جیت کا سلیوٹ
قومی ٹیم جیت کا جشن منانے کے لیے گراؤنڈ کے ایک کونے میں کھڑی ہو ئی۔
لارڈزکے میدان میں 20سال بعد قومی ٹیم نے گوروں کو شکست دے کر خوشیوں کو ترسی ہوئی پاکستانی قوم کو خوش ہونے کا موقع دیا۔ لارڈز کو کرکٹ کا گھر کہا جاتا ہے اور اسی گھر میں 6سال قبل اسپاٹ فکسنگ کے الزامات نے ہماری کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔سلمان بٹ اور محمد آصف کے ساتھ محمد عامر بھی اس میں ملوث پائے گئے تھے۔ اس نوجوان نے اپنی سزا بھگتی اور تمام تر مخالفت کے باوجود ٹیم میں واپس آگیا۔ لندن میں اتوار کی سہ پہر اسی نوجوان نے انگلینڈ کا آخری کھلاڑی آؤٹ کیا اور اس کے بعد جو ہوا وہ کرکٹ کے میدان میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
قومی ٹیم جیت کا جشن منانے کے لیے گراؤنڈ کے ایک کونے میں کھڑی ہو ئی۔ اس نے فوجی جوانوں کی طرح صفیں بنائیں، کمانڈر یونس خان کی ہدایات کی روشنی میں الرٹ کھڑے ہوئے کھلاڑی اچانک پش اپس لگانے لگے اور پھر دوبارہ الرٹ کھڑے ہوئے، سلیوٹ کیا اور مارچ کرتے ہوئے گراؤنڈ سے باہر چلے گئے۔ جنرل راحیل شریف کو شاید اپنے کھلاڑیوں کی یہ ادا بھا گئی اور انھوں نے اس جیت کی خوشیوں میں شریک ہونے کے لیے مصباح الحق کو فون کیا اور مبارکباد دی۔ اس سے پہلے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے اس طرح جیت کا جشن منایا تھا نہ کبھی کسی آرمی چیف نے کپتان کو جیت کی مبارکباد دینے کے لیے فون کیا تھا۔ اسٹیڈیم میں موجود ہزاروں اور ٹی وی اسکرینوں پر میچ دیکھنے والے لاکھوں افراد جشن کا یہ انوکھا انداز دیکھ کر بہت محظوظ ہوئے۔ جشن کے انداز کے لیے ویسٹ انڈیز کی ٹیم مشہور ہے لیکن اب ہماری ٹیم کے جشن کے انوکھے انداز کی بھی مثال دی جایا کرے گی۔
آیندہ میچوں کا نتیجہ جو بھی ہو لیکن لارڈز کی یہ جیت بہت اہم ہے۔ ہماری کرکٹ ٹیم اتنی بدقسمت ہے کہ جو اپنے ملک کے اندر انٹر نیشنل کرکٹ نہیں کھیل سکتی۔ اس کی ہوم گراؤنڈ اکثر متحدہ عرب امارات(یو اے ای) ہوتی ہے۔ ایک بار آسٹریلیا کے خلاف انگلینڈ بھی ہماری ہوم گراؤنڈ بنی۔ آسٹریلیا کے خلاف ایک ٹیسٹ ہماری ٹیم نے سری لنکا میں بھی کھیلا تھا۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد سے ہماری ٹیم اپنے ملک میں کھیلنے کے لیے ترس گئی ہے۔ زمبابوے کے خلاف دو ٹی ٹوئنٹی اور تین ون ڈے کی سیریز واحد تھی جو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلی گئی۔
لارڈز میں جیت کی بنیاد کپتان مصباح الحق نے رکھی جو ٹاس جیت کر پہلے کھیلتے ہوئے سنچری اسکور کر گئے۔ سلیوٹ اور پش اپس کا پہلا مظاہرہ اس گراؤنڈ میں کپتان نے ہی کیا تھا۔ پہلی اننگز میں اسد شفیق نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اسد دوسری اننگزمیں بھی اچھا کھیلے۔ باقی کام مین آف دی میچ یاسرشاہ نے کر دیا۔ وہ لارڈز کے میدان میں 10وکٹیں لینے والے پہلے ایشین بولر ہیں۔ یاسر شاہ کی لیگ اسپن نے گورے بیٹسمینوں کو گھما کر رکھ دیا ۔ پاکستان کی لارڈز کے میدان پر یہ چوتھی فتح تھی، یہ بھی کسی ایشین ٹیم کی بہترین پرفارمنس ہے۔
