کراچی کا مقدمہ 2
غوث علی شاہ نجی محفلوں میں بتاتے کہ کس مہارت سے انہوں نے کراچی کوایک مذہبی جماعت کی گرفت سے آزاد کرالیا تھا ۔
ایوب خان اور بھٹو کے دور حکومت کے بعد ، اب ضیاء الحق کی جانب سے وعدہ خلافی ، ٹرانسپورٹرز کی بدمعاشی، مقامی انتظامیہ کی جانب سے ان کی سر پرستی،ملازمتو ں اور تعلیمی اداروں میں شہری اور دیہی کی ظالمانہ تقسیم یعنی کوٹہ سسٹم اور سرکاری ملازمتوں سے بے دخلی جیسے مسائل مہاجروں کے سامنے تھے۔اہل سندھ کو ریڈ انڈین بن جانے کا خوف بھی لاحق تھا۔ دوسری جانب ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کی اب نئی نسل جوان ہوچکی تھے،انہیں اب اپنے معاشی مسائل کے حل سے زیادہ دلچسپی تھے۔ مذہبی جماعتوں کا موقف تھا کہ ہم علاقائی سیاست کے بجائے ملکی سطح کی سیاست کرنا چاہتے ہیں لیکن ان جماعتوں کی کراچی، حیدرآباد کے علاوہ کہیں مقبولیت ہی نہ تھی۔لہٰذا باقی صوبوں اور اندرون سندھ کے مقابلے میں وہ تنہا تھے،اس پر ستم یہ کہ ان پر مسلط تھی ایک ایسی انتظامیہ اور پولیس جس میں ان کی کوئی سنوائی نہ تھی۔
ادھر، جنرل ضیاء الحق پہلی ہی یہ کہہ چکے تھے کہ کراچی حکومتیں بناتا اورگراتا ہے ،وہ اس مسئلے کا مستقل حل نکالنا چاہتے تھے تاکہ آرام سے حکومت کرتے رہیں ۔ ایک سینئر صحافی نے کراچی کو حزب اختلاف کا دارالحکومت قرار دیا۔اس عرصے میں جی ایم سید مستقل یہ راگ الاپ رہے تھے کہ مہاجر اب ایک حقیقت ہیں لہٰذا اسندھی قوم پرست انہیں تسلیم کریں اور پنجاب کے خلاف اپنی جدوجہد میں انہیں اپنا حلیف بنائیں،لیکن جی ایم سید کا یہ مقصد اس وقت ہی پورا ہوتا جب شہر لسانی بنیادوں پر تقسیم ہوتا۔ اُدہر، اندرون سندھ پہلے ہی پیپلزپارٹی کے اثرات زائل کرنے کے لیے پیرپگار ا اور قوم پرستوں کی سرپرستی کی جارہی تھی اب شہر ی سندھ کو بھی فرقہ وارانہ بنیادوں میں تقسیم کرنے میں ناکامی کے بعد لسانیت کی آگ میں جھونکنے کا فیصلہ کیا گیا ۔اس کے لیے ضروری تھا کہ دینی جماعتوں اور پیپلزپارٹی کا شہر میں اثر و رسوخ ختم کیا جائے ۔مہاجروں کے مسائل تو پہلے ہی موجود تھے،احساس محرومی بھی پروان چڑھ رہا تھا ،بس ضرورت تھی تو ایک لسانی نعرے کی ، ایک رہنما کی سو یہ ضرورت کراچی کے علاقے عزیز آباد کے رہائشی ، رئیس امروہوی، ایس ایس جعفری، مرزا جواد بیگ،اختر رضوی اور شیعہ خطیب علامہ رشید ترابی کی محفلوں اور فیس ٹو فیس اسٹرٹیجکل گفتگو سے فیضیاب ہونے والے رہنما الطاف حسین نے پوری کردی ،جو اے پی ایم ایس او کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کی 1984ء میں بنیاد رکھ چکے تھے۔
