شفقت تنویرمرزا آدرشوں کی خاطرجینے والاباغی آنکھوں میں خواب سجائے رخصت ہوگیا
ہجرت مدینہ کے راستے پر پیدل یا اونٹ پر سفر کرنا سب سے بڑی خواہش ہے۔
شفقت تنویر مرزا۔ فوٹو: فائل
مرزا صاحب سے پہلی ملاقات کہاں ہوئی، اس کا تو صحیح طور پر یاد نہیں البتہ یہ یاد ہے کہ یہ 1994ء کے قریب کا زمانہ تھا' یعنی اٹھارہ برس ہو چلے۔
میں، نجم حسین سید اور آصف خاں کی محبت اور توجہ کے باعث ''پاکستان پنجابی ادبی بورڈ'' میں آ چکا تھا جس کا دفتر آوٹ فال روڈ پر واقع نسبتاً ایک پرانی طرز کے بنے گھر میں تھا جہاں دوپہر کے بعد اور اکثر اوقات بارشوں کی شاموں میں بھوتوں پریتوں اور آسیبوں کا آنا جانا محسوس ہوتا رہتا تھا۔ بورڈ کے صدر اشفاق احمد تھے اور اس کے اراکین میں شفقت تنویر مرزا بھی شامل تھے۔ بورڈ کے ماہانہ اجلاس بڑی باقاعدگی کے ساتھ منعقد ہوتے' اور میٹنگ میں مشاورت' تجاویز اور بحث مباحثہ کے دوران جو آواز نمایاں طور پر سنائی دیتی اور گونجتی رہتی وہ شفقت تنویر مرزا صاحب کی ہوتی۔
میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ میٹنگ والے کمرے کے عین سامنے والے کمرے میں بیٹھا' میٹنگ ختم ہونے کا انتظار کرتا،کہ فوراً بعد شفقت تنویر مرزا صاحب میرے کمرے میں آجاتے' اور دیر تک ادبی حلقوں' ادیبوں' پنجابی میں آنے والی نئی کتابوں اور پنجابی میں نئے لکھنے والوں کے بارے میں باتیں کرتے رہتے' انھیں پنجابی کے حوالے سے ہونے والی ترقی ا ور تبدیلی کے بارے میں جاننے کا جنون رہتا...!
انہی دنوں بعض دوستوں کے اکسانے اور ورغلانے پر' میں حلقہ ارباب ذوق' لاہور کے الیکشن میں کھڑا ہوا اور بطور جوائنٹ سیکریٹری جیت بھی گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے بارے میں بعض دوستوں نے یہ بات پھیلانی شروع کردی کہ میں دراصل اردو والوں کا ''جاسوس'' ہوں اور ''پنجابی ادبی بورڈ'' میں کچھ خاص مقاصدکے تحت آیا ہوں۔ حالانکہ اس سے پہلے میں پنجابی ادبی سنگت' اور پنجابی ادبی پروار میں کام کر چکا تھا۔
اس کے باوجود بعض سینئرز کے یہاں بھی تشویش پائی جانے لگی تو یہ مرزا صاحب ہی تھے جنہوں نے مجھے نہ صرف حلقہ کے اجلاسوں کو جاری و ساری رکھنے کے لئے حوصلہ دیا بلکہ بعض پنجابی پروگرامز ترتیب دینے میں بھی میری اور اعجاز رضوی کی معاونت کی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ بات ہوتے رہنا چاہئے' مکالمہ جاری رہنا چاہئے۔ اپنے ہم نفسوں سے ڈائیلاگ چلتے رہنا چاہئے۔ اس سے فکر و فہم کو جلا ملتی ہے اور گھٹن اور حبس کا احساس کم ہوتا ہے ۔وہ ہر ایک سے بڑی محبت سے ملتے، خاص طور پر جونیئر سے ، اور اگر کبھی کچھ غلط ہوتا محسوس کرتے تو اس کا ببانگ دہل اظہار بھی کردیتے۔
