بوگس ووٹنگ کا تدارک ناگزیر
وگس ووٹنگ کے خاتمہ کے ضمن میں عدالت عظمیٰ نے 30 لاکھ ووٹ کراچی سے باہر منتقل کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
بدھ کو سپریم کورٹ نے اسلام آباد اور کراچی میں اہم مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے بعض فکر انگیز ریمارکس دیئے۔ بوگس ووٹنگ کے خاتمہ کے ضمن میں عدالت عظمیٰ نے 30 لاکھ ووٹ کراچی سے باہر منتقل کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جب کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ کراچی میں فوج کی مدد لی جائے تو کئی معاملات ٹھیک ہو جائینگے، کراچی پاکستان کا چہرہ ہے، وہاں امن نہ ہو تو معیشت پر اثر پڑے گا،اس لیے الیکشن کمیشن کراچی کی حد تک ڈور ٹو ڈور ووٹرز کی تصدیق دوبارہ کرے، جب کہ ایم کیو ایم نے کراچی میں فوج کی نگرانی میں فہرستوں کی تیاری کی مخالفت کی اور یہ موقف اختیار کیا کہ یہ مشق پورے ملک میں دوہرائی جائے۔
بدھ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت نے کراچی میں انتخابی فہرستوں کی دوبارہ تصدیق سے متعلق جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کی درخواستوں کی سماعت کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ انتخابی فہرستوں کی دوبارہ تصدیق اور غیر متنازعہ حلقہ بندیاںشفاف انتخابات کے لیے ضمانت کی اولین بنیاد ہیں ، جب کہ عدالت نے بتایا کہ گزشتہ انتخابات میں فہرستوں سے دو کروڑ ستر لاکھ ووٹ نکالے گئے ۔الیکشن کمیشن سندھ نے بتایا کہ 32 ہزار281 ووٹ مستقل پتوں پر ٹرانسفر کیے گئے۔تاہم عدالت کو بتایا گیا کہ ایک ایڈریس ایسا ہے جس کے 120 گز کے گھر پر653 لوگوں کے ووٹ رجسٹرڈ ہیں جس پر چیف جسٹس نے بھی اظہار حیرت کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ گھر کسی جن کا ہے؟بلاشبہ ماضی میں ایسے کئی''جن'' نما گھوسٹ ووٹرز کا اندراج ہوا ہے ، مرے ہوئے ووٹرز کے ووٹ ڈالے جاتے رہے۔ دوران سماعت جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ہماری انتخابی تاریخ غلطیوں اور دھاندلیوں سے بھری پڑی ہے، جب کہ چیف جسٹس نے قراردیا کہ جمہوریت اور شفاف الیکشن اس ملک کے مسائل کا واحد حل ہے۔
ان ریمارکس میں در اصل ملک بھر میں آزادانہ اور منصفانہ وفاقی و صوبائی انتخابات پر بادی النظر میں عدلیہ کے غیر متزلزل عزم کا اظہار بھی ہوتا ہے۔اس لیے مقتدر سیاسی جماعتوں کو جو حلقہ بندیوں میں ترامیم ، الیکشن سے قبل ریونیو کے ریکارڈ برائے اراضی میں گھپلوں کی روک تھام اور رینجرزکو اس کے تفتیشی نظام کی درستی کے عدالتی احکامات پر اطمینان ظاہر چاہیے جس کا مقصد ملک میں ایسا پرامن انتخابی ماحول پیدا کرنا ہے جس میں کسی کو دھاندلی اور جعلسازی کی شکایت نہ ہو۔دریں اثنا سپریم کورٹ نے ایک اور مقدمے میں سندھ کے قریباً آٹھ سو دیہات کی زمین کے مالکانہ حقوق کی منتقلی پر پابندی بھی یقیناً اسی تناظر میںعائد کی ہے تاکہ بیوروکریسی کسی دبائو میں نہ آسکے۔چنانچہ امید کی جانی چاہیے کہ منصفانہ انتخابات کے لیے مصدقہ انتخابی فہرستوں اور حلقہ بندیوں میں جائز تبدیلیوں سمیت دیگر امور پر عدالتی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے عظیم اتفاق رائے کی بنیاد رکھی جائیگی۔
بدھ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت نے کراچی میں انتخابی فہرستوں کی دوبارہ تصدیق سے متعلق جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کی درخواستوں کی سماعت کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ انتخابی فہرستوں کی دوبارہ تصدیق اور غیر متنازعہ حلقہ بندیاںشفاف انتخابات کے لیے ضمانت کی اولین بنیاد ہیں ، جب کہ عدالت نے بتایا کہ گزشتہ انتخابات میں فہرستوں سے دو کروڑ ستر لاکھ ووٹ نکالے گئے ۔الیکشن کمیشن سندھ نے بتایا کہ 32 ہزار281 ووٹ مستقل پتوں پر ٹرانسفر کیے گئے۔تاہم عدالت کو بتایا گیا کہ ایک ایڈریس ایسا ہے جس کے 120 گز کے گھر پر653 لوگوں کے ووٹ رجسٹرڈ ہیں جس پر چیف جسٹس نے بھی اظہار حیرت کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ گھر کسی جن کا ہے؟بلاشبہ ماضی میں ایسے کئی''جن'' نما گھوسٹ ووٹرز کا اندراج ہوا ہے ، مرے ہوئے ووٹرز کے ووٹ ڈالے جاتے رہے۔ دوران سماعت جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ہماری انتخابی تاریخ غلطیوں اور دھاندلیوں سے بھری پڑی ہے، جب کہ چیف جسٹس نے قراردیا کہ جمہوریت اور شفاف الیکشن اس ملک کے مسائل کا واحد حل ہے۔
ان ریمارکس میں در اصل ملک بھر میں آزادانہ اور منصفانہ وفاقی و صوبائی انتخابات پر بادی النظر میں عدلیہ کے غیر متزلزل عزم کا اظہار بھی ہوتا ہے۔اس لیے مقتدر سیاسی جماعتوں کو جو حلقہ بندیوں میں ترامیم ، الیکشن سے قبل ریونیو کے ریکارڈ برائے اراضی میں گھپلوں کی روک تھام اور رینجرزکو اس کے تفتیشی نظام کی درستی کے عدالتی احکامات پر اطمینان ظاہر چاہیے جس کا مقصد ملک میں ایسا پرامن انتخابی ماحول پیدا کرنا ہے جس میں کسی کو دھاندلی اور جعلسازی کی شکایت نہ ہو۔دریں اثنا سپریم کورٹ نے ایک اور مقدمے میں سندھ کے قریباً آٹھ سو دیہات کی زمین کے مالکانہ حقوق کی منتقلی پر پابندی بھی یقیناً اسی تناظر میںعائد کی ہے تاکہ بیوروکریسی کسی دبائو میں نہ آسکے۔چنانچہ امید کی جانی چاہیے کہ منصفانہ انتخابات کے لیے مصدقہ انتخابی فہرستوں اور حلقہ بندیوں میں جائز تبدیلیوں سمیت دیگر امور پر عدالتی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے عظیم اتفاق رائے کی بنیاد رکھی جائیگی۔