مٹھائی بانٹنے کی بات جانے دیں

چند دن پہلے جب استنبول اور انقرہ سے فوجی بغاوت کی خبریں آنی شروع ہوئیں تو صدمہ ہوا

zahedahina@gmail.com

چند دن پہلے جب استنبول اور انقرہ سے فوجی بغاوت کی خبریں آنی شروع ہوئیں تو صدمہ ہوا۔ طیب اردوان یقینی طور پر ایک سخت گیر حکمران ہیں۔ وہ جمہوری طور پر دوبار منتخب ہوئے ہیں، ترک جمہوریہ پر ان کے حکومت کرنے کے طور طریقوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ جمہوریت پسند ہونے کی بنا پر جب مقابلہ سکیولر فوجیوں اور جمہوری حکمرانوں کے درمیان ہو تو وہ آمروں کی نسبت کتنے ہی قدامت پسند ہوں اس کے باوجود ہم اپنا وزن جمہوری حکومت کے پلڑے میں ڈالیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جمہوری حکومت کو ووٹ کی طاقت سے ہٹایا جاسکتا ہے جب کہ فوجی آمریت سے نجات کے راستے پر نوجوانوں کے خون کا چھڑکاؤ ہوتا ہے۔

پاکستان کے لاکھوں گھرانوں میں اس رات ٹیلی وژن اسکرین روشن رہے اور لوگ لمحہ بہ لمحہ اس فوجی بغاوت کے مناظر دیکھتے رہے۔ ہم نے ترک نوجوانوں کو ٹینکوں کے سامنے سینہ سپر ہوتے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ عوام نے سپاہیوں اور افسروں کو ٹینکوں کے اندر سے گھسیٹ کرنکال لیا۔ ہماری نگاہوں کے لیے یہ ناقابل یقین منظر تھے ۔ اپنے یہاں تو ہم نے یہی دیکھا کہ جب بھی آمریت اپنے پنجے تیزکرتی ہماری جمہوریت پر اتری تو کچھ لوگوں نے اس کی مزاحمت کے بجائے شاہراہوں پر مٹھائی تقسیم کی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ عوام کی اکثریت منتخب حکومت کے خلاف تھی، بلکہ کچھ خودغرض اور مفاد پرست سیاستدان ایسے تھے جو انتخاب کے ذریعے برسر اقتدار نہیں آسکتے تھے لیکن کسی بھی فوجی آمر کے سایۂ عاطفت میں حکومت کا ذائقہ ضرور چکھ سکتے تھے۔

ان ہی کے مصاحبین اور ملازمین مٹھائیوں کے ٹوکرے لے کر چوک میں کھڑے ہوجاتے اور لڈو تقسیم کرتے۔ اخباروں میں یہ تصویریں شایع ہو جاتیں اور آمروں کے طفیلی یہی کہتے کہ عوام منتخب حکمرانوں سے عاجز آ چکے تھے اس لیے وہ جرنیلوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہمارے یہاں جمہوریت دشمنی کا وہ عالم ہے کہ عین اس وقت جب استنبول کی سڑکوں پر عوام اور باغی فوجیوں سے دست بدست لڑائی ہورہی تھی، ہمارے یہاں فوجی حکمرانوں کو اقتدار پر قبضے کی دعوت دی جارہی تھی اور کھمبوں پر چار رنگ کے پوسٹرآویزاں کیے جارہے تھے۔ جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، اس وقت وزارت عظمیٰ کے عہدے پرفائز ہونے کے خواہش مند ایک نامدار کھلاڑی اور سیاست میں اناڑی کی یہ تقریر نظر سے گزری ہے کہ پاکستان میں اگرکوئی طالع آزما اقتدار پر قبضے کے لیے آئے تو عوام اس کا استقبال کریں گے، مٹھائیاں تقسیم کریں گے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ کسی طالع آزما کی آمد کے بعد وزارت عظمیٰ کے ان کے خواب کا کیا ہوگا اور اس بیان کے بعد وہ لوگوں میں ووٹ مانگنے کس منہ سے جائیں گے۔ اس بارے میں اگلی سطروں میں تفصیل سے لکھوں گی لیکن ترکی میں فوجی انقلابات کی بات کرتے ہوئے یہ تاریخی حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے ہی خلافت عثمانیہ مضحمل اور زوال پذیر تھی۔ ترکی کو سب ہی ' یورپ کا مرد بیمار' کہتے تھے۔ ایک ایسے زمانے میں جب مغربی طاقتیں رہے سہے ترکی کا تیا پانچا کرنے والی تھیں، یہ ترک فوج کے نوجوان افسر تھے جنہوں نے مصطفیٰ کمال اور دوسرے فوجی افسروں کی سرکردگی میں 1919ء سے 1922ء تک قیامت خیز جنگ آزادی لڑی۔ قوم پرست فوجی جوان مصطفیٰ کمال کی قیادت میں آگے بڑھے۔ انھوں نے سلطان عبدالمجید کو معزول کیا اور 1923ء میں جمہوریہ ترکی کا اعلان ہوا، مصطفیٰ کمال نے اس کے پہلے صدر کا عہدہ سنبھالا اور ترکی میں ایک سکیولر آئینی جمہوریت قائم ہوئی۔

صنعتی اور زرعی طور پر ترکی کبھی ترقی اور کبھی زوال کے مرحلوں سے گذرا ہے۔ اس دوران ترک افواج اور عوام کے درمیان کشمکش ہوتی رہی ہے۔ جمہوری طاقتیں ایک ایسے ترکی کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتی ہیں جہاں آئینی اور قانونی اصولوں کی حکمرانی ہو۔ وہ اس کے خواہش مند ہیں کہ ان کا ملک سکیولر بنیادوں پر مستحکم ہو لیکن اس دوران سکیولر نعروں کے ساتھ آنے والے سیاستدان اپنے وعدوں پر پورے نہیں اتر سکے اور عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی۔ حکمرانوں کی نا اہلی اور ناقص طرز حکمرانی کو بنیاد بنا کر اب تک ترکی میں تین فوجی انقلاب آچکے ہیں۔ 1960ء سے 1980ء تک کئی کامیاب فوجی انقلاب ترکی میں رونما ہوئے، 1960 ء میں صدر جمہوریہ جلال بایا راوروزیراعظم عدنان مندریس کی حکومت کا تختہ الٹ کر فوج بر سراقتدار آئی اور اس نے ان دونوں نامی گرامی سیاستدانوں کو نااہل اور بدعنوان قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 1970ء میں ایک بار پھر فوج نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹا۔ وزیراعظم سلیمان ڈیمرل اپنے عہد سے سبکدوش کیے گئے اور بہت سے اہلکاروں کو سخت سزائیں دی گئیں۔

جولائی 2016 ء میں راتوں رات سر اٹھانے والی بغاوت چند گھنٹوں کے اندر کچل دی گئی اور طیب اردوان نے یہ ثابت کیا کہ انھوں نے منتخب ہونے کے بعد صرف مذہبی سر بلندی کے لیے ہی کام نہیں کیا ہے بلکہ زوال پذیر ترک معیشت کو مستحکم بنیادوں پر قائم کیا ہے اور ملک میں انفراسٹرکچر کی تعمیرکے لیے بھی ان کی پارٹی کی خدمات شاندار رہی ہیں۔


ترکی میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اردوان نے عوامی قوت سے اس بغاوت کو کچل دیا ہے اس بغاوت کی ناکامی کا ایک سبب یہ ہے کہ اس کی درست طور پر تیاری نہیں کی گئی تھی اور اندرون خانہ فوج بھی تقسیم تھی۔ فوج کی تقسیم کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اس کے سمجھدار اور زمانہ شناس جرنیل یہ جانتے تھے کہ دنیا میں فوجی آمریتوں کا زمانہ رخصت ہوچکا اور آنے والے دنوں میں ہر جگہ جمہوریت کی ہی عملداری ہوگی۔

اس تناظر میں دیکھیے تو ان پاکستانی سیاسی رہنما کا دوبارہ ذکر کیے بغیر چارہ نہیں جن کی جماعت کو عوام نے مختصر ترین مدت میں پاکستان میں دوسرا سب سے بڑا ووٹ بینک رکھنے والی جماعت بنادیا۔ محترم رہنما کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صورتحال مختلف ہے۔ یہاں فوج آئی تو لوگ مٹھائیاں تقسیم کریں گے۔ کیا دوسرا سب سے بڑا ووٹ بینک رکھنے والی جماعت کے سربراہ کو ایسا بیان دینا چاہیے تھا؟ کیا اس طرح ان ووٹروں کی توہین نہیں کی گئی ہے جنہوں نے جمہوری عمل کے دوران اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے ان کی جماعت کے حق میں ووٹ ڈالے تھے؟ جمہوری نظام میں انتخابات کے ذریعے عوام اپنا مینڈیٹ دیتے ہیں۔ اس کا احترام کرنا آئین اور قانون کے مطابق سب پر لازم ہے۔ دوسرا بڑا ووٹ بینک رکھنے والا سیاستدان جب اقتدار میں آنے کے لیے مارشل لا کا سہارا لینے لگے تو پھر ہم اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کو کیا دوش دے سکتے ہیں۔

پاکستان کا ایک المیہ رہا ہے اور یہ المیہ بڑا منفرد ہے۔ ملک میں چار مرتبہ مارشل لا نافذ کیا گیا۔ ہر بار اپوزیشن نے مارشل لاء کی حمایت کی اور فوجی آمروں کی آمد پر مٹھائیاں تقسیم کرائیں۔ لیکن ہر بار کیا ہوا؟ اپوزیشن کی جن سیاسی جماعتوں نے مارشل لا کی حمایت کی تھی ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ انفرادی طور پر چند محبوب سیاستدانوں کو نواز دیا گیا۔ جمہوریت مخالف سیاستدانوں کو یکجا کرکے کنگز پارٹی بنائی گئی اور طویل مدت تک حکومتیں کی گئیں۔

اب دنیا تیزی سے بدل رہی ہے لہٰذا مٹھائی بانٹنے والے سیاستدان بے روزگار بیٹھے ہیں۔ جب ایوب خان نے پہلا ملک گیر مارشل لا لگایا تھا تو یہ وہ دور تھا جب ہر طرف فوجی آمر اقتدار پر قبضہ کررہے تھے۔ جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگایا تو اس وقت دو تہائی دنیا میں فوجی اور شخصی آمریتیں اور بادشاہتیں ہوا کرتی تھیں۔ صرف ایک تہائی دنیا اس ''اعزاز'' سے محروم تھی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جب جنرل پرویز مشرف آئے تو ان کا خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ دنیا سرد جنگ کے خاتمے کے اثرات سے باہر نکلنا شروع ہوئی تھی۔ اسی دور میں 9/11 کا واقعہ ہوگیا اور موصوف کو ایک نئی زندگی مل گئی۔ آج دنیا کی صورتحال کیا ہے؟ آپ اپنے ذہن پر زور ڈالیں تو شاید چند ہی ایسے ملکوں کے نام گنوا سکیں گے کہ جہاں اس وقت فوجی آمریت قائم ہے۔ مزید تفصیل کے لیے آپ کو گوگل کے سرچ انجن پر جانا پڑے گا۔

سیاسی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو درست بات بتائیں۔ انھیں ایسے ماضی میں لے جانے کی باتیں نہ کریں جہاں جانا اب کسی کے لیے ممکن نہیں۔ کسی نے اگر ایسا کر بھی لیا تو تباہی ، بربادی اور عالمی تنہائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ یہ سبق عام کرنے کی ضرورت ہے کہ بدترین جمہوریت، بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں نکھار اور بہتری آتی چلی جاتی ہے جیسا کہ دنیا کے ہر جمہوری ملک میں ہوا ہے۔ جمہوریت کا صرف ایک متبادل ہے اور وہ بہتر جمہوریت ہے۔ بہتر جمہوریت مارشل لا کے ذریعے نہیں بلکہ جمہوری عمل کے تسلسل کے ذریعے آتی ہے۔

لہٰذا مٹھائی بانٹنے کی باتیں چھوڑیں ، عوام پر اعتماد کریں اور ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت سے سبق لیں۔
Load Next Story