لارڈز فتح پر سابق کرکٹرز بھی خوشی سے نہال
یاسر شاہ سمیت ہر پلیئر جیت کیلیے کوشش کرتا نظر آیا، ،اظہر محمود
لارڈز ٹیسٹ میں فتح پرسابق کرکٹرز بھی خوشی سے نہال ہوگئے۔
محسن خان کا کہنا ہے کہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر مختصر وقت میں کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو پہچان کر بہتر کمبی نیشن تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے، ٹیم میں احساس ذمہ داری اور لڑنے کا جذبہ نظر آیا،کسی تساہل پسندی کا شکار ہوئے بغیر سیریز کے دوران کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھنا ہوگا۔اظہر محمود نے کہا کہ دلچسپ مقابلے میں مضبوط اعصاب کی حامل الیون سرخرو ہوئی، یاسر شاہ کی تباہ کن بولنگ اپنی جگہ ہر پلیئر جیت کیلیے کوشش کرتا نظر آیا، انگلش اسکواڈ میں جیمز اینڈرسن اور بین اسٹوکس کی واپسی پرگرین کیپس کو مزید محنت کرنا پڑے گی۔
بیٹنگ لائن 350 رنز بنائے تو بولرز دبائو بڑھانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔وسیم باری نے یاسر شاہ کو دلیر کرکٹر اور ٹیم کی ضرورت قرار دیدیا۔تفصیلات کے مطابق محسن حسن خان نے لارڈز ٹیسٹ میں قومی ٹیم کی فتح کو ذمہ دارانہ کھیل کا نتیجہ قرار دیا ہے، ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے انگلینڈمیں ہی اسکواڈ کو جوائن کیا تھا،تاہم انھوں نے اپنے تجربے کی بدولت بہت مختصر وقت میں کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو پہچانا اور کپتان کیساتھ مل کر بہتر کمبی نیشن تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے، یہ ایک ایسی ٹیم تھی جس میں ہر پلیئر کو اپنے رول کا اندازہ اور اس سے انصاف کرنے کی کوشش بھی نظر آئی، ایک ساتھ سبھی کھلاڑی کامیاب نہیں ہوتے، اچھی ٹیم وہی ہوتی ہے جو کسی ایک کی غلطی پر گھبراہٹ کا شکار ہونے کے بجائے صورتحال بدلنے کیلیے کوشش اور محنت کرے، یہی چیز پاکستان کی لارڈز میں کارکردگی کا خاصا تھی۔
اگر وکٹیں جلد گریں تو دوسروں نے ذمہ داری اٹھائی، مصباح الحق کی سنچری کے بعد دونوں اننگز میں اسد شفیق نے قیمتی رنز بنائے، سرفراز احمد کے بعد یاسر کی بیٹنگ نے فتح کی امید جگائی، محسوس ہوتا ہے کہ مکی آرتھر نے تھوڑے وقت میں بہتر ہوم ورک کرتے ہوئے کھلاڑیوں میں اعتماد اور ذمہ داری کا احساس پیدا کیا ہے، فتح ٹیم ورک کا نتیجہ تھی جس میں کوچ، کپتان اور مینجمنٹ سب کا کردار نظر آتا ہے،گرین کیپس کا مورال بلند اور لڑنے کا جذبہ نظر آرہا ہے،سیریز کے آئندہ میچز میں میزبان ٹیم اپنی کنڈیشنز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کم بیک کرنے کی پوری کوشش کریگی، کھلاڑیوں کو کسی تساہل پسندی کا شکار ہوئے بغیر اپنی کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھنا ہوگا۔
