پرانی باتیں چھوڑیں… سسٹم بنائیں
ہمارا ماضی گواہ ہے کہ آج تک کہیں سے کرپشن کیا ہوا پیسہ واپس نہیں لایا جا سکا
ایک طرف ترکی کا ایشو ہے اور دوسری طرف کشمیر کا ۔ سوچ رہا ہوں کس پہ لکھوں لیکن ان دونوں سے ہٹ کر ایک ایسا ایشو بھی ہے جسے ماضی کی طرح اس بار بھی یہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ شاید اس بار حکمران سوئس بینکوں سے رقوم کو واپس لانے کے لیے سنجیدہ ہیں لیکن ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ حکمران اپنی ہی دولت ملک میں لانے کے لیے تیار ہوجائیں۔
گزشتہ دنوں حکومت کی جانب سے سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی دولت کا سراغ لگانے کے معاہدے کے لیے کوششوں کا آغاز کیا گیا، آپ کو پیشگی بتاتاچلوںکہ ماضی کی طرح اب بھی یہی ہو گا کہ قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ ہوں گے کہ فلاں ابن فلاں اور فلاں ابن فلاں اب سوئس حکومت سے مذاکرات کے لیے جا رہے ہیں، وہاں اتنے پیسے فلاں مد میں دیے جائیں گے ، اتنے پیسے لاء فرم کو دیے جائیں اور اتنے پیسے ٹیکس کی مد وغیرہ میں، اتنی دیر میں حکومت اپنی مدت پوری کر چکی ہوگی اور پھر نئی حکومت اپنی پالیسیاں واضع کرے گی کہ آیا سوئس بینکوں سے رقم لانی بھی ہے یا نہیں یا مزید جمع کرانی ہے...!
گزشتہ دنوں سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں پاکستان اور سوئس ٹیکس ا تھارٹی کے درمیان بینک کھاتوں کی معلومات کے تبادلے کے معاہدے پر مذاکرات ہوئے،اس معاہدے کے تحت پاکستانی حکومت کو سوئس عدالتوں میں پہلے ہر فرد کے لیے الگ الگ انفرادی حیثیت میں ثابت کرنا ہوگا کہ اس نے یہ رقم ٹیکس چوری یا دیگر غیر قانونی ذرایع سے کما کر سوئٹزر لینڈ میں منتقل کی ہے، عدالتیں مطمئن ہوئیں تو پاکستان کو سوئٹزر لینڈ منتقل کی گئی دولت پر واجب الادا ٹیکس کی مالیت کے برابر رقم واپس ہوسکے گی۔ ہر کیس میں یہ مراحل طویل عدالتی کارروائی کے بعد مکمل ہو سکیں گے تاہم پاکستان کو سوئس بینکوں میں موجود کھاتوں کے بارے میں معلومات دستیاب ہونے کی صورت میں حکومت ان افراد سے پاکستان کے اندر آمدن کے ذرایع پوچھنے ، اخراجات اور واجب الادا ٹیکس کے بارے میں کارروائی عمل میں لا سکے گی۔
اب بندہ یہ پوچھے کہ آمدن کے ذرایع کون پوچھے اور کون بتائے؟ یہاں پہلے ہی پانامہ کولے کر اتنے رولے ہیں کہ خدا کی پناہ، ایسی صورت میں کیسے ممکن ہوگا کہ سوئس بینکوں سے پاکستانی سیاستدانوں کے دو سو ارب ڈالر پاکستان لائے جائیں۔اس لیے مشورہ مفت ہے کہ صرف ایسا سسٹم بنادیں کہ آیندہ کوئی کرپشن نہ کرے، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یقین مانیں ان پیسوںکو لانے کے لیے بھی اربوں روپے کی کرپشن کی جائے گی اور نت نئے کرپٹ لوگ پیدا ہوں گے۔ چند ماہ قبل ایک انگریز صحافی نے پاکستان کے سابق ڈکٹیٹر کرپشن کا انکشاف کرکے ہم جیسے دل جلوں کے تجزیات و انکشافات کو تقویت پہنچائی۔
ہمارا ماضی گواہ ہے کہ آج تک کہیں سے کرپشن کیا ہوا پیسہ واپس نہیں لایا جا سکا ۔ اُلٹا رقوم اس حوالے سے ضایع کی گئی ہیں۔ یہ نظام ہی ایسا ہے کہ اس ملک پر جسے بھی حاکم بنا کر بٹھا دیا جائے ''مقدس گائے'' اور بیورو کریسی کے خلاف ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ پاکستانی عوام نہایت غریب اور حکمران امیرہیں ہمارے ''غریب پرور ''حکمرانوں اور سیاستدانوں کے 140لاکھ کروڑ سوئس بینکوں میں جمع ہیں اگر یہ ساری دولت پاکستان آجائے تو بغیر ٹیکس لگائے30 سال تک بجٹ دیا جا سکتا ہے اور حکومت کو ایک بھی چیز پر ٹیکس نہیں لگا نا پڑے گا ،سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہماری عوام کے ''خیر خواہ ''حکمرانوں کے پیسوں سے 6کروڑ لوگوں کو ملازمتیں دی جا سکتی ہیں اور پاکستان کے کسی بھی گاؤں سے 4لین کی سڑک بنا کر اسلام آباد تک پہنچا ئی جا سکتی ہے۔
