اتفاق رائے سے پہلو تہی کرنے والا بھارت
منموہن سنگھ حکومت مختلف نکتہ ہائے نظر کو قبول کرنے کے بجائے لوک سبھا میں اپنی اکثریت پیدا کرنے کی کوشش میں رہتی ہے ۔
بھارت کا سیاسی منظر نامہ دن بدن بگڑتا جا رہا ہے۔ ادارے اپنی ساکھ کھو رہے ہیں جب کہ سیاسی پارٹیاں اپنی جگہ بنانے کی خاطر نظام پر پورا پورا دبائو ڈال رہی ہیں، اس کے اثرات پارلیمنٹ میں صاف دیکھے جا سکتے ہیں جہاں حکومت اپنی برتری قائم رکھنے کی کوشش میں ہے جب کہ اپوزیشن بیتابی کا اظہار کر رہی ہے۔ عوام نہ صرف مایوس ہو رہے ہیں بلکہ عدم تحفظ کا بھی شکار ہیں کیونکہ ناقص حکمرانی کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے جس کے اثرات اقتصادی ترقی اور عمومی سماجی حالات پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
اگر عام انتخابات وقت سے پہلے منعقد ہو جائیں تو ایک نیا آغاز ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ لوک سبھا کے پاس پانچ سال کی نئی مدت ہو گی اس طرح از سر نو حالات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پارٹیوں کو ووٹروں کے مزاج کا اندازہ ہو گیا ہے جو اب ووٹ کی طاقت سے اپنا انتقام لیں گے۔ کون سی پارٹی اور کون امیدوار اسمبلی دوبارہ انتخاب جیت کر آئے گا اس کا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے البتہ موجودہ اراکین اسمبلی بخوبی جانتے ہیں کہ ان میں سے تھوڑے ہی واپس آئیں گے۔ اگرچہ اپوزیشن بہت جھنجھلائی ہوئی ہے مگر بے بس ہے۔ چنانچہ یہ اپنی باقی ماندہ ایک سال چار ماہ کی مدت کے لیے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔
یہی وجہ ہے کہ منموہن سنگھ حکومت کے خلاف مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کی تحریک عدم اعتماد کو بحث کے لیے منظوری کی خاطر 50 اراکین کی حمایت بھی حاصل نہ ہو سکی۔ اس حوالے سے ممتا کا یہ خیال درست ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں حکومت کے خلاف محض شور مچا رہی ہیں، ان کا مقصد حکومت کو گرانا ہر گز نہیں ہے لیکن پارٹی کو تحریک التوا پیش کرنے سے پہلے ہی معلوم تھا کہ اس کی حمایت کوئی نہیں کرے گا، اس حوالے سے ان کی جمع تفریق بہت اچھی ہے۔ انھیں پتہ تھا کہ 545 رکنی ایوان میں 273 اراکین کی حمایت کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ گویا انھوں نے کانگریس پارٹی کو خواہ مخواہ کی فتح کا احساس دلا دیا ہے۔ ایف ڈی آئی (براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری) کا مسئلہ اس بنا پر لٹک گیا ہے کیونکہ دونوں بڑی پارٹیاں کانگریس اور بی جے پی ایک دوسرے کو برداشت ہی نہیں کر سکتیں۔ بی جے پی تو حکومت کے ہر انتظامی حکم کو چیلنج کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے مگر اس کے مضمرات پر غور نہیں کرتی۔
منموہن سنگھ حکومت کی شکل یہ ہے کہ وہ مختلف نکتہ ہائے نظر کو قبول کرنے کے بجائے ہر وقت لوک سبھا میں اپنی اکثریت پیدا کرنے کی کوشش میں رہتی ہے۔ جن گروپوں کی وہ حمایت حاصل کرتی ہے اس کے لیے انھیں قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قومی مفاد پر سمجھوتے کرتی ہے۔ اور یہ صورتحال منموہن سنگھ حکومت کو روز اول سے ہی درپیش ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت جو انتخابات میں واضح اکثریت حاصل نہیں کرتی اسے اسی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بی جے پی کو بھی اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہوتا تھا تب اس کی پوری کوشش یہی ہوتی تھی کہ اس کے حامی مطمئن رہیں تا کہ وہ اقتدار میں قائم رہ سکے۔
مجھے اس بات کی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ آخر ایک حکمران پارٹی ملک کے اہم معاملات کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی خاطر دوسری جماعتوں سے بات کرنے سے کیوں ہچکچاتی ہے حالانکہ کئی مسائل دوسروں کی مدد کے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔ خواہ یہ ایف ڈی آئی کا معاملہ ہو یا ایٹمی پلانٹوں کی تنصیب کا معاملہ جن پر دونوں پارٹیوں کے موقف میں بہت واضح فرق ہے۔ ایک جمہوری سیاست میں منتخب حکومت عوامی رائے کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتی۔ بسا اوقات حکومت کو اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے کوئی پیش کش مسترد بھی کرنا پڑتی ہے۔ بی جے پی نے حکومت کو بتایا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں زیر التواء بعض مسودات قانون کے سلسلے میں حکومت کی حمایت کرنے پر تیار ہے لیکن حکومت خود اس پر آمادہ نہیں ہوئی کیونکہ پارٹی کے اندر بھی مخالفین موجود ہیں۔
جب میں ماضی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے اولین وزیراعظم جواہر لعل نہرو اکثر معاملات پر اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے گو کہ اس میں ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتے تھے۔ مثال کے طور پر جب 50ء کی دہائی میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی کا مسئلہ پہلی بار اٹھا تو انھوں نے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ گویند بالاج پنت کو خط لکھا کہ ''اسٹیٹس کو'' میں خلل اندازی نہ کی جائے۔ اس زمانے میں مسلمان بابری مسجد میں نمازیں ادا کر رہے تھے حالانکہ بعض ہندو انتہا پسند عناصر فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ نہرو کو اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی چنانچہ مسجد کو تالا لگا دیا گیا تا کہ دونوں کمیونٹیاں اسے استعمال نہ کر سکیں۔
نہرو کے بعد اتفاق رائے پیدا کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ مسز اندرا گاندھی ایسی شخصیت ہی نہیں تھیں جو کسی مسئلے میں کوئی درمیانی راستہ اختیار کرنے کی بات بھی کرتیں۔ ان کے لیے سیاہ اور سفید بس دو ہی رنگ تھے ان دونوں کے ملانے سے بننے والا خاکستری رنگ ان کے ذہن میں نہیں تھا۔ جو حکومتیں اندرا کے بعد وجود میں آئیں وہ مخلوط حکومتیں تھیں۔ زیادہ تر کا بڑا مقصد فوری طور پر مال کمانا ہی تھا۔ ان میں افہام و تفہیم سے کسی اتفاق رائے پر پہنچنے کا صبر ہی نہیں تھا۔ چندر شیکھر بدترین مثال ہیں۔ اپنی حکومت کے 40 دنوں میں وزیروں نے اس سے کہیں زیادہ دولت سمیٹ لی جتنی کہ اس سے پہلے کے 40 سال میں نہیں کمائی گئی تھی۔
وزیراعظم وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کی سفارشات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی سرے سے کوئی کوشش ہی نہ کی جن میں دوسرے پسماندہ طبقات (او بی سی) کے لیے ملازمتوں وغیرہ میں کوٹہ مخصوص کرنے بات کہی گئی تھی، حالانکہ دلت لوگوں کے لیے یہ سفارش مان لی گئی تھی۔ مسز گاندھی نے پہلے ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ او بی سی کے لیے کوٹہ مخصوص کرنے پر کوئی اتفاق رائے نہ ہو سکے گا لہٰذا انھوں نے منڈل کمیشن کی سفارشات کو پہلے ہی طاق نسیاں پر رکھ دیا۔ لیکن وی پی سنگھ نے اس میں اپنا سیاسی مفاد دیکھا لہذا ان سفارشات کو نافذ کر دیا حالانکہ اسے یہ بھی علم تھا کہ اس معاملے میں ان کی حکومت تقسیم ہو جائے گی۔ یہ ایک سیاسی لڑائی تھی جسے مسٹر سنگھ نے سوچا کہ اسے لڑنا ہی چاہیے کیونکہ ان کے حریف ڈپٹی وزیراعظم دیوی لال نے اپنا پانسہ پھینک دیا تھا جسے اب وی پی سنگھ نے ہی اٹھانا تھا۔
موجودہ منظر نامہ اس قدر مایوس کن ہے کہ کسی اتفاق رائے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا حالانکہ وزیراعظم منموہن سنگھ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ملک کی ترقی کا انحصار ہی افہام و تفہیم اور اتفاق رائے پر ہے۔ بی جے پی ہمہ وقت لڑائی کے موڈ میں رہتی ہے۔ وہ کانگریس کے اس قدر خلاف ہے کہ ایسے حربے اختیار کرنے سے بھی باز نہیں رہتی جو ملک کے مفاد کے خلاف ہوں۔ اس پارٹی نے پچھلی دفعہ پارلیمنٹ کا پورا سیشن منجمد کر دیا تھا تا کہ ساری توجہ کرپشن پر مرکوز کی جا سکے لیکن احتجاج کے سامنے پوری قوم کو تو یرغمال نہیں بنایا جا سکتا جیسا کہ بی جے پی نے کیا۔ ایک ڈیبیٹ کے ذریعے تمام نکات قوم کے سامنے رکھے جا سکتے تھے۔