ْاسی دوران بشریٰ زید ی کیس ، سانحہ قصبہ کالونی اور حیدر آبادمیں دلخراش واقعات پیش آئے تو شہر میں آباد مختلف قومیتوں کے درمیان باقاعدہ تصادم کاسلسلہ شروع ہوگیا جس نے بدترین لسانی فسادات کی شکل اختیار کرلی ۔ان واقعات نے کراچی اور حیدآباد میں بسنے والی مختلف قومیتوں کے درمیان لسانی تفریق مزید گہری کردی، ہزاروں معصوم جانیں ضائع ہوئیں ۔ اُدھر،مہاجروں کو اب الطاف حسین کی شکل میں ایک ایسا قائد میسر آچکا تھا ،جو ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کررہا تھا ۔ کراچی میں حقوق یا موت!، نعرہ مہاجر جئے مہاجر اور سندھی مہاجر بھائی بھائی ،دھوتی نسوار کہاں سے آئی ؟ شلوار پہنی جاتی ہے،پاجاما پہنا جاتا ہے، جیسے نعرے گونج رہے تھے۔ تاہم سندھی مہاجر رومانس بھی زیادہ عرصے نہ چل سکا اور پنجابی پٹھانوں کے بعد اردوبولنے والوں کا سندھی قوم پرستوں سے بھی خونریز تصادم ہوا ۔اس عرصے میں جب بلدیہ عظمٰی کراچی کے میئر عبدالستار افغانی نے موٹر وہیکل ٹیکس کی آمدنی کراچی کو منتقل کرنے کے حق میں مظاہرہ کیا تو وزیراعلیٰ سندھ غوث علی شاہ نے بلدیہ عظمٰی توڑ کر نئے انتخابات کرائے ،تو اردو بولنے والوں کی اکثریت نے حق پرست گروپ کے حق میں ووٹ دیا یوں میئر کا تاج ایم کیو ایم کے نوجوان رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کے سر سجا۔
وہ شہر جوگزشتہ تین عشروں سے سیاسی تحریکوں کا گڑھ تھا، جس کے باسی رنگ و نسل کی تفریق سے قطع نظر ہرایک کے لیے اپنا دامن وسیع کیے ہوئے تھے، جس میں مہاجر مین اسٹریم سیاست کا جزو اعظم تھے اب لسانیت کی بنیاد پر تقسیم ہوچکا تھا،مہاجروں کے قائد الطاف حسین تھے تو پنجابی پختون اتحاد کی سربراہی ملک غلام سرور اعوان کے پاس تھی ۔غوث علی شاہ ان دنوں نجی محفلوں میں فخریہ یہ قصے سناتے کہ کس کامیابی اور کمال مہارت سے انہوں نے شہرکراچی کوایک مذہبی جماعت کی گرفت سے آزاد کرالیا تھا ۔اب مہاجروں کی قیادت28اور 30سالہ افراد کے پاس تھی۔یہ بلاشبہ ایک انقلاب تھا ،اب اردو بولنے والے نوجوان لڑکے وفاقی اور صوبائی وزیر تھے، ارکان قومی اسمبلی وسینیٹ تھے ۔پولیس ان کے زیر اثر تھی، کالعدم کے ایم سی اور کے ڈی اے ،واٹربورڈ اور بعض دیگر سرکاری اداروں میں ہزاروں کی تعداد میںاردو بولنے والے نوجوانوں کی بھرتیاں ہوئیں۔ شہر قائد حقیقی معنوں میںاب نوجوان مہاجرقیادت کے ہاتھ میںتھا ۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین جلسے کا اعلان کرتے تو لاکھوں افراد دیوانہ وار قائد کا خطاب سننے دوڑے چلے آتے ۔جلد ہی قائد تحریک کی کرامات پتوں اور پودوں پر ظاہرہونے لگیں ،لوگوں نے الطاف حسین کی شبیہ پتوں پر دیکھی تو گویا اسے غیبی مدد سمجھا گیا ،یوں الطاف حسین اب سیاسی تحریک کے قائد بھی تھے
اورسلوک کی منزلیں بھی طے کررہے تھے ۔پیر جی کہلاتے تھے ۔ بلاشبہ یہی وہ سنہری موقع تھا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایم کیوایم کی قیادت اگر دور اندیشی ، کشادہ دلی اور بالغ النظری کا مظاہرہ کرتی توشاید شہر قائد میں بسنے والے تمام قومیتوں اور فرقوں کے افراد پیر صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرلیتے مگر ایسانہ ہوسکا۔پنجابی ،سندھیوں اور پختونوں سے محاذ آرائی تھمی تو شہر میں حقیقی اور مجازی کا جھگڑاکھڑا ہوگیا۔اس بار قتل ہونے والا بھی مہاجر تھا اور قتل کرنے والا بھی مہاجر۔عظیم طارق کا قتل ہوا ایم کیو ایم کے چیئرمین تھے۔لسانیت اور قوم پرستی کے جس جن کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے جے ایم سید کی فلسفے کی روشنی میں بوتل سے آزادکیا تھاوہ اب بے قابو ہوچکا تھا ۔1985ء سے1992تک اردوبولنے والے ، پشتوبولنے والے، پنجابی بولنے والے غرض ہر قومیت اور سیاسی جماعت کے ہزاروں افراد بالادست طبقے کے مفادات کی جنگ کی نذر ہوگئے ۔روشنیوں کا شہر اندھیرں کا شہر بن گیا ،ہزاروں بچے یتیم اور بہنیں بیوہ ہوگئیں، کتنے ہی بزرگوں نے اپنے بڑھاپے کا سہار ا اپنی نوجوان اولاد کو اپنے ہاتھوں سے قبروں میں اتارا۔
ہزاروں شہریوں کو لسانیت کی آگ میں جھونک دینے کے بعد جب بالادست طبقے کو اپنے مفادات بھی جلتے نظر آئے تو شہر میں آپریشن کلین اپ کا فیصلہ ہوا ۔اس کے لیے ضروری تھا کہ مزید ہزاروںنوجوانوں کو جو اب اس کی نظر میں تربیت یافتہ دہشت گردبن چکے تھے جعلی پولیس مقابلوں میں موت کے گھاٹ اتاراجائے ۔پہلے فوجی آپریشن شروع ہوا ، وہ ختم ہوا تو پھر پی پی حکومت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے کمان سنبھالی،اس بار وارنٹ گرفتاری کی ضرورت تھی نہ عدالتی حکم کا انتظار ،پولیس مقابلے شروع ہوئے تو پورا شہر جیسے حالت جنگ میں چلا گیا ۔90ء کی دہائی کی وسط میں روزانہ شہر کراچی میں درجنوں لاشیں گرتیں۔عروس البلاد ، پاکستان کی اقتصادی شہ رگ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا شہر اب بوری بند لاشوںکا شہر بن چکا تھا ۔سرسید، محمد حسین آزاد، مولانا محمد علی جوہر ، لکھنو ، دلی و الہٰ آباد کے معززین اور شرفاء کی اولاد نے اب کن کٹوں ، کمانڈو، کانے، لنگڑے ، پہاڑی ، مادھوری اور چیمبرز کی صورت اور نام اختیار کرلیے تھے ۔شہر کے تعلیمی ادارے تباہ حال اور صنعتیں ٹھپ ہوچکی تھیں ۔کراچی آپریشن ختم ہوا تو پی پی حکومت بھی ختم ہوگئی ۔ نواز شریف ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئے تو صوبے میں ایم کیوایم اتحادی جماعت ٹہری ،مگر پھر بعض معاملات پر اختلافات کے بعد ایم کیوایم صوبائی حکومت سے الگ ہوئی تو صوبے میں گورنر راج لگا دیا گیا اور پھر جلد ہی میاں صاحب کا ہیوی مینڈیٹ بھی فوجی بوٹوں تلے رونددیا گیا۔
(جاری ہے)