ہم ان کا احتساب کیوں کریں جنہوں نے مستقبل میں بھی ہمارا حاکم بننا ہے۔ ایسا کرنے سے تو وہ شخص 'برا'مان جائے گا۔ ہمیں تو آصف زرداری، نواز شریف اور عمران خان سے گزارہ کرنا ہے ، لوگوں کے بس میں نہیں کہ وہ لیڈر بدل سکیں۔ کوئی ہے جو بلاول بھٹو زرداری حمزہ شہباز یا مریم نواز کا متبادل ثابت ہوسکے یا ان کے مقابل کھڑا ہوسکے۔ انھی کے دیے ہوئے نظام میں ہم نے چلنا ہے اور یہ وہ نظام ہے جس میں ملک بھر میں انسپکٹروں کے اثاثے چیک کرلیے جائیں تو سر چکرانے لگے گا۔ انسپکٹر پولیس کا ہویا ایکسائز کا فوڈ کا ہو یا لیبر کا، الیکٹریسٹی کا ہو یا سینٹری کا، انکم ٹیکس کا ہو یا کسٹم کا، اختیارات کے بل پر جس پر چاہے ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ گریڈ 11 کے انسپکٹر کئی کئی پلازوں اور کوٹھیوں کے مالک کیسے بن گئے؟ اس سسٹم میں چھوٹی عدالتوں کا حال سب پر عیاں ہے، ٹاؤٹوں نے کتنا ادھم مچا رکھا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ تحقیقاتی کمیشن بننے کے بعد وسائل اور ذرایع کی لوٹ مار اور قبضہ گیری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گی ۔
کوئی بھی ادارہ کسی بھی بڑے کا کیا بگاڑ سکے ہیں؟ کیا لوٹی ہوئی رقم واپس لائی جاسکی ہے؟ کیا اسحاق ڈار سارے نان فائلرز کو فائلرز بنا سکے ہیں؟ اب تو کرپشن کے حمام میں جو ننگا نہیں اسے ڈھونڈ کر سامنے لانا ہوگا۔ پاکستان میں کمشنوں کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی کمیشن کی سفارشات پر کبھی عمل نہیں ہوا، کسی بھی کمیشن کے قیام سے حکومت کاپیسہ اور وقت برباد ہوتا ہے جس کی کسی کو پروا نہیں، ہرسال اسٹیٹ بینک، آڈیٹر جنرل اور وفاقی محتسب کی رپوٹوں کو صدر مملکت کے روبرو پیش کیا جاتا ہے ، ان کو پڑھتا کون ہے؟ بجٹ دستاویزات کے بنڈل پارلیمنٹ میں ہر میز پر سجا دیے جاتے ہیں لیکن انھیں پڑھتا کون ہے؟ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ کدھر گئی؟ پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کی رپورٹیں کہاں ہیں؟ اگر وزیراعظم نواز شریف کے تمام اثاثوں کی تفصیلات انکم ٹیکس کے گوشواروں کی صورت میں ڈکلیئرڈ ہیں تو پھر شور کیوں مچا ہوا ہے؟ پہلی بار ٹیکس ڈائریکٹری شایع ہوئی لیکن دوسری بار شایع نہ ہوسکی۔ عوام کے منتخب نمایندوں کے اثاثوں کی تفصیلات تین سال پرانی ہیں، دولت مندوں کی دولت بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی، اب تک تو اثاثوں میں اضافہ ضرور ہوا ہوگا۔
باہر سے پیسے لانے کا نعرہ دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں ہے، اس لیے مزید پرائز بانڈ سیاستدان پیدا کرنے کے بجائے ایسا چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم وضع کردیا جائے جس میں سے سب اسکین ہو کر نکلیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ان سیاستدانوں کے اثاثوں کو ملک میں لانے کے لیے پہلے بھی کئی بار ''کوششیں ''کی جاتی رہی ہیں لیکن اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور نہ ہی آیندہ نکل سکتا ہے کیوں کہ حکمرانوں کا اپنا سرمایہ بھی وہیں جمع ہے ، اس لیے بندہ ناچیز کا مشورہ ہے کہ اب پرانی باتوں پر مٹی ڈالیں اور نئی باتوں کا سوچیںاور چیک اینڈ بیلنس کا نیا نظام متعارف کرائیں جس پر سب سیاستدان متفق ہوں۔