’’شاباش مودی شاباش‘‘

مودی کی ان کامیابیوں کو دیکھ کر بے ساختہ اسے شاباش دینے کو دل کرتا ہے۔ لیکن میری قومی غیرت اس پر بغاوت کردیتی ہے۔


فرید رزاق July 19, 2016
ایک طرف مودی ہیں جو مسلسل بھارت کو ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے لارہے ہیں، دوسری طرف ہمارے حکمرانوں کو ٹماٹر اور پیازکےعلاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ فوٹو: رائٹرز

بھارت سے نفرت پاکستانیوں کے لیے قومی غیرت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ نفرت زیادہ تر بھارتی فوج اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی وجہ سے پروان چڑھی ہے۔ اس نفرت میں بھارتی حکومت کی اپنے دیس میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں کا بھی اہم کردار ہے۔ اس بات میں تو شک کی گنجائش ہی نہیں کہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو مذہبی آزادی پر جس طرح پابندیاں لگائی گئیں اس سے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے تمام ہی دلائل پر مہر لگ گئی۔

پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی بھارت کی طرف سے پاکستان کو نیچا دکھانے کی ہٹ دھرمی، پاکستان کے حصہ میں آنے والے وسائل کی منصفانہ منتقلی سے صاف انکار، پھر کشمیر پر غاصبانہ قبضے نے پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کا ازلی دشمن قرار دے دیا، حالانکہ تحریک آزادی میں ہندو اور مسلمان دونوں نے ہی انگریزوں سے نجات کے لیے جدوجہد کی لیکن جنگ آزادی کا سارا نزلہ مسلمانوں پر گرا۔ اس کے بعد ہندووں نے اپنی عیاریوں سے خود کو انگریز کا جانشین بنالیا۔ کچھ یہی محرکات تھے جنہوں نے بھارت سے نفرت کو قومی غیرت کا جزو بنادیا۔ اب کوئی لاکھ کوشش کرے اس نفرت کو محبت میں نہیں بدل سکتا۔ گجرات میں ہندو مسلم فسادات کے محرک وزیراعظم مودی مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی زیادتیوں کی وجہ سے پاکستانیوں کے لیے ناپسندیدہ شخصیت کا تمغہ سجائے ہوئے ہیں۔ میری نفرت بھی اس موذی انسان سے قومی غیرت کا ایک حصہ ہے۔

یہ مودی کی تصویر کا ایک رخ ہے جس میں وہ انتہا پسند، مذہبی جنونی اور مسلم دشمن کی صورت میں سامنے آتا ہے جبکہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو مودی انتہائی محب وطن اور بھارت کو مضبوط اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کرنے کیلیے کوشاں دکھائی دیتا ہے۔ وہ بھارت کو ایشیاء کی سپرپاور بنانے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی نگاہوں میں دشمن کا چہرہ واضح ہے اس لیے وہ ہرمحاذ پر دشمن کو نیچا دکھانے میں سرگرم ہے۔ عالمی محاذوں پر پاکستان مخالف پروپیگنڈا کرنے کا بھی ماہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک کبوتر پکڑ کر بھی اقوام عالم میں پاکستان کے خلاف ڈھنڈورا پیٹتا ہے جبکہ اس کے برعکس پاکستان کا نواز بھارتی جاسوس پکڑ کر بھی بھارت کے خلاف دنیا کو یہ باور نہیں کراسکا کہ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے گھٹیا اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے۔ مودی کی دیگر کاوشوں میں کامیابی و ناکامی کا تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن پاکستان مخالف پروپیگنڈے میں اسے خاطر خواہ کامیابی ہوئی ہے۔ پاک امریکا و پاک افغان تعلقات میں دراڑ یقیناً اس کی بڑی کامیابی ہے۔