انھوں نے اصولوں اور آدرشوں کی خاطر زندگی گزاری ، اس لیے مفاد پرستوں کا ٹولا خواہ وہ صحافت میں ہو، ادب میں ہو یا سیاست میں ، اس سے ان کی جنگ ہی رہی۔ اس بات کا مجھے بہت دیر کے بعد پتاچلا کہ وہ بنیادی انسانی آزادیوں کی خالی خولی بات ہی نہیں کرتے،بلکہ عملی جدوجہد پر بھی یقین رکھتے تھے۔ اپنے زمانہ طالب علمی سے ہی''تعمیر'' راولپنڈی سے اپنی اس روش کا آغاز کر چکے تھے اور بہت بعد میں جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں صحافتی آزادی کے لئے چلنے والی تحریک میں اپنی زوجہ تمکنت آراء کے ساتھ پیش پیش تھے اور گرفتار ہو کر کراچی جیل میں بھی رہ چکے تھے... گرفتاریوں کا یہ موسم تو خیر ان کی زندگی میں تندوتیز اور گرم جھونکوں کے مانند آتا' جاتا ہی رہا تھا۔
ایک بار دفتر آئے تو ''پنجابی ادب'' کا کہانی نمبر ان کے ہاتھ میں تھا جس پر انھوں نے پروف کی غلطیوں کو نشان زد کر رکھا تھا۔ پھر برہم ہوئے کہ میں نے شروع میں دیباچہ کے طور پر جو کہانیوں کا تعارف کروایا ہے، وہ مجھے نہیں بلکہ اس وقت کے بورڈ کے سیکریٹری راجا رسالو صاحب کو کروانا چاہئے تھا ... تاہم کچھ ہی دنوں بعد آئے تو اس دن کے رویے پر معذرت خواہ تھے کہ ڈاکٹر افضل سمیت کئی لوگوں نے (جن میں وہ خود بھی شامل تھے) اسے بے حد سراہا تھا اور اخبارات میں اس کے بارے میں بہت کچھ چھپ چکا تھا۔
مجھ سے کہنے لگے ''چائے پلاؤ'' ہم آج مل کر پروف پڑھیں گے اور پھر ہم نے صرف پنجابی ادب ہی نہیں ان کی ترتیب دی ہوئی سچل سرمست پر کتاب بھی پڑھ ڈالی۔ اسی طرح ایک بھری پری دوپہر میں آئے تو یادوں کے انبار سے لدے تھے اپنی اور اپنے خاندان کے حوالے سے دل میں بسی یادیں ایک ایک کر کے شیئر کرنے لگے۔ ''خاندان کا تعلق تو راجوری سے تھا۔ ایک کتاب چھپی ہے ''راجگان آف راجوری سے متعلق''۔ اس میں ساری تفصیلات موجود ہیں' بزرگ کچھ تو وہیں پر رہ گئے لیکن زیادہ تر وزیر آباد میں آن کر بس گئے۔ جگہ اور مقام تو بدل گیا لیکن رسم و رواج نہیں بدلا' وہ جو ثقافتی اور تہذیبی رویے تھے جو اب ہر فرد کے خون میں رچ بس گئے تھے۔