سیاسی پارٹیوں کی آنکھیں سیاسی مفادات پر لگی ہیں لہذا وہ مخالفت سے باز نہیں آ سکتیں اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ موجود رہتی ہے کہ ملک کو بعض اہم معاملات میں اتفاق رائے کی اشد ضرورت ہے۔ بھارت کسی جنگ میں پھنسا ہوا نہیں ہے اس کے باوجود ملک کو درپیش چیلنج بہت سخت ہیں... یعنی ملک کو غریبی کی اس دلدل سے کس طرح نکالا جائے جس میں کہ یہ دھنستا چلا جا رہا ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
اگر عام انتخابات وقت سے پہلے منعقد ہو جائیں تو ایک نیا آغاز ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ لوک سبھا کے پاس پانچ سال کی نئی مدت ہو گی اس طرح از سر نو حالات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پارٹیوں کو ووٹروں کے مزاج کا اندازہ ہو گیا ہے جو اب ووٹ کی طاقت سے اپنا انتقام لیں گے۔ کون سی پارٹی اور کون امیدوار اسمبلی دوبارہ انتخاب جیت کر آئے گا اس کا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے البتہ موجودہ اراکین اسمبلی بخوبی جانتے ہیں کہ ان میں سے تھوڑے ہی واپس آئیں گے۔ اگرچہ اپوزیشن بہت جھنجھلائی ہوئی ہے مگر بے بس ہے۔ چنانچہ یہ اپنی باقی ماندہ ایک سال چار ماہ کی مدت کے لیے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔
یہی وجہ ہے کہ منموہن سنگھ حکومت کے خلاف مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کی تحریک عدم اعتماد کو بحث کے لیے منظوری کی خاطر 50 اراکین کی حمایت بھی حاصل نہ ہو سکی۔ اس حوالے سے ممتا کا یہ خیال درست ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں حکومت کے خلاف محض شور مچا رہی ہیں، ان کا مقصد حکومت کو گرانا ہر گز نہیں ہے لیکن پارٹی کو تحریک التوا پیش کرنے سے پہلے ہی معلوم تھا کہ اس کی حمایت کوئی نہیں کرے گا، اس حوالے سے ان کی جمع تفریق بہت اچھی ہے۔ انھیں پتہ تھا کہ 545 رکنی ایوان میں 273 اراکین کی حمایت کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ گویا انھوں نے کانگریس پارٹی کو خواہ مخواہ کی فتح کا احساس دلا دیا ہے۔ ایف ڈی آئی (براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری) کا مسئلہ اس بنا پر لٹک گیا ہے کیونکہ دونوں بڑی پارٹیاں کانگریس اور بی جے پی ایک دوسرے کو برداشت ہی نہیں کر سکتیں۔ بی جے پی تو حکومت کے ہر انتظامی حکم کو چیلنج کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے مگر اس کے مضمرات پر غور نہیں کرتی۔
منموہن سنگھ حکومت کی شکل یہ ہے کہ وہ مختلف نکتہ ہائے نظر کو قبول کرنے کے بجائے ہر وقت لوک سبھا میں اپنی اکثریت پیدا کرنے کی کوشش میں رہتی ہے۔ جن گروپوں کی وہ حمایت حاصل کرتی ہے اس کے لیے انھیں قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قومی مفاد پر سمجھوتے کرتی ہے۔ اور یہ صورتحال منموہن سنگھ حکومت کو روز اول سے ہی درپیش ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت جو انتخابات میں واضح اکثریت حاصل نہیں کرتی اسے اسی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بی جے پی کو بھی اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہوتا تھا تب اس کی پوری کوشش یہی ہوتی تھی کہ اس کے حامی مطمئن رہیں تا کہ وہ اقتدار میں قائم رہ سکے۔
مجھے اس بات کی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ آخر ایک حکمران پارٹی ملک کے اہم معاملات کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی خاطر دوسری جماعتوں سے بات کرنے سے کیوں ہچکچاتی ہے حالانکہ کئی مسائل دوسروں کی مدد کے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔ خواہ یہ ایف ڈی آئی کا معاملہ ہو یا ایٹمی پلانٹوں کی تنصیب کا معاملہ جن پر دونوں پارٹیوں کے موقف میں بہت واضح فرق ہے۔ ایک جمہوری سیاست میں منتخب حکومت عوامی رائے کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتی۔ بسا اوقات حکومت کو اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے کوئی پیش کش مسترد بھی کرنا پڑتی ہے۔ بی جے پی نے حکومت کو بتایا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں زیر التواء بعض مسودات قانون کے سلسلے میں حکومت کی حمایت کرنے پر تیار ہے لیکن حکومت خود اس پر آمادہ نہیں ہوئی کیونکہ پارٹی کے اندر بھی مخالفین موجود ہیں۔