1996ء میں ہم انگلینڈ سے اس میدان پر جیتے تو کپتان وسیم اکرم تھے۔ وہ سیریز بھی پاکستان نے دو صفر سے جیت لی تھی۔ موجودہ سیریز میں ابھی تین ٹیسٹ باقی ہیں۔ بیٹسمینوں نے ذمے داری کا مظاہرہ کیا تو ہمارے بولروں میں اتنا دم خم ہے کہ وہ یہ سیریز پاکستان کے نام کر دیں۔ یاسر شاہ، محمد عامر اور وہاب ریاض تینوں میچ وننگ بولر ہیں۔ دوسری اننگز میں راحت علی نے انگلینڈکی تین ابتدائی وکٹیں لے کر اپنا انتخاب درست ثابت کر دیا۔ سچی بات ہے پلینگ الیون کا اعلان ہوا تو مجھے حیرت ہوئی تھی کہ واحد رائٹ آرم بولر عمران خان کو ٹیم میں شامل کیوں نہیں کیا گیا۔
مصباح کا چونکہ راحت علی پر زیادہ اعتماد ہے اسی لیے عمران 12ویں کھلاڑی بنے۔ یاسر شاہ تیز ترین 50وکٹیں لینے والے بولر کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں، تیز ترین 100ٹیسٹ وکٹیں لینے کا ریکارڈ اپنے نام کرنے کے لیے انھیں مزید 14 وکٹوں کی ضرورت ہے جب کہ ان کے پاس 4اننگز باقی ہیں۔ اگلے دو ٹیسٹ میچوں میں سے کسی ایک میں بھی یاسر شاہ نے پہلے ٹیسٹ والی پرفارمنس دہرا دی تو وہ یقینا یہ کارنامہ انجام دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بیٹسمینوں میں کپتان مصباح الحق مسلسل بہترین پرفارم کر رہے ہیں۔ دیگر بیٹسمین بھی اپنی اپنی کوشش کرتے ہیں البتہ اسد شفیق کی کارکردگی بہت شاندار ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں جو چند اسٹائلش بیٹسمین ہیں وہ ان میں سے ایک ہیں۔
انھیں کھیلتا دیکھ کر ہمیشہ بہت لطف اندوز ہوتا ہوں۔ اظہر علی دونوں اننگز میں بدقسمت رہے کہ ایل بی ڈبلیو کے فیصلے ان کے خلاف چلے گئے۔ فیلڈ امپائر نے انھیں آؤٹ نہ دیا ہوتا تو وہ دونوں باربچ جاتے۔ یونس خان میں مجھے اعتماد کی کمی لگی ہے۔ محمد حفیظ پہلی اننگز میں اچھا کھیل رہے تھے مگر ایک غیر ضروری شاٹ نے ان کی اننگز ختم کر دی۔ انگلینڈ کی ٹیم میں جو روٹ بہت خطرناک بیٹسمین ہے۔ بولنگ میں ووکس نے مصیبت ڈالے رکھی۔ وہ دونوں اننگز میں 11وکٹیں لے گئے۔ جیمز اینڈر سن ٹیم میں واپس آگئے تو اسٹیورٹ براڈ اور ووکس کے ساتھ مل کر وہ پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ کر دیں گے۔ پہلے ٹیسٹ سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ دونوں ٹیموں میں برابر کی ٹکر ہے۔ انگلینڈ کے لیے جیسے ہی کنڈیشنز زیادہ سازگار ہوئیں ہماری ٹیم کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان نے پہلے ٹیسٹ میں پہلی اننگز کی لیڈ کی بنیا پر جیت حاصل کی ہے۔ شان مسعود اگر لارڈز کی پچ پر نہیں چل سکے تو آیندہ میچوں میں ان کی پرفارمنس مجھے مشکوک لگ رہی ہے۔
سیریز کے باقی میچوں کے لیے یونس خان کو اپنے اعتماد میں اضافہ کرنا ہو گا۔ قسمت نے ساتھ دیا تو اظہر علی قابل بھروسہ بیٹسمین ہو سکتے ہیں۔ صرف ہارنے کی صورت میں خامیاں تلاش کرنا بہادری نہیں ہے، جیت کے بعد بھی خامیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ٹیم میں اسی کھلاڑی کی جگہ بننی چاہیے جو پرفارم کرے۔ اس جیت پر پوری ٹیم اور ہیڈ کوچ مکی آرتھر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مصباح الحق نے جیت ایدھی صاحب کے نام کر کے پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں۔ وہ اگلا ٹیسٹ جیت کر اسے وزیراعظم کے نام بھی کر سکتے ہیں کیونکہ ادھر دل کا معاملہ ہے۔ ممکن ہے اگلی دفعہ آرمی چیف سے پہلے وزیراعظم کپتان کو مبارکباد کے لیے فون کر دیں۔ شرط صرف اتنی ہے کہ وہ پوری طرح صحتیاب ہو جائیں اور رائے ونڈ محل سے وزیراعظم ہاؤس تک کا''طویل'' فاصلہ طے کر سکیں۔بہرحال ویلڈن پاکستان الیون،آپ نے پاکستانیوں کو سیلوٹ کیا، میرا آپ کو سیلوٹ۔
