خلافت عثمانیہ کی یاد میں
اسلامی تاریخ کا ذوق رکھنے والوں کے لیے یہ کل کی بات ہے کہ استنبول کا شہر ان کی یادوں اور خوابوں کا شہر تھا
اسلامی تاریخ کا ذوق رکھنے والوں کے لیے یہ کل کی بات ہے کہ استنبول کا شہر ان کی یادوں اور خوابوں کا شہر تھا جہاں ان کی عثمانی خلافت کا پرچم پانچ چھ سو برس تک لہراتا رہا اور ایک دنیا پر سایہ فگن رہا۔ مغربی طاقتوں کو اتنی بڑی اسلامی حکومت اور اس قدر پھیلتا ہوا اقتدار ناقابل برداشت تھا۔ یہ ایک درد ناک کہانی ہے کہ مسیحی مغربی طاقتوں نے استنبول جیسے خوبصورت شہر سے حکمرانی کرنے والی اس حکومت کو بالآخر ختم کر دیا اور استنبول کی خواتین کے پاس صرف وہ زیورات نشانی کے طور پر باقی رہ گئے جو دنیا بھر کی مسلمان خواتین نے ان کی محبت اور مدد کے لیے تحفے میں بھجوائے تھے۔
ان زیورات میں ایک بڑی مقدار ان زیورات کی بھی تھی جو ہندوستان کی مسلم خواتین نے تحریک خلافت کے دوران ترکوں کو تحفہ میں بھجوائے تھے کہ ان کو بیچ کر اپنی جنگ اور جہاد جاری رکھیں۔ ترکی کی بزرگ خواتین کے پاس یہ زیورات اب تک محفوظ ہیں جو انھیں بے حد عزیز ہیں اور جن کی قیمت دنیا کے مال میں ادا نہیں کی جا سکتی۔ جب کوئی سیاح ہندوستان سے ترکی جاتا تو یہ خواتین کبھی بڑے فخر کے ساتھ اسے یہ تحفے دکھاتیں اور ان کے آنسوؤں کی سوغات لے کر یہ سیاح واپس ہندوستان آتے جو خلافت عثمانیہ کی تحریک کا مرکز تھا اور جس تحریک کی یادیں اب تک زندہ ہیں۔
آپ کو تعجب ہو گا کہ ہندو لیڈر گاندھی بھی تحریک خلافت میں شامل تھا اور بات یہ تھی کہ یہ تحریک برطانوی سامراج سے نجات کی تحریک تھی اور گاندھی جی سامراج کی مخالف تحریک کے لیڈر تھے۔ میں استنبول یا قسطنطنیہ کو حافظے سے ذرا جھٹک کر آج کے ترکی بات کر رہا ہوں جہاں کے مسلمانوں نے اپنی ناپسندیدہ حکومت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور دنیا نے اسے بغاوت کا نام دیا ہے جس میں کئی جرنیل اور اعلیٰ ترین سول افسر برطرف کیے گئے ہیں۔ میرے لیے ایک مسلمان ملک کے عوام سے اس بغاوت کی توقع نہ تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ترکی میں ابھی تک ماضی کی آزادی کا کوئی کیڑا زندہ ہے جو اس قوم کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیتا اور اس کے دماغ میں کلبلاتا رہتا ہے۔
ترکی محض ایک ملک نہیں تھا یہ عالم اسلام کی ایک زندہ حقیقت تھی جو مغرب نے بڑی ہی محنت اور قربانی کے ساتھ ختم کی تھی اور جو اس کے وجود کے لیے ایک خطرہ تھی۔ یہ ایک تاریخ ہے کہ خلافت عثمانی کو ختم کرنے کے لیے کیا کچھ کیا گیا اور مغربی دنیا نے کتنی قربانی اور حکمت عملی کے ساتھ اس خلافت کو ختم کیا جو اگر زندہ رہتی تو مغربی دنیا کے لیے زندہ رہنا آسان نہ رہتا۔ عثمانی خلافت کی ایک طویل تاریخ ہے جو کوئی چھ سو برس تک دنیا پر حکمرانی کرتی رہی۔ بڑے بڑے نامور اور بلند پایہ حکمران اس خلافت کے نگران رہے اور وہ زمانہ تاریخ کو اچھی طرح یاد ہے جب مغربی ملکوں کے شاہی خانوادے نیا بادشاہ مقرر کرنے کے لیے عثمانی خلیفہ کی منظوری کا انتظار کیا کرتے تھے۔
سلطان سلیمان عالی شاہ کا یہ ارشاد دنیا کو یاد ہے کہ جہاں میرے گھوڑے کے قدم پڑ جاتے ہیں وہ جگہ میری حکومت میں شامل ہو جاتی ہے اور حقیقت بھی ایسی ہی تھی۔ عثمانی سپاہ جس طرف کا رخ کر لیتی وہ علاقہ عثمانی خلافت کا علاقہ تسلیم کر لیا جاتا کیونکہ جو طاقت عثمانی خلافت کے پاس تھی وہ کسی کے پاس نہیں تھی اور عثمانی لشکر کا مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔
بوڑھے سلطان سلیمان کو یہ رنج رہا کہ وہ آسٹریا فتح نہ کر سکا جس کی راہ میں ایک تو اس کی عمر حائل ہو گئی دوسرا سخت ترین سرد موسم جو عثمانی لشکر کے لیے ناقابل برداشت تھا اور اس موسم میں جنگ نہیں کی جا سکتی تھی اگر بعض جرنیلوں کی ہمت یہ تھی کہ سلطان اجازت دیں تو وہ یہ معرکا بھی سر کر لیں لیکن سلیمان نے ان کی بات کو درست تسلیم نہ کیا اور اسے ایک جذباتی فیصلہ قرار دیا اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ آسٹریا والوں نے اپنے ملک کی سرحد پر ایک سپاہی کو مُکّہ تانے دکھایا جو اب تک سنا ہے کہ موجود ہے اور یہ مُکّہ گویا عثمانی حکومت کے لیے تھا کہ خبردار اگر آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی۔ بہرکیف تاریخ میں ایسے لطیفے بہت ہیں۔
خلافت عثمانیہ جس نے دنیا فتح کر لی تھی اس کے لیے ایک چھوٹا سا یورپی ملک کیا تھا لیکن سلطان سلیمان عمر بھر اپنے بڑھاپے اور سخت موسم پر نالاں رہا۔ موسم بہتر ہوا تو سلطان کو حملے کا مشورہ دیا گیا لیکن اس نے یہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بہرکیف یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک خوش قسمتی سے عثمانی سپاہ کی توپوں کی گھن گرج سے بچا رہا اور وہ وقت کی فوجی سپر پاور سے بچ جانے کا جشن اب تک مناتا ہے اور واقعہ یہی ہے کہ وہ عثمانی سپاہ سے بچ نکلا تھا مگر ترکی کی ناپسندیدہ حکومت نہ بچ سکی اور اسے جمہوریت سے شکست ہو گئی۔