سہولت مصیبت نہ بن جائے
نوجوانوں کو سرکاری ملازمت کے حصول کی سوچ تبدیل کرکے دیگر شعبوں میں دل چسپی لینی چاہیے ۔
ملک کے دیگر اضلاع کی طرح سکھر کے نوجوانوں کے لیے بھی ملازمت کا حصول ایک خواب بن گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج باصلاحیت اور تعلیم یافتہ نوجوان اسناد ہاتھوں میں لیے سیاسی جماعتوں کے دفاتر کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں، اِس امید پر کہ منتخب نمایندے ایک روز اپنے وعدے ضرور پورے کریں گے۔ عام طور سے تو ایسا نہیں ہوتا، البتہ گذشتہ انتخابات میں کام یابی حاصل کرکے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے خورشید احمد شاہ نے، دیر ہی سے سہی، اپنے ووٹرز سے کیے گئے وعدے پورے کرنے شروع کر دیے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کی جانب سے، حکومت کے اختتام سے تین ماہ قبل نوجوانوں کو خود روزگار اسکیم کے تحت ساڑھے پانچ سو رکشے تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا، جو تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ یہ ایک احسن اقدام ہے، تاہم اِس سے مسائل میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔
تفصیلات کے مطابق پہلے مرحلے میں سید خورشید احمد شاہ نے پبلک اسکول کے آڈیٹوریم میں منعقدہ ایک تقریب میں روہڑی، صالح پٹ، کندھرا، پنو عاقل سمیت دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے پچاس افراد میں رکشے تقسیم کیے۔ اِس اسکیم کے تحت تقسیم ہونے والے رکشوں کے حصول کے خواہش مند افراد کے ناموں کی فہرست تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس کی سربراہی اسسٹنٹ کمشنر، روہڑی مولا داد درانی نے کی۔ حکم راں جماعت کے دیگر ذمے داران بھی اِس کمیٹی میں شامل تھے۔ کمیٹی نے اُن افراد کو ترجیح دی، جو گریڈ ایک سے گریڈ پانچ تک کی ملازمتوں کے خواہش مند تھے۔ البتہ بعد میں وفاقی وزیر نے افسران اور پارٹی ذمے داران کو یہ ہدایت کی کہ وہ تمام حق داروں کا نام فہرست میں شامل کریں، تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔
اپنے خطاب میں سید خورشید احمد شاہ نے کہا تھا کہ پیپلزپارٹی شہید بے نظیر بھٹو کے ویژن کے مطابق تعلیم یافتہ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے، مگر نوجوانوں کو بھی سرکاری ملازمت کے حصول کی سوچ تبدیل کرکے دیگر شعبوں میں دل چسپی لینی چاہیے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آج اُنھوں نے جن افراد میں رکشے تقسیم کیے ہیں، اُنھوں نے گذشتہ چند برس میں چپڑاسی، مالی، چوکی دار، قاصد، نائب قاصد، سینیٹری ورکرز اور دیگر چھوٹی پوسٹوں کے لیے درخواستیں دی تھیں، تاہم وہ نہیں چاہتے کہ چپڑاسی کا بیٹا چپڑاسی بنے، بلکہ خواہش مند ہیں کہ وہ باعزت طریقے سے روزگار کمائے۔ اِسی خواہش کے پیش نظر پالیسی مرتب کی گئی، اور پونے 2 لاکھ روپے مالیت کے پیٹرول سے چلنے والے رکشوں کو خود روزگار اسکیم کے تحت نوجوانوں میں تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی کو مزید پانچ برس حکومت کرنے کا موقع ملا، تو ملک کا تمام قرض اتر جائے گا۔ پاکستان کے پاس بے پناہ وسائل ہیں، لیکن اُنھیں استعمال نہیں کیا جاتا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں کینیڈا اور آسٹریلیا سے 50 ارب روپے کی گندم درآمد کی جاتی تھی، صدر آصف علی زرداری کی پالیسیوں کے باعث یہی رقم ہاریوں پر خرچ کی گئی، زراعت کو فروغ دیا گیا، اب ہمارے پاس گندم اور دیگر اجناس کا ذخیرہ موجود ہے۔ اُنھوں نے بلوچستان اور کراچی کے بگڑتے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امن و امان کی بحالی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہوکر لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
