اطالوی شاہی خاندان کا آخری چشم و چراغ لاس اینجلس کی سڑکوں پر پاستا بیچتا ہے
لاس اینجلس کی سڑکوں پر پاستابیچتا ہے
QUETTA:
وقت کی چال جب بدلتی ہے تو تاریخ نئی کروٹ لیتی ہے۔ شاہ، گدا بن جاتے ہیں۔ وقت کا بے رحم پہیہ جب گھومتا ہے تو حاکم اپنی ہی سلطنت سے بے دخل کردیے جاتے ہیں۔ نسل در نسل مسند اقتدار پر براجمان چلے آنے والے عام آدمی کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ ان کی جن اولادوں نے مستقبل میں زمام اقتدار سنبھالنی تھی وقت انھیں گزر بسر کے لیے ایک عام شخص کی طرح جدوجہد پر مجبور کردے گا۔ اٹلی میں بادشاہت 1846ء تک قائم رہی تھی۔ اومبارتودوم اٹلی کا آخری بادشاہ تھا۔ اسے تاج شاہی سر پر سجائے محض ایک ہی ماہ ہوا تھا کہ عوامی طاقت نے اس کی حکمرانی کا خاتمہ کردیا۔اومبارتو دوم کو جلا وطن کردیاگیا اور اس کی جلا وطنی کے ساتھ ہی اٹلی میں بادشاہت قصۂ پارینہ بن گئی۔
کئی برس قبل آخری مغل فرماں روا بہادر شاہ ظفر کے خاندان کے آخری چشم و چراغ کے بارے میں پڑھا تھا کہ وہ ہندوستان کی سڑکوں پر چھوٹی موٹی اشیاء فروخت کرکے گزارا کررہے تھے۔ اٹلی کا آخری شہزادہ بھی ان دنوں پاستا بیچ کر اپنا خرچ چلارہا ہے۔ جلا وطنی کے بعد اومبارتودوم نے پرتگال میں پناہ لی تھی۔ اس کے پوتے اور شاہی خاندان کے آخری چشم و چراغ کی ولادت سوئزرلینڈ میں ہوئی تھی۔ اس کا نام ایما نوئل فلیبرتو ہے اور ان دنوں وہ لاس اینجلس کی سڑکوں پر پاستا فروخت کررہا ہے۔ اس نے ایک ٹرک لے رکھا ہے جس میں بیٹھ کر وہ مختلف علاقوں میں جاجا کر پاستا فروخت کرتا ہے۔ ایمانوئل اپنی خاندانی تاریخ سے بخوبی واقف ہے مگر اس کا کہنا ہے ان کی خاندانی شان و شوکت ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ ایما نوئل کے مطابق اس کے اجداد اٹلی سے جلا وطن ہوئے تو بے سروسامانی کی حالت میں پرتگال تھے۔ اپنا سب کچھ وہ وہیں چھوڑ آئے تھے۔
ایما نوئل کے مطابق ان کے والدین نے محنت مشقت کرکے زندگی گزاری تھی اور وہ بھی اپنے زور بازو سے روزی روٹی کمارہا ہے۔ ایما نوئل چھ ماہ پہلے ہی امریکا وارد ہوا ہے۔ اس کی آمد کسی اور سلسلے میں ہوئی تھی مگر جب اس نے دیکھا کہ یہاں بے شمار میکسکن اور ایشیائی باشندے ٹرکوں میں کھانے پینے کی مختلف چیزیں فروخت کررہے ہیں تو اسے بھی یہ کام پسند آیا۔ جمع پونجی سے ایما نوئل نے ایک ٹرک خرید لیا۔ اسے علم تھا کہ اٹلی کا پاستا بے حد پسند کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس نے امریکیوں کو یہی شے کھلانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
ٹرک خریدنے کے بعد ایما نوئل نے اس پر اطالوی ثقافت کی مناسبت سے رنگ کیا اور پھر ''پرنس آف وینس'' کے الفاظ درج کردئیے۔ ان الفاظ کو پڑھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ٹرک والے نے یوں ہی لکھ دیے ہیں۔ ان کی صداقت پر بھلا کوئی یقین کر بھی کیسے سکتا ہے کہ یہ سوچنا ہی محال ہے کہ کوئی شہزادہ ٹھیلے والے کی طرح گلی گلی گھوم کر چیزیں بیچ رہا ہو۔ استفسار کرنے والوں کو جب ایما نوئل کی حقیقت پتا چلتی ہے تو وہ حیران ہوجاتے ہیں۔ ایما نوئل کے مطابق اس کا کاروبار اچھا چل نکلا ہے کیونکہ دوسرے موبائل فوڈیز میں صرف میکسیکن اور ایشیائی کھانے فروخت کرتے ہیں۔ مشہور زمانہ اطالوی پاستا صرف اس کے پاس دستیاب ہوتا ہے۔