قومی ٹیم جیت کا جشن منانے کے لیے گراؤنڈ کے ایک کونے میں کھڑی ہو ئی۔ اس نے فوجی جوانوں کی طرح صفیں بنائیں، کمانڈر یونس خان کی ہدایات کی روشنی میں الرٹ کھڑے ہوئے کھلاڑی اچانک پش اپس لگانے لگے اور پھر دوبارہ الرٹ کھڑے ہوئے، سلیوٹ کیا اور مارچ کرتے ہوئے گراؤنڈ سے باہر چلے گئے۔ جنرل راحیل شریف کو شاید اپنے کھلاڑیوں کی یہ ادا بھا گئی اور انھوں نے اس جیت کی خوشیوں میں شریک ہونے کے لیے مصباح الحق کو فون کیا اور مبارکباد دی۔ اس سے پہلے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے اس طرح جیت کا جشن منایا تھا نہ کبھی کسی آرمی چیف نے کپتان کو جیت کی مبارکباد دینے کے لیے فون کیا تھا۔ اسٹیڈیم میں موجود ہزاروں اور ٹی وی اسکرینوں پر میچ دیکھنے والے لاکھوں افراد جشن کا یہ انوکھا انداز دیکھ کر بہت محظوظ ہوئے۔ جشن کے انداز کے لیے ویسٹ انڈیز کی ٹیم مشہور ہے لیکن اب ہماری ٹیم کے جشن کے انوکھے انداز کی بھی مثال دی جایا کرے گی۔
آیندہ میچوں کا نتیجہ جو بھی ہو لیکن لارڈز کی یہ جیت بہت اہم ہے۔ ہماری کرکٹ ٹیم اتنی بدقسمت ہے کہ جو اپنے ملک کے اندر انٹر نیشنل کرکٹ نہیں کھیل سکتی۔ اس کی ہوم گراؤنڈ اکثر متحدہ عرب امارات(یو اے ای) ہوتی ہے۔ ایک بار آسٹریلیا کے خلاف انگلینڈ بھی ہماری ہوم گراؤنڈ بنی۔ آسٹریلیا کے خلاف ایک ٹیسٹ ہماری ٹیم نے سری لنکا میں بھی کھیلا تھا۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد سے ہماری ٹیم اپنے ملک میں کھیلنے کے لیے ترس گئی ہے۔ زمبابوے کے خلاف دو ٹی ٹوئنٹی اور تین ون ڈے کی سیریز واحد تھی جو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلی گئی۔
لارڈز میں جیت کی بنیاد کپتان مصباح الحق نے رکھی جو ٹاس جیت کر پہلے کھیلتے ہوئے سنچری اسکور کر گئے۔ سلیوٹ اور پش اپس کا پہلا مظاہرہ اس گراؤنڈ میں کپتان نے ہی کیا تھا۔ پہلی اننگز میں اسد شفیق نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اسد دوسری اننگزمیں بھی اچھا کھیلے۔ باقی کام مین آف دی میچ یاسرشاہ نے کر دیا۔ وہ لارڈز کے میدان میں 10وکٹیں لینے والے پہلے ایشین بولر ہیں۔ یاسر شاہ کی لیگ اسپن نے گورے بیٹسمینوں کو گھما کر رکھ دیا ۔ پاکستان کی لارڈز کے میدان پر یہ چوتھی فتح تھی، یہ بھی کسی ایشین ٹیم کی بہترین پرفارمنس ہے۔
1996ء میں ہم انگلینڈ سے اس میدان پر جیتے تو کپتان وسیم اکرم تھے۔ وہ سیریز بھی پاکستان نے دو صفر سے جیت لی تھی۔ موجودہ سیریز میں ابھی تین ٹیسٹ باقی ہیں۔ بیٹسمینوں نے ذمے داری کا مظاہرہ کیا تو ہمارے بولروں میں اتنا دم خم ہے کہ وہ یہ سیریز پاکستان کے نام کر دیں۔ یاسر شاہ، محمد عامر اور وہاب ریاض تینوں میچ وننگ بولر ہیں۔ دوسری اننگز میں راحت علی نے انگلینڈکی تین ابتدائی وکٹیں لے کر اپنا انتخاب درست ثابت کر دیا۔ سچی بات ہے پلینگ الیون کا اعلان ہوا تو مجھے حیرت ہوئی تھی کہ واحد رائٹ آرم بولر عمران خان کو ٹیم میں شامل کیوں نہیں کیا گیا۔
مصباح کا چونکہ راحت علی پر زیادہ اعتماد ہے اسی لیے عمران 12ویں کھلاڑی بنے۔ یاسر شاہ تیز ترین 50وکٹیں لینے والے بولر کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں، تیز ترین 100ٹیسٹ وکٹیں لینے کا ریکارڈ اپنے نام کرنے کے لیے انھیں مزید 14 وکٹوں کی ضرورت ہے جب کہ ان کے پاس 4اننگز باقی ہیں۔ اگلے دو ٹیسٹ میچوں میں سے کسی ایک میں بھی یاسر شاہ نے پہلے ٹیسٹ والی پرفارمنس دہرا دی تو وہ یقینا یہ کارنامہ انجام دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بیٹسمینوں میں کپتان مصباح الحق مسلسل بہترین پرفارم کر رہے ہیں۔ دیگر بیٹسمین بھی اپنی اپنی کوشش کرتے ہیں البتہ اسد شفیق کی کارکردگی بہت شاندار ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں جو چند اسٹائلش بیٹسمین ہیں وہ ان میں سے ایک ہیں۔
انھیں کھیلتا دیکھ کر ہمیشہ بہت لطف اندوز ہوتا ہوں۔ اظہر علی دونوں اننگز میں بدقسمت رہے کہ ایل بی ڈبلیو کے فیصلے ان کے خلاف چلے گئے۔ فیلڈ امپائر نے انھیں آؤٹ نہ دیا ہوتا تو وہ دونوں باربچ جاتے۔ یونس خان میں مجھے اعتماد کی کمی لگی ہے۔ محمد حفیظ پہلی اننگز میں اچھا کھیل رہے تھے مگر ایک غیر ضروری شاٹ نے ان کی اننگز ختم کر دی۔ انگلینڈ کی ٹیم میں جو روٹ بہت خطرناک بیٹسمین ہے۔ بولنگ میں ووکس نے مصیبت ڈالے رکھی۔ وہ دونوں اننگز میں 11وکٹیں لے گئے۔ جیمز اینڈر سن ٹیم میں واپس آگئے تو اسٹیورٹ براڈ اور ووکس کے ساتھ مل کر وہ پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ کر دیں گے۔ پہلے ٹیسٹ سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ دونوں ٹیموں میں برابر کی ٹکر ہے۔ انگلینڈ کے لیے جیسے ہی کنڈیشنز زیادہ سازگار ہوئیں ہماری ٹیم کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان نے پہلے ٹیسٹ میں پہلی اننگز کی لیڈ کی بنیا پر جیت حاصل کی ہے۔ شان مسعود اگر لارڈز کی پچ پر نہیں چل سکے تو آیندہ میچوں میں ان کی پرفارمنس مجھے مشکوک لگ رہی ہے۔
سیریز کے باقی میچوں کے لیے یونس خان کو اپنے اعتماد میں اضافہ کرنا ہو گا۔ قسمت نے ساتھ دیا تو اظہر علی قابل بھروسہ بیٹسمین ہو سکتے ہیں۔ صرف ہارنے کی صورت میں خامیاں تلاش کرنا بہادری نہیں ہے، جیت کے بعد بھی خامیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ٹیم میں اسی کھلاڑی کی جگہ بننی چاہیے جو پرفارم کرے۔ اس جیت پر پوری ٹیم اور ہیڈ کوچ مکی آرتھر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مصباح الحق نے جیت ایدھی صاحب کے نام کر کے پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں۔ وہ اگلا ٹیسٹ جیت کر اسے وزیراعظم کے نام بھی کر سکتے ہیں کیونکہ ادھر دل کا معاملہ ہے۔ ممکن ہے اگلی دفعہ آرمی چیف سے پہلے وزیراعظم کپتان کو مبارکباد کے لیے فون کر دیں۔ شرط صرف اتنی ہے کہ وہ پوری طرح صحتیاب ہو جائیں اور رائے ونڈ محل سے وزیراعظم ہاؤس تک کا''طویل'' فاصلہ طے کر سکیں۔بہرحال ویلڈن پاکستان الیون،آپ نے پاکستانیوں کو سیلوٹ کیا، میرا آپ کو سیلوٹ۔