لارڈز سے لارڈز تک

انگلینڈ کو اس کے ملک میں ہرانا کوئی معمولی بات نہیں، کھلاڑیوں کو اس کی جتنی بھی شاباشی دی جائے وہ کم ہی ہو گی۔


Saleem Khaliq July 19, 2016
انگلینڈ کو اس کے ملک میں ہرانا کوئی معمولی بات نہیں، کھلاڑیوں کو اس کی جتنی بھی شاباشی دی جائے وہ کم ہی ہو گی۔ فوٹو:فائل

''بولڈ ہو گیا، ہم جیت گئے''

جیسے ہی عامر نے آخری انگلش کھلاڑی جیک بال کو آؤٹ کیا تو مجھ سمیت پریس باکس میں موجود پاکستانی صحافی بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور بے اختیار ہاتھ بلند کر کے خوشی کا اظہار کرنے لگے، میں محسوس کر سکتا تھا کہ اس وقت کھلاڑیوں اور ملک میں موجود شائقین کے کیا جذبات ہوں گے، ٹیم نے میدان میں ہی پش اپس کر کے پاک فوج کے ٹرینرز کو خراج تحسین پیش کیا جنھوں نے کاکول کے کیمپ میں ان کی فٹنس بہتر بنانے کیلیے خاصی محنت کی تھی، گراؤنڈ کے بعد ڈریسنگ روم میں بھی جشن کا سلسلہ جاری رہا، آج چیئرمین بورڈ شہریارخان پلیئرز کو ڈنر پر لے کر جائیںگے، میچ ختم ہونے کے بعد جب کپتانوں کی پریس کانفرنس کیلیے نیچے انگلش بورڈ کے آفس گیا تو وہاں چند لمحات بعد مصباح الحق آ گئے۔

مجھے دیکھ کر وہ ہاتھ ملانے کیلیے رک گئے، میں نے انھیں تاریخی فتح پر مبارکباد پیش کی، مصباح نے جو باتیں کیں وہ تو آپ پڑھ ہی چکے ہوں گے، وہاں سے جاتے ہوئے الیسٹر کک برابر سے گذرے یوں مجھے ان کے چہرے پر موجود افسوس اور غصے کو دیکھنے میں مشکل نہ ہوئی،مصباح نے وہاں موجود پاکستانی میڈیا کے ساتھ الگ سے بات چیت بھی کی، واپس جاتے ہوئے پاکستانی شائقین نے انھیں دیکھ کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے، کپتان نے ہاتھ ہلا کر مبارکباد کا جواب دیا، قومی پرچم لیے وہاں موجود پاکستانیوں کو خوش دیکھ کر مجھے بھی اطمینان کا احساس ہوا کیونکہ یہ وہی گراؤنڈ تھا جہاں اسپاٹ فکسنگ کا داغ لگا تھا اور اب یہیں ٹیم نے 20 برس بعد ٹیسٹ جیت کر گوروں کو حیران کر دیا۔

ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ایسی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، البتہ یہ بات ماننا پڑے گی کہ اس کے باوجود کسی قسم کے خراب رویے کا مظاہرہ دیکھنے میں نہ آیا، شائقین نے ہار کو خوشدلی سے تسلیم کیا اور مہمان ٹیم کو عمدہ کھیل پر داد دی،صبح جب میں اسٹیڈیم آ رہا تھا تو ٹیوب اسٹیشن کے باہر سے ہی شائقین کے لمبی لمبی قطاریں دیکھیں، بلیک میں ٹکٹ فروخت کرنے والے تو بہت زیادہ نظر آئے، پولیس سب کچھ دیکھ رہی تھی مگر روکنے کی کوشش نہیں کی، ماضی کے مقابلے میں اس بار سیکیورٹی کے بھی سخت انتظامات نظر آئے، سب کو بھرپور تلاشی کے بعد اسٹیڈیم میں جانے دیا گیا، گورے ٹکٹ خرید کر میچ دیکھنے کے عادی ہیں جبکہ ہم پاکستانیوں کو مفت پاسز کی عادت ہے۔

یہاں بھی لوگ ٹکٹس کے لیے رابطہ کرتے رہے، ''میں آپ کے بھائی کے دوست کا چچا زاد بھائی ہوں، پتا چلا آپ یہاں آئے ہیں تو رابطہ کر لیا، کیا دو ٹکٹ مل جائیں گے'' ایسے کئی لوگوں نے مجھ سے انگلینڈ میں بھی رابطہ کیا۔ میچ کے بعد برطانیہ میں ایکسپریس نیوز کے نمائندے نسیم صدیقی پاکستانی صحافیوں کو ڈنر پر لے کر گئے، وہاں سینئر صحافی قمر احمد نے اپنی یادوں سے محظوظ کیا،جاتے ہوئے انھوں نے لارڈز کے سامنے والی بلڈنگ کی جانب اشارہ کر کے بتایا کہ یہاں معروف بھارتی گلوکارہ لتا کا فلیٹ ہے جبکہ برابر والی بلڈنگ میں سچن ٹنڈولکر قیام پذیر ہیں۔

بعد میں میری بعض کھلاڑیوں سے فون پر بات ہوئی، سب نے بتایا کہ کھا پی کر خوب خوشیاں منائیں، پینے پر حیران نہ ہوں میں وہ والے پینے کی بات نہیں کر رہا، اس وقت قومی ٹیم میں شرابی کھلاڑیوں کی تعداد خاصی کم ہے، ویسے بھی بیشتر اہل خانہ کے ساتھ یہاں آئے ہوئے ہیں، مصباح الحق، محمد حفیظ، اسد شفیق،یاسر شاہ سمیت 8،10 کرکٹرز کی بیگمات و بچے ساتھ موجود ہیں، وہ فارغ وقت فیملیز کے ساتھ ہی گذارتے ہیں، بعض بورڈ آفیشلز بھی اہل خانہ کے ساتھ ''ہالی ڈیز'' سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، جی ایم عثمان واہلہ کے پاس چاہے ڈگری کیوں نہ ہو البتہ وہ اعلیٰ حکام کی نظروں میں جچنے کا فن بخوبی جانتے ہیں، ان کے گھر والے بھی ٹور میں ساتھ ہیں۔

لارڈز میں عامر کا خوب چرچا رہا، میچ سے پہلے اور دوران سب ان کا ہی نام لیتے رہے مگر یاسر شاہ نے اب توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی، ہمیں راحت علی کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے، دوسری اننگز میں پیسر نے ابتدا میں ہی قیمتی وکٹیں لے کر جیت کی بنیاد رکھی، مصباح اور اسد شفیق کا بھی اہم کردار رہا،عامر جس گراؤنڈ سے رسوا ہو کر نکلے تھے آج وہیں انھیں آخری وکٹ لے کر فخر سے سر اٹھا کر باہر جانے کا موقع ملا، نئے کوچ مکی آرتھر نے بھی بہترین آغاز کیا، وقار یونس کے جانے کے بعد ٹیم میں واضح بہتری دکھائی دینے لگی ہے ۔

امید ہے یہ سلسلہ برقرار رہے گا، یہ فتح برطانوی میڈیا کا رویہ بھی تبدیل کر دے گی، بورڈ نے کئی کروڑروپے خرچ کر کے مقامی پی آر فرم کی خدمات حاصل کیں جس کا کوئی فائدہ نہ ہوا، البتہ اچانک بعض مقامی صحافیوں کی پاکستانی میڈیا منیجر کے حق میں ٹوئٹس شاید اسی کا کمال تھیں، اگر آپ اچھا کھیلیں تو میڈیا لاکھ کوشش کرے کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن کسی تنازع میں الجھیں گے تو کوئی پی آر فرم بھی نہیں بچا سکے گی، اس ٹور میں بورڈ مقامی آفیشلز کو خوش رکھنے کی ہرممکن کوشش کر رہا ہے، اکثر ایک آفیشل تحائف سے بھرے بیگز لے جاتے بھی دکھائی دیے، چیف سلیکٹر انضمام الحق گوکہ بورڈ کے ٹکٹ پر یہاں آئے ہیں مگر اسٹیڈیم میں نظر نہیں آئے،انھوں نے بڑی خوبصورتی سے ذاتی ٹور کو آفیشل ٹور میں تبدیل کرا لیا، اب کسی وقت8،10 دن کیلیے بورڈ سے کہیں گے کہ انھیں آفیشل شمار کریں تو ان دنوںکا الاؤنس بھی مل جائے گا، ٹیم جیت گئی مگر اس میں سلیکشن کمیٹی کا کوئی کمال نہیں یہ تقریباً وہی سائیڈ ہے جسے سابقہ سلیکشن کمیٹیز بھی تشکیل دیتی رہی تھیں، فتح کا کریڈٹ کھلاڑیوں کو ہی دینا چاہیے۔

ساتھ انگلینڈ سے بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے، ثقلین مشتاق کو ہم لوگ اہمیت نہیں دیتے مگر بیرون ملک ان کی بڑی قدر ہے، اب انگلش بورڈ نے معاہدہ کرلیا، دوسرے ٹیسٹ سے وہ بطور بولنگ مشیر میزبان ٹیم کے ساتھ ہوں گے،خطرناک پیسر جیمز اینڈرسن کی بھی واپسی ہو رہی ہے، ایسے میں میزبان ٹیم زخمی شیر بن کر واپس آ سکتی ہے، فی الحال اس کامیابی سے لطف اندوز ہوں، ایسے موقع باربار نہیں آتے، انگلینڈ کو اس کے ملک میں ہرانا کوئی معمولی بات نہیں، کھلاڑیوں کو اس کی جتنی بھی شاباشی دی جائے وہ کم ہی ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں