قندیل کا قاتل کون
ہر قتل پر چند دن کے لیے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں شور اٹھتا ہے اور پھر زندگی پرانی ڈگر پر چلنے لگتی ہے۔
ISLAMABAD:
چارلس نیپئر برطانوی ہند کا نامور جنرل تھا' اس گورے جرنیل نے سندھ فتح کیا اور وہ بمبئی پریذیڈنسی کا گورنر رہا' ہندوستان میں جب برطانوی راج نے ستی کی رسم پر پابندی لگائی تو اس پر بہت شور مچا' ہندوستان کے ہندوؤں نے اس پابندی کو اپنے مذہب اور روایات میں مداخلت سے تعبیر کیا۔برطانوی ہند کی تاریخ میں ہندو پنڈتوں اور ٹھاکروں کے ساتھ چارلس نیپئرکا ایک مکالمہ بہت مشہور ہوا ہے۔میں اس کو اپنے لفظوں میں بیان کررہا ہوں۔
پنڈتوں اور ٹھاکروں کے ایک وفد نے چارلس نیپئر سے ملاقات کی اور اسے بتایا ،'' ستی کی رسم ہندو مذہب کا حصہ اور اس دیس کی قدیم پرنپرا(روایت) ہے' آپ اس پر پابندی نہیں لگا سکتے کیونکہ اپنے مذہب اور روایات پر عمل کرنا ہر شخص کا حق ہے''۔ اس پر چارلس نیپئر نے کیا خوب جواب دیا' وہ آپ بھی پڑھ لیں۔اس نے کہا ،''ٹھیک ہے' یہ آپ کی صدیوں پرانی روایت ہے تو کوئی بات نہیں 'آپ اس پر عمل کرتے رہیں لیکن میں آپ کو اپنی قوم کی قدیم روایت کے بارے میں بھی آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ ہماری قوم کی صدیوں پرانی روایت ہے کہ جو لوگ خواتین کو زندہ جلا دیتے ہیں' ہم ان سب کو پھانسی پر لٹکا کران کی جائیدادیں ضبط کر لیتے ہیں' آپ اپنی روایت پر عمل کرتے رہیں' ہم اپنی روایت پر عمل کرتے رہیں گے''۔ہندوستان کی روایات کے امین پنڈتوں اور ٹھاکروں کو جواب مل چکا تھا' اس کے بعد ہندوستان میں بیوہ خواتین کو خاوند کی ارتھی پر بٹھا کر زندہ جلانے کی کسی کو جرات نہیں ہوئی۔
یوں اس ظالمانہ اور غیرانسانی رسم کا خاتمہ ہو گیا۔اس رسم یا روایت کی جڑیں اس قدر گہری تھیں کہ مہاراجہ رنجیت کی ارتھی کے ساتھ اس کی کئی رانیوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا' اس زمانے کے انگریز سفارت کاروں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اوراسے قلمبند بھی کیا' اسے پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن اس رسم کے اسیر لوگ اس خوفناک اور دل دہلا دینے والے منظر کو بڑے سکون سے دیکھتے رہے ۔پنجاب میں انگریز راج قائم ہونے کے بعد یہاں بھی یہ رسم ختم ہو گئی۔
ہندوستان میں آج اگر کسی ہندو سے ستی کی رسم کے بارے میں پوچھیں تو وہ یہی جواب دے گا کہ اس کا ہندو مت سے کوئی تعلق نہیں۔ آج کی نوجوان نسل تو شاید یقین بھی نہ کرے کہ ان کے آباؤ اجداد ایسے وحشیانہ طرز عمل کو مذہب کا درجہ دیتے رہے ہیں'لیکن یہ حقیقت ہے کہ قدیم عہد کی ہندو اشرافیہ نے اس رسم کو دل و جان سے اپنا رکھا تھا ۔ہندو پنڈتوں نے اسے مذہبی تقدس عطا کر دیاتھا۔ سارے قبیلے کے سامنے زندہ اور صحت مند بیوہ عورت کو سیکڑوں من لکڑی سے تیار کی گئی ارتھی پر بٹھا دیا جاتا تھا' پنڈت اشلوک پڑھتے تھے ۔
پھر لکڑیوں پر تیل ڈال کر آگ لگا دی جاتی تھی۔چند لمحوں میں زندگی موت میں ڈھل جاتی، اس کے بعد ستی ہونے والی خاتون کو دیوی قرار دے کر اس کی پوجا کی جاتی۔ یوں ہندو مذہب اور اس قبیلے کی جس سے آنجہانی اور ستی ہونے والی خواتین کا تعلق ہوتا تھا' اس کی جے جے کار ہو جاتی۔ایسے وحشیانہ مناظر تو شاید رومنوں نے بھی نہیں دیکھے ہوں گے' وہاں اگر کسی قیدی کو بھوکے شیر کے سامنے چھوڑا جاتا تھا تو کم از کم وہ اس سے کچھ دیر مقابلہ تو کر سکتا تھا ' کئی مقابلوں میں غلاموں اور قیدیوں نے شیر کو ہلاک بھی کیا ' گو یہ بھی وحشی معاشرے کی ظالمانہ روایت تھی لیکن اس میں کسی حد تک آزادی بھی تھی لیکن ہندوستان میں تو بیوہ عورت چپ چاپ ارتھی پر بیٹھ جاتی اور چند لمحوں میں جل کر خاکستر ہوجاتی تھی۔سچی بات ہے' میں تو ایسی کہانیاں پڑھ کر آبدیدہ ہو جاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ انسان اتنا ظالم اور پتھر دل کیسے ہو جاتا ہے کہ ایک زندہ انسان بلکہ اپنے بھائی یا بہن کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیتا ہے اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں آتے۔ رسم و روایت اس قدر طاقت ور ہوتی ہے کہ اس کے اسیروں کو اپنوں کا خون بہا کر بھی ذہنی آسودگی ملتی ہے اور اس عمل کو عقیدے کی سپورٹ بھی حاصل ہو تو آگ دوآتشہ ہوجاتی ہے۔
مجھے تاریخ کے اوراق پر درج چارلس نیپئر سے منسوب واقعہ قندیل بلوچ کے قتل پر پیش کیے گئے اس کے بھائی کے جواز سے یاد آیا۔ قندیل کے بھائی نے میڈیا کے سامنے کہا کہ اس نے یہ قتل غیرت میں آ کر کیا ہے۔
میں اس معاملے پر مزید کوئی بات نہیں کروں گا کیونکہ یہ روایات ، عزت اور غیرت کے معاملات ہیں'ویسے بھی اس پر بہت کچھ کہا جا رہا ہے لہٰذا چپ ہی بھلی ہے تاہم میں سمجھتا ہوں کہ قندیل' اس کا بھائی اور اس کا خاندان سب اس پسماندہ اور فرسودہ سماجی نظام اور اس کی پیدا کردہ روایات کے غلام ہیں جس کے گارڈین سردار' وڈیرے اورچودھری ہیں۔ مذہبی طبقہ اس نظام کو نظریاتی غذا فراہم کرنے والا انجن ہے۔
میں اور آپ بھی اس نظام کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں' جلتے ہیں' کڑھتے ہیں اور پھر خاموش ہو جاتے ہیں' زیادہ سے زیادہ قلم پکڑ کر سفید کاغذ پر چند آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کر اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن ایسے سماج تبدیل نہیں ہوتے۔اس کے لیے ریاستی طاقت ، امورمملکت اور رموز مملکت کی باریکیوں سے آگاہ ریاستی مشینری کی ضرورت ہے۔ جب تک ان دونوں طبقوں کو چارلس نیپئر جیسا دلیر اور باشعور ریاستی نمایندہ نکیل نہیں ڈالتا' غیرت کے نام پر قتل ہوتے رہیں گے' سوارہ ، ونی اور کاروکاری کی رسوم جاری رہیں گی۔
پاکستان کا 70فیصد سماجی ڈھانچہ قبائلی اور نیم قبائلی زرعی معاشرت اور روایات کا حامل ہے' یہاں کا عالم اور دانشور بھی انھی روایات کا غلام ہے۔کراچی' لاہور' راولپنڈی' اسلام آباد جیسے شہر قدیم روایات اور انتہا پسندی کے سمندر میں تیرنے والے ننھے منے جزیرے ہیں۔ ان شہروں میں رہنے والے ہم جیسے لوگ پسماندہ سماج کی روایات کی پختگی اور اس کی تاثیر سے آگاہ نہیں ہیں' ہماری ریاست بھی ان روایات کو توڑنے پر تیار نہیں ہے' جب انگریز کا اقتدار ہندوستان سے ختم ہو رہا تھا تو ہندوستان میں تعینات بہت سے انگریز افسروں اور دانشوروں کی رائے تھی کہ جس اشرافیہ کے سپرد یہ خطہ کیا جارہا ہے ، وہ ریاست چلانے کی اہل نہیں ہے' اگر میں سچ بولنے کی جرات کروں تو یہ بات بالکل حقیقت ہے۔ میں ہندوستان کی بات نہیں کروں گا' میں اپنے ملک کی بات کروں گا کیونکہ میں یہاں رہتا ہوں اور مجھے اس کی خامیوں اور خوبیوں پر بات کرنی چاہیے۔
آج ہم اور ہمارا ریاستی ڈھانچہ ذہنی پسماندگی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم قبائلی روایات کو مقدس سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہیں اور ہر روز اپنوں اور بیگانوں کا خون بہا کر مطمئن ہو رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عورت اس کائنات کی سب سے خوبصورت اورنازک چیز ہے' اس پر ظلم کرنا یا اسے قتل کرنا مردانگی، غیرت مندی یا بہادری نہیں بلکہ پرلے درجے کی بزدلی اور بے غیرتی ہے' جس عورت کو ہم باغی یا فحاشہ قرار دے کر قتل کرتے ہیں' اسے باغی یا فحاشہ مرد ہی تو بناتا ہے' کیا اسے قتل نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس حقیقت کو ہمیں تسلیم کرنا ہو گا' جب تک ریاستی ہاتھ ظالم کی گردن توڑنے کے قابل نہیں ہوتا' جب تک ریاست چلانے والے چارلس نیپئر جیسی جرات' ذہانت اور زیرکی کا مظاہرہ نہیں کرتے' اس وقت تک قندیل کا قتل ہوتا رہے گا' ہزاروں قندیلیں پہلے بھی قتل ہوچکی ہیں اور آیندہ نجانے کتنی ہوں گی' ہر قتل پر چند دن کے لیے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں شور اٹھتا ہے اور پھر زندگی پرانی ڈگر پر چلنے لگتی ہے۔
چارلس نیپئر برطانوی ہند کا نامور جنرل تھا' اس گورے جرنیل نے سندھ فتح کیا اور وہ بمبئی پریذیڈنسی کا گورنر رہا' ہندوستان میں جب برطانوی راج نے ستی کی رسم پر پابندی لگائی تو اس پر بہت شور مچا' ہندوستان کے ہندوؤں نے اس پابندی کو اپنے مذہب اور روایات میں مداخلت سے تعبیر کیا۔برطانوی ہند کی تاریخ میں ہندو پنڈتوں اور ٹھاکروں کے ساتھ چارلس نیپئرکا ایک مکالمہ بہت مشہور ہوا ہے۔میں اس کو اپنے لفظوں میں بیان کررہا ہوں۔
پنڈتوں اور ٹھاکروں کے ایک وفد نے چارلس نیپئر سے ملاقات کی اور اسے بتایا ،'' ستی کی رسم ہندو مذہب کا حصہ اور اس دیس کی قدیم پرنپرا(روایت) ہے' آپ اس پر پابندی نہیں لگا سکتے کیونکہ اپنے مذہب اور روایات پر عمل کرنا ہر شخص کا حق ہے''۔ اس پر چارلس نیپئر نے کیا خوب جواب دیا' وہ آپ بھی پڑھ لیں۔اس نے کہا ،''ٹھیک ہے' یہ آپ کی صدیوں پرانی روایت ہے تو کوئی بات نہیں 'آپ اس پر عمل کرتے رہیں لیکن میں آپ کو اپنی قوم کی قدیم روایت کے بارے میں بھی آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ ہماری قوم کی صدیوں پرانی روایت ہے کہ جو لوگ خواتین کو زندہ جلا دیتے ہیں' ہم ان سب کو پھانسی پر لٹکا کران کی جائیدادیں ضبط کر لیتے ہیں' آپ اپنی روایت پر عمل کرتے رہیں' ہم اپنی روایت پر عمل کرتے رہیں گے''۔ہندوستان کی روایات کے امین پنڈتوں اور ٹھاکروں کو جواب مل چکا تھا' اس کے بعد ہندوستان میں بیوہ خواتین کو خاوند کی ارتھی پر بٹھا کر زندہ جلانے کی کسی کو جرات نہیں ہوئی۔
یوں اس ظالمانہ اور غیرانسانی رسم کا خاتمہ ہو گیا۔اس رسم یا روایت کی جڑیں اس قدر گہری تھیں کہ مہاراجہ رنجیت کی ارتھی کے ساتھ اس کی کئی رانیوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا' اس زمانے کے انگریز سفارت کاروں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اوراسے قلمبند بھی کیا' اسے پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن اس رسم کے اسیر لوگ اس خوفناک اور دل دہلا دینے والے منظر کو بڑے سکون سے دیکھتے رہے ۔پنجاب میں انگریز راج قائم ہونے کے بعد یہاں بھی یہ رسم ختم ہو گئی۔
ہندوستان میں آج اگر کسی ہندو سے ستی کی رسم کے بارے میں پوچھیں تو وہ یہی جواب دے گا کہ اس کا ہندو مت سے کوئی تعلق نہیں۔ آج کی نوجوان نسل تو شاید یقین بھی نہ کرے کہ ان کے آباؤ اجداد ایسے وحشیانہ طرز عمل کو مذہب کا درجہ دیتے رہے ہیں'لیکن یہ حقیقت ہے کہ قدیم عہد کی ہندو اشرافیہ نے اس رسم کو دل و جان سے اپنا رکھا تھا ۔ہندو پنڈتوں نے اسے مذہبی تقدس عطا کر دیاتھا۔ سارے قبیلے کے سامنے زندہ اور صحت مند بیوہ عورت کو سیکڑوں من لکڑی سے تیار کی گئی ارتھی پر بٹھا دیا جاتا تھا' پنڈت اشلوک پڑھتے تھے ۔
پھر لکڑیوں پر تیل ڈال کر آگ لگا دی جاتی تھی۔چند لمحوں میں زندگی موت میں ڈھل جاتی، اس کے بعد ستی ہونے والی خاتون کو دیوی قرار دے کر اس کی پوجا کی جاتی۔ یوں ہندو مذہب اور اس قبیلے کی جس سے آنجہانی اور ستی ہونے والی خواتین کا تعلق ہوتا تھا' اس کی جے جے کار ہو جاتی۔ایسے وحشیانہ مناظر تو شاید رومنوں نے بھی نہیں دیکھے ہوں گے' وہاں اگر کسی قیدی کو بھوکے شیر کے سامنے چھوڑا جاتا تھا تو کم از کم وہ اس سے کچھ دیر مقابلہ تو کر سکتا تھا ' کئی مقابلوں میں غلاموں اور قیدیوں نے شیر کو ہلاک بھی کیا ' گو یہ بھی وحشی معاشرے کی ظالمانہ روایت تھی لیکن اس میں کسی حد تک آزادی بھی تھی لیکن ہندوستان میں تو بیوہ عورت چپ چاپ ارتھی پر بیٹھ جاتی اور چند لمحوں میں جل کر خاکستر ہوجاتی تھی۔سچی بات ہے' میں تو ایسی کہانیاں پڑھ کر آبدیدہ ہو جاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ انسان اتنا ظالم اور پتھر دل کیسے ہو جاتا ہے کہ ایک زندہ انسان بلکہ اپنے بھائی یا بہن کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیتا ہے اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں آتے۔ رسم و روایت اس قدر طاقت ور ہوتی ہے کہ اس کے اسیروں کو اپنوں کا خون بہا کر بھی ذہنی آسودگی ملتی ہے اور اس عمل کو عقیدے کی سپورٹ بھی حاصل ہو تو آگ دوآتشہ ہوجاتی ہے۔
مجھے تاریخ کے اوراق پر درج چارلس نیپئر سے منسوب واقعہ قندیل بلوچ کے قتل پر پیش کیے گئے اس کے بھائی کے جواز سے یاد آیا۔ قندیل کے بھائی نے میڈیا کے سامنے کہا کہ اس نے یہ قتل غیرت میں آ کر کیا ہے۔
میں اس معاملے پر مزید کوئی بات نہیں کروں گا کیونکہ یہ روایات ، عزت اور غیرت کے معاملات ہیں'ویسے بھی اس پر بہت کچھ کہا جا رہا ہے لہٰذا چپ ہی بھلی ہے تاہم میں سمجھتا ہوں کہ قندیل' اس کا بھائی اور اس کا خاندان سب اس پسماندہ اور فرسودہ سماجی نظام اور اس کی پیدا کردہ روایات کے غلام ہیں جس کے گارڈین سردار' وڈیرے اورچودھری ہیں۔ مذہبی طبقہ اس نظام کو نظریاتی غذا فراہم کرنے والا انجن ہے۔
میں اور آپ بھی اس نظام کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں' جلتے ہیں' کڑھتے ہیں اور پھر خاموش ہو جاتے ہیں' زیادہ سے زیادہ قلم پکڑ کر سفید کاغذ پر چند آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کر اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن ایسے سماج تبدیل نہیں ہوتے۔اس کے لیے ریاستی طاقت ، امورمملکت اور رموز مملکت کی باریکیوں سے آگاہ ریاستی مشینری کی ضرورت ہے۔ جب تک ان دونوں طبقوں کو چارلس نیپئر جیسا دلیر اور باشعور ریاستی نمایندہ نکیل نہیں ڈالتا' غیرت کے نام پر قتل ہوتے رہیں گے' سوارہ ، ونی اور کاروکاری کی رسوم جاری رہیں گی۔
پاکستان کا 70فیصد سماجی ڈھانچہ قبائلی اور نیم قبائلی زرعی معاشرت اور روایات کا حامل ہے' یہاں کا عالم اور دانشور بھی انھی روایات کا غلام ہے۔کراچی' لاہور' راولپنڈی' اسلام آباد جیسے شہر قدیم روایات اور انتہا پسندی کے سمندر میں تیرنے والے ننھے منے جزیرے ہیں۔ ان شہروں میں رہنے والے ہم جیسے لوگ پسماندہ سماج کی روایات کی پختگی اور اس کی تاثیر سے آگاہ نہیں ہیں' ہماری ریاست بھی ان روایات کو توڑنے پر تیار نہیں ہے' جب انگریز کا اقتدار ہندوستان سے ختم ہو رہا تھا تو ہندوستان میں تعینات بہت سے انگریز افسروں اور دانشوروں کی رائے تھی کہ جس اشرافیہ کے سپرد یہ خطہ کیا جارہا ہے ، وہ ریاست چلانے کی اہل نہیں ہے' اگر میں سچ بولنے کی جرات کروں تو یہ بات بالکل حقیقت ہے۔ میں ہندوستان کی بات نہیں کروں گا' میں اپنے ملک کی بات کروں گا کیونکہ میں یہاں رہتا ہوں اور مجھے اس کی خامیوں اور خوبیوں پر بات کرنی چاہیے۔
آج ہم اور ہمارا ریاستی ڈھانچہ ذہنی پسماندگی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم قبائلی روایات کو مقدس سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہیں اور ہر روز اپنوں اور بیگانوں کا خون بہا کر مطمئن ہو رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عورت اس کائنات کی سب سے خوبصورت اورنازک چیز ہے' اس پر ظلم کرنا یا اسے قتل کرنا مردانگی، غیرت مندی یا بہادری نہیں بلکہ پرلے درجے کی بزدلی اور بے غیرتی ہے' جس عورت کو ہم باغی یا فحاشہ قرار دے کر قتل کرتے ہیں' اسے باغی یا فحاشہ مرد ہی تو بناتا ہے' کیا اسے قتل نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس حقیقت کو ہمیں تسلیم کرنا ہو گا' جب تک ریاستی ہاتھ ظالم کی گردن توڑنے کے قابل نہیں ہوتا' جب تک ریاست چلانے والے چارلس نیپئر جیسی جرات' ذہانت اور زیرکی کا مظاہرہ نہیں کرتے' اس وقت تک قندیل کا قتل ہوتا رہے گا' ہزاروں قندیلیں پہلے بھی قتل ہوچکی ہیں اور آیندہ نجانے کتنی ہوں گی' ہر قتل پر چند دن کے لیے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں شور اٹھتا ہے اور پھر زندگی پرانی ڈگر پر چلنے لگتی ہے۔