جب تک ملک میں غربت ہے
ذرا غور کیجیے کیا موبائل فون سے پہلے بچے تین تین اور چار چار بجے تک جاگتے تھے؟
ہمارے بیش قیمت اورنادر وزیر داخلہ رحمٰن ملک بڑی خوبیوں کے مالک ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں کشف کی دولت سے مالا مال کیا ہے، صرف کرامات ظاہر ہونا باقی ہیں، بے چارے جب بھی ''ملک اور قوم کے مفاد میں'' کوئی حکم صادر کرتے ہیں، تو لوگ بلاوجہ ہی انھیں تنقید کا نشانہ بنانے لگتے ہیں، جب کہ وزیرداخلہ خود جانتے ہیں کہ وہ اس ملک اور یہاں کے عوام سے کس قدر مخلص ہیں؟ ان کے صبر اور برداشت کی داد دینی پڑے گی کہ خواہ میڈیا ان کی مخالفت پر اُتر آئے، خود ان کے اپنے وزراء انھیں تنقید کا نشانہ بناتے رہیں۔
لیکن ان کے ماتھے پر شکن نہیں آتی، حزب اختلاف کا تو ذکر ہی کیا، کہ اگر رحمٰن ملک نہ ہوتے تو بھلا کون انھیں اتنی شدید تنقید کا موقع دیتا؟ لیکن ایک جوہر شناس شخصیت ایسی ضرور ہے جو ان کی خفیہ صلاحیتوں سے واقف ہے، اسی لیے وہ آج تک وزیر داخلہ ہیں، وہ شخصیت ہے آصف زرداری کی، یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ایسے موقعوں پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے کہ ''جسے پیا چاہے، وہی سہاگن'' بلکہ ہمارے وزیر داخلہ ہیں ہی اتنے قابل اور باکمال کہ بہت سے دہشت گردوں کی کارروائیوں اور ان کی کمین گاہوں کا انھیں فوراً پتہ چل جاتا ہے اور وہ واردات کے چند منٹ بعد ہی ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوکر اپنی اہمیت مسلم کروالیتے ہیں۔
اب آٹھ، نو اور دس محرّم کو موبائل فون اور موٹرسائیکل پر پابندی لگا کر انھوں نے جس طرح خطرات کو ٹال دیا وہ اپنی مثال آپ ہے، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ سارے فساد اور عذاب کی جڑ موبائل فون ہے؟ اب یہی دیکھ لیجیے کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان میں موبائل فون بند نہ ہونے کی وجہ سے بم دھماکے میں آٹھ معصوم بچوں سمیت نو افراد جاں بحق ہوگئے اور بارہ بچوں سمیت 37 افراد زخمی ہوئے، آخر کیوں وہاں موبائل سروس بحال تھی؟ جب کہ کراچی اور لاہور سے زیادہ خطرہ تو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں تھا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سرحد کے ان علاقوں میں جہاں طالبان کا اثرورسوخ مقامی افراد میں بوجوہ زیادہ ہے، وہاں تو محرّم کے پورے دس دن موبائل فون بند رکھنے چاہیے تھے، اب اعتراض کرنے والے دیکھ لیں کہ ان کا اعتراض بجا تھا یا رحمٰن ملک کی حکمتِ عملی؟ کیا ہی اچھا ہو کہ موبائل فون ہمیشہ کے لیے بند کردیا جائے۔