اظہر محمود نے کہا کہ ٹیم ایک یونٹ بن کر کھیلی،میچ میں ٹیسٹ کرکٹ کی حقیقی روح نظر آئی،ایک سیشن میں میزبان تو دوسرے میں مہمان حاوی نظر آئے، مجموعی طور پر پاکستانی کرکٹرز نے اعصاب کی مضبوطی دکھاتے ہوئے میچ پر اپنی گرفت رکھی، یاسر شاہ کی تباہ کن بولنگ اپنی جگہ ہر کھلاڑی نے اپنی ذات کے بجائے ٹیم کیلیے کھیلنے کی پالیسی اپنائی، بیٹسمین وکٹ پر قیام کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے،ان میں سے چند کو اچھی اننگز کھیلنے کا موقع بھی مل گیا، اسد شفیق چھٹے نمبر پر بیٹنگ کرتے ہیں، اس وقت حریف ٹیم کو نئی گیند دستیاب ہوتی ہے، نوجوان بیٹسمین اپنی ذمہ داری خوب نبھارہے ہیں،دوسری اننگز میں مصباح الحق کی ناکامی کے بعد سرفراز اور یاسر شاہ نے جرات کیساتھ بیٹنگ کی،لیگ اسپنر کو جہاں فاسٹ بولرز کی سپورٹ کی ضرورت تھی،وہ بھی ملتی رہی،راحت علی اور وہاب ریاض کے بعد محمد عامر بھی جان لڑاتے نظر آئے۔
طویل فارمیٹ میں ٹیم اسپرٹ کے بغیر کامیابی نہیں ملتی،سب کھلاڑی ایک دوسرے کی سپورٹ کریں، تب ہی کامیابی ملتی ہے،ہیڈ کوچ مکی آرتھر بڑی ٹیموں کیساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں،ان کی رہنمائی بھی اہمیت کی حامل ہے لیکن کپتان مصباح الحق نے گذشتہ برسوں میں جس انداز میں ٹیم کو اعتماد دیتے ہوئے لڑنے کے جذبے سے آشنا کیا ہے،ان کی اس کوشش کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہوگا۔آئندہ میچز میں متوقع کارکردگی کے سوال پر اظہر محمود نے کہا کہ میزبان ٹیم نے لارڈز میں بھی اچھا مقابلہ کیا، سرفہرست پیسر جیمز اینڈرسن اور سرفراز احمد کی طرح لوئر آرڈر میں تیزی سے رنز بنانے والے بین سٹوکس کی واپسی سے انگلش ٹیم متوازن ہوجائے گی، پاکستان کو مزید محنت کرنا پڑے گی۔
کھلاڑی اس چیلنج کا سامنا کرنے کیلیے ذہنی اور جسمانی طور پرتیار ہوچکے ہیں،امید ہے کہ ڈٹ کر مقابلہ کرینگے، میزبان ٹیم سپنرز کو اچھا نہیں کھیلتی، یاسر شاہ ایک بار پھر مشکلات پیدا کرسکتے ہیں لیکن بیٹنگ لائن 350کے قریب رنز کرلے تو بولرز دبائو بڑھانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔سابق چیف سلیکٹر وسیم باری نے کہا کہ یاسر شاہ کی کارکردگی کیساتھ شخصیت میں بھی نکھار آتا جارہا ہے، ذہنی مضبوطی کی وجہ سے ان کا شمار دلیر کرکٹرز میں ہونے لگا ہے، یہی چیز پاکستان کرکٹ کی ضرورت ہے،انھوں نے پہلی اننگز میں 6وکٹیں حاصل کرنے کے بعد اہم موقع پر 30رنز بھی بنائے۔
مین آف دی میچ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے رہنمائی کرنے والے مشتاق احمد اور انتخاب عالم کا ذکر کرنا نہیں بھولے،انگلینڈ میں کھیلنے کا تجربہ رکھنے والے سینئرز کے احترام نے انھیں کارکردگی دکھانے کیلیے اعتماد بخشا، مجموعی طور پر ٹیم کے ہر کھلاڑی نے ملنے والے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فتح کا راستہ بنانے کی کوشش کی، چند ایک کو کامیابی نہیں ہوئی لیکن دیگر مشکل کنڈیشنز میں پہلا امتحان ہونے کے باوجود اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ دوسری جانب شاہد آفریدی، شعیب ملک، سہیل تنویر، عماد وسیم، احمد شہزاد، کامران اکمل نے بھی سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے قومی ٹیم کو تاریخی فتح پر مبارکباد دی ہے،ان کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کو اس کی ہوم کنڈیشنز میں شکست دینا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے،امید ہے کہ کرکٹرز کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھتے ہوئے سیریز میں سرخرو ہوکر وطن لوٹیں گے۔
