انٹرٹینمنٹ کے نام پر ’قومی پرچم کی توہین‘ نامنظور
معاشرے میں موجود برائیوں کی نشاندہی یقیناً کی جاسکتی ہے لیکن اس کی آڑ میں قومی پرچم کی تضحیک کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
قومی پرچم کے احترام کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ وہ تقاضے پورے کرنا قومی فریضہ ہوتا ہے۔ صبح کا اجالا آزادی کی مانند ہے تو قومی پرچم دن کی روشنی میں ہی لہرایا جاتا ہے۔ شب کی تاریکی زوال کی علامت اور غلامی سے مطابقت رکھتی ہے اس لئے جب سورج غروب ہونے جارہا ہو تو قومی پرچم اتار کر احترام کے ساتھ محفوظ جگہ رکھا جاتا ہے۔ سحر اگر شب گزیدہ ہو تو اسے صبح آزادی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ ظلمت سے نکل کر نور کو پا لینے کا نام آزادی ہے۔ رات کی آہنی میت کو دفنا دینے کے بعد جب مشرق کے افق سے دھڑکتا ہوا دن طلوع ہو تو انہی مبارک لمحوں کا نام آزادی ہے۔
اس لئے جاندار اقوام کو اپنی آزادی دل و جان سے زیادہ عزیز ہوتی ہے اور ان کا پرچم آزادی کی سب سے خوبصورت علامت تصور ہوتا ہے۔ پھر پرچم کی حرمت بھی جسم و جان سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ خدائے ذوالجلال کا ہم پر بے پناہ احسان ہے کہ ہم آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہیں اور جب ہمارا پرچم آزاد فضاوں میں لہراتا ہے تو ہمارے دلوں اور ہماری روحوں میں بھی آزادی کی شہنائیاں بجنے لگتی ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جس کاغذ پر پاکستان کا پرچم چھپا ہوتا ہے اگر وہ کاغذ زمین پر گرا ہوا نظر آجائے تو بچے اسے زمین سے اٹھا کر اپنی آنکھوں سے چوم رہے ہوتے ہیں۔
پاکستانی پرچم کا ڈیزائن امیر الدین قدوائی نے تیار کیا اور 11 اگست 1947ء کو نواب لیاقت علی خان نے منظوری کے لئے آئین ساز اسمبلی میں پیش کیا اور اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ
سفید رنگ کے چاند کا مطلب ترقی جبکہ ستارا روشنی اور علم کو ظاہر کرتا ہے۔ دنیا کے بہت سارے ممالک وقت کے ساتھ ساتھ اپنے پرچم میں تبدیلیاں لائے اور تغیر کا یہ عمل آج بھی جاری ہے لیکن پاکستان کا قومی پرچم وہی ہے جو 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی نے منظور کیا۔
آزادی کی اس خوبصورت علامت پرچم کی حفاظت کیلئے ہر ملک میں باقاعدہ قانون سازی کی جاتی ہے اور دنیا بھر میں قومی پرچم کی توہین اور تضحیک پر سزائیں بھی مقرر ہیں۔
دوسرے ممالک اپنی قومی علامات اور ملکی خودمختاری کے تحفظ کیلئے نہ صرف سخت قانون سازی کرتے ہیں بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کرکے دکھاتے ہیں تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی جرات نہ کرسکے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں قوانین موجود ہونے کے باوجود آئے روز ''دانش گرد'' ٹی وی چینلوں، اخبارات، جلسوں اور سوشل میڈیا پر نظریہ پاکستان اور مملکت خداداد کے وجود کو ہی غلط قرار دیتے رہتے ہیں اور جو لوگ اس طرح کرتے ہیں ان کی نہ صرف مغرب میں خوب حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ ملک کے اندر بھی ایک مخصوص ٹولہ ان کو رول ماڈل قرار دینے کیلئے میدان میں کود جاتا ہے۔ اب تو صورتحال اس نہج پر پہنچی ہے کہ پاکستان میں غیر محسوس انداز میں ایک مائنڈ سیٹ بن گیا ہے کہ کسی بھی شعبے میں نام اور پیسہ کمانے کیلئے ملک و قوم اور معاشرتی و مذہبی اقدار کی مٹی پلید کرنا لازمی ہے۔
