سورہ فاتحہ اور حیات انسانی کا عملی پہلو
بے شک ایسے ہی بندگان خدا کے لئے دنیا و آخرت کی سب عزتیں ہیں ۔
سورئہ فاتحہ انسانی اعتقاد کی اصلاح کے بعد زندگی کے عملی پہلو کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتی ہے ۔ اس کی چوتھی آیت اس موضوع سے متعلق ہے .
ترجمہ: ہم تیری عبادت کر تے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ، الفاتحہ(۱:۴)
جب اللہ، رب ، رحمان ، رحیم اور مالک ، سب کچھ وہی ذات قرار پاگئی تو صاف ظاہر ہے اس کے سوا کسی کی عبادت کا سوال پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی سے استعانت کا ۔ یہ اعلان متذکرہ بالا عقیدے کے بعد اب انسانی عمل کی نوعیت اور سمت کو متعین کرنے کے لیے کیا گیا ۔ یہاں دو لفظ بیان ہوئے ہیں ۔ 'عبادت' اور 'استعانت' ان کی معنوی تفصیلات اور جزئیات چھوڑ کر یہاں محض ان کا اجمالی مفہوم بیان کیا جاتا ہے۔
عبادت سے مراد انتہائی عاجزی ، انکساری اور تذلل کا اظہار ہے ۔ عاجزی اور تذلل کے مقابلے میں صاف ظاہر ہے کہ عظمت و کبریائی ہی ہو سکتی ہے ۔ اسی وجہ سے عبادت اور عبودیت دونوں لفظ بندگی اور غلامی کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔ گویا عام معنوں میں کسی کی عبادت سے مراد یہ ہو گا کہ اسے عظمت و کبریائی کا مالک تصور کر تے ہوئے اپنا آقا تسلیم کیا جائے اور خود کو اس کا عاجز و حقیر بندہ ۔ یہاں ذہن میں کسی قسم کا مغالطہ نہیں رہنا چاہئے کہ عبادت کا تصور محض نماز ، روزہ اور حج و زکوٰاۃ وغیرہ سے ہی مختص نہیں بلکہ پوری زندگی اور اس کی پوری جدوجہد پر محیط ہے ۔
اگر یہ تصور دل و دماغ میں راسخ ہو جائے کہ باری تعالیٰ ہمارا آقا و مالک ہے ، ہم اس کے عاجز و نیاز مند بندے ہیں اور حق بندگی یہ ہے کہ زندگی میں جو کچھ بھی کیا جائے اپنے مالک کی مرضی کے مطابق اور اسی کی خوشنودی کی خاطر کیا جائے تو زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک عمل عبادت قرار پاتا ہے ، کھانے پینے ، اُٹھنے بیٹھنے اور آرام کرنے سے لے کر تجارت ،سفارت ، سیاست و امارت اور صلح و جنگ کے میدانوں تک ہر ایک قدم ، ہر ایک سانس اورہر حرکت و سکون عبادت ہو جاتی ہے ۔ گویا سورئہ فاتحہ نے یہ تعلیم دی کہ جس طرح انسان اپنے آغاز سے انجام تک ربوبیت الٰہیہ کے فیضان سے مستفید ہوتا رہتا ہے اسی طرح اسے چاہئے کہ اپنی عملی زندگی میں بھی آغاز سے انجام تک ہر لمحہ اسی کی غلامی اور بندگی میں گزار دے ۔ اس کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جس کی بندگی کی جاسکے ۔ لہٰذا جب معبود وہی ہے تو مدد کرنے والا بھی اسی کو کیوں نہ تسلیم کیا جائے ۔ اس لئے فرمایا گیا ۔
ترجمہ : اور ہم مدد بھی تجھ ہی سے مانگتے ہیں۔
استعانت کا تصور انسانی زندگی کے بعض خصوصی لمحات پر حاوی ہے ، جب کہ عبادت کا تصور اس کی عمومی حالت پر حاوی تھا ، کیوں کہ مدد کی ضرورت انسان کو عام طور پر دو طرح کے معاملات میں ہو تی ہے ۔ ایک کوئی ایسی مشکل درپیش ہو کہ اپنے وسائل و ذرائع سے اس کا حل میسر نہ آسکے اور دوسرا کوئی ایسی خواہش اور آرزو ہو جس کا حصول ذاتی کوششوں سے ممکن نہ ہو ۔
جب انسان کسی مصیبت اور مشکل یا کسی خواہش اور طلب کی شدت کے باعث پریشان ہو تا ہے اور اس کا مدعا اس کی ذاتی کوششوں سے حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا تو پریشانی کی یہ دونوں صورتیں اس کی زندگی میں ایک تغیر پیدا کر تی ہیں ۔ اس کی سوچ میں التہابی اور ہیجانی کیفیت پیدا کر تی ہیں ۔ یہ بے چینی اور اضطراب جوں جوں بڑھتا ہے اس کے فکری اور عملی معمولات متاثر ہو تے ہیں کیوں کہ فکر اور عمل کی جو کیفیت عام حالات میںہوتی ہے ، صاف ظاہر ہے پریشانی کے لمحات میں نہیں ہو سکتی ۔ یہ وہ حالت ہے جہاں انسان شدت کے ساتھ کسی مدد کی ضرورت محسوس کر تا ہے ۔ جس قدر ضرورت اور حاجت شدید ہو گی ، طلب اعانت کا داعیہ بھی اس قدر شدید ہو گا۔ لہٰذا وہ بندہ جس نے ساری زندگی رب العٰلمین کی غلامی میں گزاری تھی ، جس نے ہمہ وقت اسی کو اپنا ملجا و ماویٰ تصور کیا تھا، اگر اس لمحے اپنی طلب و ضرورت کی شدت اور ہیجان انگیز جذبات کے بہائو میں کسی او ر کے سامنے جھک گیا تو اس کی ساری بندگی رائیگاں چلی گئی اور اس کی عبودیت کی ساری پونجی لٹ گئی ۔ بقول اقبال:
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلند کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
یہی وقت تو بندگی اور عبودیت کی آزمائش کا تھا کہ عام حالات میں اس کی بندگی کرنے والا شدت جذبات میں بھی اسی کا بندہ رہا یا نہیں ۔ بہادر شاہ ظفر کیا خوب کہتے ہیں:
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا، وہ کتنا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدانہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
حقیقت یہ ہے کہ سورئہ فاتحہ کی یہ چوتھی آیت انسانی عمل کے انہی دو گوشوں کی اصلاح چاہتی ہے ۔
ایاک نعبد۔۔۔ کہ عام حالت میں بھی ہم تیری ہی بندگی کر تے ہیں۔و ایاک نستعین ۔۔۔۔۔ اور شدت اضطراب میں بھی ہم تیرے ہی سامنے جھکتے ہیں،کسی اور سے کوئی امید نہیں رکھتے ۔
شدت اضطراب میں بھی اللہ ہی کے سامنے جھکنا اس ارادے کی نشاندہی کر رہا ہے کہ'' اے باری تعالیٰ ، ہمیں اپنی زندگی کی کوئی خواہش اور آرزو بھی تیری بندگی سے زیادہ عزیز نہیں ہے ۔ دیکھ ، ہم نے سخت سے سخت ہیجان و اضطراب کے لمحات میں بھی تیری بارگاہ کی طرف رجوع کیا ہے جب ہم اتنے اخلاص کے ساتھ تیرے بند ے ہو گئے ہیں تو اب تو ہمیں اپنے انعام یافتہ بندوں کے ساتھ ملا دے ''۔
لہٰذا سورئہ فاتحہ نے حیات انسانی کے عملی پہلو کی اصلاح اس طرح کی کہ انسان رب کائنات کا ایسا اطاعت گزار بندہ بن جائے کہ خوشی و غمی ، عیش وطیش ، فراخی و تنگی ، سکھ اور دکھ ، صحت اور بیماری ، امیر ی اور غریبی ، آسودہ حالی اور پریشان حالی الغرض کسی حالت میں بھی اس کی بندگی ترک نہ کرنے پائے ، اس کی اطاعت اور غلامی سے منہ نہ موڑے اور اس کے بجائے کسی بڑے سے بڑے فرعون کے سامنے بھی نہ سرِنیاز خم کرے اور نہ دستِ سوال دراز کرے ۔ بے شک ایسے ہی بندگان خدا کے لئے دنیا و آخرت کی سب عزتیں ہیں ۔ قرآن حکیم اسی تصور کویوں بیان کر تاہے :
ترجمہ : اور وہ جنت جس کی وسعت میں سب آسمان اور زمین آجاتے ہیں جو پرہیز گارروں کے لئے تیار کی گئی ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں)میں خرچ کر تے ہیں ۔(آل عمران، ۳۳۱،۴۳۱)
اور ایک اور مقام پر نیکی کی تعریف کر تے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :
اور سختی (تنگ دستی )میں اور مصیبت ( بیماری ) میں اور جنگ کی شدت(جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں۔(البقرہ،۲،۷۷۱)
