تختہ پلٹنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے
دو وارداتیں ایسی ہیں جو مکمل ہوجائیں تو کوئی سزا نہیں۔ادھوری رہ جائیں تو قانوناً قابلِ گرفت ہیں۔
PESHAWAR:
دو وارداتیں ایسی ہیں جو مکمل ہوجائیں تو کوئی سزا نہیں۔ادھوری رہ جائیں تو قانوناً قابلِ گرفت ہیں۔ ایک خود کشی اور دوسرا کسی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش۔ دونوں طرح کی وارداتوں میں اگر ارادہ پختہ ، منصوبہ بندی مکمل اور آلہِ واردات موثر نہ ہو اور ایکشن سرعت سے نہ ہو تو کٹہرا اور سلاخیں مقدر ہو سکتی ہیں۔خودکشی کا عمل چونکہ ذاتی ہے لہٰذا اس میں کامیابی کا تناسب تختہ الٹنے کی کوشش کے مقابلے میں زیادہ ہے۔جب کہ تختہ پلٹانے کے لیے ایک سے زائد افراد کو منصوبے کا حصہ بنانا پڑتا ہے۔یہ عمل ایک طرح کا جوا ہے جس میں جاننا ازبس ضروری ہے کہ آپ کے ہاتھ میں کتنے اکے ہیں اور مخالف کے پاس کتنے کمزور پتے ہیں۔
کبھی کبھی اکے نہ بھی ساتھ ہوں تو تختہ پلٹا جا سکتا ہے۔جیسے براعظم افریقہ میں ساٹھ سے نوے کی دہائی تک ایسے کئی فوجی انقلاب لائے گئے جن میں دو درجن مسلح لوگ کافی ہوا کرتے تھے۔ جزائر کوموروز کی حکومت کا تختہ تو ایک ایسے گروہ نے پلٹ دیا جس میں کرائے کے درجن بھر غیر ملکی فوجی شامل تھے۔انھوں نے فیس لی اور قیدی صدر کو نئے صدر کے حوالے کیا اور چلتے بنے۔گھانا میں اسی کے عشرے میں ایک فلائٹ لیفٹننٹ ( جیری رالنگز ) نے حکومت الٹ دی تھی۔انیس سو انہتر میں لیبیا میں ایک کرنل ( قذافی ) نے شاہ ادریس اور انیس سو باون کے مصر میں کچھ جونئیر افسروں (کرنل نجیب ، جمال ناصر وغیرہ ) نے شاہ فاروق کو چلتا کردیا۔
اسی دور میں امریکی سی آئی اے نے جواں سال بادشاہ رضا شاہ پہلوی سے سازباز کر کے تہران کے چند پہلوانوںاور لفنگوں کو پیسے دے کر دو دن کرائے کے مظاہرے کرائے جن میں ٹریکٹر ٹرالیاں بھر بھر کے مضافاتی علاقوں سے کسان لائے جاتے اور پارلیمنٹ کے سامنے کھڑے کرا کے نعرے لگوائے جاتے۔اس ڈرامے کو وزیرِ اعظم مصدق کے خلاف عوامی بے چینی کا رنگ دیا گیا اور فوج نے پوری کابینہ کو حراست میں لے کر حکومت برخواست کردی۔اللہ اللہ خیر صلی۔
افریقہ کو چھوڑ کے جونئیر فوجی افسروں نے جہاں جہاں تختہ پلٹنے کی کوشش کی اکثر ناکامی ہوئی۔مثلاً انیس سو انچاس میں پاکستان میں میجر جنرل اکبر خان سازش کیس ہو کہ ستر اور نوے کی دہائی اور اب سے چند برس پہلے حزب التحریر سے متاثر کچھ جونئیر افسروں کی جانب سے مبینہ سازش کی پاداش میں کورٹ مارشل کی اطلاعات۔
آپ کو یاد ہوگا کہ اگست انیس سو اکیانوے میں سوویت یونین اگرچہ تحلیل ہو رہا تھا اس کے باوجود بورس یالسن کی قیادت میں پارلیمنٹ کے سامنے عوامی مزاحمت اور ثابت قدمی کے سبب کچھ مہم جو فوجی افسروں کے ایک گروہ کی جانب سے گوربچوف حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش بہتر گھنٹے میں ہی اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گئی۔فرانس واحد ملک تھا جس نے روسی فوجی جنتا کے ابتدائی اعلان پر یقین کرتے ہوئے اسے تسلیم کرلیا اور بعد میں شرمندگی اٹھائی۔
پاکستان جیسے ممالک میں جہاں فوج سب سے منظم ادارہ سمجھی جاتی ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا کسی جونیئر افسر کی مہم جوئی کامیاب ہونا بہت مشکل ہے۔تختہ پلٹنے کی صرف وہی کوششیں کامیاب ہو سکیں جو اعلیٰ فوجی ہائی کمان نے متفقہ طور پر کیں اور ہم خیال طفیلی سیاسی شخصیات کو بھی بطور شامل باجہ ساتھ رکھا۔مگر اس میں بھی آخر وقت تک دھڑکا لگا رہتا تھا۔جیسے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیا الحق سے منسوب وہ فقرہ جو انھوں نے '' کو '' سے ذرا پہلے مبینہ طور پر پنڈی کے کور کمانڈر جنرل چشتی سے کہا تھا '' مرشد کدھرے مروا نہ دئیں''...
