جنگلات میں سرمایہ کاری
اس ضمن میں وزیراعظم پاکستان کی جانب سے شروع کیا جانے والا گرین پاکستان پروگرام امید کی ایک کرن ہے
اقوام متحدہ کے زیرانتظام منائے جانے والے عالمی ہفتہ برائے جنگلات میں پیش کی جانے والی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھرکے جنگلات سے حاصل ہونے والی قانونی آمدنی عالمی معیشت کا 0.9 فیصد ہے جب کہ عالمی جنگلات سے حاصل ہونے والی وہ غیر قانونی آمدنی جس کے لیے جنگلات کاٹے جاتے ہیں، عالمی معیشت کے 1.1 فیصد کے مساوی ہوتی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کی ایک تہائی آبادی اس ایندھن پر انحصار کرتی ہے جو لکڑی سے حاصل کیا جاتا ہے جب کہ سینٹرفارانٹرنیشنل فاریسٹری ریسرچ کے مطابق دنیا کی 1.6 بلین آبادی کے ذریعے معاش کا انحصار جنگلات پر ہے۔
بین الاقوامی ادارے رین فاریسٹ ایکشن نیٹ ورک کی تحقیق کے مطابق اس وقت عالمی سطح پر ہر سیکنڈ میں ڈیڑھ ایکٹر اور ہرمنٹ میں 20 فٹ بال گراؤنڈ رقبے کے مساوی جنگلات کا خاتمہ ہورہا ہے، جس کے باعث نباتات وحیوانات کے نصف سے زائد مسکن تباہ ہوچکے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی سے حاصل کی جانے والی لکڑی سے کاغذ بنانے والی صنعت اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والی چوتھی بڑی صنعت ہے۔ماحولیاتی ماہرین وسائنسدانوں کا اس امر پر مکمل اتفاق ہے کہ جنگلات موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سرفہرست ہے جوماحولیاتی وموسمیاتی تبدیلیوں کے شدید خطرات کی زد میں ہیں اور اس کے سنگین اثرات کا براہ راست سامنا کررہے ہیں۔ جنگلات کے حوالے سے بھی پاکستان ان ملکوں میں سر فہرست ہے جہاں جنگلات بہت تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ حکومتی اعدادوشمار اگرچہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک کے 4 فیصد سے زائد رقبے پر جنگلات موجود ہیں لیکن دوسری جانب ملکی وغیرملکی ماہرین کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کے صرف دو سے ڈھائی فیصد رقبے پر جنگلات باقی بچے ہیں۔ایک اوراندازے کے مطابق ملک میں 7 سے 9 ہزار ایکڑ سالانہ کی شرح سے جنگلات کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔واضح رہے کہ عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات ہونا چاہییں۔
اس ضمن میں وزیراعظم پاکستان کی جانب سے شروع کیا جانے والا گرین پاکستان پروگرام امید کی ایک کرن ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کی تاریخ کا یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب کسی حکومت نے مرکزی سطح پر جنگلات کی کمی اورجنگلی حیات کے تحفظ کا نوٹس لیتے ہوئے اسے قومی سطح کے مسئلے کی اہمیت دی ہے۔ 5 سالہ گرین پاکستان پروگرام کا اعلان رواں سال مارچ میں کیا گیا تھا۔ 10 ارب روپے سے شروع کیے گئے اس 5 سالہ گرین پاکستان پروگرام کے پہلے مرحلے کا آغاز کرتے ہوئے گزشتہ دنوں آنے والے دو سالوں کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
اس پروگرام کے لیے سال 2016-17 ء کے بجٹ میں ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جب کہ وفاق اور صوبے آیندہ مالی سال کے دوران نصف کے شراکت دار ہوں گے، اس منصوبے پر رواں ماہ جولائی سے عمل درآمد شروع ہوجائے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومتیں بھی جنگلات میں سرمایہ کاری کریں گی۔ پاکستان میں پرائیویٹ جنگلات کا رقبہ سرکاری جنگلات کے رقبہ سے زیادہ ہے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے جنگلات میں سرمایہ کاری کی پالیسی تشکیل دی گئی ہے۔
یہ منصوبہ وزیراعظم پاکستان کی خصوصی ہدایت کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے جس کے تحت ملک بھر میں آنے والے 5 سالوں کے دوران 10 کروڑ 50 لاکھ پودے لگائے جائیں گے۔ اس حوالے سے قومی سطح پر ایک آگاہی سیمینارکا انعقاد بھی کیا جائے گا جس میں تمام صوبوں کے متعلقہ محکموں، مقامی اور بین الاقوامی سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کے نمایندوں، ماہرین جنگلات و جنگلی حیات شریک ہوں گے، جب کہ اس کانفرنس میں گرین پاکستان پروگرام کے لیے مختلف ذرایع سے مزید فنڈنگ حاصل کرنے کے حوالے سے بھی بات کی جائے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ حیاتی ، معاشی اور سماجی حالات کو بہتر بنانے کے ضمن میں جنگلات کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ ملکی آئین کے مطابق جنگلات کا محکمہ صوبوں کے پاس ہے جس کے تحت وہ اپنی پالیسیاں خود تشکیل دیتے ہیں۔ ماضی میں جنگلات کی قومی پالیسی بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اسے وفاقی حکومت کی منظوری حاصل نہ ہوسکی۔ 18 مارچ 2015ء کو مشترکہ مفادات کونسل (CCI) کا ایک اجلاس وزیراعظم پاکستان جو کہ کونسل کے چیئرمین بھی ہیں کی صدارت میں منعقدہ ہوا تھا جس میں وزیراعظم محمد نواز شریف نے نیشنل فاریسٹ پالیسی تیار کرنے کی ہدایت کی جس کے نتیجے میں چاروں صوبوں اور متعلقہ ماہرین کی مدد سے، جنگلات کی قومی پالیسی کا مسودہ تیار ہوچکا ہے۔