چنانچہ سورئہ فاتحہ کی چوتھی آیت نے عبادت اور استعانت میں اخلاق کی تعلیم کے ذریعے حیات انسانی کے عملی پہلو کی بھی اصلاح کر دی ۔
ترجمہ: ہم تیری عبادت کر تے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ، الفاتحہ(۱:۴)
جب اللہ، رب ، رحمان ، رحیم اور مالک ، سب کچھ وہی ذات قرار پاگئی تو صاف ظاہر ہے اس کے سوا کسی کی عبادت کا سوال پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی سے استعانت کا ۔ یہ اعلان متذکرہ بالا عقیدے کے بعد اب انسانی عمل کی نوعیت اور سمت کو متعین کرنے کے لیے کیا گیا ۔ یہاں دو لفظ بیان ہوئے ہیں ۔ 'عبادت' اور 'استعانت' ان کی معنوی تفصیلات اور جزئیات چھوڑ کر یہاں محض ان کا اجمالی مفہوم بیان کیا جاتا ہے۔
عبادت سے مراد انتہائی عاجزی ، انکساری اور تذلل کا اظہار ہے ۔ عاجزی اور تذلل کے مقابلے میں صاف ظاہر ہے کہ عظمت و کبریائی ہی ہو سکتی ہے ۔ اسی وجہ سے عبادت اور عبودیت دونوں لفظ بندگی اور غلامی کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔ گویا عام معنوں میں کسی کی عبادت سے مراد یہ ہو گا کہ اسے عظمت و کبریائی کا مالک تصور کر تے ہوئے اپنا آقا تسلیم کیا جائے اور خود کو اس کا عاجز و حقیر بندہ ۔ یہاں ذہن میں کسی قسم کا مغالطہ نہیں رہنا چاہئے کہ عبادت کا تصور محض نماز ، روزہ اور حج و زکوٰاۃ وغیرہ سے ہی مختص نہیں بلکہ پوری زندگی اور اس کی پوری جدوجہد پر محیط ہے ۔
اگر یہ تصور دل و دماغ میں راسخ ہو جائے کہ باری تعالیٰ ہمارا آقا و مالک ہے ، ہم اس کے عاجز و نیاز مند بندے ہیں اور حق بندگی یہ ہے کہ زندگی میں جو کچھ بھی کیا جائے اپنے مالک کی مرضی کے مطابق اور اسی کی خوشنودی کی خاطر کیا جائے تو زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک عمل عبادت قرار پاتا ہے ، کھانے پینے ، اُٹھنے بیٹھنے اور آرام کرنے سے لے کر تجارت ،سفارت ، سیاست و امارت اور صلح و جنگ کے میدانوں تک ہر ایک قدم ، ہر ایک سانس اورہر حرکت و سکون عبادت ہو جاتی ہے ۔ گویا سورئہ فاتحہ نے یہ تعلیم دی کہ جس طرح انسان اپنے آغاز سے انجام تک ربوبیت الٰہیہ کے فیضان سے مستفید ہوتا رہتا ہے اسی طرح اسے چاہئے کہ اپنی عملی زندگی میں بھی آغاز سے انجام تک ہر لمحہ اسی کی غلامی اور بندگی میں گزار دے ۔ اس کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جس کی بندگی کی جاسکے ۔ لہٰذا جب معبود وہی ہے تو مدد کرنے والا بھی اسی کو کیوں نہ تسلیم کیا جائے ۔ اس لئے فرمایا گیا ۔
ترجمہ : اور ہم مدد بھی تجھ ہی سے مانگتے ہیں۔
استعانت کا تصور انسانی زندگی کے بعض خصوصی لمحات پر حاوی ہے ، جب کہ عبادت کا تصور اس کی عمومی حالت پر حاوی تھا ، کیوں کہ مدد کی ضرورت انسان کو عام طور پر دو طرح کے معاملات میں ہو تی ہے ۔ ایک کوئی ایسی مشکل درپیش ہو کہ اپنے وسائل و ذرائع سے اس کا حل میسر نہ آسکے اور دوسرا کوئی ایسی خواہش اور آرزو ہو جس کا حصول ذاتی کوششوں سے ممکن نہ ہو ۔
جب انسان کسی مصیبت اور مشکل یا کسی خواہش اور طلب کی شدت کے باعث پریشان ہو تا ہے اور اس کا مدعا اس کی ذاتی کوششوں سے حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا تو پریشانی کی یہ دونوں صورتیں اس کی زندگی میں ایک تغیر پیدا کر تی ہیں ۔ اس کی سوچ میں التہابی اور ہیجانی کیفیت پیدا کر تی ہیں ۔ یہ بے چینی اور اضطراب جوں جوں بڑھتا ہے اس کے فکری اور عملی معمولات متاثر ہو تے ہیں کیوں کہ فکر اور عمل کی جو کیفیت عام حالات میںہوتی ہے ، صاف ظاہر ہے پریشانی کے لمحات میں نہیں ہو سکتی ۔ یہ وہ حالت ہے جہاں انسان شدت کے ساتھ کسی مدد کی ضرورت محسوس کر تا ہے ۔ جس قدر ضرورت اور حاجت شدید ہو گی ، طلب اعانت کا داعیہ بھی اس قدر شدید ہو گا۔ لہٰذا وہ بندہ جس نے ساری زندگی رب العٰلمین کی غلامی میں گزاری تھی ، جس نے ہمہ وقت اسی کو اپنا ملجا و ماویٰ تصور کیا تھا، اگر اس لمحے اپنی طلب و ضرورت کی شدت اور ہیجان انگیز جذبات کے بہائو میں کسی او ر کے سامنے جھک گیا تو اس کی ساری بندگی رائیگاں چلی گئی اور اس کی عبودیت کی ساری پونجی لٹ گئی ۔ بقول اقبال:
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلند کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
یہی وقت تو بندگی اور عبودیت کی آزمائش کا تھا کہ عام حالات میں اس کی بندگی کرنے والا شدت جذبات میں بھی اسی کا بندہ رہا یا نہیں ۔ بہادر شاہ ظفر کیا خوب کہتے ہیں:
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا، وہ کتنا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدانہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
حقیقت یہ ہے کہ سورئہ فاتحہ کی یہ چوتھی آیت انسانی عمل کے انہی دو گوشوں کی اصلاح چاہتی ہے ۔
ایاک نعبد۔۔۔ کہ عام حالت میں بھی ہم تیری ہی بندگی کر تے ہیں۔و ایاک نستعین ۔۔۔۔۔ اور شدت اضطراب میں بھی ہم تیرے ہی سامنے جھکتے ہیں،کسی اور سے کوئی امید نہیں رکھتے ۔
شدت اضطراب میں بھی اللہ ہی کے سامنے جھکنا اس ارادے کی نشاندہی کر رہا ہے کہ'' اے باری تعالیٰ ، ہمیں اپنی زندگی کی کوئی خواہش اور آرزو بھی تیری بندگی سے زیادہ عزیز نہیں ہے ۔ دیکھ ، ہم نے سخت سے سخت ہیجان و اضطراب کے لمحات میں بھی تیری بارگاہ کی طرف رجوع کیا ہے جب ہم اتنے اخلاص کے ساتھ تیرے بند ے ہو گئے ہیں تو اب تو ہمیں اپنے انعام یافتہ بندوں کے ساتھ ملا دے ''۔
لہٰذا سورئہ فاتحہ نے حیات انسانی کے عملی پہلو کی اصلاح اس طرح کی کہ انسان رب کائنات کا ایسا اطاعت گزار بندہ بن جائے کہ خوشی و غمی ، عیش وطیش ، فراخی و تنگی ، سکھ اور دکھ ، صحت اور بیماری ، امیر ی اور غریبی ، آسودہ حالی اور پریشان حالی الغرض کسی حالت میں بھی اس کی بندگی ترک نہ کرنے پائے ، اس کی اطاعت اور غلامی سے منہ نہ موڑے اور اس کے بجائے کسی بڑے سے بڑے فرعون کے سامنے بھی نہ سرِنیاز خم کرے اور نہ دستِ سوال دراز کرے ۔ بے شک ایسے ہی بندگان خدا کے لئے دنیا و آخرت کی سب عزتیں ہیں ۔ قرآن حکیم اسی تصور کویوں بیان کر تاہے :
ترجمہ : اور وہ جنت جس کی وسعت میں سب آسمان اور زمین آجاتے ہیں جو پرہیز گارروں کے لئے تیار کی گئی ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں)میں خرچ کر تے ہیں ۔(آل عمران، ۳۳۱،۴۳۱)
اور ایک اور مقام پر نیکی کی تعریف کر تے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :
اور سختی (تنگ دستی )میں اور مصیبت ( بیماری ) میں اور جنگ کی شدت(جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں۔(البقرہ،۲،۷۷۱)
چنانچہ سورئہ فاتحہ کی چوتھی آیت نے عبادت اور استعانت میں اخلاق کی تعلیم کے ذریعے حیات انسانی کے عملی پہلو کی بھی اصلاح کر دی ۔