واحد جوابی '' کو '' فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کا تھا جس میں چند گھنٹے کے لیے ایسا محسوس ہوا گویا فوج نواز شریف کا تختہ پلٹنے کے معاملے پر منقسم ہے لیکن '' جوابی کو'' اس لیے کامیاب ہوا کیونکہ بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو ڈھائی گھنٹے کے چیف آف آرمی اسٹاف لیفٹننٹ جنرل ضیا الدین کو سوائے اپنے کسی ہم پلہ افسر کی حمائیت نہ مل سکی۔
صرف وہی '' کو ''لمبے عرصے تک پائیدار رہے جنھیں یونٹی آف کمانڈ کے تحت برپا کیا گیا۔جیسے لاطینی امریکا میں چلی ، ارجنٹینا ، برازیل...سب کے سب یونٹی آف کمانڈ کے سبب کامیاب ہوئے۔وینزویلا میں ہیوگو شاویز حکومت کا تختہ پلٹنے کی جونئیر افسروں کی دو کوششیں ناکام ہوئیں۔ اس کا ایک سبب عوام کی جانب سے شاویز حکومت کا بھرپور سیاسی ساتھ بھی تھا۔فلپینز میں مارکوس آمریت کے خاتمے کے بعد جب کورازون اکینو پاپولر ووٹ کے ذریعے صدر منتخب ہوئیں تو ان کے خلاف جونئیر فوجی افسروں کی جانب سے کئی بغاوتیں ہوئیں مگر عوامی طاقت اور مذہبی طبقے کی بھرپور حمائیت نے ان کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔جونیئر افسروں کی ناکام کوششوں کا سلسلہ کورازون اکینو کے بعد بھی جاری رہا۔
ایشیا میں جنوبی کوریا میں طویل فوجی حکومتیں چین آف کمانڈ کے اصول کے سبب ہی کامیاب رہیں۔اس تناظر میں برما کی فوجی جنتا نے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔وہاں انیس سو باسٹھ سے آج تک فوج کی حکمرانی ہے۔ چون برس کے دوران چین آف کمانڈ بدلتی تو رہی مگر ٹوٹی نہیں۔ تھائی لینڈ میں سن انیس سو تیس کے عشرے سے اب تک جتنے بھی '' کو '' لائے گئے وہ فوج کی اعلی قیادت بادشاہ کی حمائیت سے ہی ممکن کر پائی۔
ایشیا میں جونئیر افسروں کی جانب سے کامیاب '' کو '' کی بس دو مثالیں ہیں۔پہلی مثال انڈونیشیا ہے جہاں انیس سو پینسٹھ میں جکارتہ کے ڈویژنل ملٹری کمانڈر میجر جنرل سہارتو نے صدر احمد سوئیکارنو کا تختہ پلٹا۔دراصل یہ ایک جوابی '' کو '' تھا۔کیونکہ جونئیر افسروں کے ایک اور گروہ نے جس کا تعلق بائیں بازو سے تھا فوج کی اعلیٰ کمان کے بیشتر افسروں کو قید یا ہلاک کر دیا تھا اور اس گروہ کو مبینہ طور پر صدر احمد سوئکارنو کی درپردہ حمائیت حاصل تھی۔چنانچہ میجر جنرل سہارتو نے چین آف کمانڈ کے خلا کو پر کرتے ہوئے اقتدار پر آسانی سے قبضہ کر کے سوئیکارنو کو معزول کردیا اور پھر انڈونیشیا میں امریکی سی آئی اے کی مدد سے بائیں بازو کی جامع خونی تطہیر شروع ہوئی جس میں لگ بھگ ایک ملین مخالفین کا صفایا کردیا گیا۔ سہارتو نے اگلے تیس برس آرام سے حکومت کی۔
جونئیر افسروں کی جانب سے ایشیا میں کامیاب تختہ پلٹنے کی دوسری مثال افغانستان ہے جہاں اپریل انیس سو اٹہتر میں بری اور فضائی فوج کے جونئیر افسروں نے صدر سردار داؤد کا ایک خونی تبدیلی میں دھڑن تختہ کردیا جو خود بھی اپنے عم زاد شاہ ظاہر شاہ کو انیس سو تہتر میں معزول کر کے برسرِ اقتدار آئے تھے۔تاہم جونیئر فوجی افسروں کی کوشش اس لیے کامیاب ہوئی کیونکہ افغان فوج کا حجم چھوٹا تھا۔فوج کی جانب سے تختہ پلٹنے کا پہلا تجربہ تھا اور ان جونئیر افسروں نے اپنے طور پر نہیں بلکہ پرچم اور خلق پارٹی کے نظریاتی کاڈر کے طور پر یہ کام انجام دیا اور چند ہی گھنٹوں بعد قیادت نور محمد ترہ کی کے سویلین کاڈر کے حوالے کردی۔