جب میں ماضی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے اولین وزیراعظم جواہر لعل نہرو اکثر معاملات پر اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے گو کہ اس میں ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتے تھے۔ مثال کے طور پر جب 50ء کی دہائی میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی کا مسئلہ پہلی بار اٹھا تو انھوں نے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ گویند بالاج پنت کو خط لکھا کہ ''اسٹیٹس کو'' میں خلل اندازی نہ کی جائے۔ اس زمانے میں مسلمان بابری مسجد میں نمازیں ادا کر رہے تھے حالانکہ بعض ہندو انتہا پسند عناصر فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ نہرو کو اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی چنانچہ مسجد کو تالا لگا دیا گیا تا کہ دونوں کمیونٹیاں اسے استعمال نہ کر سکیں۔
نہرو کے بعد اتفاق رائے پیدا کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ مسز اندرا گاندھی ایسی شخصیت ہی نہیں تھیں جو کسی مسئلے میں کوئی درمیانی راستہ اختیار کرنے کی بات بھی کرتیں۔ ان کے لیے سیاہ اور سفید بس دو ہی رنگ تھے ان دونوں کے ملانے سے بننے والا خاکستری رنگ ان کے ذہن میں نہیں تھا۔ جو حکومتیں اندرا کے بعد وجود میں آئیں وہ مخلوط حکومتیں تھیں۔ زیادہ تر کا بڑا مقصد فوری طور پر مال کمانا ہی تھا۔ ان میں افہام و تفہیم سے کسی اتفاق رائے پر پہنچنے کا صبر ہی نہیں تھا۔ چندر شیکھر بدترین مثال ہیں۔ اپنی حکومت کے 40 دنوں میں وزیروں نے اس سے کہیں زیادہ دولت سمیٹ لی جتنی کہ اس سے پہلے کے 40 سال میں نہیں کمائی گئی تھی۔
وزیراعظم وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کی سفارشات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی سرے سے کوئی کوشش ہی نہ کی جن میں دوسرے پسماندہ طبقات (او بی سی) کے لیے ملازمتوں وغیرہ میں کوٹہ مخصوص کرنے بات کہی گئی تھی، حالانکہ دلت لوگوں کے لیے یہ سفارش مان لی گئی تھی۔ مسز گاندھی نے پہلے ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ او بی سی کے لیے کوٹہ مخصوص کرنے پر کوئی اتفاق رائے نہ ہو سکے گا لہٰذا انھوں نے منڈل کمیشن کی سفارشات کو پہلے ہی طاق نسیاں پر رکھ دیا۔ لیکن وی پی سنگھ نے اس میں اپنا سیاسی مفاد دیکھا لہذا ان سفارشات کو نافذ کر دیا حالانکہ اسے یہ بھی علم تھا کہ اس معاملے میں ان کی حکومت تقسیم ہو جائے گی۔ یہ ایک سیاسی لڑائی تھی جسے مسٹر سنگھ نے سوچا کہ اسے لڑنا ہی چاہیے کیونکہ ان کے حریف ڈپٹی وزیراعظم دیوی لال نے اپنا پانسہ پھینک دیا تھا جسے اب وی پی سنگھ نے ہی اٹھانا تھا۔
موجودہ منظر نامہ اس قدر مایوس کن ہے کہ کسی اتفاق رائے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا حالانکہ وزیراعظم منموہن سنگھ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ملک کی ترقی کا انحصار ہی افہام و تفہیم اور اتفاق رائے پر ہے۔ بی جے پی ہمہ وقت لڑائی کے موڈ میں رہتی ہے۔ وہ کانگریس کے اس قدر خلاف ہے کہ ایسے حربے اختیار کرنے سے بھی باز نہیں رہتی جو ملک کے مفاد کے خلاف ہوں۔ اس پارٹی نے پچھلی دفعہ پارلیمنٹ کا پورا سیشن منجمد کر دیا تھا تا کہ ساری توجہ کرپشن پر مرکوز کی جا سکے لیکن احتجاج کے سامنے پوری قوم کو تو یرغمال نہیں بنایا جا سکتا جیسا کہ بی جے پی نے کیا۔ ایک ڈیبیٹ کے ذریعے تمام نکات قوم کے سامنے رکھے جا سکتے تھے۔
سیاسی پارٹیوں کی آنکھیں سیاسی مفادات پر لگی ہیں لہذا وہ مخالفت سے باز نہیں آ سکتیں اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ موجود رہتی ہے کہ ملک کو بعض اہم معاملات میں اتفاق رائے کی اشد ضرورت ہے۔ بھارت کسی جنگ میں پھنسا ہوا نہیں ہے اس کے باوجود ملک کو درپیش چیلنج بہت سخت ہیں... یعنی ملک کو غریبی کی اس دلدل سے کس طرح نکالا جائے جس میں کہ یہ دھنستا چلا جا رہا ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)