ذرا غور کیجیے کیا موبائل فون سے پہلے بچے تین تین اور چار چار بجے تک جاگتے تھے؟ پارکوں، پیزا اور برگر شاپس اور ہوٹلوں میں نوجوان جوڑے اتنی کثیر تعداد میں پائے جاتے تھے؟ تعلیمی اداروں خصوصاً کالجوں میں کلاسیں اتنی خالی رہتی تھیں، جتنی کہ آج کل ہیں؟ لڑکیاں اپنے مرد دوستوں سے باتیں کرنے اور ملاقاتیں کرنے کے لیے غلط راستے استعمال کرتی تھیں؟ بیشتر مشہور بیوٹی پارلرز کا ''اصل کاروبار'' موبائل فون کی بدولت آج بلند ترین گراف پر ہے، لیکن موبائل فون سے پہلے انٹرنیٹ نے بھی بڑی تباہی مچائی تھی، جگہ جگہ کھلنے والے انٹرنیٹ کیفے دراصل فحاشی کے اڈے تھے، جہاں بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں غلطی اور لاپرواہی کی وجہ سے پھنس جاتے تھے، اور بعض شوقیہ۔۔۔۔! تو پھر انٹرنیٹ پر بھی پابندی لگنی چاہیے، یہی نہیں لینڈ لائن فون بھی بند ہونے چاہئیں کہ کبھی یہی اللہ مارا لینڈ لائن راندۂ درگاہ ہے، لیکن سچ پوچھیے تو جو تسکین اور اطمینان لینڈ لائن پر بات کرکے ہوتی ہے، وہ موبائل پر نہیں، زیادہ تر تو سگنل ہی نہیں ملتے، یا بات کرتے کرتے لائن ڈراپ ہوجاتی ہے، یا آواز واضح نہیں سنائی دیتی، موبائل فون پر بندش سے اتنا فائدہ تو ضرور ہوگا کہ اب دوبارہ لینڈ لائن فون نظر آنے لگیں گے۔
لیکن ہم یہ تو ضرور کہیں گے وزیر داخلہ سے، کہ کیا موبائل فون سے پہلے پاکستان میں کبھی کوئی دہشت گردی یا واردات نہیں ہوئی؟ اور ساتھ ہی انھیں یہ مخلصانہ مشورہ بھی دیں گے کہ اگر آپ واقعی امن قائم کرنے اور دہشت گردی کی وارداتیں ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو لوگوں کا گھروں سے نکلنا بند کردیجیے۔ ''نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری''۔ اب بے چارے امن و امان اور انسانی جانوں کے خطرے کے پیشِ نظر یہ حکم تو دے نہیں سکتے کہ مجالس محرّم صرف اور صرف امام بارگاہوں کے اندر منعقد کی جائیں، اسی طرح ماہ ربیع الاوّل میں عید میلاد النبی کی محافل بھی گھروں اور مسجدوں میں ہوں، تاکہ انسانی جانوں کا زیاں نہ ہو، کیونکہ سارا خطرہ سڑکوں پر نکلنے والے جلوسوں اور اس کے شرکاء ہی کو ہوتا ہے، لپیٹ میں آس پاس کے گھر، بازار بھی نشانہ بن جاتے ہیں، لیکن بے چارے رحمٰن ملک کی یہ بات کون مانے گا؟ مذہب جو لوگوں کو جوڑتا ہے وہی بعض اوقات ایسے فتنوں کو بھی جنم دے دیتا ہے جن کی پیاس انسانی خون سے بجھتی ہے، بعض اوقات بین المذاہب مکالمہ نہ ہونے سے بھی مسائل پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے، کیونکہ ہر فرقے میں اور ہر مذہب میں انتہا پسند ہوتے ہیں، جیسے بال ٹھاکرے، اجمل قصاب اور اس کے منصوبہ ساز۔ لیکن ان کی تعداد ہمیشہ کم ہوتی ہے ۔ ہر باشعور انسان امن پسند ہوتا ہے۔
