دنیا کو خبر دینے والا بے خبر
ساری دینا کو خبر دینے والاخود اپنے ہی معاملے میں کیا اتنا بے خبرہو سکتا ہے؟
ہم بچپن ہی سے دیکھتے آئے ہیں کہ بی بی سی کو ایک خاص اعتبار حاصل رہا ہے۔یہ اُس دور کی بات ہے جب ریڈیو بھی خال خال ہی ہوا کرتے تھے۔
یادوں کے جھروکوں سے نظر آتا ہے،ایک پان کی دکان یہ ایک چھوٹے سے محلے کی کریانے کی دکان بھی ہے توچوپال بھی۔اُسی دکان کے کاؤنٹرپر ایک بڑا سا ریڈیودَھرا ہے۔جس کے گرد ادھیڑ عمر اور عمر رسیدہ اہل ِ محلہ کا جمگھٹاجوصبح دم اور رات گئے بی بی سی کی اردو نشریات بڑے ہی ذوق و شوق سے سنتے ہیں۔ مزے مزے کے تبصرے کرتے ہیں۔یہ پاکستان اور بھارت کے چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں اوردیہاتوں کا عام سا منظر تھا۔Here is the Newsبی بی سی کا یہ جملہ تو آج بھی ایک عالم میں مقبول ہے۔70-60 کے عشرہ میں مارک ٹیلی Mark Tully کی شہرت بطور ایک پر تجسس ، شرارتی مگر نڈر رپورٹر کے پورے پاک بھارت میں پھیلی ہوئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق بی بی سی کی ریڈیو اور ٹی وی نشریات کے برطانوی سامعین و ناظرین کی تعداد پانچ کروڑ تک ہے۔ ساری دنیا میں یہ تعداد سوا دو ارب کے لگ بھگ ہے۔
1922ء میں چار افراد سے شروع ہونے والا یہ ادارہ شہرت اور ترقی کی منازل طے کرتاجلد ہی عالمی اُفق پر ایک درخشندہ ستارے کا روپ دھار گیا۔لیکن اب اِس ستارے کی روشنی ماند پڑتی جا رہی ہے۔یہ جھلملاہٹ سے دھندلاہٹ کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔بی بی سی کو پہ بہ پہ شدید بحرانوں کا شکار ہونا پڑا ہے۔اِن بحرانوں نے بی بی سی کی ساکھ کو اور اس کے اعتبار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ہم جیسے افراد بھی کہ جِن کے اذہان پر بچپن ہی سے بی بی سی کے گہرے نقوش ثبت ہیں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ بی بی سی کی خبروں، تجزیوں اور تبصروں پر کان دھر کے ہم نے کوئی غلطی تو نہیں کی؟یوں تو مادام تھیچر کے دور (1987) میں بی بی سی کے بارے میں جو رائے سامنے آئی تھی وہی چونکا دینے والی ہونی چاہیے تھی۔ اب ''جمی سائول'' کیس،بی بی سی کے معروف پروگرام ''نیوز نائٹ '' کے چند پروگرامز پر مبنی بر دروغ ہونے کے الزامات نیز ''نیوزنائٹ'' کے تحقیق کار اور ڈائریکٹر جنرل جارج اینٹ وِسل کا استعفی اندرونی تاریکیوں اور بد ظنی کی خبر سناتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے خیال میں بی بی سی کی حالیہ رسوائیوں میں سب سے بڑا مسئلہ جمی سائول کا ہے۔''سر'' جیمز ولسن ونسٹ جمی ساؤل(31.11.1926-29.10.2011) ٹیلی وژن پروگرام کرنے والے اور رفاہی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔یہ ایک عرصے سے بی بی سی سے وابستہ تھے۔وہاں انھوں نے نوجوانوں کے لیے ''خصوصی'' طور پر پروگرام کیے۔''جِم ٹو فکس اِٹ ''اورموسیقی کا معروف پروگرام''ٹاپ آف دی پاپس''۔ آخرالذکر کے یہ پہلے اور آخری پیش کار بھی تھے۔ساؤل نے نوجوانوں کے لیے رفاہی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کو حصہ لیا۔نوجوانوں کی فلاح کے لیے ساؤل نے چار کروڑ پاؤنڈ کا چندہ بھی جمع کیا۔
