نوعِ انسانی کی خاطر

ہم امن کی خاطر اپنی زمین کو کبھی تباہ نہیں کریں گے اور امن کے ساتھ اس سیارے پر رہیں گے ۔


November 29, 2012
[email protected]

یہ آج سے 43 برس پہلے کا واقعہ ہے، بدھ 16 جولائی 1969 کی یہ ایک چمکتی ہوئی صبح تھی، جب 9 بج کر 20 منٹ پر امریکا کے تین خلا باز نیل آرم اسٹرانگ، ایڈون آلڈرن اور مائیکل کولنز چاند کے سفر کے لیے روانہ ہوئے۔ ان کا یہ تاریخی سفر سیٹرن نامی راکٹ کے ذریعے شروع ہوا، جو اپالو گیارہ Apollo II نامی خلائی جہاز کو لے کر جارہا تھا، دس لاکھ افراد کی نگاہوں کے سامنے چاند کی جانب جانیوالی یہ عظیم الشان اور پُرشکوہ سواری روانہ ہوئی، تین سو تریسٹھ فٹ بلند یہ راکٹ جب اپنے عقب میں سرخ اور نارنجی رنگ کی گیس کا طوفان چھوڑتا ہوا نیلگوں آسمان کی جانب روانہ ہوا تو چاند کے سفر پر جانے والے ان پہلے تین مسافروں کے مشن پر پوری دنیا کے لوگوں کی بھرپور توجہ تھی کیونکہ تاریخ انسانی کے ان تین افراد کو تاریخ کے صفحات ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنیوالے تھے۔ حقیقتاً یہ ایسا تاریخ ساز سفر تھا جو اگر ناکام ہوجاتا یا زمین کے یہ تین باسی خلا کی گہرائیوں اور پہنائیوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گم ہوجاتے یا چاند پر ہی دم توڑ دیتے تو شاید انسان کی سیاروں کو مسخر کرنے کی ہمت وقتی طو رپر دم توڑ دیتی اور آج ''کیوریسٹی'' بھی مریخ پر نہ اترتی۔

نیل آرم اسٹرانگ اس عظیم تاریخی سفر کے کمانڈر تھے، وہ 5 اگست 1930کو امریکی ریاست اوہایو میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ایرو ناٹیکل انجینئرنگ میں 1955 میں ڈگری حاصل کی اور 1962 میں امریکا کے خلائی ادارے ناسا (NASA) نے ان کو خلا باز کی حیثیت سے منتخب کیا۔ چاند کے سفر پر جانے سے پہلے آرم اسٹرانگ نے دو بار خلا میں کامیاب پروازیں کی تھیں۔ایڈون 20 جنوری 1930 کو امریکی ریاست نیو جرسی میں پیدا ہوئے، انھوں نے خلائی سائنس میں مشہور زمانہ تعلیمی ادارے میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (M.I.T) سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور اکتوبر 1963 میں ان کو ناسا نے خلا باز کی حیثیت سے منتخب کیا، انھوں نے چاند پر جانے سے پہلے 11 نومبر 1966 کو خلائی پروازکی، جو چار دن تک جاری رہی۔

خلا باز مائیکل کولنز 31 اکتوبر 1930 کو اٹلی کے شہر روم میں پیدا ہوئے اور 1952 میں امریکا کی ملٹری اکیڈمی سے سائنس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ ناسا نے ان کو اکتوبر 1963 میں خلا باز کی حیثیت سے منتخب کیا، انھوں نے دو بار خلا میں کامیاب پروازیں کیں۔چاند ہماری زمین کا قریب ترین سیارہ ہے اور زمین کے گرد اسی طرح گردش کناں ہے جیسے ہماری زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے، چاند کا قطر صرف 2160 میل یا محیط 6800 میل ہے۔ اپالو گیارہ تقریباً دو لاکھ اڑتیس ہزار میل یا تین لاکھ چوراسی ہزار چار سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے 20 جولائی 1969ء کو چاند پر اُتری، جب ایگل چاند کی جانب اترنے لگی تو آرم اسٹرانگ کی کرۂ ارض پر یہ آواز سنائی دی کہ "The Eagle has wings" پھر چند سیکنڈز کے لیے زمینی مرکز اور چاند گاڑی کا رابطہ کٹ گیا، ایسے میں زمینی سائنس دانوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔

رابطے کا ٹوٹ جانا یہ ظاہر کر رہا تھا کہ غالباً چاند گاڑی یا تو تباہ ہوگئی ہے یا کسی بڑی فنی خرابی کا شکار ہے، مگر تشویش کے یہ لمحات اس وقت بے پناہ خوشیوں میں تبدیل ہوگئے جب زمینی مرکز نے آرم اسٹرانگ کی آواز سنی، جو کہہ رہا تھا: ''ایگل اُتر چکی ہے، Eagle has landed'' انسانی تاریخ کا انتہائی اہم واقعہ انجام دیا جاچکا تھا۔ انسان چاند پر اُتر چکا تھا، آرم اسٹرانگ اور آلڈرن حیرت سے چاند گاڑی کی کھڑکیوں سے اس سطح ماہتاب کو دیکھ رہے تھے، منصوبے کے مطابق چاند گاڑی میں رک کر ماہ نوردوں کو کئی گھنٹے تک آرام کرنا تھا، مگر آرم اسٹرانگ چاند کی سرزمین پر قدم رکھنے کے لیے بے تاب تھے لہٰذا زمینی مرکز نے انھیں مقررہ وقت سے کوئی پانچ گھنٹے پہلے ہی گاڑی سے باہر آنے اور سطح ماہتاب پر چہل قدمی کرنے کی اجازت دے دی۔ پاکستان کے وقت کے مطابق 21 جولائی کی صبح سات بج کر 56 منٹ پر اور امریکا کے وقت کے مطابق 20 جولائی کی رات دس بج کر 50 منٹ پر روئے زمین کے اس پہلے انسان آرم اسٹرانگ نے آسمان کی گہرائیوں میں واقع ایک دوسرے سیارے چاند پر ان تاریخی الفاظ کے ساتھ قدم رکھا۔

"That is one small step for a man, one grant leap for man kind"

''ایک انسان کا یہ چھوٹا سا قدم نوع انسان کے لیے ایک دیو قامت قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔''زمین پر موجود 50 کروڑ سے زائد انسانوں نے اپنے ٹی وی سیٹ پر آرم اسٹرانگ کو چاند پر اترتے اور چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھا، چاند پر اترنے والے انسان چاند کی سطح سے 69 پونڈ وزن کے مٹی اور پتھر کے نمونے لے کر زمین پر آئے، انھوں نے وہاں ڈھائی سو فٹ کی دوری تک چہل قدمی کی اور چاند کی سرزمین پر ہمیشہ کے لیے نہ مٹنے والے انسانی قدم کے نقوش چھوڑ آئے؟ ان خلا نوردوں نے چاند پر مجموعی طور پر تقریباً بائیس گھنٹے گزارے، وہ دو گھنٹے اکتیس منٹ اور چالیس سیکنڈ تک چاند کی سطح پر گھومتے پھرتے اور تجربات کرتے رہے۔ تینوں خلائی مسافر بہ حفاظت تقریباً 8 دن 14 گھنٹے 12 منٹ پر مشتمل اس تاریخ ساز خلائی سفر کے بعد 24 جولائی 1969کو زمین پر واپس آگئے۔ آرم اسٹرانگ کے بعد اب تک گیارہ دوسرے خلا باز بھی سطح مہتاب پر قدم رکھ چکے ہیں۔

تسخیر چاند کے بعد 2012 میں جب خلائی گاڑی ''کیوریسٹی'' نے سطح مریخ پر کامیابی کے ساتھ اترنے کے بعد مریخ کی تاریخی تصاویر کھینچنے اور اس سرخ سیارے پر زندگی کی کھوج لگانے پر اطالوی ماہر فلکیات گائیو وانی شیاپاریلی اور امریکی ہیئت دان پرسیول لوول کی اعلان کردہ مریخی نہروں یا ان کے آثار کو دریافت کرنے میں مصروف تحقیق تھی تو ساری دنیا کو نیل آرم اسٹرانگ کا چاند پر وہ پہلا قدم شدت سے یاد آیا۔ وہ دن اب دور نہیں جب جلد ہی انسان بردار جہاز بھی سطح مریخ پر اترے گا اور عہد جدید کا کوئی خلا نورد تاریخ میں جلد امر ہوجائے گا۔ کیوریسٹی کے سطح مریخ پر اترنے کے چند ہی دن بعد آرم اسٹرانگ اس جہان فانی سے جہانِ ابدی کی جانب کوچ کرگئے، انسان کا یہ چھوٹا سا قدم داعیٔ اجل کو لبیک کہتا ہوا وجود سے عدم کی جانب روانہ ہوگیا، لیکن پوری نوع انسانی کے لیے تاریخ کے سینے پر دیو قامت قدم کے دائمی نقوش ہمیشہ کے لیے ثبت کرگیا۔ آرم اسٹرانگ نے سطح چاند پر مخصوص دھات کی بنی ہوئی ایک تاریخی تختی بھی نصب کی تھی جس پر یہ قابلِ غور تاریخی الفاظ کندہ تھے۔

"Here man from the planet Earth first set foot upon the moon july 1969 A.D. We come in peace for all man kind"

''اس مقام پر سیارہ زمین سے انسان آئے، انھوں نے جولائی 1969ء میں پہلی بار یہاں قدم رکھا، ہم تمام نوع انسانی کے لیے امن و آشتی کی خاطر یہاں آئے''۔اے کاش! انسان اپنے سیارہ زمین پر بھی ایک ایسی تختی نصب کرسکے جس پر لکھا ہو ''ہم امن کی خاطر اپنی زمین کو کبھی تباہ نہیں کریں گے اور امن کے ساتھ اس سیارے پر رہیں گے''۔ لیکن افسوس صد افسوس، آج اس نیلگوں سیارے کے نازک وجود کو خود امریکا ہی کے ایٹمی و جنگی جنون سے عظم خطرات لاحق ہیں اور آج کرہ ارض پر تمام تر سازشوں، شورشوں، مکر و فریب و دجل، حقوق انسانی کی پامالی اور فساد و دہشت گردی کا بنیادی مرکز و محور اور دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد نیز سطح چاند پر نصب اس تاریخی تحریر پر بدنما داغ خود امریکا ہی ہے اور بلاشبہ یہ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں