یعنی نلکے، ہینڈ پمپ اور کنویں سے حاصل کیا جائے۔ ساتھ ہی اِن ذرایع کی حفاظت بھی کی جائے۔ پانی ابال کر پیا جائے۔ گھر میں جو کنویں ہیں، اُن کے منہ ڈھکے جائیں، تاکہ کچرا اور غلاظت اُن میں نہ جائے۔ پانی ذخیرہ کرنے کی جگہ زمین سے اونچی اور سایہ دار ہو۔
جن برتنوں میں پانی رکھا جائے، وہ صاف ہوں۔ انھیں مناسب طریقے سے ڈھکا جائے۔ کھانا پکانے سے پہلے یا آٹا گوندھنے سے پہلے ہاتھ صابن سے دھو لیے جائیں۔ بیت الخلا سے آنے کے بعد ہمیشہ ہاتھ صابن سے دھوئے جائیں۔ اس طرح بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
جہاں پانی کی قلت ہے، وہاں ایسے انتظامات کیے جائیں، جو پانی کی بچت میں معاون ہوں۔ بچوں کو بیت الخلا کے استعمال کا طریقۂ کار سِکھایا جائے۔ بیت الخلا کی باقاعدگی سے صفائی بھی ضروری ہے۔ انسانی و حیوانی فضلہ ہمیشہ مٹی سے ڈھک دیا جائے۔ گھر اور گلیاں صاف رکھی جائیں۔ گلی محلوں میں اگر گندا پانی کھڑا ہو، تو مچھروں کی افزائش کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ ایسے تمام گڑھے مٹی سے بھر دیے جائیں۔
کچرے سے ڈھکا یہ شہر عوام اور انتظامیہ سے پوری توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔ اس جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