جمی سائول کی زندگی بہ ظاہر ایک خوش حال ،خوش باش اورکامیاب فرد کی زندگی نظر آتی ہے۔سائول کی کامیابیوں اور اعزازات کی ایک طویل فہرست ہے۔ 1972ء میں نئے سال کے آغاز پر سائول کو '' آفیسرآف دی آرڈر آف دی برٹش امپائر''(او بی ای) سے نوازا گیا۔1986ء میں مادام تسائو کے مشہور مومی عجائب گھر میں سائول کا مجسمہ رکھا گیا۔1990ء میں ملکہ کی سال گرہ کے موقعے پر رفاہی خدمات کے عوض ''نائٹ'' کا خطاب ملا۔1990ء ہی میں پوپ جان پال دوئم کی جانب سے''پوپل نائٹ ہڈ'' کا اعزاز ''نائٹ کمانڈر آف دی آرڈر آف دی سینٹ گریگوری دی گریٹ'' عطا ہوا۔یونیورسٹی آف لیڈز اور بیڈ فورڈ شائر یونیورسٹی نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی اسناد سے نوازا۔
لیکن افسوس کہ ''سر'' جمی سائول کے انتقال کے قریباً ایک برس بعد یہ تمام تر اعزازات بی بی سی اور دیگر اعزاز دینے والوں کے لیے سوالیہ نشان کے علاوہ کچھ نہیں رہ گئے۔ہوا یوں کہ بی بی سی کے مسابقتی ادارے آئی ٹی وی ون نے اپنے پروگرام ''ایکسپوژر'' میں جمی سائول کو موضوع بنایا۔'' ایکسپوژر:جمی سائول کا دوسرا رُخ۔''اس پروگرام نے سائول کو زمانے کے سامنے عریاں کر دیا۔ بی بی سی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔یہ ڈاکو منٹری سابقہ پولیس سراغ رساں، مارک ولیم تھامس کرتے ہیں۔
تین اکتوبر2012ء کو نشر ہونے والے اِس پروگرام میں متعدد خواتین نے بیان دیا کہ جب وہ کم سِن تھیں تو سائول نے اُنہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔خواتین کا بیان تھا کہ سائول کم سِن بچوں اور نو عمر لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے لیے بی بی سی کے شو '' ٹاپ آف دی پاپس''، ''کِلک کَلک'' وغیرہ کیا کرتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ نوجوانوں کے لیے کیے جانے والے رفاہی کاموں کے پیچھے بھی دراصل یہی مذموم مقاصد کار فرما ہوا کرتے تھے۔ مارک تھامس کے اس پروگرام نے تو ہلچل مچا دی۔ اگلے ہی دِن میٹرو پولیس نے بیان دیا کہ وہ الزامات کی تحقیقات کریں گے۔9 اکتوبرکو پولیس نے کہا کہ وہ آٹھ خواتین کے بیانات ریکارڈ کر چکے ہیں کہ جنھیں سائول نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔تمام لڑکیوں کی عمریں 13سے 16برس کے درمیان ہیں۔اندازہ لگایا گیا کہ یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے ۔19اکتوبر کو پولیس نے بتایا کہ سائول کے خلاف مجرمانہ تفتیش جاری ہے۔400سے زائد خطوط پر 14سے زائد پولیس کے ادارے پورے برطانیہ میں تحقیقات میں مصروف ہیں۔ 200گواہیاں ہو چکی ہیں۔
ابتدائی اندازوں کے مطابق شکار ہونے والیوں کی تعداد 300 تک ہو سکتی ہے۔سائول کے بارے میں بعد از مرگ واویلا اس قدر بڑھا کہ سائول کے خاندان نے اُسے ننگِ خاندان گردانتے ہوئے اُس کی قبر سے کتبہ ہٹانے کا کہہ دیا۔یہ اعلان سامنے آیا کہ لیڈز کے ''سِول ہال'' کی دیوار پر موجود سائول کا اعزازی نام مٹا دیا جائے۔اسٹاک مانڈویل اسپتال کے ایک کیفے ''جمی'' نے سائول کے دستخطوں والا نیون سائن تبدیل کرنے کا اعلان کردیا۔ یونیورسٹی بریڈ فورڈ شائر نے 2009ء میں عطا کی جانے والی ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند واپس لے لی۔ گریٹ نارتھ رن ہال آف فیم سے سائول کا نام مٹا دیا گیا۔ہوئے مر کے ہم جو رسوا ... یہ سب ہوتا رہا لیکن بی بی سی کے کان پر جوں نہ رینگی۔