ویسے تو مشرقِ وسطیٰ میں عراق ، شام ، یمن وغیرہ میں جونئیر افسروں نے کامیاب فوجی بغاوتیں کیں مگر ان بغاوتوں کے پیچھے بھی منظم بعثی یا مارکسسٹ یا قوم پرست سیاسی قوت کی پشت پناہی تھی۔ ان ممالک میں عوام ہمیشہ اقتدار کی خونی میوزیکل چئیر گیم سے الگ تھلگ رکھے گئے۔چنانچہ وہ ہمیشہ خاموش تماشائی رہے۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ آج اس خطے پر کیا بیت رہی ہے۔
جہاں تک ترکی کا معاملہ ہے تو ایک منتخب ، مقبول اور مستحکم پاپولر حکومت کے خلاف جونئیر فوجی کاڈر کی جانب سے بے موقع مہم جوئی کا انجام یہی ہونا تھا۔پاکستان کی طرح ترک فوج بھی اپنے نظم و ضبط کے لیے مشہور ہے۔ پاکستان کی طرح ترکی میں بھی چار بار جن جن حکومتوں کا تختہ پلٹا گیا وہ مبینہ طور پر عوامی اعتماد کھو چکی تھیں۔یہ '' کو '' فوج کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے چین آف کمانڈ کے سائے میں برپا ہوئے لہذا کامیاب رہے۔
فی زمانہ کمیونکیشن کی ترقی نے سرپرائز ایلیمنٹ کو کم سے کم کردیا ہے جو کسی بھی کامیاب تختہ پلٹ کوشش کا لازمی جزو ہوتا ہے۔اس مواصلاتی انقلاب کے سبب سماج میں نہ صرف شعوری خواندگی کا تناسب بڑھا ہے بلکہ میڈیا، عدلیہ اور سیاستداں تختہ پلٹ قوتوں کی توقعات سے زیادہ بے باک اور عام آدمی اپنے حقوق کی بابت زیادہ بدتمیز ہوگیا ہے۔فی زمانہ کامیاب '' کو '' ٹینکوں پر بیٹھ کر نہیں انٹر نیٹ کی لہروں پر قبضہ کرکے ٹویٹر اور فیس بک کے ہتھیاروں کی مدد سے ریموٹ کنٹرول حکمتِ عملی کے ساتھ ہی برپا ہو سکتا ہے۔حتیٰ کہ وہ '' کو '' بھی آؤٹ آف فیشن ہو رہا ہے جو روایتی چین آف کمانڈ کے تحت کامیاب سمجھا جاتا تھا۔مثلاً جنرل سیسی کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہونے کے باوجود مصر آتش فشاں کے دہانے سے پیچھے نہیں ہٹایا جا سکا اور یہ '' کو '' تب تک ہی برقرار رہ سکتا ہے جب تک جبر کا بوٹ عوام کی گردن پر ہے۔پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔عوام کچھ عرصے بعد جبر قبول کر لیا کرتے تھے۔مگر اس نسل کے پاس موبائیل فون اور میسیجنگ کی سہولت بھی تو نہیں تھی۔
دو وارداتیں ایسی ہیں جو مکمل ہوجائیں تو کوئی سزا نہیں۔ادھوری رہ جائیں تو قانوناً قابلِ گرفت ہیں۔ ایک خود کشی اور دوسرا کسی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش۔ دونوں طرح کی وارداتوں میں اگر ارادہ پختہ ، منصوبہ بندی مکمل اور آلہِ واردات موثر نہ ہو اور ایکشن سرعت سے نہ ہو تو کٹہرا اور سلاخیں مقدر ہو سکتی ہیں۔خودکشی کا عمل چونکہ ذاتی ہے لہٰذا اس میں کامیابی کا تناسب تختہ الٹنے کی کوشش کے مقابلے میں زیادہ ہے۔جب کہ تختہ پلٹانے کے لیے ایک سے زائد افراد کو منصوبے کا حصہ بنانا پڑتا ہے۔یہ عمل ایک طرح کا جوا ہے جس میں جاننا ازبس ضروری ہے کہ آپ کے ہاتھ میں کتنے اکے ہیں اور مخالف کے پاس کتنے کمزور پتے ہیں۔
کبھی کبھی اکے نہ بھی ساتھ ہوں تو تختہ پلٹا جا سکتا ہے۔جیسے براعظم افریقہ میں ساٹھ سے نوے کی دہائی تک ایسے کئی فوجی انقلاب لائے گئے جن میں دو درجن مسلح لوگ کافی ہوا کرتے تھے۔ جزائر کوموروز کی حکومت کا تختہ تو ایک ایسے گروہ نے پلٹ دیا جس میں کرائے کے درجن بھر غیر ملکی فوجی شامل تھے۔انھوں نے فیس لی اور قیدی صدر کو نئے صدر کے حوالے کیا اور چلتے بنے۔گھانا میں اسی کے عشرے میں ایک فلائٹ لیفٹننٹ ( جیری رالنگز ) نے حکومت الٹ دی تھی۔انیس سو انہتر میں لیبیا میں ایک کرنل ( قذافی ) نے شاہ ادریس اور انیس سو باون کے مصر میں کچھ جونئیر افسروں (کرنل نجیب ، جمال ناصر وغیرہ ) نے شاہ فاروق کو چلتا کردیا۔
اسی دور میں امریکی سی آئی اے نے جواں سال بادشاہ رضا شاہ پہلوی سے سازباز کر کے تہران کے چند پہلوانوںاور لفنگوں کو پیسے دے کر دو دن کرائے کے مظاہرے کرائے جن میں ٹریکٹر ٹرالیاں بھر بھر کے مضافاتی علاقوں سے کسان لائے جاتے اور پارلیمنٹ کے سامنے کھڑے کرا کے نعرے لگوائے جاتے۔اس ڈرامے کو وزیرِ اعظم مصدق کے خلاف عوامی بے چینی کا رنگ دیا گیا اور فوج نے پوری کابینہ کو حراست میں لے کر حکومت برخواست کردی۔اللہ اللہ خیر صلی۔
افریقہ کو چھوڑ کے جونئیر فوجی افسروں نے جہاں جہاں تختہ پلٹنے کی کوشش کی اکثر ناکامی ہوئی۔مثلاً انیس سو انچاس میں پاکستان میں میجر جنرل اکبر خان سازش کیس ہو کہ ستر اور نوے کی دہائی اور اب سے چند برس پہلے حزب التحریر سے متاثر کچھ جونئیر افسروں کی جانب سے مبینہ سازش کی پاداش میں کورٹ مارشل کی اطلاعات۔
آپ کو یاد ہوگا کہ اگست انیس سو اکیانوے میں سوویت یونین اگرچہ تحلیل ہو رہا تھا اس کے باوجود بورس یالسن کی قیادت میں پارلیمنٹ کے سامنے عوامی مزاحمت اور ثابت قدمی کے سبب کچھ مہم جو فوجی افسروں کے ایک گروہ کی جانب سے گوربچوف حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش بہتر گھنٹے میں ہی اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گئی۔فرانس واحد ملک تھا جس نے روسی فوجی جنتا کے ابتدائی اعلان پر یقین کرتے ہوئے اسے تسلیم کرلیا اور بعد میں شرمندگی اٹھائی۔
پاکستان جیسے ممالک میں جہاں فوج سب سے منظم ادارہ سمجھی جاتی ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا کسی جونیئر افسر کی مہم جوئی کامیاب ہونا بہت مشکل ہے۔تختہ پلٹنے کی صرف وہی کوششیں کامیاب ہو سکیں جو اعلیٰ فوجی ہائی کمان نے متفقہ طور پر کیں اور ہم خیال طفیلی سیاسی شخصیات کو بھی بطور شامل باجہ ساتھ رکھا۔مگر اس میں بھی آخر وقت تک دھڑکا لگا رہتا تھا۔جیسے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیا الحق سے منسوب وہ فقرہ جو انھوں نے '' کو '' سے ذرا پہلے مبینہ طور پر پنڈی کے کور کمانڈر جنرل چشتی سے کہا تھا '' مرشد کدھرے مروا نہ دئیں''...
واحد جوابی '' کو '' فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کا تھا جس میں چند گھنٹے کے لیے ایسا محسوس ہوا گویا فوج نواز شریف کا تختہ پلٹنے کے معاملے پر منقسم ہے لیکن '' جوابی کو'' اس لیے کامیاب ہوا کیونکہ بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو ڈھائی گھنٹے کے چیف آف آرمی اسٹاف لیفٹننٹ جنرل ضیا الدین کو سوائے اپنے کسی ہم پلہ افسر کی حمائیت نہ مل سکی۔
صرف وہی '' کو ''لمبے عرصے تک پائیدار رہے جنھیں یونٹی آف کمانڈ کے تحت برپا کیا گیا۔جیسے لاطینی امریکا میں چلی ، ارجنٹینا ، برازیل...سب کے سب یونٹی آف کمانڈ کے سبب کامیاب ہوئے۔وینزویلا میں ہیوگو شاویز حکومت کا تختہ پلٹنے کی جونئیر افسروں کی دو کوششیں ناکام ہوئیں۔ اس کا ایک سبب عوام کی جانب سے شاویز حکومت کا بھرپور سیاسی ساتھ بھی تھا۔فلپینز میں مارکوس آمریت کے خاتمے کے بعد جب کورازون اکینو پاپولر ووٹ کے ذریعے صدر منتخب ہوئیں تو ان کے خلاف جونئیر فوجی افسروں کی جانب سے کئی بغاوتیں ہوئیں مگر عوامی طاقت اور مذہبی طبقے کی بھرپور حمائیت نے ان کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔جونیئر افسروں کی ناکام کوششوں کا سلسلہ کورازون اکینو کے بعد بھی جاری رہا۔
ایشیا میں جنوبی کوریا میں طویل فوجی حکومتیں چین آف کمانڈ کے اصول کے سبب ہی کامیاب رہیں۔اس تناظر میں برما کی فوجی جنتا نے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔وہاں انیس سو باسٹھ سے آج تک فوج کی حکمرانی ہے۔ چون برس کے دوران چین آف کمانڈ بدلتی تو رہی مگر ٹوٹی نہیں۔ تھائی لینڈ میں سن انیس سو تیس کے عشرے سے اب تک جتنے بھی '' کو '' لائے گئے وہ فوج کی اعلی قیادت بادشاہ کی حمائیت سے ہی ممکن کر پائی۔
ایشیا میں جونئیر افسروں کی جانب سے کامیاب '' کو '' کی بس دو مثالیں ہیں۔پہلی مثال انڈونیشیا ہے جہاں انیس سو پینسٹھ میں جکارتہ کے ڈویژنل ملٹری کمانڈر میجر جنرل سہارتو نے صدر احمد سوئیکارنو کا تختہ پلٹا۔دراصل یہ ایک جوابی '' کو '' تھا۔کیونکہ جونئیر افسروں کے ایک اور گروہ نے جس کا تعلق بائیں بازو سے تھا فوج کی اعلیٰ کمان کے بیشتر افسروں کو قید یا ہلاک کر دیا تھا اور اس گروہ کو مبینہ طور پر صدر احمد سوئکارنو کی درپردہ حمائیت حاصل تھی۔چنانچہ میجر جنرل سہارتو نے چین آف کمانڈ کے خلا کو پر کرتے ہوئے اقتدار پر آسانی سے قبضہ کر کے سوئیکارنو کو معزول کردیا اور پھر انڈونیشیا میں امریکی سی آئی اے کی مدد سے بائیں بازو کی جامع خونی تطہیر شروع ہوئی جس میں لگ بھگ ایک ملین مخالفین کا صفایا کردیا گیا۔ سہارتو نے اگلے تیس برس آرام سے حکومت کی۔
