صفوں کو سیدھا کرنا پڑے گا
جس دنیا میں ہم رہتے ہیں، اس میں رات دن ہم ایسے واقعات اورحالات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں
جس دنیا میں ہم رہتے ہیں، اس میں رات دن ہم ایسے واقعات اورحالات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں جس کے تحت ہمیں یہ اندازہ ہوتا رہتا ہے کہ دنیا کا Trend کیا ہے؟ لوگ کس طرح سوچ رہے ہیں، دنیا بھرکے جغرافیائی حالات بھی ہم پڑھتے سنتے دیکھتے رہتے ہیں جن سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں تین طرح کے لوگ ہیں جغرافیائی طور پر۔ ایک وہ جو نہایت سرد علاقے میں رہتے ہیں۔ دوسرے وہ جو نہایت گرم علاقوں میں رہتے ہیں، اور تیسرے وہ ہیں جو ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں یہ دونوں کیفیات ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کی جگہ لے لیتی ہیں یوں موسم بدل جاتے ہیں۔
جہاں آج تک برف پڑی ہے جمی ہے وہاں بھی انسان رہتے ہیں، جہاں سخت گرمی پڑتی ہے جو انسانوں تک کا رنگ کالا کردیتی ہے وہاں بھی انسان رہتے ہیں۔ برفانی علاقوں کے پرندے بھی سفید ہوتے ہیں، یہاں تک کہ کوا بھی سفید ہوتا ہے جب کہ ہم کوے کا مطلب کالا ہی سمجھتے ہیں۔ دوسرے نمبر پرکوئل وہ بھی ہمارے یہاں کالی ہوتی ہے وہاں شاید نہیں ہوتی ہوگی کیونکہ وہاں کوئل کا موسم نہیں آتا شاید۔
ان جغرافیائی اختلافات کے تحت انسانوں کے مزاج بھی شاید ایسے ہی ہوتے ہیں ، اگر آپ غور کریں تو دنیا میں جن علاقوں میں موسم سخت گرم ہے وہاں سخت اختلافات اور سخت لڑائیاں ہیں اور ان علاقوں کے ملکوں کو جن کے یہاں ایسا موسم نہیں ہوتا۔ ان لڑائیوں کی پریکٹس کے لیے ان ملکوں کا رخ کرنا پڑتا ہے جہاں لڑائی کا موسم رہتا ہے۔
آپ سمجھ تو گئے ہوں گے زیادہ تر ان علاقوں کا تعلق مسلمان ملکوں سے ہے۔ یورپ اب اپنے یہاں جنگوں میں کوئی خاص لطف حاصل نہیں کر پا رہا۔ لہٰذا انھوں نے نئے جنگی میدان دریافت کیے ہیں اور یہ نئے جنگی میدان زیادہ تر مسلمان ملک ہیں۔ روس امریکا کا فرق چھوڑیے یہ سب ایک ہیں مسلمانوں کے خلاف اور مسلمانوں کے لیے۔
ہم چاہتے نہیں ہیں کہ دنیا کو مسلم اور غیر مسلم ممالک میں تقسیم کرکے بات کریں مگر اس تقسیم پر ہمیں ان ملکوں نے ہی مجبور کردیا ہے ان ممالک میں بھی ان کے لوگ جن کے بقول ان کے دماغ پھرجاتے ہیں فائرنگ کرکے پچاس لوگوں کو ہلاک کردیتے ہیں چاہے ان کا مذہب کچھ ہو۔ یہ زیر بحث یوں نہیں ہے کہ وہ لوگ صرف اسلام کو ہی ایک دہشت گرد مذہب کہتے ہیں مگر اپنے ہاں کے مسلمان کو بھی دہشت گرد ماننے پر تیار نہیں ہوتے کیونکہ اس سے ان کی Social Values کو دھچکا لگتا ہے اور ان کا سماج بدنام ہوتا ہے۔تو بدنام کرنے کو مسلم سماج ہے نا۔ وہ کیوں اپنے سماج کو بدنام کریں۔
یہ تصورخود انھوں نے دیا ہے، دنیا کو آپ کہیں گے کہ مہذب معاشرہ یہ کیسے کرسکتا ہے تو آپ 9/11 کے واقعے کی حقیقت آج تک نہ جان سکے کیونکہ یہ ایک یہودی منصوبہ تھا جو اس طرح ترتیب دیا گیا کہ عیسائی بھی اس سے واقف نہ ہوسکے اور یہودیوں کے ایجنٹ امریکا کے صدر نے اسے مسلمانوں کے خلاف قرار دے کر صلیبی جنگ کا آغاز کردیا جو اب تک ختم نہیں ہوئی۔ شکار صرف مسلمان ہیں۔
