پاک امریکا انٹیلی جنس روابط
افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد جنم لینے والی دہشت گردی نے افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔
افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد وہاں سے جنم لینے والی دہشت گردی نے افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ امریکا نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے انٹیلی جنس کا نظام قائم کیا جس میں اسے کسی حد تک کامیابی بھی ہوئی مگر وہ دہشت گردی کے اس عفریت پر قابو پانے میں ناکام رہا اور اسے بھاری جانی و مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔اس جنگ میں پاکستان نے امریکا سے تعاون کیا ،نتیجتاً پاکستان کو بھی بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
جس کا اعتراف امریکا نے بھی بارہا کیا ۔ پاکستان میں نئے نامزد امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے ایک بار پھر اعتراف کیا ہے کہ امریکا کو دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا احساس ہے۔ امریکا کو بخوبی ادراک ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اس مقصد کے لیے پاکستان' امریکا اور افغانستان کے درمیان انٹیلی جنس روابط قائم ہیں۔اس کے باوجود سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کا افسوسناک واقعہ رونما ہوا جس کے بعد پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں شدید تنائو آ گیا۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان انٹیلی جنس رابطے بحال کرنے کے سلسلے میں بارہا مذاکرات ہوئے جس سے تعلقات میں بہتری آنے لگی۔ اب وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان عسکری اور انٹیلی جنس روابط مکمل طور پر بحال ہو چکے ہیں۔
یہ خوش آیند امر ہے مگر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کامیابی کے حصول کے لیے معلومات کا تبادلہ درست ہونا ضروری ہے۔ امریکا اور نیٹو افغان انٹیلی جنس کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات پر بلا تحقیق یقین کرنے اور کسی کارروائی سے قبل پاکستان کو اعتماد میں لے ورنہ غلط معلومات پر اٹھایا گیا کوئی بھی قدم دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں پھر سے دراڑ پیدا کر سکتا ہے۔ مزید برآں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحتی عمل کو فروغ دینے کے لیے پاکستان نے چند طالبان قیدیوں کی رہائی پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ پاکستان افغانستان سمیت پورے خطے میں قیام امن کے لیے مخلصانہ کردار ادا کر رہا ہے۔
کابل میں جنم لینے والا عدم استحکام پاکستان پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ دہشت گردی نے پاکستان کے لیے بھی شدید مسائل پیدا کیے ہیں۔ اس لیے پاکستان خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن تعاون کر رہا ہے۔ اب بحال ہونے والے پاک امریکا عسکری انٹیلی جنس روابط اسی صورت فروغ پا سکتے ہیں جب فریقین کے درمیان درست معلومات کا تبادلہ اور باہمی اعتماد ہو۔ امریکا کو کوئی بھی اقدام کرنے سے قبل پاکستان کے مفاد کا خیال رکھنا ہوگا ورنہ طاقت کے زعم میں ہٹ دھرمی یا غلط فیصلہ اس خطے کے امن کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
جس کا اعتراف امریکا نے بھی بارہا کیا ۔ پاکستان میں نئے نامزد امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے ایک بار پھر اعتراف کیا ہے کہ امریکا کو دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا احساس ہے۔ امریکا کو بخوبی ادراک ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اس مقصد کے لیے پاکستان' امریکا اور افغانستان کے درمیان انٹیلی جنس روابط قائم ہیں۔اس کے باوجود سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کا افسوسناک واقعہ رونما ہوا جس کے بعد پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں شدید تنائو آ گیا۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان انٹیلی جنس رابطے بحال کرنے کے سلسلے میں بارہا مذاکرات ہوئے جس سے تعلقات میں بہتری آنے لگی۔ اب وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان عسکری اور انٹیلی جنس روابط مکمل طور پر بحال ہو چکے ہیں۔
یہ خوش آیند امر ہے مگر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کامیابی کے حصول کے لیے معلومات کا تبادلہ درست ہونا ضروری ہے۔ امریکا اور نیٹو افغان انٹیلی جنس کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات پر بلا تحقیق یقین کرنے اور کسی کارروائی سے قبل پاکستان کو اعتماد میں لے ورنہ غلط معلومات پر اٹھایا گیا کوئی بھی قدم دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں پھر سے دراڑ پیدا کر سکتا ہے۔ مزید برآں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحتی عمل کو فروغ دینے کے لیے پاکستان نے چند طالبان قیدیوں کی رہائی پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ پاکستان افغانستان سمیت پورے خطے میں قیام امن کے لیے مخلصانہ کردار ادا کر رہا ہے۔
کابل میں جنم لینے والا عدم استحکام پاکستان پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ دہشت گردی نے پاکستان کے لیے بھی شدید مسائل پیدا کیے ہیں۔ اس لیے پاکستان خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن تعاون کر رہا ہے۔ اب بحال ہونے والے پاک امریکا عسکری انٹیلی جنس روابط اسی صورت فروغ پا سکتے ہیں جب فریقین کے درمیان درست معلومات کا تبادلہ اور باہمی اعتماد ہو۔ امریکا کو کوئی بھی اقدام کرنے سے قبل پاکستان کے مفاد کا خیال رکھنا ہوگا ورنہ طاقت کے زعم میں ہٹ دھرمی یا غلط فیصلہ اس خطے کے امن کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