جونئیر افسروں کی جانب سے ایشیا میں کامیاب تختہ پلٹنے کی دوسری مثال افغانستان ہے جہاں اپریل انیس سو اٹہتر میں بری اور فضائی فوج کے جونئیر افسروں نے صدر سردار داؤد کا ایک خونی تبدیلی میں دھڑن تختہ کردیا جو خود بھی اپنے عم زاد شاہ ظاہر شاہ کو انیس سو تہتر میں معزول کر کے برسرِ اقتدار آئے تھے۔تاہم جونیئر فوجی افسروں کی کوشش اس لیے کامیاب ہوئی کیونکہ افغان فوج کا حجم چھوٹا تھا۔فوج کی جانب سے تختہ پلٹنے کا پہلا تجربہ تھا اور ان جونئیر افسروں نے اپنے طور پر نہیں بلکہ پرچم اور خلق پارٹی کے نظریاتی کاڈر کے طور پر یہ کام انجام دیا اور چند ہی گھنٹوں بعد قیادت نور محمد ترہ کی کے سویلین کاڈر کے حوالے کردی۔
ویسے تو مشرقِ وسطیٰ میں عراق ، شام ، یمن وغیرہ میں جونئیر افسروں نے کامیاب فوجی بغاوتیں کیں مگر ان بغاوتوں کے پیچھے بھی منظم بعثی یا مارکسسٹ یا قوم پرست سیاسی قوت کی پشت پناہی تھی۔ ان ممالک میں عوام ہمیشہ اقتدار کی خونی میوزیکل چئیر گیم سے الگ تھلگ رکھے گئے۔چنانچہ وہ ہمیشہ خاموش تماشائی رہے۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ آج اس خطے پر کیا بیت رہی ہے۔
جہاں تک ترکی کا معاملہ ہے تو ایک منتخب ، مقبول اور مستحکم پاپولر حکومت کے خلاف جونئیر فوجی کاڈر کی جانب سے بے موقع مہم جوئی کا انجام یہی ہونا تھا۔پاکستان کی طرح ترک فوج بھی اپنے نظم و ضبط کے لیے مشہور ہے۔ پاکستان کی طرح ترکی میں بھی چار بار جن جن حکومتوں کا تختہ پلٹا گیا وہ مبینہ طور پر عوامی اعتماد کھو چکی تھیں۔یہ '' کو '' فوج کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے چین آف کمانڈ کے سائے میں برپا ہوئے لہذا کامیاب رہے۔
فی زمانہ کمیونکیشن کی ترقی نے سرپرائز ایلیمنٹ کو کم سے کم کردیا ہے جو کسی بھی کامیاب تختہ پلٹ کوشش کا لازمی جزو ہوتا ہے۔اس مواصلاتی انقلاب کے سبب سماج میں نہ صرف شعوری خواندگی کا تناسب بڑھا ہے بلکہ میڈیا، عدلیہ اور سیاستداں تختہ پلٹ قوتوں کی توقعات سے زیادہ بے باک اور عام آدمی اپنے حقوق کی بابت زیادہ بدتمیز ہوگیا ہے۔فی زمانہ کامیاب '' کو '' ٹینکوں پر بیٹھ کر نہیں انٹر نیٹ کی لہروں پر قبضہ کرکے ٹویٹر اور فیس بک کے ہتھیاروں کی مدد سے ریموٹ کنٹرول حکمتِ عملی کے ساتھ ہی برپا ہو سکتا ہے۔حتیٰ کہ وہ '' کو '' بھی آؤٹ آف فیشن ہو رہا ہے جو روایتی چین آف کمانڈ کے تحت کامیاب سمجھا جاتا تھا۔مثلاً جنرل سیسی کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہونے کے باوجود مصر آتش فشاں کے دہانے سے پیچھے نہیں ہٹایا جا سکا اور یہ '' کو '' تب تک ہی برقرار رہ سکتا ہے جب تک جبر کا بوٹ عوام کی گردن پر ہے۔پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔عوام کچھ عرصے بعد جبر قبول کر لیا کرتے تھے۔مگر اس نسل کے پاس موبائیل فون اور میسیجنگ کی سہولت بھی تو نہیں تھی۔