انصاف کا فطری تقاضا
انصاف کا تقاضا ہر دور میں رہا ہے۔ کبھی قدیم کمیونسٹ دور میں فطری انداز میں ہوتا تھا
انصاف کا تقاضا ہر دور میں رہا ہے۔ کبھی قدیم کمیونسٹ دور میں فطری انداز میں ہوتا تھا، تو کبھی قاعدہ قانون بنا کر ریاستی حکام کے ذریعے۔ قدیم دور میں، یعنی ہزاروں برس قبل جب کوئی ملزم فطری تقاضوں اور انسانی معاشرے کی روایتی اور درست طریقہ کار کی خلاف ورزی کرتا تھا تو انصاف کی ضرورت ہوتی تھی۔ آج کے دور کی طرح لاکھوں روپے میں تنخواہیں، نہ کروڑوں روپے کی بلٹ پروف گاڑیوں کے ساتھ انصاف مہیا نہیں کیا جاتا تھا۔ اس وقت تو صرف محلے کے لوگ ہوتے تھے اور ان ہی میں سے چند کو وقتی جج چن لیا جاتا تھا۔
مدعی اور ملزم کو سامنے لاتے تھے اور فریقین کی بات سن کر فیصلہ سناتے تھے۔ انصاف بروقت اور مفت ملتا تھا۔ قدیم کمیونسٹ یا امداد باہمی کے معاشرے میں انصاف کی روایتوں کی باقیات اب بھی کچھ خطوں اور علاقوں میں نظرآئیں گی۔ 1956ء میں فلپائن میں ایک سو پچاس افراد پر مشتمل ایک قبیلہ دریافت ہوا۔ ان میں سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کی مدد کرنے سے انکار کر دے، اس کا سماج سے بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے اور اپنی بری عادت چھوڑے بغیر اسے سماج میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ عبدالستار ایدھی بھی ایسا ہی سمجھتے تھے۔ جب کوئی سڑی نعش کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا تو ایدھی خود اٹھا کر لے جاتے، میں نے جب ان سے پوچھا کہ آپ کے بہت سے کارکنان ہیں، آپ خود ضعیف آدمی بھی ہیں۔ جس پر انھوں نے جواب دیا کہ کمیونسٹ ہونے کے ناتے میرا یہ فریضہ بنتا ہے کہ کوئی اگر آگے نہ بڑھے تو میں بڑھ کر ڈالوں۔
ابھی حال ہی میں جنوبی امریکا کے ملک برازیل میں ایک علاقہ جہاں جنگل تباہ ہو رہا تھا، حکومت نے فیصلہ کیا کہ جنگل، جنگل میں بسنے والے جنگلی لوگوں کا ہے۔ حکومت نے اس بات کی اجازت دی کہ جنگل کی پیداوار سبزی، پھل، جانور اور پرندے وہاں کے باسی استعمال کر سکتے ہیں مگر جنگل کی حفاظت بھی ان ہی کوکرنا ہے۔ جب انھیں یہ اختیار دے دیا گیا تو مقامی آبادی نے مل کر ایک کمیٹی بنا دی اور وہاں کے درختوں کی کٹائی رک گئی۔ چند سال میں جنگل سرسبز و شاداب ہو گیا۔ پھلوں، سبزیوں اور جانوروں سے بھر گیا۔ یہ ہے خوداختیاری اور خودمختاری۔ ان ہی اصولوں پر چلتے ہوئے کامریڈ ایدھی بلا رنگ و نسل اور مذہب عوام کی خد مت کرتے رہے۔
مصر کی وادی نیل کی قدیم تہذیب سے زیادہ پرانی تہذیب موئنجودڑو، مہرگڑھ، ٹیکسیلا اور ہڑپہ کی ہے۔ یہاں قدیم کمیون یا پنچایتی نظام رائج تھا۔ ہر محلے میں ایک پنچایت ہوتی تھی۔ جب کوئی مدعی انصاف کے لیے مکھیا کے پاس جاتا تو اسی دن شام کو محلے کے لوگوں کو بلاتا اور فوری انصاف فراہم کرتا۔ اس کی کوئی تنخواہ تھی اور نہ کوئی خصوصی مراعات۔ اسی نظام کو رائج کرنے کے لیے عبدالستار ایدھی نے ساری زندگی وقف کر دی تھی۔ قدیم ہندوستان میں پنچایتی نظام قائم تھا، مگر ہندوستان میں رائج آج کے پنچایتی نظام میں ایک سر پنچ ہوتا ہے، جو محلے کا دولت مند انسان ہوتا ہے، جب کہ قدیم ہندوستان میں سرپنچ بھی عام لوگوں کی طرح ہوتا تھا اور امیروں کے حق میں نہیں بلکہ سب کے لیے برابر کا فیصلہ سناتا تھا۔
یہی عبدالستار ایدھی کا نصب العین تھا۔ وہ سرمایہ داروں، حکمرانوں اور سامراجیوں سے چندہ نہیں لیتے تھے بلکہ عوام کی پنچایت قائم کی ہوئی تھی۔ آج سے ہزاروں سال قبل چین میں انصاف پر مبنی سماج تھا، جسے وہ نیلی جنت کہتے تھے۔ اس وقت ان کا کام یہ تھا کہ پانی سے مچھلی پکڑتے اور درختوں سے پھل توڑتے تھے، وہ بھی ہفتے میں صرف دو بار۔ چینی دانشور ژنگ باؤ کے مطابق اس وقت کے لوگوں کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں کچھ لوگوں نے آئین اور قانون نافذ کیا اور انھوں نے یہ احکامات جاری کیے کہ 'یہ کرو، یہ نہ کرو، ادھر جاؤ، ادھر نہ جاؤ، یہ کھاؤ اور وہ نہ کھاؤ، اس سے ملو اور اس سے نہ ملو'۔ اس قانون کو نافذ کیا گیا تو ان کی نیلی جنت کا خاتمہ ہو گیا۔
دور جدید میں جب باقاعدہ آئین اور قانون نافذ ہوا تو انصاف طبقوں میں تقسیم ہو گیا۔ نوآبادیاتی نظام میں امریکا اور جنوبی افریقہ میں تو انصاف کا نہ صرٖف بیڑا غرق ہوا بلکہ انسانیت کا بھی۔ چند گورے اکثریت پر جبر کی حکمرانی کرنے لگے۔ تمام انسانی حقوق صرف گوروں کے لیے۔ یہی صورتحال برٹش انڈیا میں بھی تھی۔ امریکا اور جنوبی افریقہ میں پارک، سوئمنگ پول، مارکیٹ، رہائش، درس گاہیں اور ہوٹل بھی رنگ ونسل کی بنیاد پر قائم ہوئے۔ ان ملکوں میں ہوٹلوں پر تختی لگی ہوتی تھی کہ 'کالے اور کتے ہوٹل میں نہیں آ سکتے'۔ اور اب جب جدید دور یا جمہوری دور کا آغاز ہوا تو ایک مصیبت ہمارے گلے پڑ گئی۔ اعلیٰ عدالتوں میں پہنچنے کے لیے وکیلوں کو لاکھوں روپے کی فیس ادا کرنی ہوتی ہے، اور عام آدمی جس کی کل تنخواہ آٹھ سے دس ہزار روپے ہے، وہ کہاں سے اعلیٰ عدالتوں تک پہنچ سکتا ہے؟ اس کے علاوہ جب حکمران خود انصاف کا گلا گھونٹتے ہوں وہاں انصاف کیسے مل سکتا ہے۔؟
لیاقت علی خان، حسن ناصر اور میر مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کو آج تک عدالتیں نہیں پکڑ پائیں اور نہ انھیں انصاف میسر آیا، عام آدمی کی بات درکنار۔ سندھ میں عدالتیں نجی جیلوں میں قید ہاریوں کو آزاد کرانے کا حکم صادر کرتی ہیں مگر قید میں رکھنے والے جاگیرداروں کو کوئی سزا نہیں ملتی ہے۔ آخر ہاری بھی تو انسان ہے، اگر ایک انسان دوسرے انسان کو بلاوجہ یا جبری مشقت کے لیے قید رکھتا ہو تو اسے سزا ضرور ملنی چاہیے۔ حال ہی میں بچیوں کا قتل ہوا، جلایا گیا اور وہ بھی ان کے خاندان والوں نے یہ سب کچھ کیا اور قاتل آزاد پھر رہے ہیں۔
اپنے والد اور بیوی کو قتل کرنے والے قاتلوں کو ضمانت مل جاتی ہے، جب کہ مرغی چور کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ کرپشن سب سے زیادہ وزرا اور صاحب جائیداد طبقات کے لوگ کرتے ہیں اور قید میں زیادہ غریب ہوتے ہیں۔ پتیلی چور اندر اور اربوں روپے کی چائنا کٹنگ کر کے زمینوں پر قبضہ کرنے والے نہ صرف آزاد ہیں بلکہ ملک سے باہر سیر کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا کوئی قانون نہیں کہ انھیں کوئی پکڑ کر ملک کے اندر لائے۔ حال ہی میں بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے فیصل ایدھی نے کہا کہ ''میرے والد سوشلسٹ تھے، مجھے سوشلزم کی تربیت دی اور میں بھی سوشلسٹ ہوں اور عوام کی خدمت کرتا رہوں گا''۔
مدعی اور ملزم کو سامنے لاتے تھے اور فریقین کی بات سن کر فیصلہ سناتے تھے۔ انصاف بروقت اور مفت ملتا تھا۔ قدیم کمیونسٹ یا امداد باہمی کے معاشرے میں انصاف کی روایتوں کی باقیات اب بھی کچھ خطوں اور علاقوں میں نظرآئیں گی۔ 1956ء میں فلپائن میں ایک سو پچاس افراد پر مشتمل ایک قبیلہ دریافت ہوا۔ ان میں سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کی مدد کرنے سے انکار کر دے، اس کا سماج سے بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے اور اپنی بری عادت چھوڑے بغیر اسے سماج میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ عبدالستار ایدھی بھی ایسا ہی سمجھتے تھے۔ جب کوئی سڑی نعش کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا تو ایدھی خود اٹھا کر لے جاتے، میں نے جب ان سے پوچھا کہ آپ کے بہت سے کارکنان ہیں، آپ خود ضعیف آدمی بھی ہیں۔ جس پر انھوں نے جواب دیا کہ کمیونسٹ ہونے کے ناتے میرا یہ فریضہ بنتا ہے کہ کوئی اگر آگے نہ بڑھے تو میں بڑھ کر ڈالوں۔
ابھی حال ہی میں جنوبی امریکا کے ملک برازیل میں ایک علاقہ جہاں جنگل تباہ ہو رہا تھا، حکومت نے فیصلہ کیا کہ جنگل، جنگل میں بسنے والے جنگلی لوگوں کا ہے۔ حکومت نے اس بات کی اجازت دی کہ جنگل کی پیداوار سبزی، پھل، جانور اور پرندے وہاں کے باسی استعمال کر سکتے ہیں مگر جنگل کی حفاظت بھی ان ہی کوکرنا ہے۔ جب انھیں یہ اختیار دے دیا گیا تو مقامی آبادی نے مل کر ایک کمیٹی بنا دی اور وہاں کے درختوں کی کٹائی رک گئی۔ چند سال میں جنگل سرسبز و شاداب ہو گیا۔ پھلوں، سبزیوں اور جانوروں سے بھر گیا۔ یہ ہے خوداختیاری اور خودمختاری۔ ان ہی اصولوں پر چلتے ہوئے کامریڈ ایدھی بلا رنگ و نسل اور مذہب عوام کی خد مت کرتے رہے۔
مصر کی وادی نیل کی قدیم تہذیب سے زیادہ پرانی تہذیب موئنجودڑو، مہرگڑھ، ٹیکسیلا اور ہڑپہ کی ہے۔ یہاں قدیم کمیون یا پنچایتی نظام رائج تھا۔ ہر محلے میں ایک پنچایت ہوتی تھی۔ جب کوئی مدعی انصاف کے لیے مکھیا کے پاس جاتا تو اسی دن شام کو محلے کے لوگوں کو بلاتا اور فوری انصاف فراہم کرتا۔ اس کی کوئی تنخواہ تھی اور نہ کوئی خصوصی مراعات۔ اسی نظام کو رائج کرنے کے لیے عبدالستار ایدھی نے ساری زندگی وقف کر دی تھی۔ قدیم ہندوستان میں پنچایتی نظام قائم تھا، مگر ہندوستان میں رائج آج کے پنچایتی نظام میں ایک سر پنچ ہوتا ہے، جو محلے کا دولت مند انسان ہوتا ہے، جب کہ قدیم ہندوستان میں سرپنچ بھی عام لوگوں کی طرح ہوتا تھا اور امیروں کے حق میں نہیں بلکہ سب کے لیے برابر کا فیصلہ سناتا تھا۔
یہی عبدالستار ایدھی کا نصب العین تھا۔ وہ سرمایہ داروں، حکمرانوں اور سامراجیوں سے چندہ نہیں لیتے تھے بلکہ عوام کی پنچایت قائم کی ہوئی تھی۔ آج سے ہزاروں سال قبل چین میں انصاف پر مبنی سماج تھا، جسے وہ نیلی جنت کہتے تھے۔ اس وقت ان کا کام یہ تھا کہ پانی سے مچھلی پکڑتے اور درختوں سے پھل توڑتے تھے، وہ بھی ہفتے میں صرف دو بار۔ چینی دانشور ژنگ باؤ کے مطابق اس وقت کے لوگوں کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں کچھ لوگوں نے آئین اور قانون نافذ کیا اور انھوں نے یہ احکامات جاری کیے کہ 'یہ کرو، یہ نہ کرو، ادھر جاؤ، ادھر نہ جاؤ، یہ کھاؤ اور وہ نہ کھاؤ، اس سے ملو اور اس سے نہ ملو'۔ اس قانون کو نافذ کیا گیا تو ان کی نیلی جنت کا خاتمہ ہو گیا۔
دور جدید میں جب باقاعدہ آئین اور قانون نافذ ہوا تو انصاف طبقوں میں تقسیم ہو گیا۔ نوآبادیاتی نظام میں امریکا اور جنوبی افریقہ میں تو انصاف کا نہ صرٖف بیڑا غرق ہوا بلکہ انسانیت کا بھی۔ چند گورے اکثریت پر جبر کی حکمرانی کرنے لگے۔ تمام انسانی حقوق صرف گوروں کے لیے۔ یہی صورتحال برٹش انڈیا میں بھی تھی۔ امریکا اور جنوبی افریقہ میں پارک، سوئمنگ پول، مارکیٹ، رہائش، درس گاہیں اور ہوٹل بھی رنگ ونسل کی بنیاد پر قائم ہوئے۔ ان ملکوں میں ہوٹلوں پر تختی لگی ہوتی تھی کہ 'کالے اور کتے ہوٹل میں نہیں آ سکتے'۔ اور اب جب جدید دور یا جمہوری دور کا آغاز ہوا تو ایک مصیبت ہمارے گلے پڑ گئی۔ اعلیٰ عدالتوں میں پہنچنے کے لیے وکیلوں کو لاکھوں روپے کی فیس ادا کرنی ہوتی ہے، اور عام آدمی جس کی کل تنخواہ آٹھ سے دس ہزار روپے ہے، وہ کہاں سے اعلیٰ عدالتوں تک پہنچ سکتا ہے؟ اس کے علاوہ جب حکمران خود انصاف کا گلا گھونٹتے ہوں وہاں انصاف کیسے مل سکتا ہے۔؟
لیاقت علی خان، حسن ناصر اور میر مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کو آج تک عدالتیں نہیں پکڑ پائیں اور نہ انھیں انصاف میسر آیا، عام آدمی کی بات درکنار۔ سندھ میں عدالتیں نجی جیلوں میں قید ہاریوں کو آزاد کرانے کا حکم صادر کرتی ہیں مگر قید میں رکھنے والے جاگیرداروں کو کوئی سزا نہیں ملتی ہے۔ آخر ہاری بھی تو انسان ہے، اگر ایک انسان دوسرے انسان کو بلاوجہ یا جبری مشقت کے لیے قید رکھتا ہو تو اسے سزا ضرور ملنی چاہیے۔ حال ہی میں بچیوں کا قتل ہوا، جلایا گیا اور وہ بھی ان کے خاندان والوں نے یہ سب کچھ کیا اور قاتل آزاد پھر رہے ہیں۔
اپنے والد اور بیوی کو قتل کرنے والے قاتلوں کو ضمانت مل جاتی ہے، جب کہ مرغی چور کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ کرپشن سب سے زیادہ وزرا اور صاحب جائیداد طبقات کے لوگ کرتے ہیں اور قید میں زیادہ غریب ہوتے ہیں۔ پتیلی چور اندر اور اربوں روپے کی چائنا کٹنگ کر کے زمینوں پر قبضہ کرنے والے نہ صرف آزاد ہیں بلکہ ملک سے باہر سیر کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا کوئی قانون نہیں کہ انھیں کوئی پکڑ کر ملک کے اندر لائے۔ حال ہی میں بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے فیصل ایدھی نے کہا کہ ''میرے والد سوشلسٹ تھے، مجھے سوشلزم کی تربیت دی اور میں بھی سوشلسٹ ہوں اور عوام کی خدمت کرتا رہوں گا''۔