محسن خان کا کہنا ہے کہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر مختصر وقت میں کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو پہچان کر بہتر کمبی نیشن تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے، ٹیم میں احساس ذمہ داری اور لڑنے کا جذبہ نظر آیا،کسی تساہل پسندی کا شکار ہوئے بغیر سیریز کے دوران کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھنا ہوگا۔اظہر محمود نے کہا کہ دلچسپ مقابلے میں مضبوط اعصاب کی حامل الیون سرخرو ہوئی، یاسر شاہ کی تباہ کن بولنگ اپنی جگہ ہر پلیئر جیت کیلیے کوشش کرتا نظر آیا، انگلش اسکواڈ میں جیمز اینڈرسن اور بین اسٹوکس کی واپسی پرگرین کیپس کو مزید محنت کرنا پڑے گی۔
بیٹنگ لائن 350 رنز بنائے تو بولرز دبائو بڑھانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔وسیم باری نے یاسر شاہ کو دلیر کرکٹر اور ٹیم کی ضرورت قرار دیدیا۔تفصیلات کے مطابق محسن حسن خان نے لارڈز ٹیسٹ میں قومی ٹیم کی فتح کو ذمہ دارانہ کھیل کا نتیجہ قرار دیا ہے، ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے انگلینڈمیں ہی اسکواڈ کو جوائن کیا تھا،تاہم انھوں نے اپنے تجربے کی بدولت بہت مختصر وقت میں کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو پہچانا اور کپتان کیساتھ مل کر بہتر کمبی نیشن تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے، یہ ایک ایسی ٹیم تھی جس میں ہر پلیئر کو اپنے رول کا اندازہ اور اس سے انصاف کرنے کی کوشش بھی نظر آئی، ایک ساتھ سبھی کھلاڑی کامیاب نہیں ہوتے، اچھی ٹیم وہی ہوتی ہے جو کسی ایک کی غلطی پر گھبراہٹ کا شکار ہونے کے بجائے صورتحال بدلنے کیلیے کوشش اور محنت کرے، یہی چیز پاکستان کی لارڈز میں کارکردگی کا خاصا تھی۔
اگر وکٹیں جلد گریں تو دوسروں نے ذمہ داری اٹھائی، مصباح الحق کی سنچری کے بعد دونوں اننگز میں اسد شفیق نے قیمتی رنز بنائے، سرفراز احمد کے بعد یاسر کی بیٹنگ نے فتح کی امید جگائی، محسوس ہوتا ہے کہ مکی آرتھر نے تھوڑے وقت میں بہتر ہوم ورک کرتے ہوئے کھلاڑیوں میں اعتماد اور ذمہ داری کا احساس پیدا کیا ہے، فتح ٹیم ورک کا نتیجہ تھی جس میں کوچ، کپتان اور مینجمنٹ سب کا کردار نظر آتا ہے،گرین کیپس کا مورال بلند اور لڑنے کا جذبہ نظر آرہا ہے،سیریز کے آئندہ میچز میں میزبان ٹیم اپنی کنڈیشنز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کم بیک کرنے کی پوری کوشش کریگی، کھلاڑیوں کو کسی تساہل پسندی کا شکار ہوئے بغیر اپنی کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھنا ہوگا۔
اظہر محمود نے کہا کہ ٹیم ایک یونٹ بن کر کھیلی،میچ میں ٹیسٹ کرکٹ کی حقیقی روح نظر آئی،ایک سیشن میں میزبان تو دوسرے میں مہمان حاوی نظر آئے، مجموعی طور پر پاکستانی کرکٹرز نے اعصاب کی مضبوطی دکھاتے ہوئے میچ پر اپنی گرفت رکھی، یاسر شاہ کی تباہ کن بولنگ اپنی جگہ ہر کھلاڑی نے اپنی ذات کے بجائے ٹیم کیلیے کھیلنے کی پالیسی اپنائی، بیٹسمین وکٹ پر قیام کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے،ان میں سے چند کو اچھی اننگز کھیلنے کا موقع بھی مل گیا، اسد شفیق چھٹے نمبر پر بیٹنگ کرتے ہیں، اس وقت حریف ٹیم کو نئی گیند دستیاب ہوتی ہے، نوجوان بیٹسمین اپنی ذمہ داری خوب نبھارہے ہیں،دوسری اننگز میں مصباح الحق کی ناکامی کے بعد سرفراز اور یاسر شاہ نے جرات کیساتھ بیٹنگ کی،لیگ اسپنر کو جہاں فاسٹ بولرز کی سپورٹ کی ضرورت تھی،وہ بھی ملتی رہی،راحت علی اور وہاب ریاض کے بعد محمد عامر بھی جان لڑاتے نظر آئے۔
طویل فارمیٹ میں ٹیم اسپرٹ کے بغیر کامیابی نہیں ملتی،سب کھلاڑی ایک دوسرے کی سپورٹ کریں، تب ہی کامیابی ملتی ہے،ہیڈ کوچ مکی آرتھر بڑی ٹیموں کیساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں،ان کی رہنمائی بھی اہمیت کی حامل ہے لیکن کپتان مصباح الحق نے گذشتہ برسوں میں جس انداز میں ٹیم کو اعتماد دیتے ہوئے لڑنے کے جذبے سے آشنا کیا ہے،ان کی اس کوشش کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہوگا۔آئندہ میچز میں متوقع کارکردگی کے سوال پر اظہر محمود نے کہا کہ میزبان ٹیم نے لارڈز میں بھی اچھا مقابلہ کیا، سرفہرست پیسر جیمز اینڈرسن اور سرفراز احمد کی طرح لوئر آرڈر میں تیزی سے رنز بنانے والے بین سٹوکس کی واپسی سے انگلش ٹیم متوازن ہوجائے گی، پاکستان کو مزید محنت کرنا پڑے گی۔
کھلاڑی اس چیلنج کا سامنا کرنے کیلیے ذہنی اور جسمانی طور پرتیار ہوچکے ہیں،امید ہے کہ ڈٹ کر مقابلہ کرینگے، میزبان ٹیم سپنرز کو اچھا نہیں کھیلتی، یاسر شاہ ایک بار پھر مشکلات پیدا کرسکتے ہیں لیکن بیٹنگ لائن 350کے قریب رنز کرلے تو بولرز دبائو بڑھانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔سابق چیف سلیکٹر وسیم باری نے کہا کہ یاسر شاہ کی کارکردگی کیساتھ شخصیت میں بھی نکھار آتا جارہا ہے، ذہنی مضبوطی کی وجہ سے ان کا شمار دلیر کرکٹرز میں ہونے لگا ہے، یہی چیز پاکستان کرکٹ کی ضرورت ہے،انھوں نے پہلی اننگز میں 6وکٹیں حاصل کرنے کے بعد اہم موقع پر 30رنز بھی بنائے۔
مین آف دی میچ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے رہنمائی کرنے والے مشتاق احمد اور انتخاب عالم کا ذکر کرنا نہیں بھولے،انگلینڈ میں کھیلنے کا تجربہ رکھنے والے سینئرز کے احترام نے انھیں کارکردگی دکھانے کیلیے اعتماد بخشا، مجموعی طور پر ٹیم کے ہر کھلاڑی نے ملنے والے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فتح کا راستہ بنانے کی کوشش کی، چند ایک کو کامیابی نہیں ہوئی لیکن دیگر مشکل کنڈیشنز میں پہلا امتحان ہونے کے باوجود اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ دوسری جانب شاہد آفریدی، شعیب ملک، سہیل تنویر، عماد وسیم، احمد شہزاد، کامران اکمل نے بھی سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے قومی ٹیم کو تاریخی فتح پر مبارکباد دی ہے،ان کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کو اس کی ہوم کنڈیشنز میں شکست دینا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے،امید ہے کہ کرکٹرز کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھتے ہوئے سیریز میں سرخرو ہوکر وطن لوٹیں گے۔