ایک تعجب کی بات ہے کہ اب اس جنگ کے فریق فرنٹ پر ہر طرح کے مسلمان ہیں اور یہودی اور عیسائی اسے جاری رکھنے کے لیے Back Door استعمال کر رہے ہیں اس کا فائدہ یہ ہے کہ دنیا میں یہودیوں اور عیسائیوں کی تعداد کم نہ ہو اور مسلمانوں کی تعداد خود مسلمان معاوضہ لے کر کم کردیں۔ اس منصوبے پر 9/11 سے اب تک کامیابی سے عمل ہو رہا ہے۔
اس کے منصوبہ ساز تو وہی لوگ ہیں جنھوں نے اس کا آغاز عالم عرب پر حملہ اور فلسطین کو تباہ کرنے سے کیا تھا اور عرب آج تک کچھ نہ کرسکے تعداد، سازوسامان کے باوجود کیونکہ مسلمان مملکتیں اب بھی وہی ہیں ساری دنیا میں جو کہا کرتی تھیں ہنوز دلی دور است۔ اب اس میں اضافہ تازہ ترین بھارت ہے جو ان ملکوں سے پینگیں بڑھا کر پاکستان کے دوست چھین لینے کی تگ ودوکر رہا ہے۔
بھارت نے ہر طرح پاکستان کو نقصان پہنچا کر دیکھ لیا اس کے خیال میں یہ بہت ڈھیٹ قوم ہے اور اکھنڈ بھارت نہیں بننے دے گی۔ اقتصادی طور پر سازشیں کرکے دیکھ لیا دنیا کے ساتھ مل کر، قدم قدم پر دھوکے دے کر دیکھ لیا، کچھ نہ بنا، اب دنیا کو ساتھ لے کر پاکستان پر فوجی کارروائی کا ارادہ ہے، دہشت گرد ریاست قرار دلوا کر پتا نہیں دنیا کے چشمے میں کشمیرکیوں نظر نہیں آتا؟
مودی کا سارا زور اس پر ہے کہ پاکستان کو ایک تسلیم شدہ دہشت گرد ملک قراردلوا کر دنیا سے کہا جائے کہ اس کے ایٹم بم چھین لو اور اسے نہتا کردو تاکہ ہم اسے ایک اورکشمیر بنالیں اس کوشش میں ہمارے اپنے بھی شامل ہیں جو ہر طرح سے جانتے ہوئے بھی کہ وہ کیا چاہتا ہے اس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اپنے ہی ملک کے مفاد کے خلاف کام کررہے ہیں۔ ان کا وزیراعظم ورلڈ فورم پر پاکستان کو ایک دہشت گرد State قرار دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔یہ مت سمجھیے کہ ہمارے لوگ سیدھے ہیں وہ نہیں جانتے ایسا نہیں ہے مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے میر جعفر، میر صادق کو سب پتا تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کس کے خلاف کر رہے ہیں مگر ان کے اپنے مفادات تھے جو ان کو زیادہ عزیز تھے۔
ایک طرف اسرائیل نے فلسطینیوں پر زمین تنگ کررکھی ہے۔ زندگی دشوار ہے، ظلم اور بربریت کا بازارگرم ہے وہی ہتھکنڈے بھارت مقبوضہ کشمیر میں استعمال کر رہا ہے۔ 70 سال سے۔ بھارت اور اسرائیل سے بڑے دہشت گرد ملک انسانی تاریخ میں نہیں ہیں ۔ان کے حقائق پوشیدہ ہیں جب بھی منظرعام پرآئے لوگ حیران ہوجائیں گے یعنی مزید حیران ہوجائیں گے، حیران ہونے کو یہ کیا کم ہے کہ یہ دہشت گرد ملک اقوام متحدہ پر قابض ہیں بالواسطہ اور اب ان کے ڈانڈے ان سے مل گئے ہیں آپس میں بھی اور ان کے ساتھ بھی جی ہاں امریکا بہادر۔ امریکا پاکستان کا دشمن نمبر ایک ہے کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
افغان مہاجرین کا بوجھ، افغان جنگ۔ ڈرون حملے۔ پاکستان میں پوشیدہ فضائی حملے یہ وہ مقاصد ہیں جو بھارت کے ہیں جنھیں اب امریکا پورا کر رہا ہے بھارت ناکام ہوچکا ہے ان میں اب دوست مدد کر رہا ہے یعنی امریکا۔ ہم خوش فہمی کی باتیں نہیں کریں گے۔ جو لکھا ہے یہی سچ ہے اور اس کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا اپنی آزادی کے لیے لڑنا ہوگا جو پوشیدہ طور پر قرضوں اور دوسرے طریقوں سے سلب کی جا رہی ہے ایک آزاد اور غیور قوم کی طرح جینے کے لیے وہی کرنا پڑے گا جو ایسی قومیں کرتی ہیں اور اس کے لیے اپنی صفوں سے دشمن نکالنے پڑیں گے۔ صفوں کو سیدھا کرنا پڑے گا۔