اسی مائنڈ سیٹ کو لیکر ایک فلم ''ایکٹر ان لا'' بننے جارہی ہے جس کا ٹریلر جاری کیا گیا ہے۔ اس فلم میں اقلیتوں کے حقوق کی آڑ میں ہمارے قومی پرچم کیخلاف بدترین ہرزہ سرائی کی گئی ہے جس کے الفاظ یہاں نقل نہیں کئے جاسکتے۔ خالص کمرشل مقاصد کیلئے قومی علامات کا مذاق نہ صرف ریاست اور آئین پاکستان کو چیلنج کرنا ہے بلکہ ہر باشعور شہری کے جذبہ حب الوطنی پر بھی کاری وار ہے۔ معاشرے میں موجود برائیوں کی نشاندہی یقینا ایک ذمہ دار شہری کا فرض ہے البتہ اس نشاندہی کی آڑ میں قومی پرچم کی تضحیک کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اقلیتوں کے حقوق سے متعلق بھی بحث کی بھی گنجائش موجود ہے مگر یہ بحث دلیل اور مکالمے کی بنیاد پر ہو نہ کہ تضحیک، طنز اور جگت بازیوں پر۔
میں بحیثیت ایک محب وطن پاکستانی اس فلم کیخلاف متعلقہ فورم پر شکایت درج کراوں گا اور تمام قارئین سے بھی گزارش ہے کہ اس گھناونی حرکت کیخلاف صدائے احتجاج بلند کریں تاکہ ریلیز سے پہلے اس فلم سے قومی پرچم کی توہین پر مبنی مکالمہ نکالا جائے اور فلم کی پوری ٹیم قوم سے معافی مانگے۔
[poll id="1168"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اس لئے جاندار اقوام کو اپنی آزادی دل و جان سے زیادہ عزیز ہوتی ہے اور ان کا پرچم آزادی کی سب سے خوبصورت علامت تصور ہوتا ہے۔ پھر پرچم کی حرمت بھی جسم و جان سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ خدائے ذوالجلال کا ہم پر بے پناہ احسان ہے کہ ہم آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہیں اور جب ہمارا پرچم آزاد فضاوں میں لہراتا ہے تو ہمارے دلوں اور ہماری روحوں میں بھی آزادی کی شہنائیاں بجنے لگتی ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جس کاغذ پر پاکستان کا پرچم چھپا ہوتا ہے اگر وہ کاغذ زمین پر گرا ہوا نظر آجائے تو بچے اسے زمین سے اٹھا کر اپنی آنکھوں سے چوم رہے ہوتے ہیں۔
پاکستانی پرچم کا ڈیزائن امیر الدین قدوائی نے تیار کیا اور 11 اگست 1947ء کو نواب لیاقت علی خان نے منظوری کے لئے آئین ساز اسمبلی میں پیش کیا اور اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ
یہ کسی ایک سیاسی جماعت یا مخصوص کمیونٹی کا پرچم نہیں بلکہ پاکستانی قوم، پاکستانی ریاست کا پرچم ہے جو 14اگست 1947ء کو معرض وجود میں آئے گی۔ میں کسی مخالفت کے خوف کے بغیر یہ کہوں گا کہ یہ پرچم جو میں نے اس ہاوس کے سامنے پیش کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے یہ ہمیشہ آزادی، خود مختاری اور مساوات کا علمبردار ہوگا۔ یہ پرچم نہ صرف پاکستان کے لوگوں کے لئے آزادی کا پرچم ہوگا، بلکہ دنیا بھر میں امن اور حصول امن کی کاوشوں کی علامت سمجھا جائیگا۔ پاکستان کے قومی پرچم کا تین چوتھائی حصہ سبز اور ایک حصہ سفید ہے۔ سبز حصے میں ایک چاند اور پانچ کونوں والا ایک ستارہ ہے۔ سبز حصہ مسلمانوں اور سفید حصہ ملک میں بسنے والی اقلیتوں کو ظاہر کرتا ہے۔
سفید رنگ کے چاند کا مطلب ترقی جبکہ ستارا روشنی اور علم کو ظاہر کرتا ہے۔ دنیا کے بہت سارے ممالک وقت کے ساتھ ساتھ اپنے پرچم میں تبدیلیاں لائے اور تغیر کا یہ عمل آج بھی جاری ہے لیکن پاکستان کا قومی پرچم وہی ہے جو 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی نے منظور کیا۔
آزادی کی اس خوبصورت علامت پرچم کی حفاظت کیلئے ہر ملک میں باقاعدہ قانون سازی کی جاتی ہے اور دنیا بھر میں قومی پرچم کی توہین اور تضحیک پر سزائیں بھی مقرر ہیں۔
- مصر کے قانون کے مطابق قومی پرچم کی توہین کے مرتکب شخص کو ایک سال تک قید اور 4 ہزار ڈالر جرمانہ ہوسکتا ہے۔
- چین میں قومی پرچم کی توہین کی سزا تین سال قید، جرمانہ اور توہین کے مرتکب شخص پر ہمیشہ کیلئے سیاسی سرگرمیاں ممنوع قرار دی جاتی ہیں۔
- پڑوسی ملک بھارت میں اس جرم کی پاداش میں کم از کم تین سال قید یا جرمانہ یا دونوں کی سزا ہوسکتی ہے۔
- تعزیرات پاکستان سیکشن 123-B کے تحت جو شخص دانستہ طور پر پاکستانی پرچم کی تضحیک کرتا ہے، اُسے آگ لگاتا ہے یا اختیار نہ رکھنے کے باوجود قومی پرچم کو حکومت کی کسی عمارت، جگہ، گاڑی یا جائیداد سے اتارتا ہے تو اسے 3 سال تک قید اور جرمانہ جبکہ 123-A کے تحت ملک پاکستان کی تخلیق یا نظریہ پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی پر 10 سال قید اور جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔
دوسرے ممالک اپنی قومی علامات اور ملکی خودمختاری کے تحفظ کیلئے نہ صرف سخت قانون سازی کرتے ہیں بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کرکے دکھاتے ہیں تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی جرات نہ کرسکے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں قوانین موجود ہونے کے باوجود آئے روز ''دانش گرد'' ٹی وی چینلوں، اخبارات، جلسوں اور سوشل میڈیا پر نظریہ پاکستان اور مملکت خداداد کے وجود کو ہی غلط قرار دیتے رہتے ہیں اور جو لوگ اس طرح کرتے ہیں ان کی نہ صرف مغرب میں خوب حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ ملک کے اندر بھی ایک مخصوص ٹولہ ان کو رول ماڈل قرار دینے کیلئے میدان میں کود جاتا ہے۔ اب تو صورتحال اس نہج پر پہنچی ہے کہ پاکستان میں غیر محسوس انداز میں ایک مائنڈ سیٹ بن گیا ہے کہ کسی بھی شعبے میں نام اور پیسہ کمانے کیلئے ملک و قوم اور معاشرتی و مذہبی اقدار کی مٹی پلید کرنا لازمی ہے۔
اسی مائنڈ سیٹ کو لیکر ایک فلم ''ایکٹر ان لا'' بننے جارہی ہے جس کا ٹریلر جاری کیا گیا ہے۔ اس فلم میں اقلیتوں کے حقوق کی آڑ میں ہمارے قومی پرچم کیخلاف بدترین ہرزہ سرائی کی گئی ہے جس کے الفاظ یہاں نقل نہیں کئے جاسکتے۔ خالص کمرشل مقاصد کیلئے قومی علامات کا مذاق نہ صرف ریاست اور آئین پاکستان کو چیلنج کرنا ہے بلکہ ہر باشعور شہری کے جذبہ حب الوطنی پر بھی کاری وار ہے۔ معاشرے میں موجود برائیوں کی نشاندہی یقینا ایک ذمہ دار شہری کا فرض ہے البتہ اس نشاندہی کی آڑ میں قومی پرچم کی تضحیک کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اقلیتوں کے حقوق سے متعلق بھی بحث کی بھی گنجائش موجود ہے مگر یہ بحث دلیل اور مکالمے کی بنیاد پر ہو نہ کہ تضحیک، طنز اور جگت بازیوں پر۔
میں بحیثیت ایک محب وطن پاکستانی اس فلم کیخلاف متعلقہ فورم پر شکایت درج کراوں گا اور تمام قارئین سے بھی گزارش ہے کہ اس گھناونی حرکت کیخلاف صدائے احتجاج بلند کریں تاکہ ریلیز سے پہلے اس فلم سے قومی پرچم کی توہین پر مبنی مکالمہ نکالا جائے اور فلم کی پوری ٹیم قوم سے معافی مانگے۔
[poll id="1168"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