سنگین غداری کیس پرویزمشرف کی جائیداد ضبط اوربینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم
پرویزمشرف کی جائدادکے حصہ دار 6 ماہ میں پیش ہوں اور تمام ریکارڈ عدالت میں جمع کروایا جائے،عدالت کا حکم
KARACHI:
سنگین غداری کسی کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویزمشرف کی جائداد ضبط اور بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
مظہرعالم میاں خیل کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ استغاثہ نے ٹرائل 2014 میں مکمل کر دیا تھا، جس کے بعد مشترکہ ٹرائل کرنے کی ضرورت نہیں تھی، دفعہ 342 کے تحت ملزم کا بیان ریکارڈ کرانا استغاثہ کی ذمہ داری نہیں۔ پرویز مشرف کے وکلا نے سپریم کورٹ میں کہا کہ اگر انہیں علاج کے لئے نہ بھیجا گیا تو سانحہ ہو جائے گا، لیکن دبئی جا کر وہ نا تو اسپتال میں داخل ہوئے اور نہ اْن کی صحت کو کچھ ہوا۔ سپریم کورٹ نے سنگین غداری مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا حکم دیا، عدالت چاہے تو پرویز مشرف کا بیان اسکائپ انٹرنیٹ سے بھی ریکارڈ کرسکتی ہے۔ اگرپرویز مشرف کے واپسی کی تاریخ نہ آئی تو عدالت کب تک انتظار کرے گی۔
وکیل استغاثہ کی دلیل پر جسٹس یاور علی نے استفسار کیا کہ وزارت داخلہ نے خود ملزم کو ملک سے باہر جانے دیا، کیا عدالت نے ایسا کہا کہ 342 کے تحت ملزم کا بیان ریکارڈ نہیں کریں گے، جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ یہ آئین شکنی کا معاملہ ہے اور پرویز مشرف کے تحریری بیان سے یہ واضح ہے، ہمیں اس سلسلے میں نئی روایت کی بنیاد ڈالنی ہے کہ معاملہ آگے کیسے بڑھانا ہے۔ پرویز مشرف کی ضمانت منسوخ ہوئی انشاء اللہ جائیدادیں بھی قبضے میں لے لی جائیں گی۔
مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیئے کہ ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں قانون نے ہم پر کیا ذمہ داری ڈالی ہے، ہمیں قانون کے مطابق معاملہ آگے بڑھانا ہے، پرویز مشرف کی ضمانت ضبط ہو چکی ہے، کیا ملزم پر فرد جرم اور تحریری بیان کے بعد غیر موجودگی میں ٹرائل ہو سکتا ہے، پرویز مشرف کی گرفتاری یا عدالت پیشی تک کیس نہیں سْنا جائے گا۔
عدالت نے حکم دیا کہ پرویز مشرف کی تمام جائیداد ریونیو اور دیگر اتھارٹیز ضبط اور اسٹیٹ کے ذریعے ان کے تمام بینک اکاؤنٹس منجمد کردیئے جائیں، عدالتی حکم پر پرویز مشرف کے وکیل فیصل چوہدری نے موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف اپنی جائیداد میں اکیلے وارث نہیں ان کی جائیداد میں دیگر کا بھی حصہ ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ جس کا حصہ ہے وہ چھ ماہ کے اندر پیش ہو، قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔
سنگین غداری کسی کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویزمشرف کی جائداد ضبط اور بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
مظہرعالم میاں خیل کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ استغاثہ نے ٹرائل 2014 میں مکمل کر دیا تھا، جس کے بعد مشترکہ ٹرائل کرنے کی ضرورت نہیں تھی، دفعہ 342 کے تحت ملزم کا بیان ریکارڈ کرانا استغاثہ کی ذمہ داری نہیں۔ پرویز مشرف کے وکلا نے سپریم کورٹ میں کہا کہ اگر انہیں علاج کے لئے نہ بھیجا گیا تو سانحہ ہو جائے گا، لیکن دبئی جا کر وہ نا تو اسپتال میں داخل ہوئے اور نہ اْن کی صحت کو کچھ ہوا۔ سپریم کورٹ نے سنگین غداری مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا حکم دیا، عدالت چاہے تو پرویز مشرف کا بیان اسکائپ انٹرنیٹ سے بھی ریکارڈ کرسکتی ہے۔ اگرپرویز مشرف کے واپسی کی تاریخ نہ آئی تو عدالت کب تک انتظار کرے گی۔
وکیل استغاثہ کی دلیل پر جسٹس یاور علی نے استفسار کیا کہ وزارت داخلہ نے خود ملزم کو ملک سے باہر جانے دیا، کیا عدالت نے ایسا کہا کہ 342 کے تحت ملزم کا بیان ریکارڈ نہیں کریں گے، جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ یہ آئین شکنی کا معاملہ ہے اور پرویز مشرف کے تحریری بیان سے یہ واضح ہے، ہمیں اس سلسلے میں نئی روایت کی بنیاد ڈالنی ہے کہ معاملہ آگے کیسے بڑھانا ہے۔ پرویز مشرف کی ضمانت منسوخ ہوئی انشاء اللہ جائیدادیں بھی قبضے میں لے لی جائیں گی۔
مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیئے کہ ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں قانون نے ہم پر کیا ذمہ داری ڈالی ہے، ہمیں قانون کے مطابق معاملہ آگے بڑھانا ہے، پرویز مشرف کی ضمانت ضبط ہو چکی ہے، کیا ملزم پر فرد جرم اور تحریری بیان کے بعد غیر موجودگی میں ٹرائل ہو سکتا ہے، پرویز مشرف کی گرفتاری یا عدالت پیشی تک کیس نہیں سْنا جائے گا۔
عدالت نے حکم دیا کہ پرویز مشرف کی تمام جائیداد ریونیو اور دیگر اتھارٹیز ضبط اور اسٹیٹ کے ذریعے ان کے تمام بینک اکاؤنٹس منجمد کردیئے جائیں، عدالتی حکم پر پرویز مشرف کے وکیل فیصل چوہدری نے موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف اپنی جائیداد میں اکیلے وارث نہیں ان کی جائیداد میں دیگر کا بھی حصہ ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ جس کا حصہ ہے وہ چھ ماہ کے اندر پیش ہو، قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