ان سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں تھا۔ لکھنے کو تو کئی اپنے نام کے ساتھ میری طرح مرزا لگا لیتے ہیں' کئی راجہ لکھتے ہیں' تو یہ جو ہیں اعجاز کنور راجہ اور راجہ صادق اللہ ... میرے بھتیجے ہی ہیں' ان کے بزرگوں نے اپنے ساتھ راجہ لگائے رکھا کہ نسبت جو راجوری سے تھی۔ تو صحیح بنتا بھی راجہ ہی تھا۔ میرا پورا نام بھی راجہ شفقت اللہ خاں ہے۔ تو ''راجہ'' ہی کی طرح ''اللہ خاں'' کا خطاب بھی ہر نام کا ضروری حصہ ہے۔ اگر آپ پیدائشی اندراج دیکھتے ہیں تو اس میں یہ لازمی طور پر ہو گا ...'' مرزا صاحب نے بات شروع کی تو بہت دور نکل گئے' شروعات میری طرف سے ہی ہوئی تھی۔
میں نے انھیں کریدا' اور خواہش یہی تھی کہ جب وہ بات مکمل کر لیں گے تو ان سے فرمائش کروں گا کہ اگر ان کے لئے ممکن ہو تو وہ اسے لکھ دیں' یہ تاریخ کا ایک اہم اور قابل قدر حصہ تھا۔ ایک ایسی روایت' ایک ایسی داستان' جس کے اندر کتنی ہی کہانیاں پوشیدہ تھیں' پورے خاندان میں ایک سے بڑھ کر ایک نام ور بندہ' غیرت و حریت اور حمیت کا نشان۔ وہ جسے حقیقی معنوں میں دھرتی کا سپوت کہتے ہیں ناں' وہ''۔
مرزا صاحب جن کا تعلق ساری عمر حرف سے اور حرف کی حرمت سے قائم رہا' جنہوں نے قلم کی پاسداری کی' بنیادی انسانی آزادی اور حقوق کے لئے آواز اٹھائی جس کے نتیجہ میں انھیںنہ صرف یہ کہ ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے بلکہ اس کے لئے انھیں قید و بند کی صعوبتوں سے بھی دوچار ہونا پڑا' تن تنہا آپ نہیں' بلکہ جیون ساتھی کے ساتھ جو نام کی تمکنت آرا ہی نہیں ہیں' جو مرزا صاحب کے ساتھ زندگی بھر قدم سے قدم ملا کر پوری تمکنت اور پوری وجاہت کے ساتھ چلتی رہیں۔
اپنی کہانی لکھنے کی میری خواہش کو تو وہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ ٹال گئے۔ اور ان کی پوری کہانی شاید کبھی لکھی بھی نہ جائے لیکن ہماری اس دھرتی'ہمارے اس معاشرے' ہمارے احباب میں کتنے چہرے ہیں' جن پر شفقت تنویر مرزا' کی کہانیاں درج ہیں' وہ منو بھائی ہوں' حسین نقی ہوں' پنجابی زبان وادب سے جڑے لوگ ہوں' پنجابی ادب سنگت ہو' پنجابی ادبی بورڈ ہو' یا پنجاب کی تاریخ' ثقافت' زبان اور معاشرت سے جڑے ہوئے لوگ ہوں' مرزا صاحب کی آغاز کی ہوئی کہانی میں سے جنم لینے والی کہانیاں ہی تو ہیں۔ راجا رسالو اور آصف خاں تو ان کے یاران دیرینہ تھے جو ان سے پہلے ہی ملک عدم سدھار گئے تھے' یہ سینہ چاک بھی اب ان سے جا ملے ہیں۔ لیکن ان کی کہانیاں چلتی رہیں گی' کہ وہ مرزا تھے اپنی نیچر میں اور اپنی صاحباں' اپنی ماںبولی کو دل و جان سے چاہتے تھے۔ یہ روایت بھی ان کے چاہنے والے جاری و ساری رکھیں گے۔!
پنجابی زبان و ادب سے محبت تو ان کی شخصیت کی ایک جہت تھی وہ اصلاً صحافی تھے' اور صحافت ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ انھوں نے عملی صحافت کا آغاز بھی پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے قریب ہی کیا تھا۔ شروعات رونامہ ''تعمیر'' راولپنڈی سے کی اور پھر ''ہلال'' ریڈیو پاکستان' راولپنڈی' نوائے وقت' لاہور سول اینڈ ملٹری گزٹ' لاہور' امروز' مساوات' لاہور اور پھر جب عملی صحافت سے ریٹائر ہوئے تو ''امروز'' لاہور' ملتان کے ایڈیٹر کی حیثیت سے۔
لیکن انھوں نے لکھنے کا یہ عمل جاری رکھا۔ اور رونامہ ''ڈان'' میں ''پنجابی تھیمز'' اور ''پنجابی بکس'' کے نام سے اس وقت تک لکھتے رہے جب تک کہ جگر کی بیماری نے انھیں لاغر و لاچار نہیں کر دیا ... بیماری کی بڑی وجہ شاید سگریٹ ہی بنی۔ وہ کہتے : بیوی' ہروقت مجھے خبردار کرتی رہتی ہیں کہ اس سگریٹ نوشی سے باز آؤ' لیکن تم بتاؤ' ڈیفنس سے یہاں آؤٹ فال روڈ' تک آتے آتے میں کتنا آلودہ دھواں اپنے پھیپھڑوں میں بھر لیتا ہوں' اس کے مقابلے میں سگریٹ کی حیثیت ہی کیا ہے؟''
وہ یہ کہہ کر 'ریڈاینڈ وائٹ'' کا ایک سگریٹ میری طرف بڑھاتے اور پھر خود ہی اسے جلانے کی سعی کرتے''۔ ''یہ جو میں' کبھی کبھار ایک آدھ سگریٹ پی لیتا ہوں تو یہ مرزا صاحب کے یوں سگریٹ پیش کرنے کے سبب ہے'' میں اپنی بیوی سے کہتا ہوں تو وہ دکھی ہو کر کہتی ہے ، دیکھووہ جگر کے سرطان کا شکار ہو گئے'' اور ہم نے اپنی دھرتی کا قیمتی بندہ یوں کھو دیا ... جون جولائی کی تپتی دوپہروں میں وہ اچانک پنجابی ادبی بورڈ کے دفتر میں آن پہنچتے۔
حال احوال پوچھتے' نئی اشاعتوں کے بارے میں پتا کرتے' کتابیں لیتے' اس پر ڈان میں لکھتے' بورڈ میں تین چار گھنٹے گزارتے' اس دوران میں' میں چائے بناتا رہتا' وہ سگریٹ پلاتے رہتے اور خود بھی پیتے رہتے۔ پنجابی کے حوالے سے ہونے والی ہر بات' ہر خبر سے مجھے باخبر کرتے۔ ان کا حافظہ بلا کا تھا۔ وہ میرے ساتھ بات یوں کرتے جیسے مجھے بھگت سنگھ' رنجیت سنگھ' بابا فریدؒ اور شاہ حسین ؒ کے زمانے میں درباروں سرکاروںسے جڑے لوگوں اور ان کے منصب و کردار سے بخوبی آگہی ہو' اور میں بھی کچھ اس طرح کا تاثر دیتا کہ وہ جو بات کر رہے ہیں' مجھے اس کا پورا پورا علم ہے۔
یوں وہ میرے علم پر خود ہی خود نازاں رہتے اور میری پنجابی اور اردو میں پنجابی سے متعلق آنے والی ہر کتاب پر محبت اور تفصیل کے ساتھ لکھتے' یہ محبت صرف میرے لئے ہی نہیں' ہر نئے لکھنے والے کے ساتھ روا تھی' اخبارات اور اظہار آزادی کے لئے انھیں لاہور سمیت بہاولپور اور کراچی کی جیلوں میں بند رہنا پڑا۔ 1959ء' 1970ء' 1983ء اور 1991ء میں جنرل ایوب' جنرل یحییٰ' جنرل ضیاء الحق اور نوازشریف کے عہد میں انھیں ' مختلف اخبارات سے علیحدہ کر دیا گیا۔ پھر بھی وہ لکھتے رہے۔
وہ اس دھرتی کے صوفیاء کے مسلک کے انسان تھے' ملامتی صوفی' اپنی فکر اور سوچ میں' اور ساگر سندھ کے مرزا تھے' جنہوں نے شاہ حسینؒ' سچل سرمستؒ' ہاشم شاہ' علی حیدر کے بارے میں لکھا جنہوں نے لورکا' سارتر کے تراجم کئے۔ انگریزی میں لکھا' اردو اور پنجابی میں لکھا۔ اور اپنی اولین اور مقدس محبت کشمیرکے لئے اردو نظموں کا ایک مجموعہ چھپوایا۔
''سرِوادیٔ کشمیر'' پنجاب کی تواریخ اور ادب کو آنے والی نسلوں تک پہنچایا۔کسی زمانے میں اردومیں کمال کی غزل لکھی مگر بعد ازاں خود کو پنجابی میں لکھنے تک محدود کرلیا۔اپنی زبان سے محبت انھیں ضرور تھی مگر وہ دوسری زبانوں کے بارے میں تعصب نہیں رکھتے تھے۔ جو بھی اس دنیائے فانی میں آیا ہے، اس نے آخر کو موت سے ہم کنار تو ہونا ہے اور یوں 6 فروری1932ء کو ڈومیلی ضلع جہلم میں پیدا ہونے والا یہ بے لوث اور بلند ہمت انسان20 نومبر2012ء کو لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔
ایکسپریس کے ساتھ 2006ء میں انٹرویو سے ا قتباسات
٭حضورﷺکی ذات اس قدر روشن اور شفاف ہے کہ کوئی غیر مسلم بھی اگر غیر جانبداری سے مطالعہ کرے تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔سب سے بڑی خواہش ہے کہ جس راستے سے حضورﷺمکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تھے، اسی راستے پر پیدل یا اونٹ پر سفر کروں۔اگر ایسا ہوسکا تو اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوش نصیبی سمجھوں گا۔ ٭میںشروع میں بھٹو کی شخصیت کا اسیر ہوگیاتھا۔
بھٹو صاحب نے ایوب خان کو چھوڑ کر بڑی جرات کا مظاہرہ کیا تھا اور پھر ان کانعرہ انقلابی تھاتو لیفٹ سے تعلق رکھنے والے بیشتر لوگ ان کے ساتھ ہوگئے۔یہ اور بات کہ بعد میں یہ سب ڈراما نکلا۔ایسا کامیاب ڈراما کہ بہت سے لوگ آج تک اس کے سحر سے نہیں نکل سکے۔ ٭فیض جیسا حلیم اور متحمل مزاج انسان کبھی نہیں دیکھا۔فیض زبردست مزاحمتی شاعر تھے ۔فیض صاحب کسی تنقید یا الزام کی کبھی تردید نہیں کرتے تھے۔ایک بار میں نے اس بارے میں ان سے پوچھاتو فیض صاحب نے مسکرا کرکہا!دیکھو شفقت!یاد رکھو، اگر ایک دفعہ تردید کردی تو تمام عمر تردیدیںہی کرتے رہو گے، مگر کوئی یقین نہیں کرے گا۔
٭پنجاب کے لوگوں میں تبدیلی کی خواہش موجود ہے۔پنجاب کی قیادت پرواسٹیبلشمنٹ ہے،اور پنجابی اینٹی اسٹیبلشمنٹ۔1946ء اور1970ء کے الیکشن میں پنجابیوں نے بڑے بڑے برجوں کو الٹاکے رکھ دیا تھا، لہٰذاقصور لیڈر شپ کا ہے، عوام کا نہیں۔اصل بدقسمتی یہ ہوئی کہ بھٹو نے پنجابیوں کوبنگالیوں سے لڑادیا حالانکہ ان دونوں کے درمیان منطقی اتحاد بنتاتھا۔ بنگالی ذہنی طور پر زرعی اصلاحات کے حامی تھے، اگر مجیب اقتدار میں آجاتا تو پنجابی جاگیرداروں کی کمر ٹوٹ جاتی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ ٭بعض اوقات میری بیٹی گلہ کرتی ہے کہ اتنے سنیئر صحافی ہوکربھی آپ نے میرے لیے کچھ نہیں کیاجبکہ فلاں فلاں صحافی نے یہ کیا۔میں جواب دیتا ہوں کہ میں اتنا ہی کرسکتا تھا۔