چہرے نہیں نظام کو بدلو

ہم مظاہروں کے دوران اپنے ہی ادا کیے ہوئے ٹیکسوں پر بنے روڈ، ٹریفک سگنلز اور پارکس کو تباہ کردیتے ہیں ۔

وال اسٹریٹ قبضہ کرو تحریک اپنی سالگرہ منا چکی ہے، عوام کے ایک جم غفیر نے اپنے حالات کی درستگی کے لیے منظم انداز میں پیش رفت کی تھی جو بتدریج بڑھتے ہوئے مختلف ممالک تک پھیل گئی۔

عوام کا یہ سیلاب تیونس، مصر اور لیبیا میں آیا تو وجہ یہی تھی کہ ان ممالک کی عوام اپنی نااہل و کرپٹ، غاصبانہ سوچ کی حامل اور ظلم و جبر سے لبریز حکومت کی ستائی ہوئے تھے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ ہمارے ملک میں بھی عوام کئی بار سڑکوں پر نظر آئے ہیں لیکن چونکہ ہماری عوام ابھی اپنی اصل ذمے داری کا ادراک کرنے کی صلاحیت سے مالا مال نہیں ہے یا شاید ہماری قوم کی قوت برداشت دوسری قوموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اس لیے ہماری عوام حقیقی ایشوز پر مظاہروں کے بجائے وقتی پریشانیوں، جیسے بجلی کی لوڈ شیڈنگ، پانی کی بندش اور ایسے ہی مسائل پر چراغ پا ہو کر مظاہرہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔


افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم عوام ان مظاہروں میں اپنی ہی املاک کا نقصان کرتے ہیں اور اپنے ہی ادا کیے ہوئے ٹیکسوں پر بنے روڈ، ٹریفک سگنلز، پارکس اور آرایشی سامان کو تباہ و برباد کردیتے ہیں۔ لیکن کیا ان مظاہروں سے آج تک کچھ حاصل ہوپایا ہے؟ کیا طویل و پرتشدد مظاہروں کے بعد بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی آئی یا ٹرانسپورٹ کے کرایے کم ہوسکے؟ سی این جی کی بندش ختم ہوئی یا پانی وافر ملنے لگا؟ ان سب کا جواب نفی ہی میں آئے گا، کیونکہ یہ مظاہرے کبھی بھی منظم صورت اختیار نہیں کرپائے۔ یہ مظاہرے بالکل دودھ کے ابال کی طرح تھے جو زیادہ گرمی سے جوش میں آجاتا ہے اور آنچ ختم ہونے پر دوبارہ معتدل ہوجاتا ہے۔ ہمارے عوام آج تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ ان کے تمام تر مسائل کا حل یہ وقتی مظاہرے نہیں بلکہ اس نظام کی تبدیلی ہے۔

ملک میں الیکشن کی گہماگہمی شروع ہوچکی ہے اور تمام تر سیاسی تنظیمیں پرانے وعدے اور سیاسی چالیں لیے عوام کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے سرگرم ہوچکی ہیں۔ وہی بوسیدہ نعرے فضاؤں میں گونج رہے ہیں، عوام کے مسائل کو حل کیے جانے کی وعید سنائی جارہی ہے، غربت کے خاتمے کی خوشخبری ہے لیکن کوئی بھی پارٹی ان مسائل کے حل کی نشاندہی نہیں کرپارہی، صرف مستقبل بعید کا صیغہ استعمال کیا جارہا ہے، بڑنگیں اور بڑھکیں ماری جارہی ہیں کہ ہم یہ کردیں گے، ہم وہ کردیں گے... لیکن یہ سب کیا کیسے جائے گا شاید ان سیاسی اداکاروں کو بھی نہیں معلوم، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ عوام محض جذباتی نعروں سے بہلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، انھیں امید کا ایک موہوم سا دیا دکھا کر اپنے پیچھے چلنے پر راضی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔ اب عوام صحرائی سرابوں کے پیچھے بھاگنے والی نہیں، اب عوام سمجھ چکی ہے کہ ان کے مسائل کا حل صرف چہرے بدلنے سے تکمیل نہیں پائے گا بلکہ اس کے لیے پورے نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ وہ نظام جو اتنا بوسیدہ، اس قدر کرپٹ ہوگیا ہے کہ اس کی سڑاند آنے والے مستقبل کو نگلنے کے لیے تیار ہے۔

اب اس نظام سے چھٹکارا ناگزیر ہے۔ عوام سمجھ چکے ہیں کہ حقیقی جمہوریت میں ہی ان کے تمام مسائل کا حل پوشیدہ ہے، برسوں سے اقتدار پر قابض اشرافیہ، جاگیردارانہ اور وڈیرہ سوچ کے حامل حکمرانوں کی تبدیلی کے بغیر حقیقی جمہوریت ممکن نہیں۔ خاندانی اور پشت ہا پشت سے چلنے والی سیاست سے عوام بے زار ہوچکے ہیں۔ عوام سمجھ گئے ہیں کہ چند خاندان انھیں اپنی غلامی میں رکھنے کے لیے ہمیشہ جدی پشتی سیاست جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے بعد اپنے بچوں اور رشتے داروں کو اقتدار منتقل کرنا چاہتے ہیں لیکن اب عوام ان جھانسوں میں آنے والے نہیں، عوام اپنی حقیقی خوشحالی چاہتے ہیں، اصل جمہوریت کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں، عوام کی حکومت عوام کے ذریعے ہی چاہتے ہیں، جس کے لیے وہ اس خاندانی اور اقربا پرور سیاست سے چھٹکارے کے خواہاں ہیں۔ اجتماعی عوامی شعور کا یہی وہ لمحہ ہے جو قوموں کی زندگی میں اہم اور فیصلہ کن ہوتا ہے اور یہاں فتح و شکست نہیں ، منزل کی طرف سفر کرنا ہی مقصود ہوتا ہے۔ کاش ہمارے حکمران بھی اس بڑھتے ہوئے عوامی اجتماعی شعور کا احساس کرلیں ورنہ یہ اجتماعی شعور بتدریج اجتماعی احتجاج کا راستہ بھی اختیار کرسکتا ہے۔
Load Next Story