تعصب اور انتہا پسندی سے گریز کرتا ہے۔ہمارے شیعہ اور سنی علمائے کرام جن کی بات لوگ مانتے ہیں اور جو امن و بھائی چارے پر یقین رکھتے ہیں، انھیں حکومت ایک میز پر بٹھائے اور ان کے سامنے اگر یہ تجویز رکھے کہ جلسے جلوسوں سے شہریوں کی جان و مال کو خطرات لاحق ہوتے ہیں، شہر بند ہوجاتا ہے، نہ ایمبولینس جاسکتی ہے، نہ کوئی سفر کرسکتا ہے، خاص کر وہ لوگ جن کے پاس اپنی ذاتی ٹرانسپورٹ نہیں ہے، وہ ایک ایسی اذیت کا شکار ہوتے ہیں، جس کا بیان ممکن نہیں، کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں کہلائے گا جب تک وہ اپنے ہی جیسے دوسرے مسلمان کا خیال نہ کرے۔ ارشاد نبویؐ ہے کہ ''جس کو مسلمان کا غم نہ ہو، وہ میری امّت میں سے نہیں'' کسی حکومت نے اب تک سوچا ہی نہیں کہ دونوں ملکوں کے اہم بردبار، پُرخلوص اور سچے علمائے کرام سے اس مسئلے میں مدد لی جائے۔ بھلا کون بھلا مانس اور سچا مسلمان ہوگا جو اس سے اختلاف کرے گا کہ سب سے افضل انسانی جان اور اس کی حفاظت ہے اور اس کے لیے اگر کوئی تکلیف بھی اٹھانی پڑے تو اعلیٰ ترین انسان وہ تکلیف خود اٹھا لیتا ہے، نیک، ایماندار اور صلح جُو انسان ہمیشہ دوسروں کے بھلے کے لیے سوچتا ہے نہ کہ انھیں خون میں نہلانے اور انھیں مصیبت میں مبتلا کرنے کے لیے۔
جہاں تک موبائل فون کی بندش کا سوال ہے، تو یہ کسی طرح بھی مسئلے کا حل نہیں، کیونکہ ہمارا اصل مسئلہ ہے، انتہا پسندی، غربت اور جہالت۔ انھی تینوں کی زیادتی اور فراوانی کے سبب خودکش بمبار پیدا ہوتے ہیں، غرب کی گود میں پروردہ بچے جنھیں دو وقت کی روٹی نصیب نہیں، وہ جب اپنے ہی ہم عمر بچوں کو لمبی لمبی گاڑیوں میں گھومتے، آئس کریم کھاتے، اسکول جاتے اور زندگی کے تمام مزے لوٹتے دیکھتے ہیں، تو ان کے دماغ اور دل نفرت سے بھر جاتے ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ یہی ہیں جنہوں نے ان کے حصے کا رزق چھین کر اپنے کتّوں کا پیٹ بھرا ہے، پھر اسی نفرت کو طالبان اور انتہا پسند کیش کراتے ہیں، ان کے دماغوں کو اپنی نفرتوں اور حسد کے شکنجوں میں بند کر دیتے ہیں، ان کی آنکھوں پر نفرت کی عینک لگا دیتے ہیں اور پھر انھیں صرف قرآنی آیات رٹواتے ہیں اور ان کا مطلب وہ بتاتے ہیں جو ان کے منصوبوں میں درکار ہوتا ہے۔
کئی سال کی ریاضت کے بعد جب وہ بچے مکمل دہشت گرد اور خودکش بمبار بن جاتے ہیں تو انھیں تباہ کاری کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایک طرف بچپن کی نفرت، دوسری طرف انتہا پسندوں کا پڑھایا ہوا سبق، لمحوں میں کبھی مسجدیں اُڑ جاتی ہیں، کبھی ممبئی کا تاج ہوٹل اور کبھی مزار... تو رحمٰن ملک صاحب! جب تک ملک میں سے غربت اور جہالت دور نہیں ہوگی، انتہا پسند پیدا ہوتے رہیں گے، ملک پر حکومت کرنے والے جب تک اپنے خزانے بھرتے رہیں گے اور الیکشن کے وقت چلے ہوئے ناکارہ کارتوس دوبارہ پرانی بندوقوں میں بھرنے کے لیے تیار ہوں گے، دہشت گردی ہوتی رہے گی، لوگ مرتے رہیں گے، جنازے اٹھتے رہیں گے، کہرام مچتا رہے گا۔