سینیٹ میں صوبوں میں نیب کی کارروائی کا اختیار ختم کرنے کا بل مسترد
سینیٹر تاج حیدر نے بل پیش کیا جسے حکومت کی طرف سے مخالف کا سامنا کرنا پڑا۔
سینیٹ میں پیپلز پارٹی نیب كی صوبوں میں كارروائی كے اختیارات ختم كرنے كا سیكشن ختم كرنے كی ترمیم منظور كرانے میں ناكام ہو گئی۔
سینیٹ کا اجلاس چیرمین رضا ربانی کی زیر صدارت ہوا جس میں پیپلز پارٹی كے سینیٹر تاج حیدر نے ایوان میں قومی احتساب (ترمیمی) بل 2015 پیش كرنے كے لیے تحریك پیش كی تو حكومت نے مخالفت كی جس پر سینیٹر تاج حیدر نے كہا كہ اٹھارویں ترمیم كے بعد اختیارات كو تقسیم كیا جائے، ضرورت ہے كہ ہر صوبے میں احتساب بیورو كا محكمہ ہو جو صوبائی حكومت كے ماتحت نہ ہو، خیبرپختونوا نے اس حوالے سے قانون سازی كر لی ہے، مركز میں اداروں كے پاس كام كرنے كے لیے بہت كام ہے، صوبوں میں احتساب بیورو اپنا كام كریں۔
وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے كہا كہ حكومت بھی نیب آرڈیننس میں ترمیم كرنا چاہتی ہے، وزیر خزانہ نے آفر كی تھی كہ آئیں مل كر اس میں ترمیم كریں، فاروق نائیك وزیر قانون تھے اور اس پر كافی كام ہوا تھا كچھ نكات پر اتفاق نہ ہونے كے باعث بات آگے نہیں چل سكی۔ انہوں نے کہا کہ كرپشن كا ذكر فیڈرل یا كنكرنٹ لسٹ میں نہیں ہے، نیب آرڈیننس 1999 كریمنل لا ہے اور كرپشن جرم ہے، انہوں نے آفر كی كہ دونوں ایوانوں كی كمیٹی تشكیل دیكر ایك بل تیار كیا جائے، نیب آرڈیننس میں صوبوں سے متعلق سیكشن كیوں ڈیلیٹ كیے جائیں، جس كے بعد تحریك پیش كرنے كے لیے ووٹنگ كرائی گئی۔
مسلم لیگ (ن)، تحریك انصاف، مسلم لیگ (ق) اور نیشنل پارٹی نے تحریك پیش كرنے كے خلاف ووٹ دیا جب کہ پاكستان پیپلز پارٹی، ایم كیو ایم اور پشتو نخواہ ملی عوامی پارٹی نے تحریك كی حمایت میں ووٹ دیا تاہم بل كی شق وار منظوری كے دوران حكومت اور بل كے حق میں ووٹ دینے والے اراكین كی تعداد زیادہ ہوگئی، بل كے حق میں 22 ووٹ اور مخالفت میں 23 ووٹ دیئے گئے جس كے بعد بل مسترد كردیا گیا۔
سینیٹ کا اجلاس چیرمین رضا ربانی کی زیر صدارت ہوا جس میں پیپلز پارٹی كے سینیٹر تاج حیدر نے ایوان میں قومی احتساب (ترمیمی) بل 2015 پیش كرنے كے لیے تحریك پیش كی تو حكومت نے مخالفت كی جس پر سینیٹر تاج حیدر نے كہا كہ اٹھارویں ترمیم كے بعد اختیارات كو تقسیم كیا جائے، ضرورت ہے كہ ہر صوبے میں احتساب بیورو كا محكمہ ہو جو صوبائی حكومت كے ماتحت نہ ہو، خیبرپختونوا نے اس حوالے سے قانون سازی كر لی ہے، مركز میں اداروں كے پاس كام كرنے كے لیے بہت كام ہے، صوبوں میں احتساب بیورو اپنا كام كریں۔
وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے كہا كہ حكومت بھی نیب آرڈیننس میں ترمیم كرنا چاہتی ہے، وزیر خزانہ نے آفر كی تھی كہ آئیں مل كر اس میں ترمیم كریں، فاروق نائیك وزیر قانون تھے اور اس پر كافی كام ہوا تھا كچھ نكات پر اتفاق نہ ہونے كے باعث بات آگے نہیں چل سكی۔ انہوں نے کہا کہ كرپشن كا ذكر فیڈرل یا كنكرنٹ لسٹ میں نہیں ہے، نیب آرڈیننس 1999 كریمنل لا ہے اور كرپشن جرم ہے، انہوں نے آفر كی كہ دونوں ایوانوں كی كمیٹی تشكیل دیكر ایك بل تیار كیا جائے، نیب آرڈیننس میں صوبوں سے متعلق سیكشن كیوں ڈیلیٹ كیے جائیں، جس كے بعد تحریك پیش كرنے كے لیے ووٹنگ كرائی گئی۔
مسلم لیگ (ن)، تحریك انصاف، مسلم لیگ (ق) اور نیشنل پارٹی نے تحریك پیش كرنے كے خلاف ووٹ دیا جب کہ پاكستان پیپلز پارٹی، ایم كیو ایم اور پشتو نخواہ ملی عوامی پارٹی نے تحریك كی حمایت میں ووٹ دیا تاہم بل كی شق وار منظوری كے دوران حكومت اور بل كے حق میں ووٹ دینے والے اراكین كی تعداد زیادہ ہوگئی، بل كے حق میں 22 ووٹ اور مخالفت میں 23 ووٹ دیئے گئے جس كے بعد بل مسترد كردیا گیا۔