اس مسودہ میں اس بات کو خصوصی طور پر مدنظر رکھا گیا ہے کہ اس پالیسی کی وجہ سے صوبائی خود مختاری میں کسی بھی قسم کی کوئی مداخلت نہ ہو بلکہ یہ پالیسی صوبوں کی پالیسیوں اور ان کی جانب سے جنگلات کی بہتری کے لیے بنائے گئے منصوبوں میں معاون ومددگار ثابت ہو۔ اس پالیسی میں ان ذمے داریوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو جنگلات سے متعلق کیے گئے بین الاقوامی معاہدوں کے تحت وفاق حکومت پر عائد ہوتی ہیں اور حکومت پاکستان ان معاہدوں میں ایک فریق کی حیثیت سے شامل ہے۔ اس پالیسی کے زیادہ تر رہنما اصولوں اور اقدامات کا اطلاق وفاقی حکومت پر ہوگا جو اس کے آئینی دائرکار میں آتے ہیں۔
قومی پالیسی برائے جنگلات کے مقاصد درج ذیل ہیں۔
1۔ پائیدار انتظام کے ذریعے جنگلات کے ایکو لوجیکل ، سوشل اور کلچرل شعبوں کو فروغ دیا جائے۔
2۔ قومی سطح پر جنگلات لگانے کے پروگرام کو وسعت دی جائے اور جنگلات پر مشتمل علاقوں کو زیادہ سے زیادہ حد تک برقرار رکھا جائے۔
3۔ دستیاب زمینوں، شاملات اورگذارہ جنگلات اور شہری جنگلات میں سرمایہ کاری کرتے جنگلات کی حد کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔
4۔ وفاقی جنگلات بورڈ کے ذریعے لکڑی اورغیر لکڑی جنگلات کی بین الصوبائی آمدو رفت، تجارت اور کاروبار میں سہولت اور ہم آہنگی پیدا کی جائے۔
5۔ قدرتی جنگلات، محفوظ علاقوں اوروائلڈ لائف کے مساکن کی تنزلی کو روکنے کی کوششوں کو باہم مربوط کیا جائے۔
6۔ کاربن کے اخراج میں کمی اور فاریسٹ پولز میں اضافے کے لیے جنگلات کے کردار کو بڑھایا جائے۔
7۔ بین الاقوامی کنونشن اور معاہدے جو جنگلات ، آب گاہوں ، حیاتی تنوع اور موسمی تبدیلیوں سے متعلق ہیں ان کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔
8۔ جنگلات کی سائنسی بنیادوں پر منصوبہ بندی، تحقیق اور تعلیم بشمول کمیونٹی سینٹر مینجمنت جیسے امور کو معیاری شکل دی جائے اور ان میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔
مشترکہ مفادات کو نسل میں منظوری کے لیے بھیجی گئی مجوزہ قومی پالیسی برائے جنگلات مجموعی طور پر جنگلات کے حوالے سے تین بنیادی چیزوں کا احاطہ کرتی ہے جن میں موجودہ جنگلات کو محفوظ بنانا، کمیونٹی کی شرکت سے زیادہ سے زیادہ درختوں کا لگانا اور جنگلات سے متعلق بین الاقوامی ذمے داریوں کو پورا کرنے جیسے عوامل شامل ہیں۔ ان مقاصد کی بنیاد پر اس دستاویزکو چاروں صوبوں شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) آزاد کشمیر اور فاٹا کی وسیع تر مشاورت سے حتمی شکل دی گئی ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے آیندہ ہونے والے اجلاس میں اس دستاویزکو متعلقہ طور پر منظور کیا جاسکتا ہے۔
موسمی تبدیلیوں کے عذابوں میں گھرا ہوا پاکستان جو اپنے خطے میں سب سے کم رقبے پر جنگلات رکھتا ہے کے لیے اس حوالے سے یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ جنگلات اور جنگلی حیات کے حوالے سے کوئی قومی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی کسی حکومت نے اس انتہائی سنجیدہ مسئلے کی طرف توجہ دی تاہم، یہ امر خوش آیند ہے کہ موجودہ حکومت نے اس مسئلے کو قومی سطح کا درجہ دیتے ہوئے چاروں صوبوں کی مشاورت سے ایک قومی پالیسی تیار کی ہے ۔
اس پالیسی کے ذریعے ہم جنگلی حیات کی پائیدار بقا کو یقینی بنانے کے ساتھ فضائی آلودگی، زمینی و دریائی کٹاؤ، لینڈ سلائیڈنگ اور موسمی تبدیلی کے باعث رونما ہونے والی تباہ کاریوں جس میں سیلاب، گرمی کی لہر اورساحلی طوفانوں کے اثرات جیسے عوامل شامل ہیں کو کم کیا جاسکے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس جلد ازجلد منعقد ہو تاکہ باہمی مشاورت سے جنگلات کی مجوزہ قومی پالیسی منظور ہوسکے اورپالیسی کا سیاسی مناقشوں کی نذر ہوجانے کے خدشات کا تدارک بھی ہوسکے۔