پیٹرول سے چلنے والے رکشوں کی تقسیم ایک خوش آیند اقدام ہے۔ اِس سے شہریوں کو سفری سہولیات ضرور میسر آئیں گی، روزگار بھی ملے گا، مگر شہر کی سڑکیں، جو پہلے ہی ٹریفک جام کے گمبھیر مسئلے سے دوچار ہیں، اِن رکشوں کی آمد کے بعد مزید مشکلات کا شکار ہوسکتی ہیں۔ انتظامیہ کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود تجاوزات اور ٹریفک جام کے مسائل آج تک حل نہیں ہوسکے۔ اب ساڑھے پانچ سو رکشوں کی آمد سے اِس مسئلے کی شدت میں اضافے کا اندیشہ ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ساڑھے چار برس کے عرصے میں وفاقی وزیر کی جانب سے سیکڑوں افراد کو سرکاری ملازمت دینے کے علاوہ اُن میں رکشے بھی تقسیم کیے گئے، مگر صفائی ستھرائی اور شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ادارے، میونسپل کارپوریشن کے سیکڑوں ملازمین گذشتہ چھے ماہ سے تن خواہیں نہ ملنے پر سراپا احتجاج ہیں، اور اس ضمن میں تاحال سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے ملازمین میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔
یہ بات بھی دل چسپ ہے کہ وفاقی وزیر کوحکومت کے خاتمے سے فقط تین ماہ قبل اپنے حلقے کے بے روزگار نوجوانوں کا خیال آیا ہے۔ یہ نکتہ بھی اہم ہے اِس عمل کے دوران دیگر اضلاع کو نظرانداز کیا گیا، جس کی وجہ سے بے روزگار نوجوانوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ معززین شہر نے وفاقی وزیر کے اِس اقدام کو الیکشن مہم کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہر کی سڑکوں پر پہلے ہی ہزاروں چھوٹی بڑی گاڑیاں ہیں، فٹ پاتھ پر تجاوزات قائم ہیں، جن کی وجہ سے ٹریفک جام معمول بن چکا ہے، ایسے میں سیکڑوں نئے رکشوں کی آمد اِس مسئلے کی شدت بڑھا سکتی ہے۔ ایک دقت سڑکوں کی خستہ حالی اور تنگی بھی ہے، جن کے لیے مزید گاڑیوں کا بوجھ اٹھانا کسی طور سہل نہیں ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ آج باصلاحیت اور تعلیم یافتہ نوجوان اسناد ہاتھوں میں لیے سیاسی جماعتوں کے دفاتر کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں، اِس امید پر کہ منتخب نمایندے ایک روز اپنے وعدے ضرور پورے کریں گے۔ عام طور سے تو ایسا نہیں ہوتا، البتہ گذشتہ انتخابات میں کام یابی حاصل کرکے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے خورشید احمد شاہ نے، دیر ہی سے سہی، اپنے ووٹرز سے کیے گئے وعدے پورے کرنے شروع کر دیے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کی جانب سے، حکومت کے اختتام سے تین ماہ قبل نوجوانوں کو خود روزگار اسکیم کے تحت ساڑھے پانچ سو رکشے تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا، جو تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ یہ ایک احسن اقدام ہے، تاہم اِس سے مسائل میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔
تفصیلات کے مطابق پہلے مرحلے میں سید خورشید احمد شاہ نے پبلک اسکول کے آڈیٹوریم میں منعقدہ ایک تقریب میں روہڑی، صالح پٹ، کندھرا، پنو عاقل سمیت دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے پچاس افراد میں رکشے تقسیم کیے۔ اِس اسکیم کے تحت تقسیم ہونے والے رکشوں کے حصول کے خواہش مند افراد کے ناموں کی فہرست تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس کی سربراہی اسسٹنٹ کمشنر، روہڑی مولا داد درانی نے کی۔ حکم راں جماعت کے دیگر ذمے داران بھی اِس کمیٹی میں شامل تھے۔ کمیٹی نے اُن افراد کو ترجیح دی، جو گریڈ ایک سے گریڈ پانچ تک کی ملازمتوں کے خواہش مند تھے۔ البتہ بعد میں وفاقی وزیر نے افسران اور پارٹی ذمے داران کو یہ ہدایت کی کہ وہ تمام حق داروں کا نام فہرست میں شامل کریں، تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔
اپنے خطاب میں سید خورشید احمد شاہ نے کہا تھا کہ پیپلزپارٹی شہید بے نظیر بھٹو کے ویژن کے مطابق تعلیم یافتہ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے، مگر نوجوانوں کو بھی سرکاری ملازمت کے حصول کی سوچ تبدیل کرکے دیگر شعبوں میں دل چسپی لینی چاہیے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آج اُنھوں نے جن افراد میں رکشے تقسیم کیے ہیں، اُنھوں نے گذشتہ چند برس میں چپڑاسی، مالی، چوکی دار، قاصد، نائب قاصد، سینیٹری ورکرز اور دیگر چھوٹی پوسٹوں کے لیے درخواستیں دی تھیں، تاہم وہ نہیں چاہتے کہ چپڑاسی کا بیٹا چپڑاسی بنے، بلکہ خواہش مند ہیں کہ وہ باعزت طریقے سے روزگار کمائے۔ اِسی خواہش کے پیش نظر پالیسی مرتب کی گئی، اور پونے 2 لاکھ روپے مالیت کے پیٹرول سے چلنے والے رکشوں کو خود روزگار اسکیم کے تحت نوجوانوں میں تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی کو مزید پانچ برس حکومت کرنے کا موقع ملا، تو ملک کا تمام قرض اتر جائے گا۔ پاکستان کے پاس بے پناہ وسائل ہیں، لیکن اُنھیں استعمال نہیں کیا جاتا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں کینیڈا اور آسٹریلیا سے 50 ارب روپے کی گندم درآمد کی جاتی تھی، صدر آصف علی زرداری کی پالیسیوں کے باعث یہی رقم ہاریوں پر خرچ کی گئی، زراعت کو فروغ دیا گیا، اب ہمارے پاس گندم اور دیگر اجناس کا ذخیرہ موجود ہے۔ اُنھوں نے بلوچستان اور کراچی کے بگڑتے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امن و امان کی بحالی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہوکر لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
پیٹرول سے چلنے والے رکشوں کی تقسیم ایک خوش آیند اقدام ہے۔ اِس سے شہریوں کو سفری سہولیات ضرور میسر آئیں گی، روزگار بھی ملے گا، مگر شہر کی سڑکیں، جو پہلے ہی ٹریفک جام کے گمبھیر مسئلے سے دوچار ہیں، اِن رکشوں کی آمد کے بعد مزید مشکلات کا شکار ہوسکتی ہیں۔ انتظامیہ کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود تجاوزات اور ٹریفک جام کے مسائل آج تک حل نہیں ہوسکے۔ اب ساڑھے پانچ سو رکشوں کی آمد سے اِس مسئلے کی شدت میں اضافے کا اندیشہ ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ساڑھے چار برس کے عرصے میں وفاقی وزیر کی جانب سے سیکڑوں افراد کو سرکاری ملازمت دینے کے علاوہ اُن میں رکشے بھی تقسیم کیے گئے، مگر صفائی ستھرائی اور شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ادارے، میونسپل کارپوریشن کے سیکڑوں ملازمین گذشتہ چھے ماہ سے تن خواہیں نہ ملنے پر سراپا احتجاج ہیں، اور اس ضمن میں تاحال سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے ملازمین میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔
یہ بات بھی دل چسپ ہے کہ وفاقی وزیر کوحکومت کے خاتمے سے فقط تین ماہ قبل اپنے حلقے کے بے روزگار نوجوانوں کا خیال آیا ہے۔ یہ نکتہ بھی اہم ہے اِس عمل کے دوران دیگر اضلاع کو نظرانداز کیا گیا، جس کی وجہ سے بے روزگار نوجوانوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ معززین شہر نے وفاقی وزیر کے اِس اقدام کو الیکشن مہم کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہر کی سڑکوں پر پہلے ہی ہزاروں چھوٹی بڑی گاڑیاں ہیں، فٹ پاتھ پر تجاوزات قائم ہیں، جن کی وجہ سے ٹریفک جام معمول بن چکا ہے، ایسے میں سیکڑوں نئے رکشوں کی آمد اِس مسئلے کی شدت بڑھا سکتی ہے۔ ایک دقت سڑکوں کی خستہ حالی اور تنگی بھی ہے، جن کے لیے مزید گاڑیوں کا بوجھ اٹھانا کسی طور سہل نہیں ہوگا۔