وقت کی چال جب بدلتی ہے تو تاریخ نئی کروٹ لیتی ہے۔ شاہ، گدا بن جاتے ہیں۔ وقت کا بے رحم پہیہ جب گھومتا ہے تو حاکم اپنی ہی سلطنت سے بے دخل کردیے جاتے ہیں۔ نسل در نسل مسند اقتدار پر براجمان چلے آنے والے عام آدمی کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ ان کی جن اولادوں نے مستقبل میں زمام اقتدار سنبھالنی تھی وقت انھیں گزر بسر کے لیے ایک عام شخص کی طرح جدوجہد پر مجبور کردے گا۔ اٹلی میں بادشاہت 1846ء تک قائم رہی تھی۔ اومبارتودوم اٹلی کا آخری بادشاہ تھا۔ اسے تاج شاہی سر پر سجائے محض ایک ہی ماہ ہوا تھا کہ عوامی طاقت نے اس کی حکمرانی کا خاتمہ کردیا۔اومبارتو دوم کو جلا وطن کردیاگیا اور اس کی جلا وطنی کے ساتھ ہی اٹلی میں بادشاہت قصۂ پارینہ بن گئی۔
کئی برس قبل آخری مغل فرماں روا بہادر شاہ ظفر کے خاندان کے آخری چشم و چراغ کے بارے میں پڑھا تھا کہ وہ ہندوستان کی سڑکوں پر چھوٹی موٹی اشیاء فروخت کرکے گزارا کررہے تھے۔ اٹلی کا آخری شہزادہ بھی ان دنوں پاستا بیچ کر اپنا خرچ چلارہا ہے۔ جلا وطنی کے بعد اومبارتودوم نے پرتگال میں پناہ لی تھی۔ اس کے پوتے اور شاہی خاندان کے آخری چشم و چراغ کی ولادت سوئزرلینڈ میں ہوئی تھی۔ اس کا نام ایما نوئل فلیبرتو ہے اور ان دنوں وہ لاس اینجلس کی سڑکوں پر پاستا فروخت کررہا ہے۔ اس نے ایک ٹرک لے رکھا ہے جس میں بیٹھ کر وہ مختلف علاقوں میں جاجا کر پاستا فروخت کرتا ہے۔ ایمانوئل اپنی خاندانی تاریخ سے بخوبی واقف ہے مگر اس کا کہنا ہے ان کی خاندانی شان و شوکت ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ ایما نوئل کے مطابق اس کے اجداد اٹلی سے جلا وطن ہوئے تو بے سروسامانی کی حالت میں پرتگال تھے۔ اپنا سب کچھ وہ وہیں چھوڑ آئے تھے۔
ایما نوئل کے مطابق ان کے والدین نے محنت مشقت کرکے زندگی گزاری تھی اور وہ بھی اپنے زور بازو سے روزی روٹی کمارہا ہے۔ ایما نوئل چھ ماہ پہلے ہی امریکا وارد ہوا ہے۔ اس کی آمد کسی اور سلسلے میں ہوئی تھی مگر جب اس نے دیکھا کہ یہاں بے شمار میکسکن اور ایشیائی باشندے ٹرکوں میں کھانے پینے کی مختلف چیزیں فروخت کررہے ہیں تو اسے بھی یہ کام پسند آیا۔ جمع پونجی سے ایما نوئل نے ایک ٹرک خرید لیا۔ اسے علم تھا کہ اٹلی کا پاستا بے حد پسند کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس نے امریکیوں کو یہی شے کھلانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
ٹرک خریدنے کے بعد ایما نوئل نے اس پر اطالوی ثقافت کی مناسبت سے رنگ کیا اور پھر ''پرنس آف وینس'' کے الفاظ درج کردئیے۔ ان الفاظ کو پڑھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ٹرک والے نے یوں ہی لکھ دیے ہیں۔ ان کی صداقت پر بھلا کوئی یقین کر بھی کیسے سکتا ہے کہ یہ سوچنا ہی محال ہے کہ کوئی شہزادہ ٹھیلے والے کی طرح گلی گلی گھوم کر چیزیں بیچ رہا ہو۔ استفسار کرنے والوں کو جب ایما نوئل کی حقیقت پتا چلتی ہے تو وہ حیران ہوجاتے ہیں۔ ایما نوئل کے مطابق اس کا کاروبار اچھا چل نکلا ہے کیونکہ دوسرے موبائل فوڈیز میں صرف میکسیکن اور ایشیائی کھانے فروخت کرتے ہیں۔ مشہور زمانہ اطالوی پاستا صرف اس کے پاس دستیاب ہوتا ہے۔