بی بی سی کے لیے لمحہ فکریہ یہ تھا کہ سائول کے لیے یہ مجرمانہ اور گھنائونی زندگی بی بی سی ہی کی بدولت ممکن ہوئی۔سائول کے بیسیوں شکار بی بی سی کی عین ناک کے نیچے، خود اسی کی عمارت میں مجرمانہ زیادتیوں کا نشانہ بنے۔صرف یہی نہیں بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ نے سائول کے انتقال کے ایک ماہ بعد ہی اِس کے کالے کرتوتوں پر مبنی ایک پروگرام کا ڈول ڈالا ۔ بغیر کسی وجہ کے یہ تفتیش روک دی گئی اور پروگرام ڈبہ پیک کر دیا گیا۔الٹا کرسمس پر سائول کی مدح میں 3پروگرام دکھائے گئے۔ مبصرین سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ سب بے خبری ہے؟پردہ پوشی ہے یا بی بی سی انتظامیہ میں اب تک کچھ شریک مجرم گھات لگائے بیٹھے ہیں؟ دیکھا یہ گیا ہے کہ گزشتہ عشرے سے بی بی سی کا کردار شدید تنقید کا نشانہ ہے۔2007ء میں موریا کے عمر و جنسی امتیازات کا مسئلہ ہو، فلسطینی محصور مسلمانوں کے لیے امدادی اپیل رد کرنے کا معاملہ ہو یا میکسیکو کے عوام اور غذائوں کو برا کہنا یا بنگلور کے بچہ مزدوروں کی غلط ڈاکومنٹری کا معاملہ، ہر ہر جگہ بی بی سی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
جمی سائول کے معاملے میں بی بی سی کی بے خبری ایک طُرفہ تماشا ہے۔ ساری دینا کو خبر دینے والاخود اپنے ہی معاملے میں کیا اتنا بے خبرہو سکتا ہے؟
یادوں کے جھروکوں سے نظر آتا ہے،ایک پان کی دکان یہ ایک چھوٹے سے محلے کی کریانے کی دکان بھی ہے توچوپال بھی۔اُسی دکان کے کاؤنٹرپر ایک بڑا سا ریڈیودَھرا ہے۔جس کے گرد ادھیڑ عمر اور عمر رسیدہ اہل ِ محلہ کا جمگھٹاجوصبح دم اور رات گئے بی بی سی کی اردو نشریات بڑے ہی ذوق و شوق سے سنتے ہیں۔ مزے مزے کے تبصرے کرتے ہیں۔یہ پاکستان اور بھارت کے چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں اوردیہاتوں کا عام سا منظر تھا۔Here is the Newsبی بی سی کا یہ جملہ تو آج بھی ایک عالم میں مقبول ہے۔70-60 کے عشرہ میں مارک ٹیلی Mark Tully کی شہرت بطور ایک پر تجسس ، شرارتی مگر نڈر رپورٹر کے پورے پاک بھارت میں پھیلی ہوئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق بی بی سی کی ریڈیو اور ٹی وی نشریات کے برطانوی سامعین و ناظرین کی تعداد پانچ کروڑ تک ہے۔ ساری دنیا میں یہ تعداد سوا دو ارب کے لگ بھگ ہے۔
1922ء میں چار افراد سے شروع ہونے والا یہ ادارہ شہرت اور ترقی کی منازل طے کرتاجلد ہی عالمی اُفق پر ایک درخشندہ ستارے کا روپ دھار گیا۔لیکن اب اِس ستارے کی روشنی ماند پڑتی جا رہی ہے۔یہ جھلملاہٹ سے دھندلاہٹ کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔بی بی سی کو پہ بہ پہ شدید بحرانوں کا شکار ہونا پڑا ہے۔اِن بحرانوں نے بی بی سی کی ساکھ کو اور اس کے اعتبار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ہم جیسے افراد بھی کہ جِن کے اذہان پر بچپن ہی سے بی بی سی کے گہرے نقوش ثبت ہیں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ بی بی سی کی خبروں، تجزیوں اور تبصروں پر کان دھر کے ہم نے کوئی غلطی تو نہیں کی؟یوں تو مادام تھیچر کے دور (1987) میں بی بی سی کے بارے میں جو رائے سامنے آئی تھی وہی چونکا دینے والی ہونی چاہیے تھی۔ اب ''جمی سائول'' کیس،بی بی سی کے معروف پروگرام ''نیوز نائٹ '' کے چند پروگرامز پر مبنی بر دروغ ہونے کے الزامات نیز ''نیوزنائٹ'' کے تحقیق کار اور ڈائریکٹر جنرل جارج اینٹ وِسل کا استعفی اندرونی تاریکیوں اور بد ظنی کی خبر سناتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے خیال میں بی بی سی کی حالیہ رسوائیوں میں سب سے بڑا مسئلہ جمی سائول کا ہے۔''سر'' جیمز ولسن ونسٹ جمی ساؤل(31.11.1926-29.10.2011) ٹیلی وژن پروگرام کرنے والے اور رفاہی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔یہ ایک عرصے سے بی بی سی سے وابستہ تھے۔وہاں انھوں نے نوجوانوں کے لیے ''خصوصی'' طور پر پروگرام کیے۔''جِم ٹو فکس اِٹ ''اورموسیقی کا معروف پروگرام''ٹاپ آف دی پاپس''۔ آخرالذکر کے یہ پہلے اور آخری پیش کار بھی تھے۔ساؤل نے نوجوانوں کے لیے رفاہی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کو حصہ لیا۔نوجوانوں کی فلاح کے لیے ساؤل نے چار کروڑ پاؤنڈ کا چندہ بھی جمع کیا۔
جمی سائول کی زندگی بہ ظاہر ایک خوش حال ،خوش باش اورکامیاب فرد کی زندگی نظر آتی ہے۔سائول کی کامیابیوں اور اعزازات کی ایک طویل فہرست ہے۔ 1972ء میں نئے سال کے آغاز پر سائول کو '' آفیسرآف دی آرڈر آف دی برٹش امپائر''(او بی ای) سے نوازا گیا۔1986ء میں مادام تسائو کے مشہور مومی عجائب گھر میں سائول کا مجسمہ رکھا گیا۔1990ء میں ملکہ کی سال گرہ کے موقعے پر رفاہی خدمات کے عوض ''نائٹ'' کا خطاب ملا۔1990ء ہی میں پوپ جان پال دوئم کی جانب سے''پوپل نائٹ ہڈ'' کا اعزاز ''نائٹ کمانڈر آف دی آرڈر آف دی سینٹ گریگوری دی گریٹ'' عطا ہوا۔یونیورسٹی آف لیڈز اور بیڈ فورڈ شائر یونیورسٹی نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی اسناد سے نوازا۔
لیکن افسوس کہ ''سر'' جمی سائول کے انتقال کے قریباً ایک برس بعد یہ تمام تر اعزازات بی بی سی اور دیگر اعزاز دینے والوں کے لیے سوالیہ نشان کے علاوہ کچھ نہیں رہ گئے۔ہوا یوں کہ بی بی سی کے مسابقتی ادارے آئی ٹی وی ون نے اپنے پروگرام ''ایکسپوژر'' میں جمی سائول کو موضوع بنایا۔'' ایکسپوژر:جمی سائول کا دوسرا رُخ۔''اس پروگرام نے سائول کو زمانے کے سامنے عریاں کر دیا۔ بی بی سی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔یہ ڈاکو منٹری سابقہ پولیس سراغ رساں، مارک ولیم تھامس کرتے ہیں۔
تین اکتوبر2012ء کو نشر ہونے والے اِس پروگرام میں متعدد خواتین نے بیان دیا کہ جب وہ کم سِن تھیں تو سائول نے اُنہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔خواتین کا بیان تھا کہ سائول کم سِن بچوں اور نو عمر لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے لیے بی بی سی کے شو '' ٹاپ آف دی پاپس''، ''کِلک کَلک'' وغیرہ کیا کرتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ نوجوانوں کے لیے کیے جانے والے رفاہی کاموں کے پیچھے بھی دراصل یہی مذموم مقاصد کار فرما ہوا کرتے تھے۔ مارک تھامس کے اس پروگرام نے تو ہلچل مچا دی۔ اگلے ہی دِن میٹرو پولیس نے بیان دیا کہ وہ الزامات کی تحقیقات کریں گے۔9 اکتوبرکو پولیس نے کہا کہ وہ آٹھ خواتین کے بیانات ریکارڈ کر چکے ہیں کہ جنھیں سائول نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔تمام لڑکیوں کی عمریں 13سے 16برس کے درمیان ہیں۔اندازہ لگایا گیا کہ یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے ۔19اکتوبر کو پولیس نے بتایا کہ سائول کے خلاف مجرمانہ تفتیش جاری ہے۔400سے زائد خطوط پر 14سے زائد پولیس کے ادارے پورے برطانیہ میں تحقیقات میں مصروف ہیں۔ 200گواہیاں ہو چکی ہیں۔
ابتدائی اندازوں کے مطابق شکار ہونے والیوں کی تعداد 300 تک ہو سکتی ہے۔سائول کے بارے میں بعد از مرگ واویلا اس قدر بڑھا کہ سائول کے خاندان نے اُسے ننگِ خاندان گردانتے ہوئے اُس کی قبر سے کتبہ ہٹانے کا کہہ دیا۔یہ اعلان سامنے آیا کہ لیڈز کے ''سِول ہال'' کی دیوار پر موجود سائول کا اعزازی نام مٹا دیا جائے۔اسٹاک مانڈویل اسپتال کے ایک کیفے ''جمی'' نے سائول کے دستخطوں والا نیون سائن تبدیل کرنے کا اعلان کردیا۔ یونیورسٹی بریڈ فورڈ شائر نے 2009ء میں عطا کی جانے والی ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند واپس لے لی۔ گریٹ نارتھ رن ہال آف فیم سے سائول کا نام مٹا دیا گیا۔ہوئے مر کے ہم جو رسوا ... یہ سب ہوتا رہا لیکن بی بی سی کے کان پر جوں نہ رینگی۔
بی بی سی کے لیے لمحہ فکریہ یہ تھا کہ سائول کے لیے یہ مجرمانہ اور گھنائونی زندگی بی بی سی ہی کی بدولت ممکن ہوئی۔سائول کے بیسیوں شکار بی بی سی کی عین ناک کے نیچے، خود اسی کی عمارت میں مجرمانہ زیادتیوں کا نشانہ بنے۔صرف یہی نہیں بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ نے سائول کے انتقال کے ایک ماہ بعد ہی اِس کے کالے کرتوتوں پر مبنی ایک پروگرام کا ڈول ڈالا ۔ بغیر کسی وجہ کے یہ تفتیش روک دی گئی اور پروگرام ڈبہ پیک کر دیا گیا۔الٹا کرسمس پر سائول کی مدح میں 3پروگرام دکھائے گئے۔ مبصرین سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ سب بے خبری ہے؟پردہ پوشی ہے یا بی بی سی انتظامیہ میں اب تک کچھ شریک مجرم گھات لگائے بیٹھے ہیں؟ دیکھا یہ گیا ہے کہ گزشتہ عشرے سے بی بی سی کا کردار شدید تنقید کا نشانہ ہے۔2007ء میں موریا کے عمر و جنسی امتیازات کا مسئلہ ہو، فلسطینی محصور مسلمانوں کے لیے امدادی اپیل رد کرنے کا معاملہ ہو یا میکسیکو کے عوام اور غذائوں کو برا کہنا یا بنگلور کے بچہ مزدوروں کی غلط ڈاکومنٹری کا معاملہ، ہر ہر جگہ بی بی سی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
جمی سائول کے معاملے میں بی بی سی کی بے خبری ایک طُرفہ تماشا ہے۔ ساری دینا کو خبر دینے والاخود اپنے ہی معاملے میں کیا اتنا بے خبرہو سکتا ہے؟