لیکن ایک بہت بڑی کامیابی مودی کی اس وقت ہم سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ سال مودی نے ڈیجیٹل انڈیا مہم لانچ کی یہ مہم ہوا میں تیر مارنے کے مترادف نہ تھی بلکہ ٹھوس منصوبہ بندی کی گئی۔ اس کے لیے زمین تیار کی گئی۔ مودی نے فیس بک کے مالک سے ملاقات کی اسے بھارت کو ایک سیاحتی ملک کی پروموشن کے لیے فیس بک کے کردار پر ابھارا۔ پھر مودی نے ایک اعلیٰ سطحی عشائیہ میں دنیا کی ٹاپ آئی ٹی کمپنیوں کو جمع کیا، جو یقیناً مودی کی بڑی کامیابی ہے۔ اس عشائیہ میں بھارتی نژاد امریکی کمپنی Adobe کے چیف ایگزیکٹو شنتا نو نارائن، مائیکرو سافٹ سی ای او ستیا نڈیلا، فیس بک کے مالک مارک ذکر برگ، Qualcomm ایگزیکٹو کے مالک پال جیکبز اور گوگل سی ای او بھارتی نژاد نوجوان سندر پچائی شامل تھے۔ پہلے تو ان پانچ بڑی کمپنیوں میں سے دو کا بھارتی نژاد کا ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ بھارت اِس میدان میں کس قدر آگے جاچکا ہے۔ اِس عشائیے میں گوگل نے بھارت کے 500 ریلوے اسٹیشنز کو براڈ بینڈ کی سہولت فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ مائیکرو سافٹ نے 5 لاکھ گاوں میں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ Qualcomm کمپنی نے 150 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ فیس بک کے مالک نے اس ساری مہم میں ''کی رول'' ادا کیا۔ اس نے سب سے پہلے دیجیٹل انڈیا کی پروفائل پکچر لگاتے ہوئے نوٹ لکھا کہ میں وزیراعظم مودی کے ڈیجیٹل انڈیا مہم کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔ اس نے بھارت کے دیہاتوں کو وائی فائی کے ذریعے انٹرنیٹ سے جوڑنے کا وعدہ کیا ہے اور بھارت میں فیس بک کا دفتر بنانے کا اعلان کیا جو کہ اب عملی صورت اختیار کرچکا ہے۔

ڈیجیٹل انڈیا مہم تقریباً 67 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری پر مشتمل ہے اس کا یقینی فائدہ بھارت اور بھارتی عوام کو ہو رہا ہے۔ اس مہم کے ذریعے جہاں شہریوں کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر آئے گی وہیں پر سمارٹ فونز، آئی ٹی سروسز اور دیگر روزگار کے ساتھ ساتھ بھارت کی درآمدات کو کم سے کم سطح پر لانے میں بھی مدد حاصل ہوگی۔ اس مہم سے ایک اندازے کے مطابق 6 کروڑ گھروں میں لوگوں کی خواندگی کا ہدف حاصل کیا جائے گا۔ کسانوں کو 500 سے زائد مارکیٹوں سے جوڑا جائے گا جس کے ذریعے وہ اپنی پیداوار کو بڑھا سکیں گے اور اچھے دام وصول کر پائیں گے۔ انٹرنیٹ اس وقت سب سے زیادہ طاقتور ٹول ہے جس کے ذریعے معاشی اور معاشرتی ترقی کے اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ لوگوں کو روزگار کے مواقع دیتا ہے۔ لوگوں کی آواز کو دنیا بھر میں ہر پلیٹ فارم پر اٹھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

انٹرنیٹ کے انقلاب سے دنیا ترقی کرتی جارہی ہے۔ یہ بات ایک چائے فروش، دیہاتی بھارتی وزیراعظم مودی کے دماغ میں آگئی اور اس نے اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے دنیا کی خاک چھاننا گوارا کیا۔ اس وقت دنیا کی بڑی آئی ٹی کمپنیوں بشمول گوگل، آڈوب اور اب فیس بک میں بھارتی اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں، اور ایسا یقیناً بھارتی حکومت کی کاوشوں سے ہی ممکن ہوا ہے۔ پھر ناسا میں بھی بھارتیوں کی ایک بڑی تعداد کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ دنیا کی تمام بڑی کمپنیاں بھارت میں اپنے دفاتر اور کارخانے لگارہے ہیں، وجہ اِس کی صرف ایک ہے کہ اس پر ایک جنونی بھارتی حکومت کرتا ہے جو کمپنیوں کے مالکان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں ذرا تاخیر نہیں کرتا۔

اسی مودی نے گزشتہ دنوں فیس بک انتظامیہ کے ساتھ اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے ہزاروں فیس بک اکاونٹس اور پیجز اس لیے بند کردیے کیونکہ وہ کشمیری فریڈم فائٹر 'برہان وانی' کی تصاویر شئیر کر رہے تھے۔ مودی کی ان کامیابیوں کو دیکھ کر بے ساختہ اسے شاباش دینے کو دل کرتا ہے۔ لیکن میری قومی غیرت اس پر بغاوت کردیتی ہے۔ دوسری طرف نظر دوڑائی جائے تو پاک سرزمین پر عرصہ دراز سے حکومت کرنے والے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے دماغ میں ٹماٹر اور پیاز کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ اگر کوئی پاکستانی لیڈنگ آئی ٹی کمپنی دنیا میں اپنا آپ منوانے لگے تو غیروں سے زیادہ اپنوں کو اس سے خطرات لاحق ہونے لگتے ہیں۔ اِس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکومت ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کو دنیا کی لیڈنگ کمپنیوں میں جگہ بنانے میں کردار ادا کرے۔ قومی غیرت اگر نفرت پر اکساتی ہے تو دشمن کی کامیابیوں پر اپنا ضمیر جھنجھوڑنے کا درس بھی دیتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں